
زمانہ حال تک یہ بات قدرے وثوق سے کہی جا سکتی تھی کہ ایک غیر معروف فرانسیسی دانشور کی کتاب امریکیوں میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی، خاص طور پر سات سو صفحے کی ایک ضخیم کتاب تو بالکل نہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ اِس موسمِ بہار میں ایک ۴۳ سالہ فرانسیسی ماہرِ معاشیات ’’تھامس پیکیٹی‘‘ نے ’’اکیسویں صدی میں سرمایہ‘‘ (Capital in the 21st century) نامی کتاب انگریزی زبان میں شایع کی۔ تھامس پیکیٹی دولت اور عدم مساوات کے موضوع پر مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں گزشتہ چند صدیوں میں مختلف ممالک کے اندر اُبھرنے والے دولت کی تقسیم کے نقشوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکا سمیت تقریباً ہر جگہ عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ پیکیٹی کے تدریسی ناشر کا خیال تھا کہ کتاب کی کاپیاں اوسط تعداد میں ہی فروخت ہو پائیں گی۔ مگر ’’اکیسویں صدی میں سرمایہ‘‘ سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شامل ہوگئی۔ کتاب کی فروخت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے مشہور ڈزنی فلم ’’فروزن‘‘ سے ماخوذ دو ادبی کتابوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جب پیکیٹی اپنی کتاب پر گفتگو کرنے کے لیے ادبی پروگرامات میں آئے تو لوگوں کے ہجوم نے اُن کو اس طرح گھیر لیا کہ امریکی میڈیا نے اُنہیں ’’راک اسٹار‘‘ ماہرِ معاشیات کا لقب دے ڈالا۔
پیکیٹی کی کامیابی اس بات کی چونکا دینے والی نشانی ہے کہ کبھی کبھی معاشرے میں غالب مباحث کس طرح بدل سکتے ہیں۔ یا یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ کس طرح عوامی بحث کے ڈھانچے کو یکلخت تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ وہ خیالات جو کبھی غیر متعلقہ سمجھے جاتے تھے، مرکزی بحث کا حصہ بن گئے۔ ایک دہائی پہلے جن دنوں ’’کریڈٹ بوم‘‘ زوروں پر تھا، بائیں بازو کے سیاسی حلقوں کے باہر عدم مساوات کی بحث زور و شور کے ساتھ خال خال ہی ہوتی تھی۔ لیکن ۲۰۱۴ء میں یہ بحث ہر طرف پھیل گئی۔
جنوری میں جب وَرلڈ اِکنامک فورم نے سوئس شہر ڈیوَس میں اپنا سالانہ اجلاسِ عام کیا تو اُس وقت یہ بات سامنے آئی کہ اس کے ممبران ممالک کے سالانہ سروے کے مطابق، عدم مساوات ۲۰۱۴ء میں دنیا کی معیشت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج تھا۔ عدم مساوات نے بینکنگ بحران اور ماحولیاتی تبدیلی سمیت دیگر تمام موضوعات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ یہ پہلی دفعہ تھا کہ عدم مساوات کو سروے میں شامل کیا گیا۔ اسی دوران ’’پیو ریسرچ سنٹر‘‘ نے ایک سروے شائع کیا، جس کے مطابق دو تہائی امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان موجود تفاوت بڑھ رہا ہے۔ ایک اور رپورٹ جو ستمبر میں شائع ہوئی، یہ بتاتی ہے کہ کم و بیش آدھے امریکیوں کا خیال ہے کہ عدم مساوات ان کے ملک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عدم مساوات کے حوالے سے یہ تشویش ۲۰۰۸ء کے ’’کریڈٹ بوم‘‘ سے پہلے کے مقابلے میں نمایاں حد تک زیادہ ہے۔
پالیسی ساز، عدم مساوات کا بار بار تذکرہ کر رہے ہیں اور اس بحث کو تقویت دے رہے ہیں۔ اکتوبر میں بوسٹن میں ہونے والی کانفرنس میں امریکی فیڈرل ریزرو کی صدر نے کہا کہ ’’امریکا میں عدم مساوات میرے لیے باعثِ تشویش ہے‘‘۔ اس سے پیشتر انہوں نے اپنی گفتگو (Presentation) کا ایک حصہ اسی موضوع پر صَرف کیا تھا۔ ماضی میں مرکزی بنکوں کے گورنروں کے لیے یہ ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا تھا۔ صدر براک اوباما نے بھی اپنی سیاسی تقاریر میں بارہا اس مسئلے کا حوالہ دیا ہے۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی میں موجود بااثر آوازوں نے بھی اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ اگرچہ وہ عدم مساوات کو حکومتی پالیسیوں یا بعض انتظامی ڈھانچوں، جن کی نشاندہی پیکیٹی نے کی ہے، کے بجائے غریب کے کھاتے میں ڈالنے کے عادی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ عدم مساوات کی وجہ غریبوں کا پوری طرح محنت نہ کرنا ہے۔
عالمی ذرائع پریس کے ’’فیکٹ اِیوا‘‘ ڈیٹا بیس کے مطابق ۲۰۱۴ء کی آخری ششماہی میں دنیا بھر میں لفظ عدم مساوات اٹھائیس ہزار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں جب کریڈٹ بوم اپنے عروج پر تھا تو یہ لفظ متفرق مواقع پر صرف تین ہزار مرتبہ سامنے آیا تھا۔
عدم مساوات میں دلچسپی یکایک اتنی بڑھ کیوں گئی ہے؟ ایک سبب تو یہ ہے کہ ٹھوس معاشی حقائق عدم مساوات کو ظاہر کر رہے ہیں۔ حالیہ دہایوں میں آمدنی اور دولت کے درمیان عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرِ معیشت ایمینول سائیز کے مطابق ۱۹۸۰ء میں ایک فیصد امریکی کُل آمدنی کا ’’صرف‘‘ دس فیصد حصہ سمیٹ لیتے تھے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق آج کل یہ تناسب بائیس فیصد کے قریب ہے کیونکہ تنخواہوں میں برابری کم ہو گئی ہے اور دولت مندوں نے سرمائے سے حاصل ہونے والے ثمرات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ تفریق جزوی طور پر کریڈٹ بوم کے دنوں میں عیاں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکیوں نے بڑے پیمانے پر قرضے لیے تھے تاکہ اخراجات برقرار رکھ سکیں اور جمود کا شکار تنخواہوں کے اثر کو برابر کر سکیں۔ کسی حد تک یہ بات دیگر جگہوں مثلاً برطانیہ کے لحاظ سے بھی درست تھی۔
تاہم جب کریڈٹ بوم کا بلبلہ پھٹا، یہ تفریق اپنی پوری تلخ سچائی کے ساتھ سامنے آگئی۔ اس وقت کے بعد سے، ضرورت سے زیادہ آزاد مالیاتی پالیسی کے رجحان نے زخم میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر بینک آف انگلینڈ نے حساب لگایا ہے کہ ۲۰۰۹ء سے اب تک مقداری نرمی (Quantitaive Easing) کے چالیس فیصد ثمرات پانچ فیصد امیر ترین برطانیوں نے حاصل کیے ہیں۔ یقیناً یہ صورتِ حال امریکا میں اگر زیادہ شدید نہیں تو کم و بیش اس سے ملتی جلتی ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں امریکی وفاقی ریزرو میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ تقابلی تحقیق شائع کرتی۔
لیکن محض اعداد و شمار ہی عدم مساوات کے مرکزی بحث کا حصہ بن جانے کی وضاحت نہیں کرتے۔ عدم مساوات کی جانب مائل ہوتی بحث، معاشیات کے فن کو جانچنے کے انداز میں رُونما ہونے والی خاموش تبدیلی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کریڈٹ بوم کے دنوں میں معاشیات کو ایک عددی شعبہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پالیسی کے لحاظ سے اگر کوئی شے واقعی اہمیت رکھتی ہے تو اسے ایک عددی جَدوَل یا حساب و شمار کے کسی قاعدے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ پیداوار یا ترقی سے متعلقہ ہندسے سب سے اہم سمجھے جاتے تھے۔ ایک بڑا جی ڈی پی عدد ہی مقصودِ اوّل تصور کیا جاتا تھا۔
تاہم اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ محض ہندسے ہی اہمیت نہیں رکھتے، ترقی کا معیار اور اس کے ثمرات کی تقسیم بھی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک دنیا جو معاشی معنوں میں نمو پا رہی ہو مگر ایسا انتہائی غیر مساوی انداز میں ہو رہا ہو، اُس دنیا کا رویہ پہلے بنائے گئے خاکوں سے مختلف ہوگا۔ خرچ پر ہی غور کیجیے، جب دولت سے حاصل ہونے والے بیشتر ثمرات امیروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوں گے تو اُن افراد کے خرچ کرنے کا رجحان مڈل کلاس کی خوشحالی سے جنم لینے والے رجحان سے مختلف ہوگا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غریب خاندانوں کے مقابلے میں امیر لوگ اپنی آمدنی کا بہت تھوڑا حصہ خرچ کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، مڈل کلاس گاڑیوں کے مقابلے میں پُرتعیش اشیا کے بل بوتے پر معیشت کے پھیلاؤ کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ محرومین اور مُنعَمین کے درمیان وسیع ہوتی خلیج نئے سیاسی خطرات کو جنم دے رہی ہے، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی دنیا کے سیاسی منظرنامے پر ایک حالیہ عنصر اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں میں آنے والا چڑھاؤ ہے۔ چاہے وہ امریکا کی ٹی پارٹی ہو یا فرانس میں موجود نیشنل فرنٹ یا پھر اسکاٹ لینڈ کی تحریکِ آزادی ہو۔ یہ جماعتیں اور ان کی مقبولیت جن عوامل کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے، ان میں دیگر اسباب کے علاوہ معاشی دباؤ، مقامی شناخت کا ابھرتا ہوا احساس اور سماجی میڈیا کے ذریعے لوگوں کو حاصل ہونے والی بہتر تنظیمی صلاحیت ہے۔ مگر عدم مساوات نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔ جب دولت کی تفریق بڑھتی ہے تو غریبوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ موجودہ نظام کو برقرار رکھنے میں ان کا بھی کوئی مفاد ہے۔ اس کے نتیجے میں مرکزی سیاست دانوں کو معیشت کے لیے عقلمندانہ اور طویل المیعاد متوازن پالیسیاں بنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔
مختصراً یہ کہ آج معاشیات میں صرف اعداد و شمار اہم نہیں ہیں، بلکہ سماجی ہم آہنگی اور بھروسا یا فرسودہ لاطینی انداز میں کہیں تو ’’کریڈٹ‘‘ کے سوالات بھی اہم ہیں۔ روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ ’’نرم‘‘ مسائل معیشت دانوں کے نہیں بلکہ سماجی سائنسدانوں کے دائرہ فکر میں آتے ہیں، لیکن اب یہ بات واضح ہوتی چلی جا رہی ہے کہ معاشی ترقی کے لیے یہ مسائل اہم ہیں۔ لہٰذا یہ قابلِ حیرت نہیں ہے کہ وال اسٹریٹ کے کئی بڑے بینک ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، جو ثقافتی اور سیاسی رجحانات پر رائے دینے میں طاق ہوں۔ اسی طرح ریٹنگ ایجنسیز مثلاً ’’اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز‘‘ (Standard & Poor’s) بھی معاشی اور مالیاتی خدشات کا تجزیہ کرتے ہوئے نئے سرے سے سماجی عوامل پر زور دے رہی ہیں۔
ممکن ہے اس بحث میں نمودار ہونے والا یہ تغیر وقتی ثابت ہو۔ اگر مغربی معیشتیں دوبارہ ترقی پانا شروع کر دیں تو سیاسی خطرے، ہم آہنگی اور کریڈٹ سے متعلق یہ اضطراب چھٹ جائے گا۔ آخرکار اگر روٹی کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہو تو لوگوں کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ روٹی کی تقسیم کیسے ہو رہی ہے، لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔
اس کا سبب جاننے کے لیے کسی ایسے شخص، مثلاً ڈبلیو برائن آرتھر کے کام پر نظر ڈالیے، جنہیں پیکیٹی کے برعکس زیادہ تر ماہرین نہیں جانتے۔ برائن ایک ماہرِ معاشیات ہیں، جو ’’پالو آلٹو ریسرچ سینٹر‘‘ اور ’’سانتا فے انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے وابستہ ہیں۔ یہ معیشت پر ’’ڈیجیٹائیزیشن‘‘ (Digitization) کے اثر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ انہوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ کسی بھی انسانی مداخلت کے بغیر دنیا بھر میں ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے ہونے والے معاشی عمل کو اگر جمع کیا جائے تو وہ جلد ہی پوری امریکی معیشت کے ماحصل کے برابر ہو جائے گا۔ یہ سرگرمی مڈل کلاس نوکریوں کے بڑے حصے کی جگہ لے رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی کے زیادہ تر ثمرات ہنرمند اوربہت زیادہ تنخواہ لینے والی اشرافیہ کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔ یہ رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔
ایک دوسرے انداز میں اس بات کو بیان کریں تو یہ سمجھنے کے لیے کہ ۲۰۱۴ء میں پیکیٹی کی کتاب نے ایسی ہلچل کیوں پیدا کردی، ذرا اس بات پر ہی غور کیجیے کہ یہ کتاب ’’اکیسویں صدی میں سرمایہ‘‘ کس طرح فروخت ہوئی۔ کسی زمانے میں یہ کتاب، کتاب گھروں میں کام کرنے والے دکانداروں کے ہاتھوں فروخت ہوتی تھی، آج اس کے آن لائن فروخت ہونے کا امکان زیادہ ہے اور اس غرض سے گودام میں رکھی گئی کتابوں کی دیکھ بھال کے لیے محض چند معمولی تنخواہ دار ملازمین اور ڈاک کے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اضطراب اب اس نئے دور کا مزاج ہے۔
عدم مساوات کے جن کو اتنی آسانی سے واپس بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ پیکیٹی کی کتاب ایک یاددہانی ہے کہ جس شے کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے اور جس کا خاص طور پر امریکا میں ابھی تک ذکر نہیں کیا جاتا، وہ دولت کی اور زیادہ مساوی تقسیم پر ایک منصفانہ بحث ہے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Anxiety in the age of inequality”.
(“Foreign Policy”. Nov-Dec. 2014)
Leave a Reply