
ہمارے اوپر یہ قرض ہے کہ شامی عوام سے معذرت کریں، گیارہ مہینوں سے جن کا روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے قتلِ عام ہو رہا ہے، عرب عوام انہیں بے سہارا چھوڑ کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’عرب کا دل‘‘ ایسے عربوں کے درمیان ہے جن کے پاس دل نہیں ہے۔ جمعہ ۳ فروری سے دوسرے جمعہ ۱۰ فروری تک ۷۵۵ افراد کو قتل کیا گیا۔ مزاحمت کے آغاز یعنی گزشتہ مارچ کے درمیان سے اب تک موجودہ حکومت نے تقریباً ۸ ہزار افراد کو قتل کیا ہے اور دس ہزار افراد لاپتا ہیں، قید خانے بھر گئے ہیں، ان میں کتنے افراد کو ڈالا گیا ہے اس کی کوئی تعداد نہیں ہے۔ ان سب کا صرف ایک جرم ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ۴۵ سالہ قہر و استبداد کے بعد ان کے ملک کو اس کی آزادی اور اس کا وقار مل جائے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گزشتہ مہینوں میں ہمیں شام کا صرف ایک منظر دکھائی دیتا ہے کہ فرزندانِ وطن خون میں ڈوبے ہیں۔ اس کی سڑکوں میں یا تو شہیدوں کے جنازے نظر آتے ہیں یا قاتلوں کے ٹینک۔ اس کے شہروں میں حریت کا مطالبہ کرنے والی کوئی بھی آواز ابھرتی ہے تو اس شہر کا انجام تباہی اور بربادی ہے۔ بلکہ ہمیں میزائلوں کی گھن گرج، بمبار طیاروں کی آواز، قتل و خونریزی روکنے کا مطالبہ کرنے والے محاصرین کی فریاد، نظام کو تبدیل کرنے کی صدا لگانے والوں کی آوازوں اور نئے تاتاریوں کے سرکش فتنے کو روکنے کے لیے عربی اور عالمی مداخلت کی صدا کے سوا کوئی اور آواز نہیں سنائی دیتی۔
گیارہ مہینوں سے جاری خون کی اس ہولی نے عالم عرب کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں کی، ان کی اکثریت اس طرح ان تمام واقعات کو ٹیلی ویژن میں صرف دیکھتی رہتی ہے جیسے کہ یہ کوئی ترک سیریل ہو! کتنا فرق ہے دو مناظر میں کہ کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ ظہور میں آئی اورڈنمارک کے اخبارات نے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے تصویریں شائع کیں تو عرب اور اسلامی دنیا میں ہلچل پیدا ہوئی، ہر طرف صدائیں بلند ہوئیں لیکن شامی عوام جس قتل گاہ سے گزر رہے ہیں اس کا اسے ذرا بھی احساس نہ ہوا۔ دینی مقدسات کی حرمت پر غیض و غضب کا اظہار ضروری ہے، لیکن مجھے اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے عزوشرف کے دفاع کے لیے غضب کا اظہار کیوںنہیں کیا جاتا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مفاہیم کس قدر بدل گئے ہیں، ان مفاہیم نے انسان کے عقیدے اور اس کی عزت میں فرق پیدا کر دیا ہے، غیرت و حمیت کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عقیدے کی حفاظت کی ذمہ داری رب نے لی ہے جبکہ لوگوں کی حرمتوں کو پامال کرنا، ان کی عزت تباہ کرنا اللہ کے حقوق میں سے ایک حق کو پامال کرنا ہے، اس پر ناپسندیدگی اور نفرت کا اظہار ضروری ہے۔ یہ اس بات کی بھی دعوت دیتا ہے کہ ظالم کے ہاتھ کو روکنے کے لیے لوگ جمع ہو کر نکلیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عرب لیگ نے پیش قدمی کرتے ہوئے مشاہدین کی ٹیم روانہ کی ہے، اس نے دمشق کی حکومت کے مقابلے میں طاقتور موقف کے لیے سلامتی کونسل کا رُخ کیا ہے تو میں اس سے اختلاف نہیں کروں گا۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ عرب لیگ حکومتوں کی نمائندہ ہے، یہ عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ معائنہ کرنے والے لوگ یقینا گئے، واپس بھی آگئے اور کچھ نہ کر سکے، ظالم نظام نے ان کے سفر سے اس لحاظ سے فائدہ اٹھایا کہ مظاہرات کا گلا گھونٹنے کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہیں کچھ اور وقت مل گیا۔ سلامتی کونسل میں کی جانے والی کوشش کا انجام یہی ہوا کہ روس اور چین کے ویٹو نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ہمارے سامنے بین الاقوامی سطح پر صرف دو مرحلے رہ گئے: شام کے دوستوں کی کانفرنس جو فرانس کی طرف سے بلائی گئی ہے اور اس کی متوازی بین الاقوامی کانفرنس جو ترکی نے بلائی ہے۔ عرب دنیا کی سطح پر رسمی طور پر جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ کہ معائنہ کاروں کے وفد کو واپس بلا لیا گیا، تیونس اور خلیجی تعاون کونسل کے ممالک سے شام کے سفراء کو نکال دیا گیا اور لیبیا نے اس مجلسِ وطنی کو تسلیم کر لیا ہے جو شامی انقلاب کی نمائندگی کر رہی ہے۔
لیبیا کے مسئلے میں یہ بات واضح تھی کہ قذافی کا سقوط ناٹو کے حلیف ممالک کی مداخلت سے ہوا۔ یہی چیز یمن میں بھی ہوئی کیونکہ مغرب کی کھلی تائید کے بعد ہی خلیجی ممالک نے پیش رفت کی تھی اور پھر علی عبداللہ صالح کے سامنے آخر میں اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا کہ وہ کنارے ہو جائے۔ شام کا معاملہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں بین الاقوامی مداخلت بھی ناممکن ہے اور اس قدر خون بہنے، فوج کی طرف سے قتلِ عام اور عربوں کی طرف سے کمزور دبائو کے بعد عوام اور حکومت کے درمیان مصالحت بھی ناممکن ہے۔ اس پورے منظر نامے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ شام کی موجودہ حکومت اب بھی اس بات کی طاقت رکھتی ہے کہ وہ ساری کارروائی انجام دے جو اتفاقی نہیں ہے بلکہ منصوبہ بند ہے۔ دوسری بات یہ کہ عربوں کی موجودہ صورتحال اور موجودہ بین الاقوامی صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ اب شامی عوام کے لیے یہ طے ہو چکا ہے کہ اپنی جنگ وہ تنہا ہی لڑیں۔ تیسری بات دوسری بات کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ معرکہ بہت لمبا ہوگا، عوام کی مشکلات بڑھتی رہیں گی، قربانیوں اور تکلیفوں کی فہرست لمبی ہوتی رہے گی۔
اندرونی عوامل، ملکی قوت اور خارجی تعاون سے قوت حاصل کر کے شامی حکومت اس بات پرمطمئن ہے کہ شامی عوام کو اس نے تنہا کر دیا ہے اور اب وہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شامی حکومت کے وہ سارے اعلانات جس میں تبدیلی، ملکی مذاکرات، اور سیاسی اصلاحات کی بات کی گئی تھی بے معنی ہو چکے ہیں، اس کو شامی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ اور اب یہ بات سب کے سامنے واضح ہے کہ وہ سارے بیانات صرف لوگوں کو بہلانے اور وقت حاصل کرنے کے لیے تھے۔ شامی حکومت کے پاس اندرونِ ملک مضبوط فوج کی کمان ہے اور اس طویل و عریض خطے کا بھی احساس ہے جس میں علوی گروہ آباد ہے، یہ گروہ پرندوں کو ڈرانے والے پُتلے کی طرح ہے جو نہ صرف اندرونی خانہ جنگی کا خوف دلا رہا ہے بلکہ یہ اپنے پڑوسی ملک ترکی کو بھی ڈرا رہا ہے کہ وہاں علویوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے۔ اسی مناسبت سے شامی حکومت نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو بھی استعمال کر رہی ہے، وہ انہیں نظام کی تبدیلی کے بعد کے حالات سے ڈرا رہی ہے اور ساتھ ہی اس ہتھیار سے اپنے پڑوسی ممالک کو بھی دھمکی دے رہی ہے۔ مثلاً ترکی کے دبائو کے جواب میں وہ صرف علوی گروہ کا استعمال نہیں کرے گی بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ کردوں کو استعمال کرے۔
