
مدت دراز سے یہ بات یقینی تھی کہ عالم عرب میں حاکم کی تبدیلی دو باتوں پر موقوف ہے: اول، قسمت و تقدیر سے برسرحکومت صدر یا بادشاہ اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کا کوئی بھائی بند (جو پہلے سے معروف ہوتا تھا) اس کا جانشین بنے۔ دوم، امریکی مرضی جو حقیقت میں مخالفین کو کچلنے اور اپوزیشن تحریکوں کو دبانے کی سرخ جھنڈی ہوتی تھی اور اس معاملے میں عرب عوام سرے سے غائب رہتے تھے، اس لیے کہ سڑک چھاپ انقلاب کا احتمال نہ تھا اور کوئی اس کی بات کرتا تو اس کا مذاق اڑایاجاتا تھا۔ مگر اچانک محال چیز واقعہ بن گئی، عوام بپھر کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ شعلہ تیونس سے اٹھا، پھر مصر میں بھڑکا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب خطہ یمن، لیبیا، بحرین، عمان، جزائر اردن وغیرہ میں پھیل گیا، جب کہ باقی ممالک نے دھماکہ سے پہلے عوامی غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سیاسی اصلاحات اور اقتصادی واجتماعی امداد کے اعلانات کے ذریعہ احتیاطی قدم اٹھائے۔
ان شعلہ بار حالات میں امریکا حیران و پریشان تھا۔ جس کا اثر اس کے اعلان شدہ مؤقف سے ظاہر تھا۔ اس نے پہلے تو تیونس و مصر میں اپنے اتحادیوں کی مدد اور لیبیا میں قذافی کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کی حفاظت کی کوشش کی، پھر احتجاج ومظاہرے جتنے بڑھے اتنی ہی ان قدیم حلیفوں کے خلاف واشنگٹن کے لہجہ میں حدت آئی، پھر کچھ سوچ کر لہجہ نرم کر کے بین بین کی راہ اختیار کی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ظالم و جابر حکمراں حالات پر قابو پالیں اور بیٹھے بیٹھے امریکا کے مفادات و امتیازات کھٹائی میں پڑ جائیں۔ امریکا کواپنے مفادات کی تلاش کا تو حق ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ تردد و تذبذب اس اوباما انتظامیہ کی اخلاقی گراوٹ ہے جس نے اپنے عہدِ صدارت کی ابتدا پوری دنیا اور خاص طور سے عرب اسلامی دنیا میں جمہورت و آزادی کی اقدار کو تقویت اور پرامن تبدیلی کی مدد کی باتوں سے کی تھی، لیکن جب کسوٹی پر آزمانے کا وقت آیا تو وہی انتظامیہ آمرانہ نظام ہائے حکومت کی طرف داری کرنے لگی جن کو اس نے استحکام کی حفاظت اور اسلام پسندوں کو حکومت پر قبضہ سے باز رکھنے کے دعوے پر تقویت بخشی تھی۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ امریکا کو نہ تو عرب انقلابات کی آہٹ محسوس ہوئی نہ اس کے اہل حل و عقد نے اس طرح کے حالات سے نپٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی۔ جب کہ کم ازکم عربوں میں تو یہی مشہور ہے کہ عرب ممالک کے بارے میں امریکا خود عرب حکام سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی سفارتیں ان ممالک کی ہر چھوٹی بڑی چیز کی خبر رکھتی ہیں لیکن تیونس و مصر کے انقلابات نے ثابت کر دیا کہ یہ خیال ’’وہموں کا پہاڑ‘‘ تھا اور نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ٹائمس فردامین کے مطابق امریکی سفارت انقلابیوں کے قلعہ میدانِ تحریر (آزادی چوک) سے صرف چند سو میٹر دور واقع ہونے کے باوجود وہاں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی حقیقت سے ناواقف تھی اور اپنے اندازے اس میدان سے باہر صحافیوں کی حاصل کردہ خبروں پر بنا رہی تھی۔
انقلابی اُفق پر دھند کی کثافت اس لیے اور گہری تھی کہ یہ عرب انقلابات بغیر کسی معروف قیادت کے شروع ہوئے تھے۔ چنانچہ تیونس میں احتجاج بغیر کسی منصوبہ کے خود بخود شروع ہوا، پھر یونینیں انقلابیوں سے ملیں اور انہوں نے ان کی تحریک کو گود لے کر اس کو فعال بنایا، جب کہ مصر کے احتجاجات تمام جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں سے الگ تھے اور اب بھی نوجوان ہی ان کی سرگرمیوں کو چلا رہے ہیں۔ واشنگٹن ان انقلابات کے محرکین کے رجحانات و آراء و افکار سے واقفیت کے لیے ان سے ربط و ارتباط کے چینل قائم کرنے میںناکام رہا۔ وہ ایک تماشائی کی حالت میں تھا، واقعات کو بنانے اور رُخ دینے کے بجائے صرف ان کو دیکھ رہا تھا۔ اگرچہ امریکی حکام عالم عربی میںجمہوریت اور تبدیلی کی باتوں کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں لیکن تمام باتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عرب انقلابات سے خسارہ اٹھانے والوں میں سرفہرست امریکا ہوگا۔ سابق نظاموں سے جو بڑی بڑی رعایتیں حاصل کرتا رہتا تھا اب عوام کی منتخب حکومتوں کے سائے میں ان کا برقرار رکھنا دشوار ہوگا۔ خاص طور پر اس لیے کہ وہ ان انقلابات کی کامیابی میں کسی قسم کی مدد کا احسان ان پر جتانے کی حیثیت میں نہیں ہے (قذافی کی حماقت نے آخر میں اس کو لیبیا میں انقلابیوں کی ظاہری مدد کا موقع دے دیا)
عرب آمر حکمرانوں کی مدد کے لیے واشنگٹن جو ’’اسرائیلی سلامتی‘‘ کی بنیادی شرط لگایا کرتا تھا اور اس کی پابندی کے حساب سے اس کے ان سے تعلقات کی قربت یا دوری طے ہوتی تھی اب اس کا جاری رہنا بھی مشکوک ہوگیا۔ اس لیے کہ کوئی بھی منتخب حکومت اپنے عوام کے مفادات کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے گی۔ اس لیے کہ رائے عامہ سے تصادم کا یقینی انجام حکومت سے برطرفی اسے خوب معلوم رہتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی اسرائیلی سفیر کو بے فکری سے نیل کے کنارے بیٹھنے کا خواب چھوڑ دینا چاہیے جب کہ اس کے ملک کے ہوائی جہاز فلسطینیوں کو قتل کر رہے ہوں، جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ امریکا کا خسارہ دیگر اہم علاقائی مسائل تک بھی وسیع ہوگا جیسے موجودہ مرحلہ میں ایران کے خلاف فوجی عمل کی گفتگو اولین مسائل میں نہیں رہی، اس لیے کہ منتخب عرب حکومتیں امریکا و اسرائیل کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے اس طالع آزمائی اور علاقے کو مشتعل گیند میں تبدیل کرنے کے عمل میں شرکت قبول نہیں کریں گی۔ حالانکہ وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ جوہری اسلحہ کا مالک ایران عرب مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن یہ ممکنہ خطرہ اسرائیل کے یقینی خطرے کے بعد آتا ہے۔ امریکی خسارہ کروڑوں ڈالر کے ہتھیاروں کے سودوں کا فقدان بھی ہو گا، اس لیے بڑھتا ہوا عوامی دبائو اپنی حکومتوں کو وسائل کا بڑا حصہ اہل وطن کے حالات کی بہتری اور لاکھوں بے روزگاروں کو کام کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس لیے گوداموں میں ہتھیاروں کے ڈھیر لگانے کے لیے کروڑوں ڈالر ضائع کرنے کا موقع نہیں ہوگا۔ یہی بات امریکا میں جمع شدہ عرب دولت کی ہے جس کا اندازہ کروڑوں اربوں ڈالر کا ہے اور جس کا بیشتر حصہ امریکی خزانے کے بانڈس میں انویسٹ کیا ہوا ہے اور اس کا بہت معمولی فائدہ ملتا ہے۔ ظاہر ہے عظیم دولت کی واپسی طاقتور ملکی اقتصادیات کے لیے ضروری ہے۔
ایک اور امریکی خسارہ ان مصنوعی دیواروں کا انہدام ہوگا جو امریکا نے عربوں کو تقسیم کرنے کے لیے ’’اعتدالی محور‘‘ اور ’’استقلالی خیمہ‘‘ کے نام سے قائم کی ہیں۔ چنانچہ مصر اور شام کے درمیان برسوں سے جاری قطع تعلق کے کوئی حقیقی اسباب نہیں تھے سوائے اس کے کہ حسنی مبارک کا نظام حکومت واشنگٹن سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے دمشق کو عربوں میں اچھوت بنانا چاہتا تھا، یہی بات فتح اور حماس کی مصالحت کے خلاف امریکی ویٹو کے سامنے مبارک سرنگوں ہونے کے بارے میں منطبق ہوتی ہے۔ اسی طرح لبنان میں موجودہ گہری تقسیم میں بھی امریکی دخل اندازیوں کا اثر ہے جس نے اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے سیریائی پہل کو آخری وقت میں ناکام بنایا۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔ ترجمہ: مسعودالرحمن خان ندوی)
Leave a Reply