امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد جب دنیا کے حکمرانوں کو مخطاب کرتے ہوئے پوچھا ’’تم امریکا کے دوست ہو یا دشمن؟‘‘ تو جارج بش یہ سوال کرنے والے پہلے امریکی حکمران نہیں تھے۔ ان سے برسوں پہلے پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے امریکی صدور یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں جس نے سرد جنگ کے دوران زور پکڑا‘ اور امریکا نے کمیونزم کے سیلاب کو روکنے کے لیے اپنے دوست حکمرانوں کے ذریعہ باندھے۔ اس سلسلہ میں عوامی حکمراں یا ڈکٹیٹر میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ امریکا کو اس سے کبھی غرض نہیں رہی کہ اس کے ’’دوست حکمراں‘‘ سے وہاں کے عوام بھی خوش ہیں کہ نہیں۔ آج ’’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ میں بھی امریکا جمہوری اور ڈکٹیٹر حکمراں کی تمیز کیے بغیر اپنے مفادات کے تحت انہیں استعمال کر رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستی کے اس سفر میں امریکا کا رویہ ہمیشہ حاکمانہ ہوتا ہے۔ بہرحال سرد جنگ میں امریکا کے چند دوست حکمرانوں کا احوال پڑھیے کہ امریکی دوستی کے لیے انہوں نے کیا کچھ کیا اور کس انجام کو پہنچے۔
رافیل لیونی ڈس تروجیلو
ڈومینکن ری پبلک جو دنیا کے نقشہ پر چھوٹا سا ملک ہے۔ ۱۹۱۶ء میں وہاں رافیل لیونی ڈس جو ’’دی چیف‘‘ کے نام سے پکارا جانا پسند کرتا تھا‘ طاقت میں آگیا۔ اس پر مختلف نوعیت کے الزامات سامنے آنے لگے اس سے قبل کہ اس کا محاسبہ ہوتا‘ وہ امریکی کے حلیفوں میں شمار ہونے لگا اور امریکا کے ساتھ مضبوط دوستی کی بدولت ۳۰ برس تک برسرِ اقتدار رہا۔ ترجیلو اور امریکا کی دشمنی کی بنیاد کمیونسٹ دشمنی تھی۔ ترجیلو کو ۱۹۶۱ء میں اس کے سرپرست امریکی کی خفیہ سی آئی اے ایجنسی نے قتل کر دیا اور الزام عائد کیا کہ ترجیلو پر کئی سنگین نوعیت کے الزامات تھے۔
فرانسو اور ژاں کلاڈ ڈویلٹر
دونوں باپ بیٹے تھے‘ جنہوں نے برسوں ہیٹی جیسے غریب ملک پر اپنی اکثریت قائم رکھی اور امریکا کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے رہے۔ اپنے ۳۰ سالہ دور میں دونوں باپ بیٹے نے ۶۰ ہزار ہیٹی افراد کو قتل کروایا۔ ایسے کاموں کے لیے ’’ڈیتھ اسکواڈ بنا رکھا تھا اس بربریت پر امریکا نے مخالفت کے بجائے ان کی مالی امداد بڑھانے کا اعلان کیا۔ دونوں باپ بیٹے جب تک اقتدار میں رہے‘ وہ تمام معاملات امریکا کی خواہش کے مطابق کرتے رہے۔ لیکن جب ۱۹۸۶ء میں ہیٹی کے عوام حکومت کے اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ان کے سرپرست اعلیٰ نے کسی قسم کی امداد سے انکار کر دیا۔
فل جن سیو باٹسٹا
باٹسٹا کا تعلق کیوبا کی فوج سے تھا۔ باٹسٹا کے دور میں کیوبا کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ کیوبا عہدیداروں کے ساتھ کاک ٹیل پارٹیاں سجا کر انہیں امریکی حمایت کا یقین دلاتے رہے لیکن ۱۹۵۹ء میں باٹسٹا کو تمام تر امریکی آشیرواد کے باوجود اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق
جنرل ضیاء الحق کا شمار پاکستان پر سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والے سربراہوں میں ہوتا ہے۔ وہ ۱۹۷۹ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو فوجی آپریشن کے ذریعہ ختم کر کے برسراقتدار آئے۔ وہ اسلام پسند حلقوں میں زیادہ مقبول رہے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان کو امریکا کی ’’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ آج پرویز مشرف پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنائے ہوئے ہیں۔ اسی دوران افغانستان کے حوالے سے روس کے ساتھ جنیوا معاہدہ طے پانے کی وجہ سے امریکا کو اپنے دوست حکمراں کی ضرورت پہلے جیسی نہیں رہی اور ان پر اقتدار سیاسی جماعتوں کے سپرد کرنے کے لیے دبائو بڑھتا گیا لیکن اگلے عام انتخابات سے قبل ہی بہاولپور سے اسلام آباد آتے ہوئے ان کا طیارہ پراسرار طور پر حادثہ کا شکار ہو گیا جس میں اُن سمیت امریکی سفیر اور کئی اعلیٰ فوجی حکام موت کے منہ میں چلے گئے۔
محمد رضا پہلوی
محمد رضا پہلوی اور ایران‘ عرصہ تک لازم و ملزوم سمجھے جاتے رہے۔ پہلوی امریکا کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۱۹۵۳ء میں جب وزیراعظم ڈاکٹر محمد مصدق نے ان کے اختیارات کم کرنا شروع کیے اور تیل کے حوالے سے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جو امریکی مفادات کو زک پہنچاتی تھیں تو امریکی حکومت کے ایما پر سی آئی اے نے ان کا تختہ الٹ دیا اور رضا پہلوی کو دوبارہ اقتدار دلا دیا لیکن جب ایران میں آیت اﷲ خمینی کی سربراہی میں تحریک نے زور پکڑا اور ایران میں انقلاب آیا تو پہلوی کے اسی دوست امریکا نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔
امریکا کے دوست حکمرانوں میں سے یہ چند کا تعارف ہے وگرنہ دوسری جنگ سرد جنگ کے دوران دونوں سپرپاورز کو اپنے مفادات کی جنگ کے لیے کٹھ پتلی حکمرانوں کی تلاش رہی۔ اس ضمن میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ منتخب حکمراں ہیں یا ڈکٹیٹر۔ چاہے وہ ویت نام کے نگوڈ نہہ ڈیم ہو‘ جس کی پرتشدد کارروائیوں میں ۱۹۶۳ء میں آخرکار اسے قتل کر دیا گیا یا وہ جنوبی کوریا کا پارک چنگ ہی ہو جسے ۱۹۷۹ء میں قتل کر دیا گیا۔ خواہ وہ برازیل کا جنرل ہمبر توبریا جنرل آگسٹوینوشٹ ہو جس پر ۱۰ لاکھ افراد کو قتل کروانے کا الزام ہے۔ یا ایڈولف ہٹلر ہو جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں امریکی تجارتی کمپنیوں کو اپنی حکومت کی ایما پر پوری حمایت حاصل تھی۔ قصۂ مختصر یہ کہ طاقتور کبھی کمزور کا دوست نہیں ہو سکتا‘ چاہے وہ کتنا ہی وفادار کیوں نہ ہو اور خاص طور پر امریکا کی ’’ٹشوپیپر پالیسی‘‘ جس میں ضرورت کے وقت تمام نخرے اٹھائے جاتے ہیں اور ضرورت ختم ہو جائے تو اپنے ہاتھوں قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ شاید اسی لیے ایک سابق امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ ’’امریکا کی دشمنی مول لے کر تو اس دنیا میں زندہ رہا جاسکتا ہے لیکن امریکا کا دوست بن کر کوئی زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply