
امریکا اور پاکستان کے تعلقات خواہ کچھ رہے ہوں، مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ پاکستان کی سلامتی کو غیر معمولی حد تک استحکام بخشنا امریکا کے لیے ناگزیر ہوگیا۔ ایک طرف تو دفاع مستحکم کرنا تھا اور دوسری طرف معاشی امداد بھی بڑھانی تھی۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو دفاع اور ترقی کی مد میں غیر معمولی امداد سے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۲ء کے بعد سے اب تک امریکا نے مختلف مدوں میں پاکستان کو کم و بیش تیس ارب ڈالر دیے ہیں۔ اس بھرپور امداد کا ایک بنیادی مقصد افغانستان میں استحکام پیدا کرنا بھی تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کچھ کرنے کے قابل بھی بنانا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنانا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر کوئی آنچ نہ آئے۔ امریکا کے لیے پاکستان کے جوہری پروگرام پر اثرانداز ہونے کا اس سے اچھا موقع کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر دہشت گرد پاکستان کے تمام معاملات پر متصرف ہوجاتے تو وہ ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کو کنٹرول کرنا امریکا کے لیے بہت دشوار ہوتا۔ جوہری صلاحیت اور ہتھیار ناپسندیدہ ہاتھوں میں بھی جاسکتے تھے۔ ایسی کوئی بھی صورت حال امریکی قیادت کے لیے انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتی۔
پاکستان کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے جو بھی دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں، وہ اب تک زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ پاکستان کو سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے جو ہتھیار دیے جاتے رہے ہیں، وہ اب تک دہشت گردوں کو روکنے کے لیے غیرموزوں ثابت ہوتے رہے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ اور ہتھیاروں کے ذریعے ان کی مدد اب تک جاری ہے۔ امریکی امداد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کا معیار بلند کرنے کی تحریک ملے اور اس کا ایک مطلب یہ تھا کہ پاکستان امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کی کوشش کرے، مگر ہوا یہ کہ جہادی گروپوں کی فنڈنگ جاری رہی اور انہیں ہتھیار بھی ملتے رہے۔ اس وقت پاکستانی قیادت جس سوچ اور فکر کی حامل ہے اس کے تحت امریکی اور پاکستانی مفادات کو ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ پاکستان کی امداد بند کردی جائے۔
پرانی عادتیں سخت جان ہوتی ہیں!
جہادی گروہوں پر پاکستان کے انحصار کی تاریخ طویل ہے۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قائم ہوتے ہی بھارت کے خلاف جموں و کشمیر میں مجاہدین سے مدد لی گئی اور معاملات جموں و کشمیر تک محدود نہیں رہے۔ افغانستان میں ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جمعیتِ اسلامی پر پاکستان کی نوازشیں رہیں۔ اس جماعت کی بنیادیں اور جڑیں پاکستان میں تھیں۔ بعد میں اسی جماعت کے بطن سے ان مجاہدین نے جنم لیا جنہوں نے افغان سرزمین پر پہلے تو سوویت نواز حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی اور بعد میں سوویت افواج سے مقابلہ کیا۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں افغان مجاہدین نے سوویت افواج کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں جب سوویت افواج کے لیے افغانستان میں ثابت قدم رہنے کی گنجائش نہ رہی تو مجاہدین کو دوسرا ٹاسک سونپ دیا گیا۔ افغانستان کی سرزمین پر جہاد کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جانے والے جہادیوں کو جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر کردیا گیا۔ ان مجاہدین نے جموں و کشمیر کی سرزمین پر بھارتی افواج کے خلاف لڑنے والے مقامی مجاہدین کی جگہ لی۔
پاکستان کی حمایت افغانستان کے غیر ریاستی عناصر تک محدود نہیں رہی۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک پاکستان نے بھارت کے سکھ علیحدگی پسندوں کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد جاری رکھی۔ ۱۹۷۰ء تک پاکستان نے شمال مشرقی بھارت میں باغیوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد پاکستان اس پوزیشن میں نہ رہا کہ بھارتی سرزمین پر باغیوں کی حمایت اور مدد جاری رکھ سکے۔ اسلامی نظریات سے ہٹ کر بھی پاکستان کے لیے لازم ہے کہ بھارت کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط رکھنے کے لیے عسکریت پسند گروہوں یعنی غیر ریاستی عناصر کی حمایت اور مدد کرتا رہے۔
پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان میں غیر ریاستی عناصر کو مضبوط رکھنا زیادہ آسان اور سستا ہے۔ افواج کو متحرک کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور کسی بڑی خرابی کی صورت میں پاکستانی قیادت پر کوئی الزام بھی نہیں آتا۔ جوہری طاقت میں تبدیل ہونے کے بعد پاکستان نے غیر ریاستی عناصر کو زیادہ مستحکم کیا ہے۔ ان پر پاکستان کا انحصار بھی بڑھ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی مشکلات بڑھی ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے لیے غیر ریاستی عناصر پر مشتمل گروہوں سے نمٹنا خاصا دشوار ہوگیا ہے۔ جو انتہا پسند اور بنیاد پرست گروہ بے قابو ہوچکے ہیں، اُن پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو غیرملکی امداد بھی ملتی ہے۔ یہ امداد بنیادی طور پر امریکا اور یورپ سے آتی ہے۔ پاکستان ان گروہوں پر اپنے وسائل سے قابو نہیں پاسکتا اور انہیں ختم کرنا بھی کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں، کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ تمام ہی گروہ کسی نہ کسی صورت میں ضروری ہیں۔
دہشت گرد گروپ امریکی مفادات کے لیے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ امریکا نے اس حوالے سے بارہا پاکستانی قیادت کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی جواز بیان کرکے ان گروہوں کو اپنائے رکھنے کی ضرورت بیان کی گئی ہے۔
پاکستانی قیادت کہتی آئی ہے کہ امریکا نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ مثلاً ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں اس نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی مدد سے گریز کیا۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتی رہ گئی۔ وہ بیڑا نہ آیا اور پاکستان کو غیرمعمولی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ تب امریکا اور پاکستان سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (SEATO) کے ارکان تھے۔ امریکا اس بات کا پابند تھا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستانی قیادت یہ اعتراض بھی کرتی رہی ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا نے پاکستان کو دھکیلا اور مفادات کی تکمیل کے بعد اس طور چھوڑ دیا جیسے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہ ہو۔ افغان جہاد کے نتائج پاکستان کو بھگتنا پڑے۔ اسی طور پاکستانی قیادت یہ الزام بھی عائد کرتی رہی ہے کہ امریکا نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں پابندیاں عائد کرکے پاکستان کو خریدے ہوئے ایف سولہ طیاروں کی ڈلیوری روک دی۔
پاکستان نے امریکی قیادت پر جتنے بھی الزامات عائد کیے ہیں اور جو بھی اعتراضات بیان کیے ہیں، وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں امریکی قیادت پاکستان کی مدد کرنے کی پابند نہ تھی، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے اس امر پر تھا کہ اگر پاکستان کے لیے سوویت یونین کی طرف سے کوئی خطرہ سامنے آئے گا تو اس کی مدد کی جائے گی۔ یہ معاملہ بالکل مختلف تھا اور یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے امریکا نے پاکستان اور بھارت سے یکساں سلوک کیا، یعنی دونوں پر پابندیاں عائد کیں۔ اگر صرف پاکستان پر پابندیاں عائد کی جاتیں تو کوئی اعتراض بجا ہوتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں امریکی قیادت کی حمایت کسی نہ کسی شکل میں حاصل رہی۔ اس جنگ میں امریکا پاکستانی قیادت کی مدد کرنے کا پابند نہ تھا، مگر اس کے باوجود اس وقت کے امریکی صدر آنجہانی رچرڈ نکسن نے پاکستان کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک قانون میں تبدیلی بھی کی گئی تاکہ پاکستان کو مدد دی جاسکے۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج بنگالیوں پر مظالم ڈھا رہی تھی۔
۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا نے پاکستان کے فوجی حکمرانوں کی خاطر جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی یقین دہانی کو بھی نظر انداز کردیا۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے اسی سال پاکستان پر عائد کی جانے والی پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ سوویت افواج کو افغانستان سے نکالنے میں پاکستان سے مدد پانے کے لیے اسے ۳۲ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تو اس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل ضیاء الحق نے اسے مونگ پھلی کے دانے سے مشابہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ برس جب امریکا میں ممکنہ طور پر ری پبلکن صدر آئے گا تو پاکستان کو زیادہ امداد دے گا۔ ریگن نے ایوان صدر میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے جو کام کیے، ان میں ایک پاکستان کے لیے چھ سالہ مدت کے لیے تین ارب بیس کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کو حتمی شکل دینا بھی تھا۔
یہ الزام بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں سوویت افواج کے مقابل امریکا نے کھڑا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قیادت افغانستان میں طویل مدت سے کسی نہ کسی شکل میں متحرک تھی۔ ۱۹۷۴ء سے افغانستان کے اسلام پسند عناصر کی مدد کرتے رہنا پاکستانی قیادت کا وتیرہ تھا۔ سوویت یونین نے تو اس کے پانچ سال بعد افغانستان پر لشکر کشی کی اور اس سے بڑھ کر ناقابلِ یقین حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا کو پاکستان نے گھسیٹا۔
ایف سولہ کی داستان
۱۹۸۴ء میں امریکا کو فکر لاحق ہوئی کہ پاکستان کہیں جوہری ہتھیار بنانے کی راہ پر گامزن نہ ہوجائے۔ جوہری عدم پھیلاؤ یقینی بنانا امریکا کے لیے ایک بنیادی مسئلہ تھا۔ ہر امریکی صدر اس حوالے سے غیر معمولی عزم کا حامل رہا ہے۔ امریکا کو یقین ہوچلا تھا کہ پاکستان جوہری پروگرام کے حوالے سے بہت آگے بڑھ چکا ہے اور اب ہتھیار بنانے کی منزل تک پہنچنے ہی والا ہے۔ واشنگٹن میں کچھ لوگ تھے جو پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے انتہائی فکرمند تھے مگر جب تک افغان سرزمین پر سوویت افواج موجود تھیں، پاکستان کے جوہری پروگرام پر زیادہ اعتراضات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے لازم تھا کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور یوں پاکستان کے جوہری پروگرام سے چشم پوشی کا سلسلہ جاری رہا۔
۱۹۸۵ء میں پریسلر ترمیم منظور کرکے ان تمام ممالک کے لیے سختی برتنے کی روش اختیار کی گئی جن کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور یورپ کے تحفظات تھے۔ پاکستان میں یہ سمجھ لیا گیا کہ پریسلر ترمیم صرف اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور پاکستانی قیادت کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے کے لیے لائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ سچ یہ ہے کہ اس ترمیم کی منظوری میں پاکستانی وزارت خارجہ کا بھی کردار تھا۔ اب مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ کسی بھی ملک کو امداد جاری کرنے کے لیے لازم تھا کہ امریکی صدر یہ صداقت نامہ دے کہ وہ ملک جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر پوری طرح کاربند ہے۔ (امریکی صدر کے صداقت نامے کی شرط ہی نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ گویا کسی مصلحت کے تحت امریکی صدر کی طرف سے غیر حقیقی صداقت نامہ جاری کرنا خود اس کی ساکھ کے لیے پریشان کن تھا۔)
امریکا کی طرف سے بار بار اصرار کیے جانے پر بھی پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھانے کا سلسلہ ترک نہ کیا۔ بالآخر جارج ہربرٹ بش کو ۱۹۹۰ء میں پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یعنی انہوں نے پاکستان کو امداد جاری کرنے کے لیے درکار صداقت نامہ دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد وہ پابندیاں مکمل طور پر نافذ کردی گئیں جو جمی کارٹر نے مسترد یا نظرانداز کردی تھیں۔ نئی پابندیوں کے اطلاق سے پاکستان کے لیے ممکن نہ رہا کہ ایف سولہ طیارے وصول کرسکے، پاکستان نے جو طیارے خریدے تھے، وہ امریکی ریاست ایریزونا کے صحرا میں کھڑے رہے اور انہیں سنبھال کر رکھنے کا کرایہ بھی پاکستان کو ادا کرنا پڑا۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن چاہتے تھے کہ پاکستان تیسرے فریق کو طیارے فروخت کردے تاکہ اسے ادا شدہ رقم واپس مل جائے مگر پاکستان نے ایف سولہ طیاروں کے معاملے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
