ناراض عرب نوجوان دنیا کے لیے خطرہ؟

بالوں میں جیل لگائے، ہاتھوں میں کافی کا مگ لیے لڑکیوں میں دلچسپی لیتے محمد فوزی جیسے یونیورسٹی کے طالبعلم دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ قاہرہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ۲۱ سالہ فوزی کے سامنے تابناک مستقبل ہونا چاہیے کیونکہ دنیا ٹیکنیکل گریجویٹس کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ لیکن فوزی مایوس ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ تعلیم کے بعد ملنے والی نوکری اس کے اپنے اخراجات پورے نہیں کرے گی چہ جائیکہ وہ اپنی بیوہ ماں کو بھی سنبھال سکے۔ اچھی تنخواہ کے بغیر وہ گھر نہیں لے سکتا، گھر لیے بغیر اس کی شادی نہیں ہوسکتی اور شادی کے بغیر اس کی جذباتی ضروریات ادھوری ہیں۔

فوزی کے بقول مذہبی عقائد اسے گرل فرینڈ بنانے سے روکتے ہیں اور ظاہر ہے وہ اپنی بہن کے لیے بھی ایسا پسند نہیں کرتا۔ وہ لڑکیوں میں دلچسپی لیتا رہا ہے مگر بات کبھی جسمانی تعلق تک نہیں پہنچی۔ اب روابط فیس بک تک محدود ہیں، جو محفوظ بھی ہے اور خفیہ بھی۔ لیکن اس کی یہ دیوانگی مردوں کی روایتی خواہش سے کہیں آگے کی بات ہے۔

اسلام کے بارے میں اس کے خیالات الجھے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو والدین سے زیادہ مذہبی سمجھتا ہے مگر باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتا۔ وہ وعظ سننے کی خاطر دوستوں کے ساتھ جانا پسند کرتا ہے لیکن اس نے اسلام کا ایک اپنا خالص نظریہ بھی تراش رکھا ہے۔ اس کے نزدیک مصری سماج رشوت ستانی، اقربا پروری اور دیگر خبائث کا پروردہ ہے جنہیں مذہب ناجائز قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں مسلمانوں کو وہ خوبیاں واپس لینی چاہییں جو مغرب ان سے لے گیا ہے۔ لادینیت کو وہ ایک برائی سمجھتا ہے۔

فوزی کا معاملہ اکثریت سے مختلف نہیں۔ عرب ممالک ایسے نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں، جو نوکریاں نہ ہونے کے باعث جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں، روایتی نظام پر سوال کھڑے کررہے ہیں۔ مغرب، اس کی آزادیوں اور طاقت سے مرعوب بھی ہیں اور نالاں بھی، اور اتنا بھی ضرور جانتے ہیں کہ ان کی حالت دنیا کے دیگر نوجوانوں کی نسبت ناگفتہ بہ ہے۔ بیروت کی امریکی یونیورسٹی کے استاد رمی خوری (Rami Khouri) کے بقول نوجوان بغیر کوئی مسئلہ پیدا کیے زندہ رہنا چاہتے ہیں ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان کی اپنے ملکوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظاموں کے اندر تک رسائی ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی ایک الگ دنیا بنانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان حالات میں کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔

۲۰۱۱ء کی عرب بہار کے پیچھے کئی عوامل تھے جس نے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں تختے الٹے اور دیگر کئی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن عرب نوجوانوں کا اضطراب اور حکمرانوں کی جانب سے انہیں موقع مہیا نہ کیا جانا بلاشبہ سب سے بڑی وجہ تھی۔

اب جبکہ عوامی سرکشی دم توڑ چکی ہے یا (تیونس کے سوا) خوفناک خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکی ہے، تو نوجوان عربوں کی حالت زیادہ خراب ہے کیونکہ سیاسی جبر بڑھ گیا ہے اور معاشی امکانات معدوم ہیں۔ خطے میں اقتصادی نمو متوسط آمدنی والے دیگر ملکوں سے کم ہے اور تیل کی قیمتوں میں کمی کچھ ملکوں کے لیے ڈراوا بن گئی ہے۔ بحران نے سرمایہ کاروں کو بھگا دیا ہے اور دہشت گردی نے سیاحت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ مصر کی طرح برسراقتدار آنے والی حکومتوں کی خودکش پالیسیاں اس پر مستزاد ہیں۔

دنیا بھر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نعمت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عرب دنیا میں زیادہ تر انہیں ایک مصیبت سمجھ کر کچلا جارہا ہے۔ ان دنوں جوان عربوں کے سامنے تین بدترین امکانات ہیں: ملک میں رہ کر غربت کا مقابلہ کریں، ہجرت کریں یا پھر انتہائی درجے میں جہاد کی جانب قدم بڑھائیں، اور یقینی طور پر شام جیسے ممالک میں اسلحہ اٹھالینا سب سے زیادہ کما کر دینے والا کام ہے۔

دنیا بھر کی طرح عرب نوجوان بھی ایک طرح کے نہیں ہیں لیکن کچھ صفات سب میں مشترک ہیں۔ اولاً تو یہ کہ عربوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو تین دہائیوں میں دگنی ہوچکی ہے۔ دنیا میں آبادی بڑھنے کی شرح سالانہ ایک فیصد ہے لیکن ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک یہ آبادی ۳۵ کروڑ ۷۰ لاکھ ہوگئی تھی، جس میں ۲۰۲۵ء تک ۸ء۱ کی اوسط سے مزید ۱۱ کروڑ افراد کے اضافے کی توقع ہے۔ اس پر مستزاد تیزی سے پھیلتی شہری آبادی ہے۔ ۲۰۱۰ء تک ۱۵ سے ۲۴ سال تک کے عرب آبادی کا ۲۰ فیصد یعنی ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ تھے، جو اندازاً ۲۰۲۵ء تک ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ ہوجائیں گے۔

دوسرا مسئلہ نوجوانوں کی بیروزگاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں عرب بہار سے پہلے ہی یہاں بیروزگاری کی عمومی شرح ۱۰ فیصد اور نوجوانوں میں ۲۷ فیصد تھی، جو کسی بھی خطے سے زیادہ تھی۔ اب یہ شرح نوجوانوں میں ۳۰ فیصد اور عمومی سطح پر ۱۲ فیصد ہوگئی ہے۔ عرب دنیا کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ جتنا زیادہ پڑھیں گے، نوکری کے امکانات اتنے ہی کم ہوجائیں گے۔ مصر میں ۲۰۱۴ء میں ۳۴ فیصد گریجویٹس بیروزگار تھے جبکہ پرائمری سے کم تعلیم حاصل کرنے والوں میں یہ شرح محض ۲ فیصد تھی۔ صنفی مساوات بھی نمایاں ہے کیونکہ ۱۵ سے ۲۴ سال کی ۶۸ فیصد خواتین بیروزگار تھیں جبکہ مردوں میں یہ شرح ۳۳ فیصد رہی۔

تیسرا مسئلہ ترک وطن کا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں شام، فلسطین اور مصر ان ۲۰ ممالک میں شامل تھے، جن کی سب سے زیادہ آبادی بیرون ملک رہ رہی ہے۔ ان میں بڑی تعداد بے گھر ہونے والوں کی ہے جن کی پہلی منزل تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستیں ہوتی ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک اسحٰق دیوان کہتے ہیں کہ یہ سب دیکھتے ہوئے تعجب نہیں ہونا چاہیے، اگر نوجوان عرب اپنے بڑوں اور اپنے ہی جیسے ملکوں کے نوجوانوں کے مقابلے میں بری حالت میں ہیں۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کا سروے بتاتا ہے کہ غریب ملکوں کے لوگ امیر ممالک کی نسبت اپنے مستقبل سے زیادہ امیدیں لگائے ہوئے تھے، سوائے عرب دنیا کے جہاں ایسا نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے محض ۳۵ فیصد افراد نے امید ظاہر کی کہ ان کے بچے معاشی طور پر ان سے زیادہ خوشحال ہوں گے حالانکہ افریقا میں یہ شرح ۵۱ فیصد اور ایشیا میں ۵۸ فیصد تھی۔

بے یقینی کے خطرات

معیار زندگی کی ابتری عرب جوانوں کو سب سے زیادہ تنگ کرتی ہے۔ اکثر ٹیکسی ڈرائیور آپ کو بتائیں گے کہ ان کے پاس انجینئرنگ کی ڈگری ہے اور ڈرائیونگ تو وہ شام میں نوکری سے فارغ ہونے کے بعد گزر اوقات کے لیے کرتے ہیں۔ عرب حکومتوں نے سرکاری نوکریاں زیادہ پیدا کی ہیں تاکہ نوجوان سڑکوں پر نقضِ امن کے بجائے دفتروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہیں تو اچھا ہے۔ ۱۹۵۲ء میں مصری بادشاہت کا تختہ الٹنے والے جمال عبد الناصر کے دور میں ہر گریجویٹ کو سرکاری نوکری لازمی دی جاتی تھی۔

لیکن نہ تو ناصر اور نہ ہی ان کے جانشینوں کو یہ سمجھ آئی کہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء کے درمیان تین گنا ہوجانے والی نوجوانوں کی اس آبادی سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نوکری کے لیے نوجوانوں کا انتظار طویل ہوتے ہوتے ایک دہائی تک بھی جاپہنچا ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا ہوا تو سرکاری شعبے سکڑ گئے اور سرکاری نوکریاں تقریباً ناپید ہوگئیں۔

پُرکشش نوکریوں اور مراعات سے عوام کی ہمدردیاں خریدنے والے خلیجی شاہوں کو سستا تیل اب مجبور کررہا ہے کہ وہ ان رعایتوں میں کمی کریں۔ اور چونکہ اب وہ خود اپنے ہی لوگوں کو زیادہ نوکریاں فراہم نہیں کرسکتے تو بھلا دیگر عربوں کو خوش آمدید کیسے کہہ سکتے ہیں۔ سعودی ریسرچ فرم جدویٰ انویسٹمنٹ کے مطابق سب سے بڑی خلیجی ریاست سعودی عرب کو ہر سال ۲ لاکھ ۲۶ ہزار نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن ۲۰۱۵ء میں وہاں صرف ۴۹ ہزار مواقع پیدا ہوئے۔

خلیجی ریاستوں نے اپنے شہریوں کے لیے روزگار کے کوٹے مقرر کر رکھے ہیں مگر بہت سی کمپنیوں کو شکایت ہے کہ مقامی گریجویٹس میں مطلوبہ صلاحیتیں ہیں اور نہ ہی انہیں کام کرنے کا سلیقہ ہے۔ ایک تاجر کے بقول ’’میں ایسی کمپنیوں کو جانتا ہوں جو کوٹہ پورا کرنے کی خاطر سعودیوں کو تنخواہیں دیتی ہیں لیکن ان کو گھر بٹھا کر رکھتی ہیں‘‘۔ اپنے ۳۰ سالہ نائب ولی عہد کی سرکردگی میں سعودی عرب پُرجوش تبدیلی کی خواہش کررہا ہے تاکہ نجی شعبہ کو آگے رکھ کر تیل پر انحصار ختم کیا جاسکے۔ لیکن سعودیوں کی لاڈلی اولادوں کو کام کاج کے لیے تیار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

نوجوان عربوں کو نوکریاں دلانے والے قطری ادارے Silatech سے منسلک نادر کبانی کہتے ہیں کہ خطے کے زیادہ تر حصوں میں عرب ایک خاص قسم کے احساس برتری کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اپنی شان سے کم تر نوکری کرنے کے بجائے گھر میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی خواہشات بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں ان کی شرحِ خواندگی زیادہ ہے اور یہ دنیا کے بارے میں معلومات بھی زیادہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ عرب یوتھ سروے نے ۲۰۱۶ء میں ہی ۱۶ ممالک کے ۳۵۰۰ نوجوانوں کی رائے لی تو اندازہ ہوا کہ اب ان کو ساری خبریں آن لائن ملتی ہیں، جس پر ٹی وی یا اخبارات کی طرح پابندی لگانا حکومتوں کے بس کی بات نہیں۔

ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب خاندان، مذہبی رہنماؤں اور حکومتوں کی تابعداری کرنے کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ تناؤ سب سے زیادہ خواتین کے حقوق پر سامنے آرہا ہے جو روایتی پابندیوں اور عوامی مقامات پر سر ڈھانکنے کے رجحان کے باوجود مسلسل بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہورہی ہیں۔

شادی خاندانی بندشوں سے بچ نکلنے کا ایک راستہ

کچھ کے لیے شادی خاندانی بندشوں سے بچ نکلنے کا ایک راستہ ہے لیکن کچھ ابھی کسی کھونٹے سے بندھنا نہیں چاہتیں۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے پاپولیشن ریفرنس بیورو نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایسی عرب عورتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو ۳۹ سال کی عمر تک شادی نہیں کرتیں۔ ریاض میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرنے والی ۳۵ سالہ خلود فلودہ (Khloud Faloudah) کہتی ہیں کہ اگر وہ پچھلی نسل میں ہوتیں تو گھر بسانا ان کا مقصد ہوتا، لیکن اب وہ ادارے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

تاخیری شادی کی بڑی وجہ پیشہ ورانہ عزائم نہیں بلکہ غربت ہی ہے۔ مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے سجے سجائے گھر کے مالک ہوں، اور پھر جو انہیں مہر دینا ہوتا ہے وہ الگ۔ غزہ شہر میں حکمراں حماس پارٹی ساحل سمندر پر اکثر اجتماعی شادیاں منعقد کرواتی رہتی ہے تاکہ غریبوں کا بھلا ہوجائے اور اس کے عبوری وزیراعظم اسمٰعیل ہانیہ رشتے کرانے والی ایجنسی کو امداد دیتے ہیں۔

غیر نکاحی تعلقات تو دور کی بات، عورتوں کی آزادی کے نام پر ہی یہاں لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ سعودی خواتین اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کرسکتیں (جس کے لیے ایک موبائل ایپ بنادی گئی ہے)۔ لیکن مصر جیسے نسبتاً آزاد ممالک میں بھی سماجی بندشیں بہت کڑی ہیں۔

قاہرہ کے شمال میں واقع مصری قصبے طنطا کی گرافک ڈیزائنر ۲۳ سالہ ریہام بتاتی ہیں کہ وہ اسکرٹ پہننے، گھر دیر سے آنے اور اکیلے سفر کرنے کے مخالف خاندان والوں سے بچ کر کس طرح دارالحکومت پہنچیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہاں ان پر ۹ بجے سے پہلے گھر واپس آنے کی پابندی تھی حالانکہ لڑکوں کو ۱۱بجے تک رعایت حاصل تھی۔

اسلام بھی اپنا استحکام پیدا کرنے والا کردار ادا نہیں کرپارہا۔ ویانا میں قائم ورلڈ ویلیوز سروے (World Values Survey) کے مطابق مجموعی طور پر عرب ممالک میں پاک دامنی ان ملکوں سے زیادہ ہے جو ان کے برابر ترقی کرچکے ہیں۔ لیکن اب انٹرنیٹ اور ٹی وی کے ذریعے نوجوان مذہب کی آگہی حاصل کرچکے ہیں۔ پہلے مذہبی رہنما ان پر بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے لیکن اب وہ قرآن و حدیث کے حوالے دے کر ان سے الجھ پڑتے ہیں۔

کچھ نوجوان اپنے والدین کے مقابلے میں کم مذہبی ہیں، لیکن کچھ ان سے بھی زیادہ مذہب کی پابندی کرتے ہیں۔ امریکا میں زیر تعلیم سعودی عبد العزیز الغنم کے بقول اب وہ کم ہی لوگوں کو جانتے ہیں جو پنج وقتہ نمازی ہوں حالانکہ سعودی عرب میں نماز کے دوران تمام دکانیں وغیرہ بند ہوجاتی ہیں۔ البتہ مصر کے ۲۹ سالہ اکاؤنٹنٹ ایمن نبیل خود کو اپنے والد سے زیادہ قدامت پسند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد تو محض روایات کے پیرو تھے، لیکن انہوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر قدامت پسندی اختیار کی ہے۔

لیکن اس کے باجود نوجوان عرب عوامی زندگی میں مذہب کے دخل سے متعلق تذبذب کا شکار ہیں۔ عرب بہار کے بعد مذہبی جماعتوں کی حمایت قدرے کم ہوگئی ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کی معزولی کے بعد اقتدار سنبھالنے والی اخوان المسلمون تقریباً پژمردہ ہوگئی۔ (اخوان کے خلاف غم و غصے کو فوج نے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے ۲۰۱۳ء میں اقتدار سنبھال لیا تھا)۔ عرب یوتھ سروے میں رائے دینے والے نصف نوجوانوں کا خیال تھا کہ شیعہ سنی اختلافات تنازعوں کا سبب بن رہے ہیں۔

دیوان کے مطابق متوسط آمدنی والے دیگر ممالک کے نوجوانوں کی بہ نسبت مجموعی طور پر عرب نوجوان احساس تفاخر کا شکار اور دیگر ثقافتوں اور مذاہب کا کم احترام کرنے والے ہیں۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم بھی ذہنی کشادگی پیدا نہیں کررہی جیسا کہ دیگر معاشروں کا دستور ہے۔ دیوان کے بقول ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسکول کی سطح پر تعلیم کے ذریعے حکومتیں اور مذہب اپنے نظریات مسلط کردیتے ہیں۔ تنقیدی سوچ بچار کے بجائے زیادہ تر نصابی کتب اطاعت و فرمانبرداری سکھاتی ہیں (کیونکہ جابرانہ حکومتوں کو یہی راس آتا ہے) اور اکثر دیگر عقائد اور فرقوں کی غلط تشریح یا ان سے نفرت سکھا دی جاتی ہے۔ سعوی عرب کی نصابی کتب میں کرسمس کی چھٹی کو ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔

ایک خوف جو خود نوجوانوں کو بھی لاحق ہے، وہ یہ کہ کہیں عرب نوجوان جہادیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ داعش کو میڈیا میں شدت پسند اور سفاک گروہ کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ عرب یوتھ سروے کے مطابق نوجوان سمجھتے ہیں کہ لوگ نوکریاں نہ ملنے کے باعث داعش کی طرف گئے۔ داعش تنخواہ بھی دیتی ہے، شادی بھی (بسا اوقات کسی لونڈی سے) کراتی ہے، اور قتلِ عام کرکے خود کو پارسا سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ نوجوانوں کو بنیادی طور پر کیا چیز تشدد پر اکساتی ہے۔ زیادہ تر عرب نوجوان داعش کے خلاف ہیں: نبیل کے مطابق ’’داعش میں جانا ایسا ہی ہے جیسے انسان دہریہ ہوجائے یا عیسائیت اختیار کرلے‘‘۔ داعش کے کارندے غریب اور متوسط طبقوں دونوں سے ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں اور نہیں بھی۔ لیکن زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں۔

عرب یوتھ سروے کی رُو سے ۷۸ فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ داعش کی حمایت نہیں کریں گے، ۱۳ فیصد نے کہا کہ شاید وہ ایسا کریں، اگر داعش تشدد میں کمی کردے۔ یہ شرح خلیجی ممالک میں ۱۹ فیصد رہی جہاں اسلام پر بہت زیادہ عمل نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک اقلیت ہے مگر چھوٹی اقلیت نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ داعش یا اس کے بعد ابھرنے والی دہشت گرد تنظیم کو بڑی تعداد میں کارکن یا ہمدرد مل سکتے ہیں۔

نوجوان اور خطرناک

عرب حکومتیں نوجوانوں کے تحفظات پر صرف زبانی جمع خرچ ہی کرتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے ۲۲ سالہ خاتون کو (رواداری اور مسرت کے وزرا کے ساتھ ساتھ) نوجوانوں کا وزیر تو بنایا لیکن زیادہ تر حکومتیں نوجوانوں کو خطرہ ہی سمجھتی ہیں۔

عمر رسیدہ بادشاہ اور آمر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کی بہت کم سنتے ہیں۔ الجیریا میں نہ ہونے کے برابر صدر عبد العزیز بوطفلیقا ۷۹ اور سوڈان میں عمر البشیر ۷۲ سال کے ہیں۔ مصر میں نوجوان چاہے اسلام پسند ہوں، لبرل ہوں یا پیشہ ور ہوں، سب کو ۶۱ سالہ صدر الفتاح السیسی نے حسنی مبارک سے بھی زیادہ جبر کے ذریعے لگام ڈال رکھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں، اس لیے نوجوان ان کی جانب کم آتے ہیں۔ شامی پارلیمان آمریت کے ہاتھ کی چھڑی ہے، لبنان فرقہ واریت کا شکار ہے اور خلیجی ممالک محض مشاورت کے لیے ہیں۔ مصر میں عمر رسیدہ افراد کی سرکردگی میں قائم اخوان المسلمون پر پابندی عائد ہے۔

یقینا جنگوں اور عدم استحکام نے جمہوریت کی طلب کو بہت کم کردیا ہے۔ کامیاب بغاوت کی مثال سمجھے جانے والے تیونس میں بھی پیو سروے کے مطابق ۲۰۱۲ء کے وسط میں استحکام کی خواہش جمہوریت پر غالب آگئی تھی۔ عرب یوتھ سروے کو جواب دینے والے ۵۳ فیصد افراد نے کہا کہ وہ پہلے استحکام چاہتے ہیں۔

پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نوجوان لاتعلق ہوگئے ہیں۔ وہ ووٹ نہ بھی دینا چاہیں تو بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کے حکمران بدعنوان اور سفاک ہوں۔ بہت سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ خواتین کو زیادہ حقوق ملیں۔ تقریباً سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ پولیس جیسے ادارے ان کے خلاف نہیں بلکہ ان کے لیے کام کریں۔ لبنان میں ’’بیروت مدینتی‘‘ (بیروت میرا شہر ہے) نامی تحریک نے کچرا اٹھانے، بجلی فراہم کرنے اور بدعنوانی ختم کرنے کا نعرہ لگا کر مئی کے مقامی انتخابات میں ۴۰ فیصد ووٹ لے لیے تھے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی سے منسلک بابرا ابراہیم کہتی ہیں کہ نوجوان شہری تنظیموں میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

خوری کے بقول ۲۰۱۱ء کی عرب بغاوتوں نے نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش کو ابھارا، وہ آگے بڑھ کر ان تنظیموں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو انہیں مطمئن کریں، لیکن انہوں نے عوامی سیاست کو ترک کردیا ہے۔ فی الحال وہ مکمل طور پر باغی ہیں جنہیں انفرادی پناہ گاہوں کی تلاش ہے۔ کب تک وہ اسی طرح زیردست رہیں گے؟ وہ اس نظام کے خلاف ضرور بغاوت کریں گے جہاں انہیں نوکری ملنا اور بغیر کسی واسطے کے آگے بڑھنا محال ہے، اور جہاں کا سیاسی نظام انہیں یکسر دور رکھتا ہے۔ نبیل کے بقول سارے مسائل ظلم کی مختلف شکلوں نے پیدا کیے ہیں اور سارے معاشرتی مسائل کی جڑیں اسی میں ہیں کہ بس ایک ہی کی خدمت کیے جاؤ چاہے وہ باپ ہو، خاندان ہو، افسر ہو یا صدر ہو۔ ظلم و جبر سارے سماجی مسائل کی جڑ ہے۔

بغداد سے رباط تک چھوٹے موٹے مظاہرے ہیں مگر بغاوت کی کوئی اونچی لہر دکھائی نہیں دیتی کیونکہ لوگ بھی تھک چکے ہیں اور خفیہ پولیس کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں۔ لیکن دو باتیں یقینی ہیں: بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد عدم استحکام کا لقمہء تر بننے کو ہے، اور نوجوانوں کی مدد کرنے کے بجائے ان سے خوف کھانے والے عرب حکمران دہکتے شعلوں کو اور ہوا دے رہے ہیں۔

(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)

“‘Arab youth: Look forward in anger”.(“The Economist”. August 6, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*