
مشرق وسطیٰ کے بارے میں یہ سوال ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے کہ کیا یہاں جمہوریت کام کر سکتی ہے؟ عمومی طور پر دیکھا جائے تو جواب نفی میں ملتاہے۔لیکن یمن، شام اور لیبیا میں جاری خانہ جنگی، مصر اور سعودی عرب میں آمرانہ طرزِ حکومت کا احیا اور اُردن میں جاری معاشی عدم استحکام کے باوجود کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں جو اس تاثر کو رَد کرتی ہیں۔
پہلی مثال تیونس کی ہے جہاں انقلاب کے بعد مئی کے مہینے میں پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ دوسری مثال عراق اور تیسری مثال لبنان کی ہے جو شاید دنیا کی سب سے زیادہ ناکام ریاست ہے۔ ان تینوں ممالک میں دو قدریں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ ان ممالک میں اسلام پسند جماعتوں نے جمہوری عمل میں حصہ لیا اور دوسری یہ کہ کسی نہ کسی حد تک ان جماعتوں کو اقتدار میں بھی شریک کیا گیا۔
لبنان میں یہ عمل نہ صرف ناقص اور غیر مؤثر رہا بلکہ فرقہ واریت کے فروغ کا سبب بھی بنا۔ پارلیمان کی نشستیں اب بھی مسلکی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ Carnegie Endowment سے تعلق رکھنے والے Joseph Bahout کہتے ہیں کہ اس بحران میں کوئی فاتح بن کر نہیں اُبھرا۔لبنانی مصنف Michael Young کا کہنا ہے کہ اگر چہ ہر مذہبی فرقہ ایک دوسرے سے کٹا ہوا ہے،لیکن آپس میں مل کرکام کرنے سے یہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں گے، جس سے افراد کو نسبتاََ آزادماحول میسر آئے گا۔
لبنان میں حزب اللہ مختلف حکومتوں کی اتحادی رہی ہے۔ یہاں نکتہ یہ نہیں کہ اسلام پسند جماعتیں اچھی ہیں یا بری، بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت اُس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب تک اسلام پسند جماعتیں جمہوری عمل میں شریک نہیں ہوتیں۔
لبنان کی طرح عراق میں بھی حالیہ انتخابات میں رائے دہندگان کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ Brooking Institute سے منسلک Tamara Wittes نے کانگریس میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ عراق اور لبنان جیسے ممالک میں آزادانہ انتخابات ہونے کے بعد عرب ممالک کے سربراہان کے لیے انتخابات نہ کروانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
امریکا کی ہر انتظامیہ نے اسلام پسند جماعتوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھا ہے۔لیکن بُش انتظامیہ نے ماضی میں تمام خدشات اور خطرات کے باوجود عراق کے انتخابات میں اسلام پسند جماعتوں کے لیے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی۔ جنوری ۲۰۰۵ء کے انتخابات کے بعد عراق کی شیعہ جماعت سے تعلق رکھنے والے ابراہیم الجعفری ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ دلچسپ طور پر عراقی اخوان المسلمون سے وابستہ افراد بھی کابینہ میں شامل ہوئے۔
تیونس میں اسلام پسند جماعتیں پوری طرح جمہوری عمل میں شریک نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن وہاں ابھی سے حوصلہ افزا نتائج دیکھنے میں آرہے ہیں۔تیونس میں ۲۰۱۱ء میں زین العابدین بن علی کی بے دخلی کے بعد سے جاری تبدیلی کا عمل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جمہوریت اس ہی وقت پروان چڑھ سکتی ہے جب اسلام پسند جماعتوں کو جمہوری عمل میں شامل کیا جائے۔ ۲۰۱۱ء میں اسلام پسند جماعت ’’النہضہ‘‘ نے دو سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کرحکومت بنائی۔ Project on Middle East Democracy کے مطابق یہ عرب دنیا کے اندر قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت کاسب سے بہترین نمونہ تھا۔لیکن موجودہ سیکولر حکومت میں اسے خطرات لاحق ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تیونس کا معاملہ غیر معمولی ہے، کیوں کہ النہضہ خود ایک غیر معمولی اسلام پسند جماعت ہے۔یہ مذہب کا لیبل ہٹا کر سیکولر ریاست کے ساتھ مصالحت کر چکی ہے۔ میں نے اپنی کتاب Islamic Exceptionalism میں یہ موقف اپنایا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں میں یہ تبدیلیاں کسی نظریاتی تبدیلی کے بجائے اپنی بقا کی جد و جہد،آمریت کے خوف اور حقیقت پسندی کا نتیجہ ہیں۔
تیونس میں اسلام پسند جماعتیں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتی تھیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ وہ پولیس اصلاحات، انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی اور سابقہ حکومت کے احتساب کے معاملات میں جمہوری طریقے سے منحرف رہیں۔ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے النہضہ اتنی طاقتور ہے کہ وہ وزیرِ اعظم یوسف الشاھد اور صدر الباجی قائدالسبسی کے اقدامات کو چیلنج کر سکتی ہے۔ لیکن النہضہ نے اس سے اجتناب کیا اور آپس میں ہم آہنگی پر زور دیا تاکہ ملک دوبارہ انتشار کی جانب نہ چلا جائے۔ حکومتی اتحادی ہونے کی وجہ سے النہضہ ایک اہم جماعت تو بن چکی ہے، لیکن اب تیونس ایک مضبوط حزب اختلاف سے محروم ہوگیا ہے۔
یہ صورت حال کچھ خدشات کو ضرور جنم دیتی ہے، لیکن اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت پہلے سے غالب اور مضبوط آمریت کے متبادل کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ لیکن ایسا اسلام پسند جماعتوں کے بغیر ناممکن ہے۔یہ نکتہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ اور اسلام پسندوں کو جمہوری عمل میں شامل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
”Arab Democracy Depends on Normalizing Islamist Parties”. (“theatlantic.com”. July 3, 2018)
Leave a Reply