پاکستان نے پانچ سال تک لابنگ کی جس کے بعد جارج واکر بش نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ پاکستان اپنی مرضی کے مطابق جس قدر طیارے لینا چاہے، لے۔ یہ فیصلہ ۲۰۰۵ء میں کیا گیا۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک کیبل (برقی پیغام) سے معلوم ہوا کہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے کا فیصلہ دراصل تعلقات میں پائی جانے والی غیرمعمولی تلخی ختم کرنے کی طرف ایک انتہائی اہم قدم تھا۔
امریکا نے پاکستان کو ۳۶؍ اپ گریڈیڈ ایف سولہ طیارے دیے تو دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے اور خوش گوار دور کا آغاز ہوا۔ نائن الیون کے بعد صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوگئی۔ اب امریکا کے لیے ناگزیر ہوگیا کہ پاکستان کو غیر معمولی فوجی امداد ہی نہیں بلکہ جدید ترین ساز و سامان بھی دے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار مؤثر طور پر ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے امریکا نے پاکستان کو نائن الیون کے بعد پندرہ جاسوس ڈرون، بیس کوبرا لڑاکا ہیلی کاپٹر، چھ سی۔۱۳۰ ٹرانسپورٹ ملٹری طیارے، ایک پیری کلاس فریگیٹ اور دوسرا بہت سا ساز و سامان دیا۔ اور ظاہر ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات بہتر ہوئے۔
پاکستان کو براہ راست معاشی امداد بھی دی جاتی رہی۔ امریکا نے ’’اتحادی معاونت فنڈ‘‘ بنیادی پر طور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے قائم کیا تھا، مگر بعد میں یہی فنڈ اندرونی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی بھرپور مدد اور قبائلی علاقوں میں امن قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جارج واکر بش نے کئی برس تک اس حکمت عملی کے تحت کام کیا۔
جارج واکر بش نے جو پالیسی اختیار کی تھی، اُسی کو براک اوباما نے بھی اپنایا اور چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ اب تک عمل کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ایک قرطاسِ ابیض (وائٹ پیپر) کے ذریعے ان خرابیوں کی نشاندہی کی گئی جن کے باعث پاک امریکا تعلقات مستقل طور پر خرابی کی طرف جارہے ہیں، مگر اوباما نے بھی کوئی بڑا خطرہ لینے سے اب تک گریز کیا ہے۔ امریکا اب تک پاکستان کو ادائیگی کر رہا ہے اور یہ ادائیگی اس کی اپنی سرزمین پر پنپنے والے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہے۔
پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کو اپنے لیے آمدنی کا مستقل ذریعہ بنالیا ہے۔ خراب حالات کو امریکی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے کر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت امداد اور قرضے بٹورتی رہتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کو محفوظ ہاتھوں میں رکھنے کی بھرپور قیمت لی جاتی رہی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جنوبی ایشیا میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکا کو اس خطے کے حوالے سے اپنی ترجیحات اور پالیسیاں تبدیل کرنی ہیں مگر اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ پاک امریکا تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہوجانی چاہیے تھی مگر اب تک ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کی تمام خرابیوں کو اب تک آنکھ بند کرکے قبول اور برداشت کیا جارہا ہے۔ پاکستانی قیادت پہلے سویت یونین کا ہوّا دکھاکر امریکا سے مال اینٹھتی تھی اور اب اسلامی انتہا پسندوں سے لاحق خطرات کا رونا رو کر امداد مانگتی رہتی ہے۔
