
بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات آج بھی موجود ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیشی فوج میں، جو کم و بیش پاکستان سے علیحدگی کی جنگ کے زمانے سے پائے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بھارتی اسپانسرڈ تھنک ٹینک مولانا ابوالکلام آزاد انسٹیٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیز (MAKAIAS) کے چیئرمین سیتارام شرما نے بنگلہ دیش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے تحت ڈھاکا میں منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کا موضوع ’’بنگلہ دیش بھارت تعلقات پر عصرِ حاضر کے خیالات: چیلنجز اور مواقع‘‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو ایک دشمن چاہیے ہوتا ہے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد بھارت نے بنگلہ دیش کے حوالے سے مغربی پاکستان کو یہ کردار دیا، لیکن بنگلہ دیش میں ہر پریشان کن واقعہ کے پیچھے بھارتی ہاتھ تلاش کرنے کا قدرتی رجحان موجود ہے۔ سیتا رام شرما کا کہنا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش میں جمہوری حکومت کو ترجیح دیتا ہے، کیوں کہ وہ اسے کم بھارت مخالف سمجھتا ہے۔
MAKAIAS کے چیئرمین کی گفتگو کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے سابق سفارت کار محسن علی خان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارت مخالف جذبات نہیں رکھتے بلکہ وہ بھارت سے مایوس اور ناراض ہیں، کیوں کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عوامی سطح پر یہ کہنے کے با وجود، کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات چاہتی ہے، بھارت ڈھاکا کے ساتھ غیر حل شدہ معاملات کے حل میں ناکام رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے سابق سیکرٹری خارجہ فاروق سبحان کا کہنا تھا کہ ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۵ء کے دوران جب وہ نئی دہلی میں ہائی کمشنر تھے تو بھارت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلہ پر مستقل شور مچایا جاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت اور ماہرین کا دعویٰ تھا کہ بھارت میں ۲ کروڑ غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں۔ میں سوال کرتا ہوں کہ برائے مہربانی ہمیں بتایا جائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں؟ فاروق سبحان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ تو ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء، جبکہ کچھ لوگ ۱۹۷۵ء میں بھارت منتقل ہوئے، لیکن غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعریف کیا ہے؟ سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ بنگلہ زبان بولنے والے ۸ کروڑ افراد مغربی بنگال یعنی بھارتی بنگال میں رہتے ہیں، جبکہ بنگلہ بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی رہتی ہے۔ یہ لوگ مغربی بنگال سے ہیں یا بنگلہ دیش سے، یہ بات ہم کیسے ثابت کریں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلہ کو اٹھایا اور ۲۶ مئی کو اقتدار حاصل کرنے کے بعد غیر قانونی تارکینِ وطن کو بنگلہ دیش واپس بھیج دینے کی دھمکی دی۔ فاروق سبحان کا کہنا تھا کہ انہیں دونوں ممالک کے درمیان سفر کے لیے ویزے کی ضرورت سمجھ نہیں آتی۔ جہاں تک شورش پسندوں اور دہشت گردوں کا تعلق ہے، تو کیا وہ لوگ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے ویزا حاصل کر کے سرحد پار کرتے ہیں؟ بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی تعاون کے بغیر اُن علاقوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سفیر محمد ضمیر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کسی مشترکہ دریا سے پانی نہیں نکال سکتا۔ محمد ضمیر کا کہنا تھا کہ بھارت ایک عرصہ سے مشترکہ دریاؤں کا پانی نکال کر زراعت اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور بنگلہ دیش کو اُس کے حق سے محروم کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کل ۵۴ دریاؤں کے پانی میں شراکت دار ہے، جن میں سے ۵۲ پر بنگلہ دیش اور بھارت کا مشترکہ حق ہے۔ سرحدی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ سرحد پر کسی بھی فرد کو قتل کرنا بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
“‘Anti-Indian feelings exist in Bangladesh’”. (“Dhaka Tribune” Bangladesh. August 19,2014)
Leave a Reply