شنگھائی میں اربابِ اختیار استعداد رکھنے والے جوڑوں کو دوسرے بچے کی ضرورت و اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ برسہا برس سے ایک بچے کی پالیسی پر عمل پیرا شنگھائی نوجوان کام کرنے والوں کی کمی کا شکار ہے جو اس کی معمر آبادی کا سہارا بن سکیں۔ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ذمہ داران نے گھر گھر جا کر دوسرے بچے کے خواہش مند جوڑوں کو مالیاتی صلاح مشورے دیئے، جو دراصل آبادی کم کرنے کی ۳۰ سالہ ترجیحی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی ہے۔
شنگھائی کے خاندانی منصوبہ بندی کمیشن کے ژینگ میکزن (Zhang Maixin) کے مطابق ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ شنگھائی کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد دوسرے بچے کے لیے تیار ہوں کیونکہ یہ وہ شہر ہے جس نے بہت پہلے خاندانی منصوبہ بندی پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ اربابِ اختیار نئی پالیسی متعارف نہیں کروا رہے اور ملکی قوانین اسی طرح رہیں گے۔ حکومتی اہلکار اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ چین آبادی میں اضافہ کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا جبکہ اس کی موجودہ آبادی ۳ء۱ بلین سے متجاوز ہے جو ۲۰۳۳ء تک ۵ء۱ بلین تک پہنچ جائے گی۔
چائنا کی ’ایک فیملی ایک بچہ‘ کی پالیسی میں بہت سی استثنائی صورتیں ہیں نسلی اقلیتیں اور وہ جوڑے جو خود اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر شنگھائی میں خاندان مستعدی سے اس خصوصی استثنائی صورت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چائنا اور اس کے جدید شہروں میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی سے یہ بات عیاں ہوئی کہ بچوں پر پابندی ایک مہلک ہتھیار ہے جس کے اثرات ضرورت سے زیادہ ہیں۔
اس سال کے اوائل میں امریکا میں قائم مرکز برائے حکمتِ عملی و عالمی مطالعہ نے چائنا کو متنبہ کیا کہ ۲۰۵۰ء تک ۶۰ سال سے زائد عمر رکھنے والے افراد کی تعداد وہاں ۴۳۸ ملین سے زائد ہو جائے گی۔ جن کو سہارا دینے کے لیے نوجوانوں کی شرح ۶ء۱ فیصد رہ جائے گی جو کہ ۱۹۷۵ء میں ۷ء۷ تھی۔ اس مسئلہ کا فہم خاص طور پر شنگھائی میں ہے جہاں شرح پیدائش ۲۰۰۸ء میں ۸۸ء۰ تھی جبکہ قومی اوسط ۸ء۱ سے بہت کم۔ یہی وجہ ہے کہ اُن (شنگھائی) کی ضرورت یہ ہے کہ شرح پیدائش کو اس سطح پر لایا جائے۔
(بحوالہ: ’’دی گارجین‘‘ لندن)
Leave a Reply