برما کے صوبے اراکان میں مسلمانوں کی نسل کُشی پر اب دنیا بھر میں آواز بلند کی جارہی ہے۔ رمضان المبارک کی مناسبت سے اس معاملے کی حساسیت بڑھ گئی ہے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردغان نے سفیروں کے لیے افطار ڈنر میں اِس معاملے پر خطاب کیا اور اسے بین الاقوامی ایجنڈے پر لانے کی کوشش کی۔ اراکانی مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ عالمی برادری نے اس حوالے سے اب تک غیر معمولی بے حِسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس معاملے میں عالمی ضمیر جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سوشل میڈیا میں یہ موضوع ابھی گرم ہے۔ لوگ برما کی صورت حال اور اس حوالے سے مسلمانوں کی جدوجہد اچھی طرح جانتے ہیں۔
گزشتہ رمضان میں صومالیہ کے قحط زدہ مسلمانوں کا ذکر سوشل میڈیا میں اس قدر ہوا کہ ترکی کے مسلمانوں نے بڑھ کر ان کی مدد کی۔ اس بار اراکان کے مسلمانوں پر رمضان المبارک میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس لیے معاملہ زیادہ حساس ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا نے اراکان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو فوکس کیا ہے۔ ترکی اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا ہے۔
بیشتر مسلم ممالک سمیت عالمی برادری کو معلوم ہی نہیں کہ برما کے مسلمان کون ہیں اور انہیں کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ڈھائی ماہ کے دوران برما کے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے اور لاکھوں نے نقل مکانی کی ہے۔ ان کے خلاف روا رکھی جانے والی سفاکی سے دنیا اب تک مجموعی طور پر بے خبر ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں برمی مسلمانوں سے متعلق خبریں خال خال ملتی ہیں۔ اراکان کا علاقہ برما اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے۔ اس کا رقبہ ۵۰ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اراکان کی تاریخ تیسری صدی قبل مسیح تک ہے۔ اس علاقے میں اسلام عرب تاجروں نے متعارف کرایا جو آٹھویں صدی عیسوی میں وہاں پہنچے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں اراکان کے بادشاہ نارامیکھلا (Min Saw Mun) نے اسلام قبول کیا تو یہاں مسلم حکومت کی بنیاد پڑی۔ مسلم حکومت کے قیام سے علاقے میں اسلام کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں۔ روہنگیا مسلمان انیسویں صدی کے آغاز تک پُرسُکون زندگی بسر کرتے رہے۔ ۱۸۲۶ء میں برطانوی سامراج نے اس خطے پر قبضہ کیا اور مقامی ریکھن بُدّھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ ۱۹۳۷ء میں بھارت سے علیحدگی کے بعد تاکن (Takin) پارٹی نے برما میں حکومت قائم کی اور یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ بدھ ازم کو مسلمانوں سے شدید خطرہ لاحق ہے۔
جب برطانوی سامراج نے برصغیر سے بوریا بستر لپیٹا تو برمی مسلمانوں کے لیے شدید تر مشکلات کا آغاز ہوا۔ ۲۸ مارچ ۱۹۴۲ء کو منبیا (Minbya) کے مقام سے مسلمانوں کے قتلِ عام کا آغاز ہوا۔ دفاع کی صلاحیت اور سکت سے محروم روہنگیا مسلمان بھارت اور بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ قتل عام ۴۰ دن چلا جس میں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ مسلمان مارے گئے۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت رکھتے تھے، انہی میں اقلیت بن کر رہ گئے۔ ۱۹۴۲ء کے قتل عام کے بعد اراکان میں روہنگیا مسلمانوں اور ریکھن بُدّھوں کا ساتھ رہنا ناممکن ہوگیا۔
۱۹۴۲ء کے قتلِ عام اور نسل کُشی کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ۱۹۴۷ء میں روہنگیا مسلمانوں کو پھر نسل کُشی کا نشانہ بنایا گیا۔ اِس بار اُن کے لیے اُن کی اپنی زمین بھی تنگ کردی گئی اور نقل مکانی سے بھی روک دیا گیا۔ عالمی برادری نے اس بار بھی حالات کی سنگینی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ مستقل جبر سے تنگ آکر چند مسلم گروپوں نے برمی حکومت کے خلاف بغاوت بھی کی جو ناکام رہی۔ ۱۹۵۴ء میں برمی فوج نے آپریشن مون سون کے نام پر پھر ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
