
بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان کی حلف برداری کی تقریب جس شاندار انداز سے اور جتنے بڑے پیمانے پر منعقد کی گئی، اُسے دیکھتے ہوئے تو یہ کسی وزیر اعظم کی حلف برداری سے کہیں زیادہ کسی شہنشاہ کی تاج پوشی کی تقریب دکھائی دے رہی تھی۔ نریندر مودی نے جس طور انتخابی مہم پر اربوں روپے خرچ کیے، حلف برداری کی تقریب بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دی۔
نریندر مودی نے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کو مدعو کیا۔ یہ اقدام گو کہ علامتی تھا مگر اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔
نریندر مودی نے جس طور اپنی کابینہ تیار کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بیشتر معاملات میں زیادہ تر اختیارات اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ کچھ کچھ ریاستی وزرائے اعلیٰ کا سا دکھائی دیتا ہے، جو تمام معاملات اپنے کنٹرول میں رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ نریندر مودی کی کابینہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیداروں کی بھرمار ہے۔ بالخصوص نریندر مودی، ارون جیٹلی اور راج ناتھ سنگھ کی مثلث کو کچھ زیادہ خوش دلی سے نہیں دیکھا جارہا۔ یہ تینوں مل کر بیشتر وزارتوں کا کنٹرول سنبھالیں گے۔ ارون جیٹلی کو وزارتِ دفاع اور وزارتِ خزانہ سمیت تین وزارتوں کا چارج دیا گیا ہے۔ بھارت میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ارون جیٹلی اگرچہ ہار گئے تھے مگر پھر بھی انہیں نوازا گیا ہے۔ سبب اس کا صرف اتنا ہے کہ انہوں نے وزارتِ عظمٰی کے لیے لعل کرشن چند ایڈوانی کے مقابلے میں نریندر مودی کی حمایت کی تھی۔
راج ناتھ سنگھ پر دباؤ ڈال کر یہ بیان کئی بار دلایا گیا کہ حکومت سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس بیان کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی تو نریندر مودی کی جگہ کسی اور کو وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر دباؤ بھی ڈالا تھا کہ اگر وہ حکومت کے سربراہ نہ بنے تو بھارتیہ جنتا پارٹی اپوزیشن میں بیٹھے گی۔
اس وقت بھارتی کابینہ میں ۳۴ وزرا اور وزرائے مملکت شامل ہیں۔ ان میں صرف چار ایسے ہیں جن کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں۔ اور انہیں غیر اہم وزارتیں دی گئی ہیں، جن میں فوڈ پروسیسنگ کی وزارت بھی شامل ہے۔ تمام اہم وزارتیں بی جے پی رہنماؤں اور حامیوں کے پاس ہیں۔ اسمرتی ایرانی جو کہ ناتجربہ کار ہیں انہیں تعلیم جیسی اہم وزارت سونپی گئی ہے اور یہ صلہ صرف اس بات کا ہے کہ اسمرتی ایرانی نے نریندر مودی کی بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ راہول گاندھی کا ’’وکٹری مارجن‘‘ کم کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
بھارتی کابینہ کا وزن شمال اور مغرب کی طرف زیادہ ہے۔ جنوب اور مشرق کو برائے نام نمائندگی مل سکی ہے۔ مغربی بنگال سے کوئی وزیر نہیں لیا گیا۔ دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی بھی نمائندگی نہیں ہو پائی۔ مودی کے دو جاں نثار ساتھیوں پرکاش جاوڈیکر اور نرملا سیتا رامن کو اہم قلم دان سونپے گئے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ کو امور خارجہ اور شمال مشرقی امور کے قلم دان ملے ہیں۔
اس وقت بھارتی کابینہ کسی بھی اعتبار سے دانش اور تدبر کی علامت نہیں۔ توازن ہے نہ میرٹ کا خیال رکھا گیا ہے۔ کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ نریندر مودی نے اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھی ہے اور بیشتر معاملات اپنی مٹھی میں رکھنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اگر اجتماعی ذمہ داری اور ٹیم ورک کا مظاہرہ کرنا تھا تو کابینہ کو زیادہ متنوع ہونا چاہیے تھا۔
نریندر مودی نے کاروباری طبقے کو خوش کرنے کا بھی خیال رکھا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے کاروباری طبقے سے بہت سے وعدے کیے۔ اگر وہ شرح نمو بڑھانا چاہتے ہیں تو صنعتی عمل کو تیز کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اور صنعتی عمل تیز کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ماحول کے تحفظ اور محنت کشوں کے امور سے متعلق قوانین کمزور کردیں اور ان کے نفاذ میں زیادہ گرم جوشی نہ دکھائیں۔ اگر نریندر مودی نے گجرات میں اپنائے جانے والے انداز کے مطابق نجکاری کا دائرہ بڑھایا اور معاشی اشرافیہ کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو اکثریت اور بالخصوص انتہائی غریب طبقے سے نا انصافی ہوگی۔
معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان وسیع تر ہوتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی کوشش بظاہر کسی مرحلے پر نہیں کی گئی۔ بی جے پی نے معاشرے میں پائی جانے والی تفریق کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کانگریس کی عدم مقبولیت سے قطعِ نظر بی جے پی کی بھرپور کامیابی میں معاشرے کی تقسیم در تقسیم نے بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو بلند تر معیار زندگی چاہیے۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ بی جے پی نے انتخابی منشور کے ذریعے اور انتخابی مہم کے دوران عوام کو سبز باغ دکھائے ہیں۔ لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ جس طور گجرات کی کایا پلٹ گئی اسی طور نریندر مودی پورے ملک کی کایا پلٹ دیں گے اور معیشت کو کہیں سے کہیں پہنچادیں گے۔ مسلم اکثریت کے حلقوں میں بی جے پی کو کانگریس سے دگنے ووٹ ملے۔ اتر پردیش، بہار اور مہا راشٹر میں معاشرتی تقسیم بہت نمایاں تھی۔ ان تینوں ریاستوں سے بی جے پی نے لوک سبھا کی ۱۱۶ نشستیں حاصل کیں۔ اترپردیش میں ۷۵ فیصد برہمنوں، راجپوتوں اور بنیوں نے بی جے پی کی حمایت کی۔ مظفر نگر کے فساد اور ’’لو جہاد‘‘ کی مہربانی سے جاٹوں نے بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ بہار میں ۸۰ فیصد برہمنوں، راجپوتوں، بھومیہروں اور کیاستھا نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا۔ بہار میں لوک سبھا کی ۴۰ میں سے ۳۱ نشستیں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ملیں۔ دو تہائی یادیووں اور مسلمانوں نے بی جے پی کے مخالفین کی حمایت کی۔
بی جے پی نے گجرات میں تمام ۲۶، راجستھان میں تمام ۲۵، مدھیہ پردیش میں ۲۹ میں سے ۲۷؍ اور چھتیس گڑھ میں ۱۱ میں سے ۱۰ نشستیں حاصل کیں۔ اگر ان میں اترپردیش، بہار اور مہا راشٹر کی نشستیں بھی ملادیں تو بی جے پی کے قومی اسکور کا تین چوتھائی بنتا ہے۔
بی جے پی کے ووٹ بھارت کی ۲۹ میں سے صرف ۷ ریاستوں میں مرتکز تھے۔ بی جے پی نے ہر ایک فیصد ووٹ کے عوض ۶۸ء۱ نشستیں حاصل کیں، جبکہ کانگریس کا رزلٹ ۴۲ء۰ فیصد نشست رہا۔ بی جے پی کو چند اور عوامل کا بھی فائدہ پہنچا۔ ٹرن آؤٹ ۲۰۰۹ء کے انتخابات کے برعکس ۸فیصد زیادہ رہا۔ نوجوانوں نے بی جے پی کو منتخب کرنے پر توجہ دی۔ مردوں کے ووٹوں میں ۳۳ فیصد بی جے پی کو ملے، جبکہ اسے ملنے والے خواتین کے ووٹ ۲۹ فیصد تھے۔ امیر اور متوسط طبقے نے بھی بی جے پی کو حمایت سے نوازنے کو ترجیح دی۔ ۳۸ فیصد گریجویٹس نے بی جے پی کو ترجیح دی جبکہ پرائمری تک تعلیم پانے والے ۲۷ فیصد اور خواندگی کی نعمت سے محروم ۲۵ فیصد بھارتیوں نے بی جے پی کو ووٹ دینا مناسب نہیں سمجھا۔
بی جے پی کی کامیابی میں ’’مودی فیکٹر‘‘ اور میڈیا پر چلائی جانے والی غیر معمولی نوعیت کی مہم نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر خیر سب سے اہم کردار ’’گجرات ماڈل‘‘ کے حوالے سے پھیلائی جانے والی ڈِس انفارمیشن کا تھا۔ ہم پہلے ہی اس نکتے پر بحث کرچکے ہیں کہ معیشت کے نقطۂ نظر سے گجرات ماڈل بالکل بوگس ہے۔ گجرات میں کاروباری طبقے نے ترقی کی ہے مگر مجموعی طور پر عوام تو اب تک پریشانی ہی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کا عمومی معیارِ زندگی اب تک بلند نہیں کیا جاسکا۔ یہی حال مہا راشٹر، کیرالا اور تامل ناڈو کا بھی ہے۔ مگر خیر، گجرات ماڈل کی خامیوں کو کبھی میڈیا پر لانے نہیں دیا گیا۔
رائے عامہ کے جائزوں میں بھی گجرات کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ ’’لوک نیتی‘‘ کے ایک سروے میں ۵۴ فیصد رائے دہندگان نے گجرات کو ملک کی سب سے ’’ترقی یافتہ ریاست‘‘ قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں مہا راشٹر کو ترقی یافتہ ریاست قرار دینے والے صرف ۴ فیصد تھے۔ گجرات کو اس لیے بھی بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا کہ وہاں ہندو قوم پرستوں نے اپنی برتری اور اکثریت ثابت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کی تاج پوشی اس امر کا اعلان ہے کہ کابینہ متوازن ہے اور عوام کے بہت سے طبقات اور ان کے مسائل کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا ملک اور قوم کی فتح نہیں بلکہ اشرافیہ کی پشت پناہی اور افتراق و انتشار کا مظہر ہے۔
(پرفل بدوائی بھارت کے معروف تجزیہ کار ہیں۔)
“An unbalanced cabinet”. (“The Daily Star” Dhaka. June 1, 2014)
Leave a Reply