یہ بھی واضح رہے کہ شام کے کردوں کی تعداد سرحدی علاقوں میں دو لاکھ ہے، جن میں سے اکثر قامشلی ضلع میں ہیں جبکہ شمالی ترکی میں ان کی تعداد ۱۲ لاکھ ہے اور انقرہ کی حکومت سے ان کی جھڑپ کی تاریخ بہت طویل ہے۔
شامی حکومت کو اس بات سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ اسے ایران کی پوری تائید حاصل ہے۔ عراق بھی اس کے ساتھ ہے اور لبنان کے حزب اللہ کا تعاون بھی اسے حاصل ہے۔ یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ ایران اور شام کے درمیان اسٹریٹجک معاہدہ ہے جس میں تہران نے بشار الاسد سے معاہدہ کیا ہے نہ کہ شامی عوام سے۔ یہ دوستی دونوں ممالک کو کسی نہ کسی درجے میں اس بات کا اطمینان دلاتی ہے کہ اسرائیلی دھمکی کے مقابلے میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے۔
بین الاقوامی سطح پر شام کو روس اور چین کی مدد سے فائدہ مل رہا ہے۔ یہ اس وقت واضح ہو گیا جب سلامتی کونسل میں شام کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کا ان دونوں ممالک نے ویٹو کیا۔ اس سے ان دونوں ممالک کا یہ موقف بھی واضح ہوتا ہے کہ اس خطے میں امریکا کا نفوذ انہیں منظور نہیں۔ دونوں ممالک نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ مغربی ممالک نے ’’ان دونوںکو اس وقت دھوکا دیا تھا‘‘ اس وجہ سے انہوں نے لیبیا پر نوفلائی زون کے نفاذ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ان کی تائید کے بعد ناٹو کے حلیف ممالک کے ہاتھ فوجی کارروائی کے لیے آزاد ہو گئے تھے اور روس اور چین کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ یہ دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ یہ منظر دوبارہ دہرایا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دمشق کے ساتھ روس کے خاص تعلقات ہیں۔ طرطوس کی بندرگاہ میںاس کی بحری خدمات کا بیس ہے۔ تمام ہی شامی ہتھیار ماسکو سے خریدے جاتے ہیں۔ چین اس معاملے میں حساس ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کسی بھی جمہوری تبدیلی کی تائید کرے۔ وہ نہیں چاہتا کہ سلامتی کونسل کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے کیونکہ یہ خود بیجنگ کے خلاف پڑ سکتا ہے اور بہت سے وہ داخلی معاملات ابھر سکتے ہیں جس سے چینی حکومت خود مشکلات میں پڑ جائے۔
اس پورے منظر میں جو چیز ناپید ہے وہ عرب عوام کا دبائو ہے خصوصاً مصر کا دبائو کہیں نہیں نظر آتا، اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قائدانہ کردار ادا کرے گا، تمام ممالک اس کے ساتھ ایک ’’بڑے بھائی‘‘ کا سا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سے درج ذیل سوال سامنے آتا ہے:
شام میں بہتی ہوئی خون کی ندیاں عالم عرب کی سڑکوں پر خاص طور پر مصر میں کوئی ہلچل کیوں نہ پیدا کر سکیں؟ اس عدم موجودگی میں کئی عوامل کا دخل رہا ہے، مثلاً:
۱۹۷۹ء میں مصر کا جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہوا اس وقت سے عملی طور پر مصر اپنا قائدانہ کردار کھو چکا ہے، اور یہ کیفیت ہنوز جاری ہے۔ غیر حاضری کی اس مدت میں مصر اپنے خول میں نہیں سمٹ گیا بلکہ یہ اس گروہ میں شامل ہو گیا جسے ’’اعتدال‘‘ کا گروہ کہا جاتا ہے اور عملی طور پر یہ امریکی سیاست کے گرد چکر لگاتا رہا۔ آپ یہ سوچیں کہ جب بڑے بھائی کا یہ معاملہ ہو تو باقی ممالک میں شامی خون کا درد کس طرح محسوس کیا گیا ہوگا۔ عرب بہار نے بہت سے ممالک کو اپنے داخلی معاملات میں مصروف کر دیا کیونکہ ایک نظام کا خاتمہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ نئے نظام کے قیام کے لیے بڑی کوشش کی جائے۔ اس کی وجہ سے عالم عرب کے منظر نامے پر ابھرنے والے بہت سے دوسرے اہم امور سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی۔ بعض حلقے شامی حکومت کے بارے میں یہ تحفظ رکھتے ہیں کہ یہ حکومت فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ رہی ہے۔ اور ان کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک ایسی نیکی ہے جو اس کے بہت سے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس حکومت سے مزاحمت کرنے والوں کے بعض عناصر کے سلسلے میں ان کے نزدیک شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
شامی معاملات اس سے زیادہ پیچیدہ ہیں جتنا بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ لیبیا میںناٹو کے حلیف ممالک کی کارروائی کے تجربے کے بعد اس قضیے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک معلوم امر ہے کہ شام کی صورتحال لیبیا سے زیادہ سخت ہے کیونکہ لیبیا کے پیچھے صرف پیٹرول کی دولت تھی اور ایران اور ترکی پر شامی حکومت کے زوال کے اثرات کو ہم سامنے رکھیں تو شام کے پیچھے مشرق کا، بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ ہے۔
پھر راہ عمل کیا ہے؟ اس کا کوئی حاصل نہیں کہ ہم بلند آواز سے چِلّائیں: قتلِ عام بند کرو، ناٹو کی مداخلت نہیں چلے گی۔ اس سلسلے میں یہ اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عرب حکومتوں کے کھوکھلے پن کی وجہ سے ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ عرب ممالک کی سطح پر اس مسئلے کا کوئی ایسا حل سامنے آئے گا جو قتلِ عام کو روک سکے اور شامی وطنی عناصر کو اقتدار سونپا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سامنے اب وہی عوام امید ہیں جو حال ہی میں بیدار ہوئے ہیں، ان کی بلند آواز نے استبدادی حکمرانوں کو منظر نامے سے دور کیا۔ ہم نے قریبی دنوں ان اقوام کی آوازیں تیونس، لیبیا اور ماریطانیہ میں ہونے والے مظاہروں میں سنی ہیں۔ جب تک ہم باقی عرب ممالک خصوصاً مصر کے عوام کی آوازیں نہ سنیں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ شامی عوام سے معذرت خواہ ہوں کہ ہم نے تمہارا ساتھ دینے میں کوتاہی کی ہے اور تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ ہمیں معاف نہ کریں اور ہماری معذرت قبول نہ کریں تو وہ حق بجانب ہوں گے۔ معذرت پیش کرنے کے لیے میں کسی کی طرف سے مجاز نہیں ہوں، لیکن میں یہ معذرت اپنی طرف سے پیش کر رہا ہوں کہ مجھے حد درجہ افسوس اور رسوائی کا احساس ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۴ مارچ ۲۰۱۲ء۔ ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی)
Leave a Reply