۱۹۶۲ء کی فوجی بغاوت کے بعد روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں اضافہ ہوگیا۔ انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جانے لگا۔ ایک طرف تو انہیں اپنے ہی علاقوں میں اقلیت بنادیا گیا۔ معیشت کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ دوسری طرف انہیں نقل مکانی کے حق سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ کہیں اور جاکر بہتر زندگی بسر نہ کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ بدھ ازم قبول کرلیں۔ تمام اہم عہدوں سے مسلمانوں کو ہٹادیا گیا۔ مختلف معاملات میں اُنہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ باجماعت نماز پڑھنے اور عید الاضحیٰ پر ذبیحے پر پابندی عائد کردی گئی۔
مارچ ۱۹۷۸ء میں آپریشن کنگ ڈریگن (King Dragon) کا آغاز ہوا جس کا بنیادی مقصد اراکان سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کرنا تھا۔ سیکڑوں مردوں کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا۔ سیکڑوں خواتین کے بے حرمتی کی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کی تو انہیں روک کر شہید کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس دوران کم و بیش تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ اراکان میں مسلمانوں کے خالی دیہاتوں پر قبضہ کرکے ان میں ریکھن نسل کے لوگوں کو آباد کردیا گیا۔ پورے علاقے کو بدھ ازم کے رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اراکان کا نام بدل کر ریکھن اور صوبائی صدر مقام کا نام اکیب (Akyab) سے بدل کر سِتوے (Sittwe) رکھ دیا گیا۔
اب سوال صرف مسلمانوں کا نہیں رہا۔ برما میں تمام ہی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا بُرا حال ہے۔ برمی حکومت مختلف علاقوں میں اقلیتوں کو کمزور کرنے پر تُلی ہوئی ہے تاکہ بدھ ازم سے تعلق رکھنے والوں کی حیثیت مضبوط کی جاسکے۔ ۱۹۸۲ء میں شہریت کا ایک نیا قانون منظور کیا گیا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برمی قومیت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ اِس شدید امتیازی سلوک پر بھی دنیا خاموش رہی ہے۔ برمی مسلمانوں کی ثقافتی میراث کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ مساجد اور مدارس تباہ کیے جارہے ہیں۔ عیسائیوں اور حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے بدھسٹ گروپوں کے ارکان پر بھی شدید مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں عبادت کے حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ معیشت کے دروازے ان پر پہلے ہی بند ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں برمی مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان اب بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا اور سعودی عرب میں ہزاروں برمی مسلمانوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے سنگین مظالم اِس امر کے متقاضی ہیں کہ ان کی مشکلات پر فی الفور توجہ دی جائے تاکہ انہیں بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کے مواقع میسر ہوسکیں۔ اسلامی دنیا سمیت پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ برمی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرے۔ فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد پر امن کا نوبل انعام پانے والی برمی اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سوچی نے مسلمانوں کے بارے میں شدید منافقت کا ثبوت دیا ہے۔ جب روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سوچی نے پہلے تو یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ جب سوال بار بار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کو مستقل آبادکار کا درجہ تو دیا جاسکتا ہے، باضابطہ شہری کا نہیں۔
(یہ مضمون اراکان کے بارے میں Humanitarian Aid Foundation کی رپورٹ کی بنیاد پر لکھا گیا ہے)
(“Arakan: A big Massacre Witnessed by the Insensitive World”… “Todays Zaman”. July 24th, 2012)
Leave a Reply