
اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ایشیا میں ہوا کس رُخ کو بہہ رہی ہے تو Hanoi میں آپ کتب فروشی کی دکانوں کا جائزہ لیجیے۔ گزشتہ ہفتہ جب میں وہاں کے دورے پر تھا تو دو اس طرح کی دکانوں پر گیا۔ یہ دکانیں معمول کے موضوعات سے بھری تھیں یعنی Hochi Minh اور جنرل Giap کی تحریروں سے۔ بہت ساری علامات نئے ویتنام کی بھی وہاں تھیں جس کا مطلب وہ کتابیں ہیں جو بزنس اور مینجمنٹ سے متعلق تھیں۔ اس کے علاوہ ہیلری کلنٹن کی یادداشتوں کا بظاہر قانونی ترجمہ تھا۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ جو دوسری چیزیں نمایاں طور سے سامنے رکھی گئی تھیں، وہ چینی رہنما ڈینگ ذیائوپنگ، جیانگ زیمن اور ہوجنتائو کی تقاریر کا مجموعہ تھیں۔ وہاں موجود ایک افسر نے مجھ سے کہا کہ ’’ہم شفاف بصیرت لوگ ہیں۔ چین نے ویتنام پر ایک ہزار برس تک قبضہ کیے رکھا۔ اس نے اس کے بعد سے ۱۳ بار ہم پر جارحیت کی لیکن اس وقت چین کی موجودگی ہمارے لیے اچھی ہے کیونکہ وہ ہمارا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے‘‘۔
اس نے موصوع کی حساسیت کے پیشِ نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی گزارش کی۔ ہنوئی میں جس سے بھی میں نے بات کی، اس نے اس بات سے اتفاق کیا کہ چینی انہیں بہت ہوشیاری سے ہینڈل کرتے ہیں۔ ویتنام پہنچنے سے قبل میں ٹوکیو میں تھا اس دوران چینی وزیراعظم Wen Jiabao بھی وہاں سرکاری دورے پر تھے اور جاپانیوں سے بھی میں نے اسی بات کی تکرار سنی۔ میں نے بڑی ہوشیاری سے ان نکات کو تلاش کیا جو دونوں ممالک کے مابین تنائو کا سبب ہیں اور اس کے برعکس ان نکات کو نمایاں کیا جو مثبت ہیں یعنی ان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی روابط کے نکات۔
گزشتہ سال چین کے حوالے سے نرم قوت (Soft power) کی گفتگو نے زور پکڑا۔ لیکن جو کچھ میں نے گزشتہ ہفتے دیکھا، وہ اس مفہوم میں نرم قوت کا ثبوت نہیں تھا جس کے متعلق ہارورڈ پروفیسر Joseph Nye نے ’’ایک ملک اور اس کی اقدار کی جاذبیت‘‘ کی اصطلاح اختراع کی ہے۔ ایشیا میں کچھ لوگ چینی خواب کے حوالے بہت زیادہ پُراُمید ہیں، اس لیے کہ یہ بہت واضح نہیں ہے کہ آخر یہ ہے کیا۔ اگر کسی حد تک واضح ہے تو وہ یہ کہ یہ امریکی خواب کی مانند ایک صدائے مشکوک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چین کی سخت قوت (Hard power) ہے جو روز افزوں ترقی پر ہے۔ بیجنگ نے اپنی سیاسی و اقتصادی قوت کے استعمال میں بہت مہارت دکھائی ہے یعنی اسے اس بڑے صبر و تحمل کے ساتھ نیز انتہائی موثر انداز میں استعمال کیا ہے۔ چین کی ڈپلومیسی اپنی اصل قوت پر زور دیتی ہے یعنی طویل المیعاد تناظر، غیرواعظانہ رویہ اور اسٹراٹیجک فیصلہ سازی پر جسے اندرونی مخالفت اور افسر شاہی کا جمود متاثر نہ کر سکے۔ مثلاً گزشتہ دہائی میں چین نے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ تاریخی طور پر اپنے کشیدہ تعلقات کو بہت بہتر بنایا ہے۔ اس نے قدرے مصالحانہ سیاسی روش اپنائی ہے۔ اس نے فراخ دلانہ امدادی مراعات فراہم کی ہیں جو امریکی امدادی مراعات سے اکثر بڑی ہوتی ہیں۔ اس نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک (ASEAN) کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ جاپان بھی اسی طرح کا معاہدہ کرنا چاہتا تھا لیکن ٹوکیو میں موجود سیاسی دھڑوں اور بیوروکریسی کے دھڑوں کے مابین اختیارات کی کشمکش کے سبب وہ ایسا نہ کر سکا۔ امریکا ASEAN کے ساتھ بات چیت کا آغاز بھی نہیں کر سکا ہے، اس لیے کہ ہم برما سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے۔ اس کا ایک نتیجہ سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ امسال موسمِ گرما میں چین بعض ان ممالک کے ساتھ فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جن میں سے بیشتر امریکا کے برسوں سے اتحادی رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کوئی ایشیا میں چین کی بالادستی سے اطمینان محسوس نہیں کرتا ہے۔ سنگاپور کے زیرک وزیراعظم Lee Hsien Loong جو اس ہفتے واشنگٹن میں ہوں گے، امریکا کو تاکید کرتے ہیں کہ اسے کہیں زیادہ فعال و مصروف ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس خطے میں آپ کے بہت سے دوست ہیں لیکن بہت سے ایشیائی ممالک کا طرزِ فکر یہ ہے کہ چین یہاں دو ہزار برس کے لیے موجود ہو گا‘‘۔ امریکا آج یہاں موجود ہے لیکن یہاں سے بے دخل ہو سکتا ہے اور اگر آپ نے ہماری طرف توجہ دینا بند کر دی تو صرف ہمارے پاس ایک ہی عاشق رہ جاتا ہے، صرف ایک ہی انتخاب رہ جاتا ہے۔ بش انتظامیہ کی ایشیا میں بنیادی پالیسی مبنی بر ذہانت رہی ہے۔ واشنگٹن نے چین کے ساتھ اچھے اور مفید تعلقات برقرار رکھے ہیں جبکہ جاپان، بھارت، آسٹریلیا، سنگاپور اور ویتنام کے ساتھ بھی تعلقات کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن دو مسائل کی وجہ سے یہ تعلق آشوب زدہ ہے۔ اوّل یہ کہ امریکی انتظامیہ عراق میں الجھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایشیا سمیت ہر چیز پائیدار اور اسٹراٹیجک توجہ سے قدرے محروم ہے۔ دوم یہ کہ امریکا ہنوز بیرونی دنیا میں اپنی نیک نامی کی کُلّی تباہی سے دوچار ہے جس کی وجہ سے انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک ایسے اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہیں جو انہیں امریکا نواز ثابت کرتے ہوں۔ جب میں نے وزیراعظم Lee سے دریافت کیا کہ یہ صورتِ حال کس طرح تبدیل ہو گی تو انہوں نے مجھے یاد دہانی کرائی کہ جنوب مشرقی ایشیا کی نصف آبادی مسلمان ہے اور پھر کہا کہ ’’وہ واحد اہم ترین کام جو امریکا اس خطے میں اپنی تصویر درست کرنے کے لیے کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسے اسرائیل فلسطین مسئلے پر زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہو گا اور وہ بھی متوازن انداز میں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ عراق سے بھی زیادہ اہم ہے‘‘۔ سنگاپور کے بااثر اشراف جس کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، نظریاتی نکات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ مثلاً وہ عراق سے متعلق امریکی پالیسی کے حوالے سے معمول کی تیکھی تنقید سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ جب میں نے Lee سے اس کے متعلق پوچھا تو ان کی تشویش بہت سادہ تھی ’’اگر آپ اپنی موجودگی عراق کی وجہ سے کھوتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بہت برا ہو گا‘‘۔ ہماری ایشیا پالیسی کے ساتھ حقیقی مسئلہ بش انتامیہ نہیں ہے بلکہ امریکا کا سیاسی نظام ہے۔ کانگریس تنگ نظری کا شکار اور تحفظاتی موڈ سے دوچار ہے۔ وہ تجارتی معاہدات، بیرونی امداد اور ویتنام جیسے اہم ملک کے ساتھ کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر تعلقات یا مصروفیت کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ہے۔ چھوٹے مسائل، نظریاتی تفکرات اور چھوٹی مگر مضبوط داخلی لابیاں خارجہ پالیسی میں پائیدار و تزویراتی پیش رفت میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس کے لیے بہت کم وقت ہے۔ سنگاپور کے سینئر سیاست داں Lee Kuan Yew کا خیال ہے کہ امریکا اپنی موجودہ مشکلات سے نکلے گا مگر اس وقت جب آپ اپنے خطے کے اطراف پر توجہ دے رہے ہوں گے تو ایشیا کو بالکل ہی مختلف پائیں گے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ: ۳۰ اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply