
دو سال قبل بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی چھڑی تھی اور جب اسرائیل کی طرف سے مظالم بڑھ گئے تو عرب دنیا کے بیشتر ممالک نے اسرائیل پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس لڑائی کو بند کرے، مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہو رہا۔ کوئی بھی عرب ملک حماس کے خلاف اسرائیلی حملے رکوانے کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔
مصر کی فوج نے گزشتہ برس اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کردیا۔ اس کے بعد مصر، سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات نے حماس کے خلاف محاذ سا بنالیا۔ اب یہ تمام ممالک حماس کے خلاف لڑائی میں بظاہر اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی حماس اب تک کسی سیز فائر لائن کے نزدیک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر کے اسکالر اور کئی امریکی صدور کے تحت مشرق وسطیٰ کے لیے مذاکرات کار کا کردار ادا کرنے والے آرون ڈیوڈ ملر کہتے ہیں: ’’حماس کی طرف سے سیاسی اسلام کے متعارف کرائے جانے کا خطرہ اس قدر شدید ہے کہ عرب راہنمائوں نے اب اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو اس کے مقابلے میں چھوٹا دشمن سمجھنا شروع کردیا ہے۔ میں نے ایسی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی کہ عرب دنیا چاہتی ہے کہ حماس اور غزہ کی موت واقع ہوجائے۔ اسرائیل بمباری کر رہا ہے، معصوم شہریوں کو قتل کر رہا ہے اور عرب دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے‘‘۔
مصر عام طور پر مذاکرات میں حماس کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ایسے میں مصر کا سہارا حماس کے لیے کافی تھا مگر اس بار تو مصر نے بھی ایسی جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے، جس میں اسرائیل کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں اور حماس کا ایک بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ حماس نے جنگ بندی کی اس تجویز کو مسترد کردیا ہے جبکہ مصر بضد ہے کہ اس جنگ بندی کے نتیجے ہی میں وسیع البنیاد مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی۔
دنیا بھر کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے جنگ بندی کی مصری تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ مصر کے عرب اتحادیوں نے اِس کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو فون کرکے جنگ بندی کی تجویز کی تعریف کی اور اس کے لیے بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ جنگ بندی کی اس تجویز میں یہ تو کہا گیا ہے کہ جنگ کی قیمت نہتے اور بے قصور شہری اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں مگر اسرائیل کے لیے مذمت کا ایک لفظ بھی اِس میں شامل نہیں۔
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے فیلو اور مذاکرات میں فلسطینی نمائندوں کے مشیر کا کردار ادا کرنے والے خالد الگندی کا کہنا ہے کہ مصر نے جنگ بندی کی جو تجویز پیش کی ہے، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ عرب دنیا کے جن ممالک کے معاشی اور اسٹریٹجک مفادات اسرائیلی مفادات سے ہم آہنگ ہیں، وہ حماس ہی کو دہشت گرد قرار دینے پر تُلے ہیں۔ خالد الگندی کا استدلال ہے کہ مصر کا حکمران طبقہ سیاسی و انقلابی اسلام کے ابھرنے سے خائف ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نہیں چاہتا کہ حماس تیزی سے ابھرے اور علاقے میں ایک نمونے کی حیثیت اختیار کرے۔ اگر واقعی ایسا ہے (اور ہے بھی) تو پھر سوچنا ہوگا کہ یہ کس کی ڈھکی چُھپی جنگ ہے۔
کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو دبانے کے لیے ہے۔ اٹھارہ ماہ پہلے تک تل ابیب، واشنگٹن اور فلسطینی علاقوں میں یہ خیال عام تھا کہ عرب دنیا میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کے نتیجے میں علاقائی حکومتیں اپنے عوام کے لیے زیادہ احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گی۔ ایسی صورت میں عرب دنیا کے عوام فلسطینیوں سے زیادہ ہمدردی کرتے جس کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف جذبات زیادہ شدت اختیار کرتے اور بالخصوص نوجوانوں میں اشتعال بڑھ جاتا۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر اسرائیل کے لیے بہت بڑا خطرہ تھی مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عرب دنیا کی بیشتر حکومتوں کے مفادات کے ہاتھوں اسرائیل اس صورت حال میں زیادہ مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔ وہ انتہا پسند گروپوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور عرب دنیا کی بیشتر حکومتیں یہی چاہتی ہیں۔ عرب حکمران چاہتے ہیں کہ ان کا اقتدار کسی نہ کسی طور بچا رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بیداری کی لہر کو ہر صورت دبانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انتہا پسند گروپوں کا صفایا کیا جائے۔ اسرائیل چونکہ یہی کام کر رہا ہے، اس لیے عرب حکمران اسرائیل سے ہم آہنگ ہیں اور اس کے خلاف ایک بھی لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں۔ فلسطینیوں پر انسانیت سوز اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں مگر عرب دنیا میں مظاہروں کی اجازت نہیں۔ کوئی بھی حکمران نہیں چاہتا کہ اُس کے آنگن میں احتجاج کا میلہ سجے۔ انتہائی شرم ناک بات یہ ہے کہ مصر کی حکومت نے اسرائیلی بمباری سے خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں پر بھی حماس ہی کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ اب تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ حماس اپنے ہم خیال گروپوں کے ساتھ مل کر مصر کی حکومت کا تختہ الٹنا اور سیاسی اسلام نافذ کرنا چاہتی ہے۔ مصر میں پروسیکیوٹرز نے تو یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل حماس ہی نے مصر میں اخوان کی معاونت کرکے معاملات کو خانہ جنگی تک پہنچنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یہ کہ حماس نے مصری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے سابق صدر محمد مرسی اور دیگر اخوان رہنماؤں کو جیل سے نکال لے جانے کی سازش بھی تیار کی تھی۔
مصر کے ایک سرکاری ٹی وی پر میزبان نے حماس کے خلاف اس قدر شدید باتیں کیں کہ اسرائیلی حکومت نے اس پروگرام کے چند حصے غزہ میں بھی نشر کیے۔
غزہ سٹی کی ایک طالبہ معصم ابومر نے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا: ’’اسرائیل کی حکومت ہمیں عرب دنیا کے بعض ٹی وی پروگرامات کے حصے دکھاتی ہے، جو یہ جتانے کی کوشش ہے کہ دیکھو، جنہیں تم اپنا سمجھتے ہو، وہی تو ہمیں ترغیب دے رہے ہیں کہ تمہیں قتل کریں! مصر کے بعض ٹی وی چینلوں کے اینکرز نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مصر کی فوج کو اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر حماس کو ختم کردینا چاہیے‘‘۔
مصر کی فوجی حکومت نے غزہ اور اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی سرنگوں کو بند کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی بارڈر کراسنگز بھی بند کردی گئی ہیں جس کے نتیجے میں غزہ میں اشیاء خور و نوش، ایندھن، ادویہ اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ گویا غزہ پر دباؤ بڑھاکر اُس کے باشندوں کو اسرائیل کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ شمالی غزہ کے قصبے بیت لاحیہ کے ایک دکان دار صالحان الحریش کا کہنا ہے کہ غزہ کے لیے السیسی تو نیتن یاہو سے بڑا دشمن ہے اور مصری اب یہودیوں سے بڑے سازشی ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اخوان المسلمون کی بساط لپیٹی اور اب حماس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
عرب ممالک اور بالخصوص سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں (جو بادشاہت پر مبنی ہیں) چاہتی ہیں کہ حماس کو ختم کردیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اسرائیل کا ساتھ دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہیں۔ یہ تمام ممالک ایران کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیں۔ ایران ہی حماس کو فنڈز، اسلحہ اور تربیت دیتا رہا ہے۔ اسرائیل کا ایران اور حماس کے خلاف جانا عرب دنیا کے لیے اپنے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے والا معاملہ ہے۔ عرب دنیا کے بیشتر، بلکہ تمام ہی حکمران چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی بھی گروپ نہ ابھرے یا باقی نہ رہے جس سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو یا ہوسکتا ہو۔ حماس ان کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کی بھرپور کامیابی پورے خطے میں انقلابی گروپوں کے لیے بھرپور تحریک کا کردار ادا کرے گی۔ اگر حماس کو روکا نہ گیا تو خطے میں بادشاہت خطرے میں پڑجائے گی۔ ایسے میں عرب حکمرانوں کا اسرائیل کی ہم نوائی کرنا کچھ تعجب خیز نہیں۔
“Arab leaders, viewing Hamas as worse than Israel, stay silent”. (“nytimes.com”. July 30,2014)
Leave a Reply