عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے خطے کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے انتہائی خطرناک کردار اپنا رکھا ہے۔ ان کی پالیسیوں کا عدم توازن پورے خطے کو ایک بار پھر شدید عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے۔ ان کی بیشتر پالیسیاں عراق کی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ نوری المالکی نے سیکورٹی سے متعلق تمام اداروں پر اپنا تسلط کچھ اس طرح قائم کیا ہے کہ اب کوئی بھی معاملہ ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ طاقت کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب فوج میں نوری المالکی کے وفاداروں ہی کو اہم عہدے مل سکتے ہیں۔ سیکورٹی کے تمام اداروں میں اہم منصب ان کے اعتماد پر پورے اترنے والوں کو حاصل ہیں۔ نوری المالکی نے وزارت داخلہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں پولیس بھی براہِ راست انہی کے کنٹرول میں ہے۔
نوری المالکی نے دیالہ جیسے صوبوں میں پولیس فورس کے خصوصی دستے تعینات کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ جو عراقی حکومت کی مخالف عراقی نیشنل موومنٹ کا مضبوط گڑھ ہے۔ دیالہ میں سیکورٹی فورسز کے جو یونٹ تعینات ہیں ان کے کمانڈر نوری المالکی کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو سیکورٹی کے اداروں کو کنٹرول کرتا ہے وہ ملک کو بھی کنٹرول کرسکتا ہے۔
عراقی حکومت کا مجموعی رویہ ترکی کے لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے۔ ترکی نہیں چاہتا کہ عراق میں کوئی بھی ایسی سیاسی مہم جوئی کی جائے جس کے نتیجے میں سنی آبادی کے مفادات کو نقصان پہنچے۔
خطے کے بیشتر ممالک اور بالخصوص عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بھی ترکی پریشان اور ناخوش ہے۔ گزشتہ سال عرب ممالک میں ابھرنے والی عوامی بیداری کی لہر سے ایران نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع تر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس نے اپنی سرگرمیاں بڑھادی ہیں۔ ایران نے شام میں ترکی کے کردار کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ شام میں بشارالاسد انتظامیہ کو برقرار رکھنے میں ایران کے کردار سے خطے کے بیشتر ممالک خوش نہیں۔ اب عراق میں ایرانی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ترکی خاص طور پر تشویش میں مبتلا ہے۔ ترک وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے بھی برملا کہا ہے کہ ترکی اور ایران کئی معاملات میں آمنے سامنے ہیں۔ مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ شام اور عراق اس کی واضح مثالیں ہیں۔
شام، عراق اور دیگر علاقائی ممالک میں شیعہ سیاست کے تحرک کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ایران خطے میں ہر شیعہ تنظیم اور ملیشیا بشمول نور المالکی سے اشتراکِ عمل اور اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ واضح سنی اکثریت کے حامل شام میں علاوی فرقے کے پیرو بشار الاسد کی حکومت کو برقرار رکھنے میں بھی ایران نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سیکولر یا مذہبی حوالے سے اختلافات رکھنے کے باوجود ایران کی حکومت خطے میں تمام شیعہ گروپوں سے اپنے تعلقات بہتر بنائے رکھتی ہے اور مجموعی شیعہ مفاد کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔
خطے کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی انقرہ کے لیے خاصی حیرت انگیز ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے عراق کے صدر نورالمالکی کو ’’جمہوریت میں امریکا کا شراکت دار‘‘ قرار دے کر یہ عندیہ دے دیا ہے کہ وہ خطے میں نئے شیعہ پارٹنرز کی تلاش میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکا اب ایران کے اثرات کم کرنے کے لیے شیعہ پارٹنر تلاش کر ہی رہا ہے تو مالکی ہی کیوں؟ اگر امریکا کو عراق میں اپنے مفادات محفوظ کرنا ہیں تو سیکولر عیاض علاوی جیسے لوگ زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ شاید مالکی کے ذریعے امریکی حکومت ایران تک پہنچنے کا راستہ بنانا چاہتی ہے۔ یا شاید نئے شیعہ پارٹنر تلاش کر رہی ہے تاکہ ایران کو ایک خاص حد تک رکھا جاسکے۔ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات ہیں اور یہ حقیقت خطے میں ایران کے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے میں مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے۔
اگر اوباما انتظامیہ نوری المالکی سے ہم آہنگی بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے تو ترک حکومت بھی عراق میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ترک قیادت کے کردوں سے تعلقات کی بہت اہمیت ہے۔ اگر واشنگٹن نوری المالکی کو گلے لگا سکتا ہے تو انقرہ بھی کرد رہنما اربل کو گلے لگانے میں کوئی باک یا جھجھک محسوس نہیں کرے گا۔ ویسے واشنگٹن اور نوری المالکی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر انقرہ خاموشی اختیار کرے گا تو اس کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔ عراق کے شیعہ گروپوں میں ترک اثرات برائے نام ہیں۔ سنی اور کرد علاقوں میں ترکی کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ترکی اپنی طاقت تیزی سے بڑھاسکتا ہے۔
عراق اور خطے کے دیگر ممالک کے حوالے سے امریکا نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ اس کے لیے شدید نقصان کا باعث بنے گی۔ تمام شیعہ گروپوں کو ہم نوا بنانا تو خیر امریکا کے لیے ممکن ہی نہیں، ایک طرف جھک کر امریکا پورے خطے کے سنیوں کو ضرور اپنے سے متنفر کردے گا۔ اور اس کے نتیجے میں پورے خطے میں امریکی مفادات داؤ پر لگ جائیں گے۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۲۲ جنوری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply