
ہماری تاریخ کے سینے میں ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء ایک خنجر کی طرح پیوست ہے، اس لیے ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے اگرچہ اسے بھلا دینے کی عجب عجب کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ وطن کا دولخت ہو جانا کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی تھی۔ انگریز آئے تو ہمارے علمائے حق نے سر جھکانے سے انکار کیا، اُنھیں پھانسیاں دی گئیں اور اُنھیں کڑی سزائیں دے کر کالا پانی بھیج دیا گیا۔ مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں اپنے وجود کو زنجیروں سے آزاد رکھنے کے لیے آزادی کی جو جنگ لڑی، اس میں ناکامی کے بعد اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور اُن کے لیے تعلیم، روزگار اور ترقی کے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ تب حالی، سرسید، شبلی اور علامہ اقبال نے اپنی تحریروں سے مسلمانوں کے تن مردہ میں جان ڈالی اور انھیں ہندو معاشرے اور تہذیب میں ضم ہونے سے بچایا اور عظمت رفتہ کی بازیابی کا گہرا شعور پیدا کیا۔ اس شعور کی آبیاری میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے بھی زبردست حصہ لیا۔ حکیم الامت علامہ اقبال کے اصرار پر حضرت قائداعظم نے مسلمانوں کو سیاسی قیادت فراہم کی اور سیاسی اور آئینی جدوجہد کے ذریعے پاکستان حاصل کیا، جس کی اساس دو قومی نظریہ تھا۔ انگریزوں اور ہندوئوں کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے باعث شمالی اور مشرقی ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور دس لاکھ مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کی خاطر لہو کے چراغ روشن کیے اور اس خوش اُمیدی پر آزادی کی حفاظت کرتے رہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔
انگریز اور ہندو قیادت کی سازشوں کے باعث مسلمانوں کو ایک کٹاپھٹا پاکستان ملا جو دو بازوئوں پر مشتمل تھا، جن کے مابین ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جبکہ مشرقی پاکستان تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا تھا۔ اس کی زبان، رہن سہن اور ثقافت مغربی پاکستان سے مختلف تھی، مگر مشترک مذہبی عقائد، سیاسی جدوجہد اور گہرے تاریخی رشتوں میں وہ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ ان رشتوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مرکزی حکومت کو قومی یکجہتی کا ایک عظیم الشان منصوبہ وضع کرنا اور اسے اوّلین اہمیت دینا چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور زیادہ تر ایسے سیاسی اور انتظامی اور معاشی اقدامات کیے جاتے رہے جن سے غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا ہوئیں۔ صدر اسکندر مرزا نے جب اکتوبر ۱۹۵۸ء میں ۱۹۵۶ء کا دستور منسوخ کر دیا اور تمام سیاسی جماعتیں کام کرنے سے روک دی گئیں، تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا راستہ ہموار ہوا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے صدارتی نظام نافذ کر کے اور اس میں نائب صدر کا عہدہ نہ رکھنے سے مشرقی پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ اقتدار میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نظام میں قومی اسمبلی کی حیثیت ایک ربر اسٹمپ سے زیادہ نہیں تھی اور تمام فیصلے صدر ایوب خاں صادر فرما تے۔ مشرقی پاکستان کو شدید محرومی کے احساس نے اپنی گرفت میں لیا۔ انھیں شکایت پیدا ہوئی کہ ان کے صوبوں کے وسائل مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ کیے جا رہے ہیں جبکہ اُن کے حصے میں فقط افلاس، غربت اور بے روزگاری آئی ہے۔ ۱۹۶۲ء کے دستور کی بنیاد مساوات پر رکھی گئی تھی۔ قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے منتخب شدہ ارکان اسمبلی ایک ایک مسئلے میں مساوات کا حوالہ دیتے اور مطالبہ کرتے کہ سرکاری ملازمتوں، وسائل کی تقسیم اور سفیروں کی تعیناتی اور فوج کے اسٹرکچر میں انہیں مساوی حصہ دیا جائے۔ اس پر آئے دن کی جھک جھک ہوتی جو جہاں پناہ صدر معظم کی طبع نازک پر نہایت گراں گزرتی تھی۔ ایک روز انہوں نے اپنے وزیر قانون جسٹس محمد منیر کو طلب کیا اور اُن سے کہا کہ مشرقی پاکستان کی قیادت سے بات کرو کہ وہ بدمزگی پیدا کرنے کے بجائے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے کا منصوبہ لائے۔ مشرقی پاکستان کی قیادت نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔
مرکز اور مشرقی پاکستان کے درمیان جوں جوں تلخی بڑھتی گئی توں توں بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ برق رفتاری سے بڑھانا شروع کر دیا۔ اگرتلہ سازش اسی منصوبے کا شاخسانہ تھی۔ سول اور ملٹری بیورو کریسی میں بغاوت پھیلانے کے حربے آزمائے گئے اور آخرکار حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ایوب خاں کو مستعفی ہونا اور اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے سپرد کرنا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اخبارات رات دن مغربی پاکستان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے اور اسے جملہ مسائل کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ عوامی لیگ نے اپنا مسلح ونگ قائم کر لیا تھا۔ دسمبر ۱۹۷۰ء میں جب انتخابات منعقد ہوئے تو عوامی لیگ کے مسلح رضاکاروں نے حزب اختلاف کے رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشن تک آنے ہی نہیں دیا اور یوں عوامی لیگ نے دو قومی نشستوں کے سوا تمام قومی اور صوبائی نشستیں جیت لیں اور مجیب الرحمن سیاہ و سپیدکے مالک بن گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں سیاسی طور پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد صرف کنفیڈریشن کا آپشن باقی رہ گیا تھا، مگر اس کے لیے جنرل یحییٰ تیار نہیں تھے کیونکہ وہ مکمل اختیارات کے ساتھ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس امر کا پورا پورا اہتمام کیا کہ شیخ مجیب الرحمن، مسٹر بھٹو اور وہ خود مذاکرات کی میز پر اکٹھے بیٹھنے نہ پائیں اور دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکے۔ اس گھنائونے کھیل میں ہماری فوج کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔
۴۴ سال پہلے یہ حادثہ رونما ہوا لیکن درد کی ٹیسیں آج بھی پاکستان سے محبت کرنے والے کروڑوں سینوں میں اُٹھ رہی ہیں۔ اس سے بھی اندوہناک المیہ یہ ہے کہ خانہ جنگی کے ہیبت ناک دنوں میں جن لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا اور آج بھی پاکستان کا دم بھرتے ہیں، ان کے ساتھ ہماری ریاست بڑی بے حسی اور انتہائی سرد مہری کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ڈھاکہ میں دو ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی محصور ہیں اور جانوروں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے دنوں احتشام نظامی بنگلا دیش سے ہو کر لاہور آئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں تیسری نسل تعلیم کے بغیر پروان چڑھ رہی ہے جو اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتی ہے جبکہ پاکستان انہیں بہاریوں کا نام دیتا ہے اور اُن سے بالکل لاتعلق ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب جنرل ضیاء الحق اور جناب نواز شریف نے اُن کی واپسی کے لیے اقدامات بھی کیے تھے مگر اُن کا مسئلہ انسانی تاریخ کا سب سے دردناک مسئلہ بن گیا ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے جس کی بدولت حب الوطنی کا جذبہ فروغ پاتا اور وطن کے لیے قربانی دینے کا جذبہ تازہ رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں پچیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین آباد ہیں اور غیرقانونی بنگالیوں کی تعداد بھی دس بیس لاکھ سے کم نہیں۔ ہمیں بنگلادیش میں محصور اپنے پاکستانی بھائیوں کو اپنے ہاں لانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں پاکستان کا پاسپورٹ دے دیا جائے، تو فلاح کے بہت سارے راستے نکل آئیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۱۹؍دسمبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply