
سال ۲۰۰۶ء مصری صدر کے قتل کی ۲۵ویں برسی کا سال ہے۔ اس خونی واقعہ کی تاریخ ۶ اکتوبر ہونے کی وجہ سے یہ دوہری برسی کا موقع ہے۔ یہ دوسرا واقعہ ۱۹۷۳ء کا ہے جبکہ مصر نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ یہ واقعہ Yom Kippur جنگ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ بھی کسی حد تک مضحکہ خیز ہے کہ جہاں اس جنگ نے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں‘ عربوں اور مصریوں کی نظروں میں سادات کو ہیرو بنا دیا تھا‘ انہی میں سے بہت سے لوگ سادات کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے۔ دس سال کے مختصر عرصے میں صورت حال کا تبدیل ہو جانا بہت نمایاں تھا اور ڈرامائی بھی۔
اس مدت میں سادات کی پالیسی سے مرتب ہونے والے اثرات کو آج تک محسوس کیا جارہا ہے۔ مصر کے تیسرے صدر انور سادات کا تعلق ایک شریف خاندان سے تھا جو کہ نصف سوڈانی اور نصف مصری تھے۔ انور سادات اپنے والد کی ۱۳ اولاد میں سے ایک تھے۔ سادات کے والد ایک فوجی ہسپتال میں کلرک تھے۔ سادات کی قسمت کا ستارہ ملٹری اکیڈمی میں اس کے داخلے کے ساتھ ہی بلند ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد ان کی جہاں پوسٹنگ ہوئی وہاں ان کی ملاقات جمال عبدالناصر سے ہوئی۔ سادات کی ناصر کے ساتھ ہم کاری بالآخر سادات کو نائب صدر کے منصب تک لے گئی۔ پھر ۱۹۷۰ء میں موخرالذکر کے انتقال کے بعد انور سادات صدر بن گئے۔ جمال عبدالناصر کی حکومت جیسی بھی رہی ہو مگر اہم واقعات سے خالی تھی۔ ناصر کی شخصیت میں جو ذاتی کشش اور جاذبیت تھی‘ اس نے اسے ایک فطری رہنما بنا دیا تھا۔ ناصر کی جانب سے ۱۹۵۶ء میں نہرِ سوئز کا قومیایا جانا اور پھر اس پر دوبارہ قبضہ جمانے کی اسرائیلی و یورپی کوششوں کو ناکام بنا دینا‘ وہ کامیابی تھی جس کے سبب ناصر کو ہیرو کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ بین الاقوامی سطح پر ناصر نے مصر کو سویت یونین اور غیرجانبدار ممالک کی تحریک (NAM) سے قریب کر دیا۔ اپنے ملک میں اس نے سوشلزم اور سیکولرزم پر عمل کیا۔ بالآخر ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر کو بہت ہی بھیانک نقصان سے دوچار کیا جو بہرحال جمال عبدالناصر کا ورثہ گردانا جاتا ہے۔ سادات کو ورثے میں ایک ایسا مصر ملا جسے اسرائیل نے اپنی قوت سے بُری طرح پامال کر دیا تھا لیکن نہرِ سوئز اب بھی مصر کے کنٹرول میں تھا جبکہ جزیرۂ سینائی اس کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ مصر ہر طرح سے ایک ذلت خوردہ ملک تھا۔ سوشلزم تمام لوگوں کو اقتصادی خوشحالی سے ہم کنار کرنے میں ناکام ہو چکا تھا اور مسلط کردہ سیکولرزم کو قدامت پرست عوام کی مزاحمت کا سامنا تھا۔ سادات کی کوشش تھی کہ ملک کو یکسوئی کے ساتھ ایک دوسری سمت میں لے جایا جائے۔ اس نے کیپٹلزم کے حق میں سوشلزم پر ضرب لگائی۔ اس نے سیکولرزم کو ترک کر دیااور اسلام پسندوں کو مثلاً اخوان المسلمون کو رام کرنے کی کوشش کی تاکہ اس طرح اسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ بیرونی سطح پر مصر کی جانب سے فوجی امداد کی درخواست کو ماسکو کا قبول نہ کرنا سبب بنا کہ مصر کمیونسٹ سپرپاور سے اپنا منہ پھیر لے۔ جیسا کہ ناصر کے ساتھ ہوا‘ سادات کے لیے بھی بہرحال اسرائیل کے ساتھ جنگ ہی وہ چیز تھی جو اسے پورے مصر بلکہ پوری عرب دنیا یا مسلم دنیا میں مقبول اور ممدوح بنا سکتی تھی۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سادات نے اسرائیل کو امن معاہدے کی کھلی پیشکش کی‘ اس شرط پر کہ اسرائیل اسے سینائی کا علاقہ واپس کر دے۔ جب اسرائیل نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا تو اس نے اسے بزور واپس لینے کی کوشش کی۔ ۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو مصر نے بہت جرأت کے ساتھ ایک موثر حملہ سینائی میں موجود اسرائیلی فوجیوں پر کیا۔ اس حملے میں اسرائیلی فوج پسپا ہونے پر مجبور ہوئی اور مصر نے اس جزیرہ کے بعض حصوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اسرائیلی دوبارہ اپنی قوت کو بحال کرنے اور دوبارہ کچھ علاقوں کو قبضے میں لینے کی کوشش کرتے کہ جنگ بندی کی تجویز سامنے آگئی جس پر دونوں ملکوں نے اتفاق کر لیا لیکن ابتدائی اقدام سادات کو ہیرو بنا دینے کے لیے کافی تھے۔ تین جنگیں اسرائیل سے بری طرح ہارنے کے بعد عرب دنیا میں یہ عام تاثر پایا جانے لگا تھا کہ اسرائیل ناقابلِ شکست ہے۔ ۱۹۷۳ء کی جنگ نے اس تاثر کو ختم کیا اور لوگوں کو باور کرایا کہ اسرائیل کو شکست دی جاسکتی ہے۔ مصریوں‘ عربوں اور مسلمانوں کو سادات کی اس کامیابی کے سبب مایوسی اور خوف سے نجات ملی اور انہوں نے امید اور حوصلہ پکڑا۔ اس جنگ کے باعث ان کی ذلت افتخار میں تبدیل ہو گئی۔ لہٰذا ۱۹۷۳ء جنگ کی فتح کا دائرہ فوجی کامیابیوں اور زمینی فتوحات سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
چند برسوں میں سادات نے بہرحال اپنا آہنگ بدل دیا۔ داخلی طور پر اقتصادی مشکلات‘ بے چینی اور فسادات سے دوچار ہونے کے سبب سادات کی نظر اسرائیل کے ساتھ امن کی طرف گئی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد کو اس نے اپنی مشکلات کا حل خیال کیا۔ یہ اس لیے بھی مفید تھا کہ مصر کی داخلی صورتحال پر جو بین الاقوامی تشویش پائی جاتی تھی‘ اس کو مصری حکومت کے امن اقدام کی مضبوط حمایت میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ سویت یونین کے ساتھ مصر کے معاہدۂ دوستی کا خاتمہ امریکا اسرائیل کیمپ کی جانب سادات کی پیش رفت کا پیش خیمہ تھا۔ ۱۹۷۷ء میں سادات نے یہ اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کرنے کے لیے تیار ہیں اگر یہ عمل قیامِ امن کے لیے فائندہ مند ہو۔ میناخیم بیگن نے سادات کو ایسا کرنے کی دعوت دے دی اور نومبر ۱۹۷۷ء میں سادات نے پہلے عرب رہنما کے طور پر اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کر کے ایک تاریخ رقم کی۔ اس کے بعد ہی سے امن کے لیے فضا تیزی سے سازگار ہوتی گئی۔ ۱۹۷۸ء میں سادات‘ بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر متفق ہو گئے اور ۱۹۷۹ء میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ اس تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیا اور یوں صیہونی ریاست کو اس نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ امن کے اس اقدام سے سادات کو مغرب میں بے حد پذیرائی ملی اور بیگن کے ساتھ اسے بھی امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس کے نتیجے میں مصرکو سینائی کا علاقہ واپس مل گیا اور ساتھ ہی مصر کے لیے امریکا کی فوجی و دیگر نوعیت کی کثیر امداد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ ۱۹۷۹ء و ۲۰۰۳ء کے دوران مصر اسرائیل کے بعد امریکا سے سب سے زیادہ فوجی امداد وصول کرنے والا ملک تھا۔ مسلم دنیا میں ردِ عمل بہرحال قدرے مختلف نہیں تھا۔ سادات کے اقدام کو عرب دنیا سے مکمل غداری کے طور پر دیکھا گیا‘ خاص طور پر فلسطینی عوام سے۔ سادات نے ایک ایسے ملک کو تسلیم کر لیا تھا جو فلسطینیوں کا زمین ہتھیا کر بنایا گیا تھا۔ اس نے ایسے ملک سے امن معاہدہ کیا تھا جو لاکھوں عرب باشندوں کے قتل کا ذمہ دار تھا اور جس نے لاکھوں کو پناہ گزیں کیمپوں میں دھکیل کر دیا تھا۔ امن معاہدے پر دستخط کر کے سادات نے بالواسطہ طریقے سے اسرائیل کے ظالمانہ اقدام کو جائز قرار دیا تھا۔ مزید یہ کہ اس نے ناصر کے متحدہ عرب محاذ کے تصور کی نفی کر دی تھی‘ اس یکطرفہ مذاکرات اور معاہدے کے ذریعہ۔ امریکا نے مصر کو تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وجہ سے نواز دیا لیکن دوسرے عرب ممالک بے یار و مددگار چھوڑ دیے گئے۔ مغربی فوجی قوت کے بغیر وہ اپنے اندر اتنی قوت نہیں پاتے تھے کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کو رعایت دینے کے لیے دبائو ڈال سکیں۔ یہ حقیقت کہ سادات نے صرف مصر کے لیے رعایتیں وصول کیں جن میں جزیرۂ سینائی کا حصول قابلِ ذکر ہے اور فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘ بھی لوگوں کے غضب کو بھڑکانے کا سبب بنی۔ عرب لیگ نے مصر کو تنظیم کی رکنیت سے خارج کر کے اور اس کے دفتر کو قاہرہ سے تیونس لے جا کر اسی ناراضی کا اظہار کیا (مصر کو اس تنظیم میں ۱۹۸۹ء تک داخلے کی اجازت نہیں دی گئی)۔ اگر سادات نے یہ امید کی تھی کہ امن کے ذریعہ اس کے داخلی مسائل حل ہو جائیں گے تو ان کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ حکومتی ریفرنڈم کے باوجود جو امن معاہدے کے حق میں ۵ء۹۹ فیصد حمایت ظاہر کر رہا تھا‘ حقیقت یہ تھی کہ زیادہ تر مصری باشندے اپنے دوسرے عرب اور مسلمان بھائیوں کے جذبات میں شریک تھے اور مزید یہ کہ جن اقتصادی فوائد کا وعدہ کیا گیا تھا‘ بیشتر مصری عوام ان سے محروم رہے۔ سادات نے بدعنوانی کی ثقافت کو فروغ دیا اور نااہل حکومت کی مثال پیش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بیرونی امداد امیروں کے ہاتھ میں چلی گئی اور امارت و غربت میں جب خلیج بڑھی تو بے چینی اور انتشار کو بھی فروغ ملا۔ تمام سیاسی طبقوں اور حتیٰ کہ تمام معاشرتی گروہوں‘ خواہ انکا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے‘ عیسائیوں سے ہو یا اسلام پسندوں سے‘ دانشوروں سے ہو یا صحافیوں سے‘ طلبہ سے ہو یا ملازمین سے یا اس طرح کے دیگر افراد سے‘ کی جانب سے مخالفت شروع ہو گئی۔
سادات ہر طرف سے زِچ ہو گیا پھر اس کا ردِعمل جبر کی صورت میں سامنے آیا۔ ہزارہا افراد کو گرفتار کر لیا گیا‘ انہیں شکنجہ دیا گیا۔ آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی لگا دی گئی اور جعلی ریفرنڈم کا اہتمام کیا گیا تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ حکومت کی حمایت میں عوام کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ستمبر ۱۹۸۱ء میں ۱۶۰۰ لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس کی مذمت بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر ہوئی۔ اس میں کوئی حیرت کی تعمیری بات نہیں کہ اسلام پسند حضرات جن کی سرپرستی سادات اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں کیا کرتا تھا‘ اب سادات کے سخت ترین ناقدوں میں تھے۔ یہ دو سبب سے ناراض تھے ایک یہ کہ سادات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب فلسطینی کاز سے غداری کی تھی اور دوسرے یہ کہ اس نے مصر کے عام باشندوں کی ضروریات سے بے اعتنائی برتی تھی۔
سادات نے گرفتاری اور تشدد میں اخوان المسلمون کو اپنا نشانہ بنایا تھا لیکن عالمِ مایوسی میں اس نے اسلام پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے مصر میں شریعت کے نفاذ کا بھی اعلان کر دیا۔ اس کی حکمتِ عملی کی مکمل ناکامی ۶ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو ظاہر ہو گئی یعنی Yom Kippur جنگ کے سرکاری جشن کے موقع پر۔ جب سادات اپنے حکومتی اہلکار سینئر فوجی افسران اور غیرملکی سفارتکاروں کی جھرمٹ میں فوجی پریڈ کے معائنے کے لیے تشریف لائے‘ سپاہیوں کے ایک گروہ نے گرینیڈ سے صدر پر حملہ کر دیا اور ان پر فائر کھول دیا۔ اُن سپاہیوں میں سے ایک جس کا نام خالد اسلام بولی تھا‘ نے زور سے فرعون مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے سادات کی طرف دوڑا اور اُن پر فائر کھول دیا۔ اس موقع پر ہونے والے مقابلے میں ۷ لوگ ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں کیوبا کے سفیر‘ قبطی پادری اور مصری صدر شامل تھے۔ ۲۸ دیگر لوگ زخمی ہوئے۔ سادات اسلام پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ اسلام بولی کے مقدمے میں ۳۰۰ لوگوں کو ملوث کیا گیا تھا‘ ان میں ایک ڈاکٹر بھی شامل تھا جس کا نام ایمن الظواہری تھا۔ اسلام بولی کو اپریل ۱۹۸۲ء میں پھانسی دے دی گئی۔ الظواہری کو ۱۹۸۴ء میں رہا کر دیا گیا۔ اس نے افغانستان کا سفر کیا اور اسامہ بن لادن اور باقی لوگوں کے ساتھ جا ملا جنہیں وہ اب تاریخ کہتے ہیں۔
ممکن ہے یہ ایک ضمنی نکتہ ہو لیکن عمومی گفتگو سے ہم آہنگ حقیقت ہے کہ سادات نے عوامی مقبولیت کی خاطر ابتدا میں اسلامی گروہوں کی سرپرستی کی اور اس کا احساس کافی تاخیر سے ہوا کہ اس نے جس جن کو بوتل سے باہر نکالا تھا‘ کچھ دوسرے لوگ اس کا دوبارہ استعمال کریں گے۔ مثلاً امریکا نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے لیے مجاہدین کی سرپرستی کی اور صرف ۳۰ سال بعد اسے القاعدہ اور گیارہ ستمبر کا سامنا تھا۔ انور سادات کا جنازہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ ان کے تئیں عوامی جذبات میں قدرے فرق واقع ہو گیا ہے‘ اس وقت کے مقابلے میں جب وہ برسرِ اقتدار آئے تھے۔ سادات کے جنازے میں تین سابق امریکی صدور فورڈ‘ کارٹر اور نکسن موجود تھے۔ صرف ریگن سکیورٹی کے خوف کے سبب شریک نہیں ہوئے تھے۔ امریکا کی طرف سے اتنی مضبوط نمائندگی اس بات کا ثبوت تھی کہ مغرب میں سادات کی قدر و قیمت بہت زیادہ تھی۔ اس کے برعکس عرب مسلم دنیا میں وہ ۱۹۷۳ء کے ہیرو سے نیچے گر کر غدار ہو چکے تھے‘ اس لیے کہ انھوں نے اسرائیل کے ساتھ سودا کر لیا تھا۔ سوڈان کے جعفر نمیری کے سوا کوئی ایک بھی عرب رہنما سادات کے جنازہ میں شریک نہیں ہوا۔ قاہرہ کی سڑکوں پر زندگی ہمیشہ کی طرح معمول پر تھی۔ لوگ عنقریب آنے والی عید کی تیاری میں اس طرح مصروف تھے۔ جیسے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ جنھوں نے ناصر کے پرہجوم جنازہ کو دیکھا تھا‘ وہی لوگ درحقیقت اس فرق کو محسوس کر سکتے تھے۔ عالمِ اسلام کے بیشتر حصوں میں درحقیقت لوگوں نے سادات کی موت پر مٹھائیاں تقسیم کر کے خوشیوں کا اظہار کیا۔ آج ہم جب ۳۵ سال بعد کے مصر پر نظر ڈالتے ہیں تو اب بھی یہاں سادات کی پالیسیوں اور فیصلوں کے اثرات بہت نمایاں معلوم ہوتے ہیں۔ سادات کی جگہ ان کے جانشین نائب صدر حسنی مبارک نے لی۔ وہ ۱۹۸۱ء کے بعد سے اب تک صدارتی انتخاب میں اپنی جیت کو یقینی بنانے میں کامیاب چلے آرہے ہیں اور ربع صدی سے مصر پر مسلسل حکمراں ہیں۔ ان کی کامیابی کی کلید نہ تو عمدہ حکومت ہے اور نہ ہی عوامی حمایت بلکہ سیاسی کنٹرول کا وہ تسلسل اور جبر ہے جس پر سادات عمل پیرا تھے۔ مصری جمہوریت کو ’’انتہائی غلط جمہوریت‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور اگر اس حوالے سے تھوڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا جائے تو اسے فریب کہا جاسکتا ہے۔ سادات کی بائیں بازو اور سوشلزم سے ڈرامائی بے رخی نے ’’ایک متوازی سرمایہ داریت کو جنم دیا جہاں بدعنوانی‘ قیاس آرائی اور دولت کی لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ تھا اور حکومتی اداروں میں جوابدہی کا فقدان تھا‘‘ (ہفت روزہ ’’الاہرام‘‘۔ ۵ تا ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۶)۔ اقتصادی ترقی‘ انتظامیہ اور حکومت سب اسی روش پر گامزن ہیں۔ بدعنوانی وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ امیر امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور عام لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ عوام کی حکومت اور اپوزیشن سیاسی پارٹیوں سے مایوسی اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ اخوان المسلمون کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ اسلام پسند ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں جو لوگ مصر کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر برہم ہیں اور اس ملک کی سماجی و اقتصادی صورتحال سے مایوس ہیں۔ سادات کی طرح مبارک نے بھی اسلام پسندوں اور اخوان المسلمون کو اپنا خاص ہدف بنایا ہوا ہے۔ لاکھوں اسلام پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں مبارک کی شہ پر قید میں رکھا گیا ہے اور انھیں ٹارچر کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ یہ لوگ اسلام پسند ہیں‘ سیکولر سیاسی حریف نہیں ہیں‘ عالمی برادری نے بالخصوص مغرب نے مبارک کے اقدام کی تنقید میں نرمی سے کام لیا ہے۔ اگر مصر کے اندر کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو بہت ہی معمولی آئی ہے۔ پھر یہ سوال آتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا کیا بنا؟ وقت نے سادات کو کیا ثابت کیا ہے؟ ایک بصیرت افروز شخص یا ایک خودپرست غدار یا ایک احمق رہنما؟ جن لوگوں کا جواب یہ ہے کہ سادات بصیرت افروز شخص تھا‘ امن مذاکرات کا حوالہ دیں گے جس پر یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی بھی سوار ہوئے جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک فلسطینی انتظامیہ معرضِ وجود میں آئی جس نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا اور پھر عرفات‘ یزتاک رابن اور شمن پیرز کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اردن مشرقِ وسطیٰ کا ایک دوسرا کھلاڑی ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ سادات کے نقشِ قدم پر اتنے سارے لوگوں کا چلنا ثابت کرتا ہے کہ اس نے یقینا اسرائیل کے ساتھ امن کا فیصلہ درست کیا تھا یا اس کا فیصلہ نادرست تھا؟ اس کے جواب میں جو دلائل پیش کیے جاتی ہیں وہ یہ کہ سادات کے اقدام نے عرب محاذ کو اسرائیل کے خلاف اتنا کمزور کر دیا کہ تل ابیب سے رعایتیں وصول کرنے کے وہ قابل نہیں رہا۔ اس کے بعد ایک ہی عملی صورت رہ گئی تھی کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کریں یا اس کے لیے مذاکرات کریں۔ ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو محدود فائدہ ہوا وہ فلسطینیوں کے لیے ایک مستقل سرزمین کے حصول سے متعلق تھا لیکن یکے بعد دیگرے آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے امن مذاکرات کی ڈھال استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک بہت ہی محدود سرزمین چھوڑی کہ اگر کسی وقت فلسطینیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا گیا تو اسے ہی واپس کیا جائے گا۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز پریشان کُن تھی کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی یہ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ان کے خلاف ہر طرح کے انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد اس کا جواب نہیں ہو سکتا تھا لیکن تجربات ثابت کرتے ہیں کہ صیہونی ریاست کے ساتھ امن معاہدہ بھی اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ اب تک یہ حکمتِ عملی ایک ناکام حکمتِ عملی ثابت ہوئی ہے۔ متحدہ عرب کا تصور اب کبھی جانبر نہیں ہو سکے گا‘ اس ضرب سے جو سادات نے اس پر لگائی۔ پھر بھی کوئی شخص اپنے دفاع میں یہ دلیل دے سکتا ہے کہ اپنے نقطۂ عروج پر بھی عرب اتحاد ایک وقتی عمل تھا‘ ان ممالک کا جو وسیع تر عرب اور فلسطینی کاز کے بجائے اپنے انفرای مفاد ہی کو عزیز اور محبوب رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ جو مقدمہ بن سکتا ہے وہ یہ کہ کُل عرب اتحاد کی کامیابی کا امکان تھا اگرچہ معمولی ہی سہی۔ بہرحال اس کا امکان تو تھا ہی کہ اسرائیل کے خلاف یہ ایک متحدہ موقف اختیار کرتے (ضروری نہیں کہ یہ موقف فوجی‘ سیاسی اور اقتصادی حوالے سے ہوتا) جس کے سبب تیل کی دولت کے پیشِ نظر تل ابیب کو بغاوت اور سرکشی پر مصر ہونے کے بجائے گنجائش نکالنے پر یہ مجبور کر سکتے تھے۔ یہ سادات کا یکطرفہ معاہدہ تھا جس نے اس امکان کو ختم کر دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے پچیس سال بعد بھی مصر کے عوام نے اسرائیل کو قبول نہیں کیا ہے۔ حالیہ لبنان اسرائیل جنگ کے دوران قاہرہ کی سڑکوں پر اسرائیل مخالف مظاہرے اس شدید غم و غصے کو ظاہر کرتے ہیں جو لوگوں میں صیہونی ریاست کے خلاف پایا جاتا ہے۔ سادات کے امن کی روایت خود اس کے اپنے ملک میں باقی نہیں ہے‘ کجا کہ وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں مقبول ہو۔ آیا سادات نے یہ کام اپنی مخلصانہ سوچ کی بنا پر کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا راستہ ہے یا اس نے یہ سوچا تھا کہ اس معاہدے کے ذریعہ مصری عوام کو خوشحال اور ترقی سے ہمکنار کیا جائے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدہ سے دونوں مقاصد میں سے کسی کی بھی تکمیل نہیں ہوئی۔ انور سادات کا ورثہ مصر کے اندر سیاسی جبر اور بدعنوانی کی ثقافت کے کلچر کا عام ہونا ہے اور مصر سے باہر ایک مضبوط اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ میں مسلسل تصادم کی موجودگی ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس کی موت کی برسی کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply