
افغانستان پر تصرف پانے کے لیے انیسویں صدی میں روس اور برطانیہ کی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئیں۔ بیسویں صدی میں امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اور اب جبکہ افغانستان پر طالبان قابض و متصرف ہیں، گریٹ گیم نے پاکستان کو مرکزی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ چین اس کے ساتھ ہے اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
طالبان سے پاکستان کے تعلقات اور روابط بہت گہرے رہے ہیں۔ پاکستان پر امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف طالبان کو مضبوط کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے اس الزام کو ہمیشہ بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اتوار ۱۵؍اگست کو جب طالبان نے کابل کو بھی مٹھی میں لے لیا تب وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ طالبان آج کل اس امر پر بحث و تمحیص اور مشاورت میں مصروف ہیں کہ اب افغانستان میں حکمرانی کا ڈھانچا یا نمونہ کیا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ میڈیا میں یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اس عمل میں پاکستانی حکام بھی شریک ہیں۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی قیادت افغانستان میں ایسا سیاسی تصفیہ چاہتی ہے، جس میں تمام فریقوں کو شامل کیا گیا ہو اور جو خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ثابت ہو، تاہم اس حوالے سے کلیدی کردار خود افغانوں کو ادا کرنا ہوگا۔
چینی قیادت، جو پہلے کبھی افغانستان کے معاملات میں زیادہ فعال یا متحرک نہیں رہی اور جس کا پاکستان سے مضبوط اتفاق و اتحاد ہے، اب افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر اور بالخصوص لیتھیم کے ذخائر کو ذہن میں رکھتے ہوئے امن کے پیغام کے ساتھ طالبان کی طرف بڑھی ہے۔ لیتھیم الیکٹرانک گاڑیوں میں بہت اہم کردار ادا کرنے والی دھات ہے۔ چین کو پہاڑی سلسلے قراقرم سے گزر کر پاکستان جانے والے تجارتی راستے کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بھی افغانستان میں امن و استحکام درکار ہے۔
اور پھر بھارت بھی تو ہے جو پاکستان کا روایتی حریف ہے اور سرحدی تنازع پر ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران چین سے عسکری محاذ آرائی کا حامل ہے۔ بھارت ماہِ رواں کے وسط میں برطرف ہونے والی کابل حکومت کا کلیدی حامی و مددگار رہا ہے۔ اب جبکہ طالبان افغانستان پر متصرف ہیں، چین اور پاکستان بڑے کھلاڑیوں کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ ایسے میں نئی دہلی کی بدحواسی بڑھتی جارہی ہے۔ چین کا یہ کہنا ہے کہ اس کا طالبان کی طرف دوستی اور مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا اس مقصد کے تحت ہے کہ مغربی صوبے سنکیانگ کو بیجنگ مخالف مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوؤں سے بچایا جائے۔ یہ جنگجو افغانستان میں پناہ گاہیں تلاش کرسکتے ہیں۔
سچوان یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا سے متعلق امور کے پروفیسر ژینگ لی کہتے ہیں کہ پاکستان تو یہ چاہے گا کہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بھارت کی پوزیشن کو کمزور کرے مگر لازم نہیں کہ چین بھی ایسا ہی چاہے اور کرے۔ چین کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ طالبان ایسی مضبوط حکومت قائم کریں جو دہشت گردی کا دائرہ اس کے مغربی صوبے سنکیانگ تک پھیلنے سے روکنے میں معاون ثابت ہو۔
امریکا کہتا ہے کہ مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ رسمی نوعیت کی تنظیم کی حیثیت سے اب وجود نہیں رکھتی اور دراصل ایک وسیع لیبل ہے جسے استعمال کرکے چینی قیادت اویغور اور دیگر نسلوں کے مسلمانوں کو کچلتی ہے۔ چین سنکیانگ میں طاقت کے بے جا استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا ہے۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر برہما چیلانی کہتے ہیں کہ چین اب تک دو معاملات میں تذبذب کا شکار رہا ہے۔ ایک تو طالبان کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے کے معاملے میں اور دوسرے بنیادی ڈھانچے کے لیے درکار سرمایہ کاری کے معاملے میں۔ چین موقع پرست ذہنیت کا حامل ہے اس لیے معدنیات کے ذخائر سے مالا مال افغانستان میں ابھرنے والی صورتِ حال کو اپنے لیے اسٹریٹجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے اور یوں پاکستان اور ایران کے علاوہ وسط ایشیا کے ممالک تک بھی اس کی رسائی بہتر اور آسان ہوجائے گی۔
نیو یارک کے اتھاکا کالج سے وابستہ سیاسی مبصر رضا احمد رومی کہتے ہیں کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کو پہنچنے والے نقصان پر پاکستان میں مسرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پاکستان بھر میں مین اسٹریم میڈیا آؤٹ لیٹس اور سوشل میڈیا پر افغانستان کی صورتِ حال سے پیدا ہونے والی مسرت نمایاں تھی۔ رضا احمد رومی کہتے ہیں کہ پالیسی سے متعلق روایتی حلقے اشرف غنی حکومت کے بھارت سے غیر معمولی روابط کو ایک بڑے خطرے کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ایسے میں افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کاتیا پانچا ہو جانا مسرت انگیز تھا۔
طالبان کے پہلے دور (۱۹۹۶ء تا ۲۰۰۱ء) کے حوالے سے بھارت کی خاصی تلخ یادیں ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں انڈین ایئر لائنز کے ایک طیارے کو ہائی جیک کرکے جنوبی افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا تھا۔ بھارت کو اپنے مسافروں کے عوض اپنی جیلوں سے تین سرکردہ پاکستان عسکریت پسندوں کو رہا کرنا پڑا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہائی جیکرز کو بھی پاکستان جانے دینا پڑا تھا۔ کابل میں سابق بھارتی سفیر جینت پرساد کہتے ہیں کہ آج ہماری پوزیشن ایسی ہے کہ حقیقت سے مطابقت پیدا کرنی ہے۔ ہمیں افغانستان میں طویل کھیل کھیلنا ہے۔ افغانستان ہم سے جْڑا یا سَٹا ہوا نہیں ہے مگر پھر بھی وہاں ہمارے مفادات تو بہرحال ہیں۔ نئی دہلی میں سفارتی ذرائع کہتے ہیں کہ ایک سال کے دوران طالبان ایک بڑی قوت بن کر ابھرے ہیں اور جب قطر کے دارالحکومت دوہا میں امریکا کی وساطت سے طالبان سے مذاکرات ہوئے تو بھارتی سفارت کاروں نے طالبان سے رابطہ قائم کیا اور تاحال برقرار رکھا ہے۔ ان سفارت کاروں میں سے ایک نے بتایا کہ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کر رہے ہیں۔ بھارت میں یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ہم نے اشرف غنی حکومت کی بہت زیادہ حمایت کرکے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے جبکہ خود امریکا طالبان سے مذاکرات شروع کرچکا تھا۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ طالبان سے رابطہ کرنے اور اشرف غنی حکومت سے روابط ختم کرنے میں بہت دیر لگائی گئی۔ بھارتی سفارت کار نے مزید کہا کہ بھارت بڑا معاشی کھلاڑی ہے اور چین پر غیر معمولی انحصار سے بچنے کے معاملے میں وہ طالبان کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوسکتا ہے۔
بھارت نے کابل میں پارلیمنٹ بلڈنگ بھی بنائی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے افغانستان کے ۳۴ میں سے ہر صوبے میں ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ہیں۔ جنوبی ایشیا پر تین کتابوں کی مصنفہ اور برطانوی خبر رساں ادارے کی سابق صحافی مائرا مکڈونلڈ کہتی ہیں کہ افغانستان پر طالبان کا تصرف قائم ہو جانے سے بھارت کو دھچکا ضرور لگا ہے تاہم نئی دہلی کے لیے کھیل مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ گزرے ہوئے زمانے کا اعادہ نہیں۔ اس بار سبھی غیر معمولی حد تک محتاط ہیں۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ آج کا بھارت پاکستان سے معاشی طور پر نائن الیون کے وقت کے بھارت سے زیادہ مضبوط ہے۔
طالبان کے ایک سینئر رہنما وحید اللہ ہاشمی نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ افغانستان کی معاشی حالت بہت خراب ہے۔ ایران، امریکا، روس سبھی سے غیر معمولی پیمانے پر مدد درکار ہے۔ وحید اللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ امید ہے یہ تمام ممالک افغان عوام کی مدد کریں گے، بالخصوص صحتِ عامہ، کاروبار اور کان کنی کے شعبے میں۔ وحید اللہ ہاشمی کہتے ہیں کہ ہماری ایک بنیادی ذمہ داری ایسے حالات پیدا کرنا بھی ہے کہ تمام پڑوسی اور علاقائی ممالک ہمیں خوش دلی سے قبول کریں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Analysis: China, Pakistan, India jockey for position in Afghanistan’s new Great Game”. (“reuters.com”.
Leave a Reply