
عابد رسول خان بھارت کی ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ریاستی سطح پر قائم اقلیتی کمیشن کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے ملک بھر میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے سے متعلق حکومتی کوششوں کے جواب میں ان خیالات کا اظہار موقر روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ سے گفتگو میں کیا۔
تین طلاق اور تعددِ ازواج کے معاملے کو بنیاد بناکر حکومت ایک بار پھر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے نام پر مسلمانوں کے خلاف میدان میں نکل آئی ہے۔ یہ بات بھی بالائے فہم ہے کہ ایک نیا محاذ کھولنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ ذرا سی عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ لاکمیشن نے ۱۶ نکات پر مبنی ایک سوال نامہ تیار کرکے دراصل پورے ملک میں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان محب وطن نہیں ہیں کیونکہ وہ آئین کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ پورے ملک میں صرف مسلمانوں کو تنہا کرنے کی خاطر یہ سوال نامہ تیار کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور وہ مشتعل ہوکر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھیں جو سخت ناپسندیدہ ہو اور ان کے خلاف پائی جانے والی فضا کو مزید مکدّر کردے۔ اگر لاکمیشن کوئی نیا قانون یا سول کوڈ بنانا ہی چاہتا ہے تو لازم ہے کہ اس کا مسوّدہ عوام کے سامنے پیش کرکے رائے طلب کرے۔ چند نکات پر مبنی سوال نامہ تیار کرکے عوام کے سامنے رکھنا اور مسلمانوں کے لیے فضا تیار کرنا کچھ ایسا معاملہ نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ محض ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سوال نامے کا بنیادی مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلمانوں کو ملک سے محبت نہیں اور وہ اس راہ پر چلنے کے لیے کسی طور تیار نہیں، جس پر پورے ملک کے لوگ چل رہے ہیں۔
مرکزی وزرا نے ٹی وی پر نئے سول کوڈ کے حوالے سے بہت کچھ کہنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ غیر منقسم ہندو خاندان ٹیکس کے حوالے سے کتنے فوائد بٹور رہا ہے۔ دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگوں سے رائے نہیں لی گئی۔ ان سے نہیں پوچھا گیا کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر کس حد تک عمل کرنا چاہتے ہیں اور کن حقوق سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں۔ صرف مسلمانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
لا کمیشن نے تمام بھارتی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ تیار کرتے وقت بہت سے نکات اور پہلوؤں کو نظر انداز کردیا۔ بھارت میں ہر ڈیڑھ دو سو کلو میٹر پر ثقافت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اگر ایسا ہی ضروری تھا تو ملک بھر کی ثقافتوں اور روایات کا جائزہ لے کر کم و بیش ۶۰۰ سوالات پر مشتمل سوال نامہ تیار کیا جانا چاہیے تھا۔ محض ۱۶ سوالات کے ذریعے رائے طلب کرنا تو صاف بتاتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا مقصود ہے۔
جو بھی قانون بنانا ہے اُس کا بنیادی مسوّدہ عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے تاکہ وہ اس کے حوالے سے اپنی رائے دیں۔ چند سوالات کا پھندا بناکر مسلمانوں کے گلے میں ڈالنا کسی بھی طور ایسی روش نہیں جسے قبول کرلیا جائے۔ لاکمیشن نے جو سوال نامہ تیار کیا ہے اُس میں سِکھوں کا ذکر ہے نہ اترپردیش کے پہاڑی علاقوں میں آباد کوڈاگو برادری کا تذکرہ جس میں ایک عورت بیک وقت پانچ شوہر رکھ سکتی ہے، اس سوال نامے میں ناگالینڈ کے تذکرے سے بھی گریز کیا گیا ہے، جہاں معمولی سا تحفہ دے کر بیوی تبدیل کی جاسکتی ہے!
حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ لا کمیشن کی طرف سے یکساں سول کوڈ کے معاملے پر جاری کیا جانے والا سوال نامہ محض سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ اترپردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ مودی سرکار صرف یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کچھ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی سرکار مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے کمر کس چکی ہے! انتہا پسند ہندوؤں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والے ہندو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب مسلمانوں کو بھی اپنے مذہبی معاملات یکساں سول کوڈ کے استھان پر قربان کرنا پڑیں گے۔
بات تین طلاق کی ہو یا ایک سے زائد شادیوں کی، مسلمان اپنا ہر مذہبی معاملہ خود طے کریں گے۔ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ملک میں اور بھی تو بہت سے مسائل ہیں۔ ان کے حل کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ بچوں کی شادی ہی کا معاملہ لیجیے۔ کیا ہندوؤں میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج نہیں؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک رکن نے بھی کئی شادیاں کر رکھی ہیں۔ ہر معاملے میں مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے اور ان کے شرعی قوانین پر انگلیاں اٹھانے سے پیشتر اپنے گریبان میں جھانک لینا بھی لازم ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply