مسلمان ممالک میں اِرتدادِ مذہب

فروری کے اواخر میں ایک بیس سالہ سعودی نوجوان نے جب ٹویٹر پر اپنے ملحد ہونے کا اعلان کیا تو اسے دو ہزار کوڑے اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں سعودی عرب میں قانون پاس کیا گیا جس میں ملحد ہونے کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دیا گیا۔ گزشتہ برس ایک نوجوان نے اپنی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلا دی جس میں وہ قرآن مجید پھاڑ رہا تھا، اس عمل پر سعودی عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی۔

ایک بین الاقوامی این جی او (International humanist and ethical union) کا کہنا ہے کہ سعودیہ اُن اُنیس ممالک میں سے ایک ہے، جہاں مرتد ہونا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اُن بارہ ممالک میں سے ایک ہے، جہاں اس جرم کی سزا موت ہے۔ مؤخر الذکر ممالک میں دو کے علاوہ سب مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کے ممالک ہیں۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو سزائے موت پر عملدرآمد تو کم ہی ہوتا ہے، لیکن مرتد ہونے پر مجرم کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایسے ممالک، جہاں مرتد ہونا غیر قانونی نہیں، وہاں بھی بلاواسطہ ایسے قوانین بنا دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے مذہب تبدیل کرنے پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردن، کویت اور عمان میں اسلامی عدالتیں مرتدین کی شادی منسوخ کر سکتی ہیں اور وراثت میں ملنے والی جائیداد سے بھی محروم کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں مرتد ہونے والے جوڑے کو اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ ان کے بچے ان سے چھین لیے جائیں گے۔

جن ممالک میں مذہب کی تبدیلی پر سزا کے قوانین نہیں ہیں، وہاں ان کی جگہ توہینِ رسالتؑ کا قانون موجود ہے۔ گزشتہ برس مصر کے اکیس سالہ کریم اشرف محمد البناء کو فیس بُک پر اپنے ملحد ہونے کی خبر نشر کرنے پر تین سال قید کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر میں ملحد ہونا جرم نہیں لیکن کریم اشرف کو مذہب کی توہین کرنے کے جرم میں سزا دی گئی۔ توہینِ رسالت کے قوانین کا استعمال پاکستان میں عام ہے۔ ۲۰۱۱ء میں پاکستانی عیسائی خاتون آسیہ کو توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا سنائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ آسیہ کا کچھ مسلمان خواتین سے جھگڑا ہوا، جس دوران اس نے محمدؐ کی توہین کی تھی۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر، جنہوں نے آسیہ بی بی کا دفاع کرتے ہوئے توہینِ رسالت کے قانون پر تنقید کی اور غصہ کا اظہار کیا تو ان کے اپنے ہی سیکورٹی گارڈ نے ان کا قتل کر دیا۔

بہرحال خطے کے سب ممالک اس معاملے میں ایک جیسے نہیں۔ اسلامی ممالک میں باوجود اس کے کہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے کو خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے، الحاد کے متعلق تجسس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گوگل ٹرینڈ کے مطابق لفظ ’’الحاد‘‘ کے بارے میں سب سے زیادہ دلچسپی جن سات ممالک میں دیکھی گئی ہے، وہ سب کے سب مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ہیں۔

ان سب اقدامات کے باوجود ۲۰۱۲ء میں گیلپ انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق برازیلی، افغانیوں کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہیں، آرمینیا کے لوگ عراقیوں سے زیادہ جذباتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکا میں الحادی نظریات کی تائید کرنے والوں کا تناسب ایک جیسا ہی ہے۔

(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)

“Apostasy and Islam: Not advised”.(“The Economist”. March 26, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*