
افغانستان میں امریکا کی ذِلّت آمیز شکست کے باوجود پاکستان ہی نہیں، بلکہ دْنیا بھر میں امریکی نمک خوار یا ٹیکنالوجی پرست ’’مشرکین‘‘ اپنے خواب و خیال کی دْنیا میں امریکا کو فاتح قرار دیے بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں نے ’’پری سکول‘‘ کے زمانے سے امریکی اور یورپی تہذیب و ثقافت کو اوڑھنا شروع کیا تھا اور عمر کے ساتھ ساتھ مغربی طرزِ زندگی کے ہر بْت کو تعریفی نگاہوں سے دیکھا تھا، ایسے لوگوں کے سامنے امریکا اور اس کی ٹیکنالوجی کا ’’بْت‘‘ دھڑام سے گر کر کرچی کرچی بھی کیوں نہ ہو جائے وہ اس میں اس کی کوئی نہ کوئی توجیہہ ضرور نکال لیتے ہیں۔ کابل میں طالبان کے فاتحانہ داخلے کے دن، میرے ملک کا یہ نمک خوار امریکی نواز طبقہ یہ راگ الاپ رہا تھا کہ امریکا نے تو افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر لیے تھے، وہ اْسامہ بن لادن کے پیچھے آیا تھا اسے ’’شہید‘‘ کر دیا گیا، اور ساتھ ہی وہ القاعدہ کے خاتمے کے لیے آیا تھا، اور اس نے القاعدہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب تو اس نے جانا ہی تھا۔ چلا گیا۔ پاکستان میں اس طرح بے پَر کی اْڑانے اور حقائق سے ماورا گفتگو کرنے والے یونیورسٹیوں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے جمگھٹوں میں آپ کو بے شمار ملیں گے۔ ان میں سے چند ایک پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر اینکر اینکر بھی کھیلتے/کھیلتی ہیں۔ کوئی ان ’’عقلمندوں‘‘ سے پوچھے کہ اْسامہ بن لادن کو تو ۲ مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد امریکا تقریباً دس سال تین ماہ وہاں رہا۔ یہ تقریباً ۳۷۴۰ دن بنتے ہیں۔ امریکا نے اس بیس سالہ جنگ میں روزانہ اوسطاً ۳۰۰ ملین یعنی ۳۰ کروڑ ڈالر ’’بے مقصد‘‘ خرچ کیے ہیں۔ اس حساب سے اس ’’عقلمند‘‘ ملک امریکا نے اْسامہ بن لادن کو مارنے کا ہدف پورا ہونے کے بعد بھی ایک لاکھ ۱۲؍ہزار دو سو کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔ شاید اسے بموں کی پھلجھڑیاں اچھی لگتی تھیں یا گولوں کی آتش بازی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ وہ اتنے دن افغانستان میں رہا، اتنی خطیر رقم جنگ میں جھونکتا رہا۔ امریکی پینٹاگون، سی آئی اے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اس فیصلے پر امریکی کانگرس بھی چْپ بیٹھی رہی اور اْسامہ بن لادن کی موت اور القاعدہ کی کمر توڑنے کے باوجود افغانستان میں سرمایہ برباد کرنے کی منظوری دیتی رہی۔ اس جنگ کی ایک خوفناک حقیقت ایسی ہے جو امریکی اور عالمی عسکری اتحاد کے منہ پر صدیوں تک کالک کی طرح چسپاں رہے گی، اور وہ یہ کہ جس افغانستان میں اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکا اور نیٹو اس لیے داخل ہوئے تھے کہ ہم اس سرزمین کو القاعدہ سے پاک کریں گے تاکہ وہ اسے امریکا کے خلاف استعمال نہ کر سکے، وہ امریکی جاتے ہوئے ایسا کچھ نہ کر سکے اور انہوں نے اسکی ضمانت طالبان سے لی کہ وہ اپنی سرزمین کو امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
یہ ’’عالی دماغ‘‘ امریکا پرست دانشور ایک اور منطق بھی جھاڑتے ہیں کہ دیکھو اس جنگ میں امریکا کا کیا بگڑا، لیکن افغانوں نے امریکا سے لڑ کر اپنا ملک تباہ کروا لیا۔ یہ امریکا پرستی کی انتہا ہے۔ امریکی بْت کو پرستش کی نگاہوں سے دیکھنے والوں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ یہ بْت بالکل کھوکھلا ہو چکا ہے اور ایک دن اپنے قدموں میں ویسے ہی گر جائے گا جیسے ۱۹۹۲ء میں دوسری بڑی عالمی قوت ’’سوویت یونین‘‘ گری تھی۔ جس امریکا میں ۲۰۰۵ء سے لے کر اب تک سپاہیوں میں خود کشی کی رفتار اتنی بڑھ چکی ہو کہ اوسطاً ایسے ۲۲ فوجی روزانہ خود کشی کرتے ہوں جو افغانستان اور عراق کی جنگوں سے واپس لوٹے تھے اور جس ملک کے فوجیوں میں جنگ کی دہشت سے پیدا ہونے والے پاگل پن جسے PTSD کہتے ہیں کا شکار پانچ لاکھ سے زیادہ ہو چکے ہوں اور ان پانچ لاکھ پاگلوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اب امریکی نظامِ صحت پر آن پڑی ہو کیونکہ امریکی معاشرہ اپنے پاگلوں کو گھروں میں نہیں رکھتا۔ محبت سے سرشار گرل فرینڈ بھی ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے محبوب کو نفسیاتی وارڈ میں چھوڑ جاتی ہے۔ جنگ کی یہ قیمت صرف انسانی المیے کی حد تک ہے، جبکہ معیشت دان جس تباہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ اس قدر خوفناک ہے کہ ان کے مطابق امریکا پر ایسا وقت جلد آئے گا کہ صرف پیسے کی ہوس میں ڈوبی ہوئی اسلحہ سازی فیکٹریاں ہی خوشحال رہ جائیں، باقی امریکی عوام بدترین افلاس کا شکار ہو جائیں گے۔ افغانستان میں ذِلت آمیز شکست کے بعد جس معاشی زوال کا امریکا کو سامنا ہے اس کا حل بہت خوفناک اور ظالمانہ تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس کو “Military Keynesianism” کہتے ہیں، یعنی ایک ایسی معاشی پالیسی جس کے تحت حکومت اپنی فوجی، عسکری اور اسلحہ جاتی اخراجات کو بڑھاتی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں معاشی ترقی آتی ہے۔ یہ دراصل قدیم معاشی ماڈل ہے جو کینز (Keynese) نے دیا تھا کہ ’’صنعتی ترقی کا ایک رس ٹپکنے (Trickle Down) والا اثر ہوتا ہے‘‘۔ یعنی جب سرمایہ دار کا پیالہ بھر جاتا ہے تو دولت اس کے کناروں سے چھلکنے لگتی ہے اور یوں غریب آدمی بھی مستفید ہوتا ہے۔ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں جنہوں نے افغانستان کی جنگ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کمایا ہے، وہ اب اپنے پالتو سیاست دانوں اور زیرِ اثر تھنک ٹینکوںکے ذریعے یہ تصور عام کر رہی ہیں، کہ اگر امریکا نے جنگ کرنا چھوڑ دیا تو امریکی معیشت بالکل بیٹھ جائے گی۔ اسلحہ ساز فیکٹریاں دن رات چلتی ہیں تو کروڑوں لوگوں کو رزق فراہم کرتی ہیں اور امریکی حکومت کی جھولی ٹیکسوں سے بھر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے افغانستان سے نکلنے سے کئی ماہ پہلے ہی اپنا اگلا میدانِ جنگ منتخب کر لیا تھا اور پینٹاگون کی نومبر میں آنے والی انڈوپیسفک حکمتِ عملی میں بتا دیا گیا تھا کہ اگلا میدانِ جنگ، چین کو اس کی حد میں رکھنے کے لیے منتخب ہوا ہے۔ لیکن آسٹریلیا کے سٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ (ASPI) نے جب چین بھارت مناقشے پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ بھارت پر مکمل بھروسہ امریکا کے لیے بہت بڑی خود کشی ہو گی اور چین امریکا سے خطے کی یہ جنگ توقع سے بھی کم وقت میں جیت جائے گا۔
ایسے میں اسلحہ ساز فیکٹریوں کا پیٹ بھرنے اور امریکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے متبادل میدانِ جنگ کا انتخاب ہو رہا ہے۔ بعض کے نزدیک انتخاب ہو چکا ہے اور وہ میدانِ جنگ پاکستان، افغانستان اور ایران تینوں ہیں۔ امریکی انتظامیہ کا اہم ترین مشیر، سابق ڈائریکٹر سی آئی اے اور سابق وزیر دفاع لیون پینٹا (Leon Panetta) امریکا کو مدتوں سے اس بات کا قائل کر رہا تھا کہ امریکا کو دْنیا بھر کے سمندروں پر مکمل اقتدار حاصل کرنا چاہیے۔ یہ شخص اْسامہ بن لادن آپریشن کا انچارج تھا۔ اس شخص نے گذشتہ دنوں وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہونے والی ہے۔ لیون پینٹا نے کہا ہے کہ اب اگر افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوئی، جس کے امکانات بہت ہیں تو ہمارے پاس اسے روکنے کے لیے کوئی پڑوسی ملک ایسا نہیں ہو گا جو ہمیں اڈے دے، یوں ہمیں بہت دْور سمندر سے حملہ آور ہونا پڑے گا۔ لیون پینٹا نے کہا ہے کہ القاعدہ اگلے تین سے چھ ماہ میں اس قدر طاقتور ہو سکتی ہے کہ وہ امریکا پر ایک نائن الیون جیسا بڑا حملہ کر دے۔ ایسے حملے کی صورت میں افغانستان، ایران اور پاکستان ہمارے لیے یہ تینوں ملک دْشمن سرزمین ہوں گے۔ پاکستان خود اپنے ملک میں موجود طالبان سے خوفزدہ ہو گا اور ایران ہمارا دْشمن ہے۔ ایسے میں ہم ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والی جنگ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ ہرگز ایک تجزیہ نہیں لگتا ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی لگتی ہے۔ اسلحہ سازوں کی کمائی کے لیے جنگ کے میدان بنانے کی دوڑ ہے اور اس دوڑ میں سب بڑی عالمی طاقتیں شریک ہیں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۲۲ اکتوبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply