
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں دلائل اور عوامی ردعمل آج کا اہم ترین موضوع بحث ہے اور موضوع کی حساسیت کے پیش نظر پاکستان کی سیاست سے مختصر سا تعلق رکھنے والا تقریباً ہر شخص اس بحث میں مشغول ہے۔ حکومتی عناصر ہر روز کوشش کررہے ہیں کہ عوامی ردعمل کا مقابلہ کریں اور اس سلسلے میں ہر روز ایک نئی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی طرح کی ایک کوشش میں یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات بہت پرانا معاملہ ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا سابقہ عہدے داروں کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ بندھا ہوا ہے جس میں ہر ایک کی کوشش ہے کہ تاریخ کے صفحات میں سے کرید کرید کر لائیں اور بتائیں کہ فلاں زمانے میں بھی رابطہ رہا تھا۔ لیکن مشکل حل ہوتی نظر نہیں آتی۔
بہرحال یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ گزشتہ ۵۵ سال سے کم از کم حکومتی سطح پر پاسپورٹ میں درج تھا کہ اس پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جاسکتا۔ اب بہرحال حکومت یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ یہ سب بھی مذاق تھا۔ حکومت کے بے بنیاد دلائل کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ جن کے تفصیلی جوابات ہم نے علیحدہ مضمون میں دے دیئے‘ عوامی سطح پر بعض قیل و قال پیش کئے جارہے ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ فلسطین کی تاریخ سے کم ا ز کم اتنا ضرور واضح ہے کہ جو کچھ اب تک فلسطینیوں کے ساتھ پیش آیا وہ سب ظلم تھا اور اس معاملے میں ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا ہوچکا اور اب ان سب کو دوبارہ دہرانے کا کیا فائدہ؟ بہتر یہ ہے کہ تاریخ کو بھلا کر مستقبل پر نظر رکھی جائے اور یوں اسرائیلی حکومت کو تسلیم کرنا اور ان سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر خود عرب اور فلسطینی عوام ہی اس ظلم بھری تاریخ کو بھلا کر یہودیوں سے رابطہ کرنے کو تیار ہیں تو ہمیں بھلا کیوں اعتراض ہونا چاہئے؟
اس مشورے کے جواب میں چند امور پر توجہ انتہائی ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا اس طریقے کو بین الاقوامی تعلقات کی سطح پر ایک قابل عمل نظام کے تحت دوسرے ممالک نے قبول کیاہے؟ اگر اب تک ممالک نے قبول کیا تو مثالیں کیا ہیں اور پھر دوسرا ہم مسئلہ یہ ہوگا کہ کیا اس طریقے کو بین الاقوامی مسلمہ طریقہ کار کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی ممالک نے اس طریقہ کار کو قبول نہیں کیا۔ اس کی انتہائی واضح مثال دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے مظالم پر قوموں کا رویہ ہے۔ کسی بھی قوم نے یہ نہیں کہا کہ ہم اس تلخ ماصی کو بھلانے کو تیار ہیں۔ سب کی طرف سے جاپان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی اس غلطی کو تسلیم کریں۔ جاپانی دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے بادشاہ ہیروہیٹو کے احترام میں اس عذر خواہی سے بچتے رہے لیکن بادشاہ کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد عذر خواہیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور جاپانی حکومت نے باضابطہ تمام ممالک سے معافی مانگی یہاں تک کہ جاپانی وزیراعظم نے جاپان کے خاص انداز میں کمر جھکا کر معافی طلب کی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جن ممالک سے معافی طلب کی گئی وہ سب چین کی طرح طاقتور بھی نہیں تھے لیکن پھر بھی بین الاقوامی احترام کا مظاہرہ کیا گیا۔ یوں واضح ہے کہ ماضی کو بھلا کر غلطیوں سے یوں گزر جانا بین الاقوامی تعلقات کا طریقہ نہیں ہے۔
آج کی دنیا بخو بی واقف ہے کہ اگر یہ نظریہ کسی سازشی ذہن کی طرف سے نہ بھی آیا ہو تب بھی یہ رائے درحقیقت کمزوروں اور مصلحت پسندوں کی رائے ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل ‘ ہٹلر کے مقابلے میں یہی رویہ اختیار کیا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹلر کی فوج بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے شعلے پوری دنیا پر چھاگئے۔ آج حتیٰ کہ عام روز مرہ کے جرائم کے مقابلے میں یہ حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نام نہاد دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا مخالف ہے اور اس کی دلیل دی جاتی ہے کہ اگر دہشٹ گردوں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے تو یہ درحقیقت دہشت گردی کو قانونی شکل دینے کے مترادف ہے اور اس کے بعد کسی بھی قسم کا مقابلہ نامکن ہوگا۔ البتہ یہ حقیقت چھپادی جاتی ہے کہ اصلی دہشت گرد کون ہے اور یہ دہشت گرد کس کے اعمال کی پیداوار ہیں؟
پھر اس سے اہم یہ کہ خود یہودیوں کی تاریخ کیا کہتی ہے؟ کیا یہودی خود یہ کام کرنے کو تیار ہیں؟ کیا یہودی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ہٹلر کے جرائم کو نظرانداز کردیں اور اسے تاریخ کا بھلایا ہو صفحہ قرار دیں۔ اسرائیل کا تو یہ عالم رہا کہ انہوں نے یہودیوں پر ہونے والے مظالم پر تمام یورپی ممالک سے ہرجانہ وصول کیا اور یہ خود مضحکہ خیز تھا کہ دوسرے ممالک میں بسنے والے یہودیوں کا ہرجانہ اسرائیل کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس ظلم کو مسلمہ تاریخ بنادیا گیا‘ لہٰذا متعدد یورپی ممالک میں قانون ہے کہ اگر آپ نے یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں شک کا اظہار بھی کیا یا اسے کسی بھی صورت میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی تو قید اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ یوں واضح ہے کہ کسی نے بھی یہ طریقہ قبول نہیں کیا اور پھر جب کسی نے قبول نہیں کیا تو فلسطینیوں کو کیوں اسے قبل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے؟
اس کی وجہ بہت واصح ہے کہ ۵۵ اسلامی ممالک ہونے کے باوجود سوائے ایک دو ممالک کے کسی بھی ملک نے فلسطین کے معاملے میں سنجیدہ کام انجام نہیں دیا۔ اس سلسلے میں سب سے افسوسناک کردار ان عرب ممالک کا تھا جن کی سرحدیں فلسطین سے ملتی تھیں۔ درحقیقت اگر فلسطینی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اکیلے ہوتے تو بظاہر تو نقصان ہوتا لیکن تحریک کے اعتبار سے اور عالمی حمایت کے اعتبار سے انہیں زیادہ آسانی ہوتی۔
اس حقیقت کے پیش نظر اس دعوے کی حیثیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عرب ممالک ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اگر اس مسئلے کی تاریخ کو بغور دیکھا جائے تو بہت واضح ہے کہ زبانی کلامی دعوئوں کے باوجود کبھی بھی عرب ممالک مسئلہ فلسطین کے لئے سنجیدہ نہیں تھے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ خاص کر فلسطین کے ہمسایہ عرب ممالک کے کردار کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے۔
ہمسایہ عرب ممالک نے جو فلسطینیوں کو جو بھی نقصان پہنچایا اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب اقوام متحدہ نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے علاقے کی عوام کی رضامندی حاصل کئے بغیر ‘محض اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد سے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو عرب ممالک نے فلسطینیوں کے مفادات کو مقدم کرنے کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور اسی خاطر فلسطینی حکومت کی تشکیل میں تردد کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فلسطینی علاقے پر انگلینڈ کی سرپرستی کے ختم ہوتے ہی جتنا بھی علاقہ دستیاب تھا اس پر فلسطینی حکومت تشکیل دے دی جاتی جس کا اولین مقصد باقی فلسطین کی رہائی ہوتا لیکن ہمسایہ عرب ممالک کسی اور مقصد کو دیکھ رہے تھے۔ عرب ممالک کی خواہش تھی کہ جتنا ممکن ہو فلسطینی زمین پر قبضہ جمائیں لہٰذا فلسطینی حکومت بنا کر باقی حصے کو آزاد کروانے کے بجائے مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ جمالیا۔ اردن نے دریائے اردن کا مغربی کنارہ سنبھالا ور شام نے جولان کی پہاڑیوں سے ملحقہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ اور اس سے بڑھ کر جرم یہ کیا کہ جب اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں فلسطینی علاقوں پر حملہ کیاتو یہ تمام ممالک فلسطینی علاقوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور یوں یہ سارے علاقے اسرائیلیوں کے ہاتھ لگ گئے۔
جنگ کے بعد ہونے والے مذاکرات میں ایک بار پھر اسی قومی تعصب کو ترجیح دی گئی اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں اپنے علاقے واپس لے کر فلسطینی علاقوں کو بھلا دیا گیا۔ یو مصر نے ۱۹۷۷ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں صحرائے سینا کی واپسی کی ضمانت لی لیکن فلسطینی غزہ کی پٹی کو اسرائیلیوں کے حوالے کردیا۔ اسی طرح اردن نے بھی اسرائیل سے تعلقات بحال کرتے وقت دریائے اردن کے مغربی کنارے کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ عرب ممالک کے اسرائیل سے معاہدے ہورہے ہیں ہمسایہ ممالک کی زمینیں واپس دی جارہی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ علاقے ۱۹۶۷ء سے اب تک اسرائیلی کنٹرول میں ہیں اور ان پر کوئی بات نہیں ہورہی۔ اور اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ اب اسرائیل ان علاقوں میں سے محض غزہ کی پٹی کو خالی کرتا ہے تو اسے جرأت مندانہ قدم کہہ کر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی بات کی جاتی ہے ۔ یہاں کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ یہ تو اس زمین کا بھی محض ۱۰ فیصد ہے جو اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں ہتھیائی تھی‘ اس زمین کا کیا ہوگا جو ۱۹۴۸ء کی غیر منصفانہ تقسیم کے وقت اسرائیل کو دے دی گئی اور وہ زمینیں جو اسرائیل نے بعد میں قبضہ کرلیں۔ ان سب کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
یوں ہمسایہ عرب ممالک کی اس منافقانہ پالیسی کے نتیجے میں فلسطینی دوہرے نقصان میں رہے ‘ عرب ممالک نے نہ صرف ساتھ نہیں دیا بلکہ نقصان پہنچایا اور عالمی سطح پر یہودیوں کو تمام عرب ممالک کے مقابلے میں ایک چھوٹا گروہ دکھا کر خودبخود انہیں مظلوم بننے کا موقع بھی مل گیا ۔ کیا عرب ممالک کے ایسے منفی کردار کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ ممالک مان جائیں تو ہمیں بھی مان لینا چاہئے اور اگر ان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں تو ہمیں کیوں اعتراض ہے؟
اب دوبارہ اپنی بحث پر توجہ دیں تو یہ سوال دوبارہ سامنے آتا ہے کہ کیا اس ماضی کو بھلادیا جائے جبکہ دنیا میں یہ طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی خود یہودیوں نے ایسا کرنے دیا۔ کیا محض اس وجہ سے کہ فلسطینیوں کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہے انہیں ظلم سہنے پر مجبور کیا جائے؟ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر خود فلسطینی تیار ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہے؟ ان کے جواب میں عرض ہے کہ اگر ایک عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے او ر وہ طاقتور مجرم کے سامنے اپنی بے بسی کا احساس کرتے ہوئے خاموشی کو ترجیح دے تو اس معاملے میں رویہ کیا ہونا چاہئے؟ کیا اس معاملے میں مظلوم کی خاموشی جواز فراہم کرتی ہے کہ جرم کو ناجرم قرار دے دیا جائے۔
اس کے علاوہ ہر جرم کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ ایک وہ جرم جو مجرم نے مظلوم کے ساتھ انجام دیا ہے اور دوسرا پہلو خود جرم کا ہے چاہے کسی پر بھی انجام پائے‘ معاشرے پر پڑنے والے ان منفی اثرات کا ہے جو خود بخود مرتب ہوتے ہیں چاہے مظلوم خاموشی ہی اختیار کرلے۔ اس دوسرے پہلو کے تحت سوال ہے کہ اب اگر مظلوم خاموش ہوجائے تو مستقبل میں کیا رویہ طے پائے گا؟ اگر سب ہی خاموشی اختیار لیں تو کیا اس سے جرم انجام دینے والوں کی ترغیب نہیں ہوتی؟ کیا یہ اصول نہیں بنے گا کہ جرم کرو اور مظلوم کو دبالو تو باقی دنیا تو خود ہی خاموش ہوجائے گی؟ کیا دنیا کا عدالتی نظام اسی کو اصول سمجھتاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر مظلوم خاموشی بھی اختیار کرے تب بھی جرم کی برائی اپنی جگہ باقی ہے اور دنیا میں اس جرم کو بھلائی کہنا درحقیقت جرم میں شرکت کے مترادف ہے۔
ان تمام دلائل کے باوجود ہم کبھی نہیں کہیں گے کہ کسی دشمن سے کوئی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ ہاں ایک صورت ایسی ہے جس میں ماضی کو بھلا کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر عمل کرنا صحیح ہوتا اور وہ یہ کہ سب سے پہلے اسرائیل ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے اور ماضی کے تمام مظالم کی تلافی کرتے ہوئے عقلی اصولوں کی روشنی میں ملک کو تشکیل دے۔ اس کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ سب سے پہلے اسرائیل اس بے بنیاد دعوے کی غلطی کا اعلان کرے کہ فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل یہودیوں کا تاریخی حق ہے۔ کسی بھی تاریخی اور عقلی دلیل سے یہ حق ثابت نہیں ہوتا اور یہ بیان سوائے ظلم اور بربریت کے کسی اور دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اس بیان کی حقیقت کیا ہے اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ یہ خود ایک تفصیلی بحث ہے جسے اس محدود مضمون میں ذکر کرناناممکن ہے ۔ اگر صہیونی تعلقات چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس بے بنیاد دعوے کا انکار کریں پھر اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں پہلی یہودی بین الاقوامی کانفرنس سے لے کر اب تک ہونے والے مظالم کا اعتراف کریں‘ ان کی مذمت کریں اور اس پر فلسطینیوں اور مسلمانوں سے معافی مانگیں۔ یہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں ہے یہ بالکل وہی کام ہے جو دوسرے معاملات میں انجام پایا ہے۔ جس طرح یہودیوں پر ہونے والے ہٹلر کے مظالم کی مذمت کی جاتی ہے اور اسی طرح جس طرح جاپان نے اپنے مظالم کی معافی مانگی‘ یہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ ان پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی جائے اور ان سے معافی مانگی جائے۔ اس کے بعد اسرائیل کی قانونی تشکیل کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود بے وطن فلسطینیوں کو فلسطین واپس آنے کی اجازت دی جائے اور انہیں اس علاقے میں دوبارہ بسانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد آزاد استصواب رائے کے ذریعہ جو یقیناً اسرائیلی حکام کی زیرنگرانی تشکیل نہیں پاسکتے‘ علاقے کے باسیوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اس خطۂ ارضی میں یہودی ریاست کی تشکیل کی اجازت دیتے ہیں؟ اب اگر فلسطینی خود کہیں کہ ہاں وہ ایسی حکومت کی تشکیل کے حامی ہیں تب یہودیوں اور مسلمانوں کی آبادیوں کے تناسب سے علاقے میں یہودی ریاست کی تشکیل کی اجازت دی جائے اور ہر صورت میں بیت المقدس کی مذہبی حیثیت کا احترام کیا جائے۔ مذکورہ طریقہ کار بھی کوئی انوکھا یا ناقابل عمل طریقہ نہیں ہے بلکہ وہی فارمولا ہے جسے بین الاقوامی قوانین میں تسلیم کیا گیا ہے اور اسی کے تحت پاکستان تشکیل پایا ہے۔ اگر ایسے ایک منصوبے کی روشنی میں دو حکومتیں تشکیل پائیں تو اس کے بعد یہی سرحدیں معین ہوں اور اختیارات میں آزادی ہوتاکہ پھر طاقت کے بل بوتے پر کسی کو کسی پر ظلم کرنے کا موقع نہ ملے۔
لیکن ظاہر ہے کہ موجودہ صورتحال مذکورہ تمام شرائط کے بالکل برخلاف ہے۔ آج اسرائیل کا ماضی گواہی دے رہا ہے کہ یہ ملک معاہدوں کی خلاف ورزی ‘ سرحدوں کی پامالی اور بین الاقوامی قوانین کی مخالفت میںد نیا کا بدنام ترین ملک ہے ۔ اس ملک کا یہ عالم ہے کہ ایک بدمعاش کے کندھے پر بندوق رکھی ہوئی ہے جس کی نالی سے ابھی بھی دھواں نکل رہا ہے‘ مقتولین کی لاشیں تڑپ رہی ہیں اور اس عالم میں یہ بدمعاشی باقی ماندہ نہتے اور بے آسرا افراد کو امن معاہدے کی دعوت دے ہا ہے۔ کیا یہ عقل مندی ہوگی کہ اسرائیل کے تمام تر جارحانہ منصوبوں اور اس کی بدنیتی کے باوجود اس سے اس امید پر تعلقات بحال کئے جائیں گے کہ اس کے ذریعہ مستقبل میں بہتری کی امید ہوگی؟ کیا یہ تعلقات واقعتاً کسی بہتری کی امید پر ہیں یا درحقیقت مفاد پرستوں کا ایک اور حربہ ہے تاکہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل سے تعلقات کو بکائو مال بنا کر ان ظالموں کے سرپرستوں کی آشیرباد حاصل کی جائے اور یوں اپنی حکومتوں کو مزید چند سال کے لئے محفوظ کرلیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے فتنے کے مقابلے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور یہی وہ سبب ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل نے غزہ جیسے مختصر علاقے کو خالی کیا ہے اور یہی وہ حربہ ہے جس کے ذریعہ حزب اللہ نے اسرائیل کو لبنان سے عقب نشینی کرنے پر مجبور کیا ۔ یہ نہ امریکا کی سرپرستی میں ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات ہیں اور نہ فاسد عرب حکام کی چرب زبانیاںاور منافقانہ سازشیں‘ یہ جہاد اور قربانی کا راستہ ہے ۔ وہ راستہ جسے سب سے پہلے امام خمینی نے بیان کیا اور ایران کی آٹھ سالہ جنگ نے اس کی اہمیت کو ثابت کیا۔ جس کی افادیت کو اب فلسطینی اچھی طرح سمجھ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ۱۵ سال سے جاری انتفاضہ روز برو ز ترقی اور تکامل کی سمت گامزن ہے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینی اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہی وہ حل ہے جس سے صہیونی خائف ہیں اور اس کو شکست دینے کے لئے مصنوعی امن معاہدے اور کم اہمیت عقب نشینیاں انجام پارہی ہیں تاکہ کسی طرح فلسطینیوں کو اس راہ سے روکا جائے۔ لیکن اب یہ معاملہ اتنا واضح ہے کہ اسے چھپانا اور فلسطینیوں کو اس راہ سے منحرف کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس اب بہت زور پکڑ رہا ہے کہ حکومتی ادارے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ٹھانے بیٹھے ہیں اور اس کام کو انجام دیئے بغیر نہیں رکیں گے لیکن اتنا یہ کم نظر اور مفاد پرست بھی جان لیں کہ اس معاملے میں اللہ کا قانون بہت واصح ہے۔ جس نے بھی ظلم کا ساتھ دیا اسے اسی ظالم کے ظلم کو سہنا ہوگا۔ اب ظالم یزید اور اس کے حواری ہوں یا امریکا اور صدام ‘ اللہ نے اس قانون کو بہت واضح کرکے بیان کیا ہے اور تاریخ اس کی حقانیت کی شاہد ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آج ظالم اسرائیل کے اقدامات کو ’’جرأت مندانہ‘‘ تعبیر کرنے والے کل اسی اسرائیل کے ہاتھوں ذلت اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑے ہوں اور پھر مدد کے لئے گڑگڑائیں تب کوئی مدد کرنے والا نہ رہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ سحر کراچی)
Leave a Reply