
غیر انسان بردار ایئر کرافٹس تیار کرنے میں غیرمعمولی مہارت کی حامل ترک کمپنی زائرون ڈائنامکس جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے جانے والے زیڈ سی کیو ایم ملٹی روٹر منی ڈرونز بھارت کو برآمد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
کچھ ہی دنوں میں زائرون ڈائنامکس پہلا ملٹی روٹر منی ڈرون بھارت کو فراہم کرے گی اور پھر ۲۰۲۲ء کے آخر تک منی ڈرونز اور دیگر متعلقہ ڈلیوریز جاری رکھی جائیں گی۔ انادولو نیوز ایجنسی کا کہنا کہ زائرون ڈائنامکس بھارت کو ۱۰۰؍منی ڈرونز فراہم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
زائرون ڈائنامکس مارچ ۲۰۲۲ء میں بھارت کے ملٹری ٹینڈرز کے لیے منی ڈرونز کی نمائشی پروازوں کا اہتمام کرے گی۔ زائرون ڈائنامکس چاہتی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا (مشرقِ بعید) میں بھی اُس کے لیے گاہک سامنے آئیں۔ زائرون ڈائنامکس نے زیڈ سی کیو ایم پلیٹ فارم کے لیے انٹرنیشنل ملٹری سرٹیفکیشن پروسیس (MIL-STD-810G) مکمل کرلیا ہے۔زائرون ڈائنامکس کے تیار کردہ منی ڈرونز انتہائی گرم، انتہائی سرد اور بارانی ماحول میں بھی عمدگی سے کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ موسمی حالات کے حوالے سے تمام آزمائشی پروازیں مکمل کی جاچکی ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حامل یہ منی ڈرون اب جامع ترین حالت میں ہیں اور متوقع گاہکوں کے سامنے اِس کی نمائشی پروازیں شروع کی جارہی ہیں۔ اس منی ڈرون نے ۲ء۱؍کلومیٹر کی بلندی تک پرواز کرتے ہوئے اپنا ہی ریکارڈ توڑا ہے اور پرواز کا دورانیہ بھی ۱۰؍منٹ کے اضافے سے ۸۰ منٹ کرلیا ہے۔ اس طرز کے ڈرونز بالعموم ۴۰۰ میٹر تک کی بلندی پر پرواز کرسکتے ہیں۔
ترکی میں بھارت کے سفارت خانے نے ۱۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو ایک ٹوئیٹ کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ دفاعی معاملات میں ترکی کے ساتھ بھارت نے ایک نئی ابتدا کی ہے۔ یہ ٹوئیٹ اُن خبروں کے حوالے سے تھا جن میں بتایا گیا تھا کہ ایک بھارتی کمپنی ڈرون تیار کرنے والے ایک ترک ادارے میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ استنبول میں انٹر نیشنل ڈیفنس انڈسٹریز فیئر کے موقع پر ڈی سی ایم شری رام نے زائرون ڈائنامکس سے ایک معاہدہ کیا۔ ڈی سی ایم شری رام نے زائرون ڈائنامکس میں ۳۰ فیصد حصہ حاصل کرنے کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ زائرون ڈائنامکس کے شریک بانی مرات کینبر (Murat Kanber) نے انادولو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ بھارت اور ترکی اس معاہدے کے ذریعے سویلین معاملات میں اعلیٰ درجے کے تعاون کا دائرہ وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ڈرونز خصوصی طور پر ٹرانسپورٹیشن کے لیے بھی بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ زائرون ڈائنامکس اب اپنی پروڈکٹس کو بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک کو فروخت کرے گا۔ بعد ازاں یہ ڈرونز برطانیہ اور آسٹریلیا کو بھی فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔
ڈی سی ایم شری رام کی طرف سے رُدرا شری رام نے کہا کہ یہ شراکت محض سرمایہ کاری تک محدود نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد شہری اور دفاعی مقاصد کے لیے اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کے حامل ڈرونز تیار کرنا ہے۔ ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے ڈی سی ایم شری رام کو زائرون ڈائنامکس میں ۳۰ فیصد حصہ ملے گا جو ۲۵۷۱۵ شیئرز کی شکل میں ہوگا۔ اس حوالے سے بیرونی سرمایہ کاری کے ادارے FEMA کی منظوری لازم ہے۔
معاہدے کی مدت کے دوران زائرون ڈائنامکس بھارتی کمپنی کو ڈرونز کی تیاری کے حوالے سے تکنیکی معاونت بھی فراہم کرے گی۔ دونوں ادارے مل کر دنیا بھر میں اپنی پروڈکٹس کے لیے گاہک تلاش کریں گے۔