حالات اور واقعات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کو اپنی راہ پر لانے کی ہر کوشش لاحاصل ہے۔ امریکا کے مفادات بھی اب وہ نہیں رہے جو سرد جنگ میں تھے۔ دونوں ممالک کے مفادات میں جو ہم آہنگی پائی جاتی تھی، وہ بھی اب مفقود ہے۔ پاکستان نے امریکا کو چھ عشروں سے محض دھوکا دیا ہے اور ناجائز دبائو کے ذریعے پیسے ہتھیانے کی کوشش کی ہے۔ اب اس کے حوالے سے پالیسیاں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکا کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان اب کوئی اتحادی یا شراکت دار نہیں بلکہ محض جارح ریاست ہے۔ پاکستان کے بارے میں نئی پالیسی اپنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے یا اس کی امداد مکمل طور پر بند کردی جائے۔ ایسی کوئی بھی کوشش، ظاہر ہے، محض خرابیاں پیدا کرے گی۔ سفارتی اور معاشی تعلقات جاری رہنے چاہئیں۔ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ ہموار کرے، سویلین اداروں اور بالخصوص بہبود عامہ سے تعلق رکھنے والے منصوبوں کی بھرپور مدد کی جائے۔ انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کام کرنے والے گروہوں اور تنظیموں کو تلاش کرکے، چھان پھٹک کر ان کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ وہ معاشرے میں اپنے لیے بہتر مقام حاصل کرسکیں اور ساتھ ہی امریکا کے بارے میں پاکستانیوں کی رائے بھی تبدیل ہو۔ بہت سے اہم شعبوں میں پاکستانیوں کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ تعلیم، صحت عامہ اور دوسرے بہت سے سماجی شعبوں میں پاکستانیوں کی بھرپور مدد کی جانی چاہیے۔ کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی معاملے میں یہ تاثر نہ دیا جائے کہ امریکی قیادت پاکستان کو تنہا چھوڑ رہی ہے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ملک کا بھلا کیا ہے اور نہ امریکا کا اس کی امداد روک دی جانی چاہیے۔
پاکستان کو تزویراتی (اسٹریٹجک) ہتھیاروں کی فراہمی روکی جانی چاہیے۔ ان ہتھیاروں کی فراہمی سے پاکستان کو مجموعی طور پر کوئی فائدہ پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، امریکا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا۔ یہ ہتھیار بھارت کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کی نوعیت نے امریکا اور بھارت کے تعلقات کو بھی بہت حد تک داؤ پر لگایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد خطے کی صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہے۔ اب امریکا اور بھارت کے مفادات ہم آہنگ ہیں۔ سمندری راستوں میں دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا ہے اور پھر چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو بھی محدود رکھنا ہے۔ ایسے میں پاکستان سے امریکا کے تعلقات بھارت امریکا تعلقات پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ بھارت کو امریکا اس لیے نظرانداز نہیں کرسکتا کہ وہ ایک وسیع منڈی کا مالک ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی کے بارے میں امریکا کو اپنی اپروچ تبدیل کرنا ہوگی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کو گلے لگانے کی پالیسی زیادہ کارگر ثابت نہ ہوئی۔ ان دونوں جماعتوں سے انتہا پسندوں کا تعلق کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ امریکا کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ سماجی تفہیم کا معیار بلند کرتے ہوئے ان لوگوں اور گروہوں کی مدد کرے جو دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے غیر معمولی حد تک متحرک ہیں۔
امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر بارہا زور دیا ہے کہ وہ معیشت کا ڈھانچا تبدیل کرے یعنی اصلاحات نافذ کرے۔ ٹیکس کا نظام تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں صرف ایک فیصد افراد باضابطہ اور باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ خام قومی پیداوار (جی این بی) کے تناسب سے ٹیکس دینے کے معاملے میں پاکستانی سب سے پیچھے ہیں۔ پاکستان کو ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنی ہوگی اور مالدار طبقے پر زیادہ ٹیکس عائد کرنا ہوں گے۔ عالمی اداروں کو بھی پالیسیاں تبدیل کرتے ہوئے پاکستان پر اصلاحات کے لیے زیادہ زور دینا چاہیے۔
اگر پاکستان غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی سے باز نہ آئے اور ان کی حمایت و مدد جاری رکھے تو پابندیاں عائد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں، فوجی حکام اور عوام تینوں پر ان پابندیوں کا اطلاق ہونا چاہیے۔ پاکستان کے بہت سے سیاسی راہنما علاج کی خاطر یا پھر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے امریکا آتے رہتے ہیں۔ شدت پسندوں سے جن کا تعلق ثابت ہوجائے، انہیں ویزا نہ دیا جائے۔
امریکا کو شدت پسند اسلامی گروہوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے بھی بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن ممالک سے ان گروہوں کو فنڈنگ ہوتی ہے، اُن سے مل کر بہتر حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے۔ ان گروہوں کو عالمی سطح پر منظم ہونے سے روکنا ہوگا۔ اس معاملے میں مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ممالک سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کو روکنے اور اس کے حوالے سے غیر معمولی حد تک معلومات حاصل کرنے میں امریکا اب تک ناکام رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کا تحفظ یقینی بنانے کے نام پر بھی امداد لی ہے اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ بھارت پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرے۔ امریکا کو واضح کرنا ہوگا کہ جوہری ہتھیار یا مواد کسی شدت پسند گروپ یا ریاست کے ہاتھ لگنے پر پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امداد روکی گئی تو زیادہ نقصان ہوگا۔ انتہا پسند مضبوط ہوجائیں گے۔ یعنی خطے میں مزید خرابی پیدا ہوگی۔ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں خرابیاں کبھی امریکی پابندیوں سے پیدا نہیں ہوئیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق پابندیاں امریکا نے ۱۹۹۰ء میں نافذ کیں جبکہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت ۱۹۸۰ء کے عشرے کے وسط تک حاصل کرچکا تھا۔
امریکی انتباہ کو یکسر نظرانداز کرکے پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرکے پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کو کنٹرول کرے اور اس پر دباؤ میں اضافہ کرے۔ اگر پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی تصفیہ کرایا تو افغانستان میں پاکستانی مفادات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں امریکا کی مشکلات میں صرف اضافہ ہوگا۔ افغانستان کی معاشی امداد میں کٹوتی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ امریکی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ افغانستان کی بھرپور امداد جاری رکھ کر اس ملک کو مضبوط رکھ کر ہی خطے میں مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
یہ سوچنا بھی سادگی کی انتہا ہے کہ پاکستان امریکی مصنوعات کی افغانستان تک رسائی کے لیے ایک اہم راہداری ہے۔ امریکا نے وسط ایشیا کے ذریعے بھی اشیا افغانستان پہنچائی ہیں اور فضائی راستے سے بھی۔ اب افغانستان میں امریکی موجودگی گھٹتی جارہی ہے۔ ایسے میں راہداری کی حیثیت سے پاکستان کی افادیت کا گراف بھی گر رہا ہے۔
اور آخر میں یہ خدشہ کہ پاکستان ناکام ریاست میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سی خرابیاں ہیں اور ادارے بھی کمزور ہیں مگر جو لوگ پاکستان کے ناکام ریاست میں تبدیل ہوجانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں، وہ شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں اپنے قیام کے وقت پاکستان انتہائی کمزور تھا۔ تب ادارے کمزور تو کیا، تھے ہی نہیں۔ فوج بھی ناکافی تھی اور پولیس بھی کم تھی۔ وزارتوں اور محکموں کا حال بہت برا تھا۔ حد یہ ہے کہ سامانِ تحریر تک نہ تھی مگر اس کے باوجود پاکستان نہ صرف یہ کہ قائم رہا بلکہ مرحلہ وار مستحکم ہوتا رہا۔ ابتدائی دنوں میں برطانوی اور بھارتی قائدین کا خیال تھا کہ پاکستان قائم نہ رہ سکے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ جب ان برے حالات میں پاکستان ناکام ریاست میں تبدیل نہ ہوا تو اب ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر امریکی قیادت معاشی اور معاشرتی اصلاحات کے لیے دباؤ میں اضافہ کرے تو پاکستان نہ صرف یہ کہ ناکام ریاست میں تبدیل نہیں ہوگا بلکہ بہتر انداز سے کام کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ استحکام کی طرف بڑھے گا۔ امریکا کو اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اب پاکستان میں حقیقی بہتری یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“An unworthy ally – Time for Washington to cut Pakistan loose”.
(“Foreign Affairs”. September/October 2015)
Leave a Reply