زائرون ڈائنامکس چھوٹے روٹر کے ڈرونز تیار کرنے میں غیر معمولی مہارت کی حامل کمپنی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیار کیے جانے والے یہ چھوٹے ڈرون مختلف مقاصد کے لیے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں بڑے کاروباری ادارے اپنے مال کی ڈلیوری کے لیے ڈرون بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے ڈرونز کی طلب میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ زائرون ڈائنامکس اِن ڈرونز کو ویریئیبل والیوم یو اے وی کہتی ہے۔ یہ ایسے ڈرون ہوتے ہیں جو ہیلی کاپٹر کی طرح عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ تو کرتے ہیں مگر پرواز کے دوران اپنے روٹرز کو جھکا بھی سکتے ہیں۔ امریکا کے V-22 Osprey بھی اسی قسم کے ڈرون ہیں۔ یہ ڈرونز ہیلی کاپٹر اور طیارے کی خصوصیات کا سنگم ہیں۔ دونوں کی خصوصیات کو ایک پلیٹ فارم پرلانے سے کارکردگی بہتر بنائی جاسکی ہے۔
امریکی نیوز چینل سی این این کا کہنا ہے کہ ویریئیبل ویلیو یو اے وی ہیلی کاپٹر کی طرح منڈلانے کے ساتھ ساتھ طویل فاصلوں تک جامد پروں والے طیاروں کی طرح سیدھی پرواز بھی کرسکتا ہے۔ یوں یہ ڈرونز کم جگہ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں کام کرنے کے لیے زیادہ جگہ نہ مل سکتی ہو وہاں بھی ان کی کارکردگی بہت اچھی ثابت ہوتی ہے اور دیہی علاقوں میں انہیں کسی اضافی پلیٹ فارم کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
ڈرون ٹیکنالوجی میں امریکا سرِ فہرست رہا ہے۔ دفاعی مقاصد کے لیے تیار کیے جانے والے پری ڈیٹر اور ریپر ڈرونز غیر معمولی کارکردگی کے حامل رہے ہیں۔ یہ دونوں ڈرونز امریکا کے تیار کردہ ہیں۔ اب ڈرون ٹیکنالوجی متعدد ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ ترکی بھی اُن میں سے ایک ہے۔ امریکا سے ڈرونز خریدنا اب بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ یہ پورا معاملہ کانگریس سے گزرتا ہے اور فوج سے بھی گرین سگنل درکار ہوتا ہے۔ بیشتر اقسام کے ڈرونز کی تیاری اور فروخت کا معاملہ اب بھی بہت حد تک امریکی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن ممالک کو ڈرونز درکار ہوتے ہیں وہ یورپ اور ایشیا کے اُن ممالک کا رخ کرتے ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حامل ڈرونز تیار کرنے میں غیر معمولی مہارت کے حامل ہیں۔ بہت سے ممالک نے چین سے جدید ترین خصوصیات کے حامل عسکری ڈرون حاصل کیے ہیں۔ چین کے تیار کردہ یو سی اے وی ڈرون امریکا کے تیار کردہ ریپر ڈرونز کی سی صلاحیت کے تو حامل نہیں، مگر چونکہ اُنہیں خریدنا آسان ہے اس لیے چھوٹے ممالک اپنی ضرورت کے مطابق چین کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ چین اب تک بارہ ممالک کو یہ جدید ترین ڈرونز فروخت کرچکا ہے۔
دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز کی تیاری میں ترکی نیا ہے، مگر اس نے خود کو بہت تیزی سے منوایا ہے۔ گزشتہ برس ترک فوج نے شام اورلیبیا میں ڈرون تعینات کیے۔ لیبیا میں ترکی ٹریپولی میں قائم حکومت کا حامی ہے جبکہ ملک کے مشرقی حصے میں فعال اُس کی مخالف فورسز کو روس، یو اے ای اور مصر کی حمایت و مدد حاصل ہے۔ گزشتہ برس نگورنو کاراباخ میں آرمینیا کی فوج کو شکست دینے میں ترک ڈرونز نے آذر بائیجان کی فورسز کی غیر معمولی حد تک مدد کی تھی۔ ترکی نے دفاعی پیداوار کے معاملات میں بہت حد تک خود کفالت حاصل کرلی ہے۔ اپنی ضرورتیں خود پوری کرنے کی صلاحیت پروان چڑھانے کے بعد اُس نے ڈرونز اور دیگر فوجی ساز و سامان تیار کرنے کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ انقرہ کو دفاعی پیداوار کے معاملے میں چند ایک پابندیوں کا سامنا تھا۔ ایسے میں اُسے دفاعی پیداوار کے حوالے سے خود کفالت کی راہ پر گامزن ہونا ہی پڑا۔ دفاعی پیداوار کے ترک ادارے اب عمدگی سے کام کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک طرف تو ان کا بیرونی اداروں پر انحصار گھٹ گیا ہے اور بعض معاملات میں وہ برآمدی قوت بھی بن گئے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Ankara ready to export drones, UAVs to New Delhi in a ‘New beginning’ for India, Turkey relations”.(“eurasiantimes.com”. Dec.17, 2021)
Leave a Reply