
اسرائیلی وزیراعظم ایرل شیرون جنہوں نے پہلے اسرائیلیوں کو غزہ اور مغربی کنارہ میں بسنے پر ابھارا اب بالکل ہی اپنے موقف سے پھر گئے ہیں‘ ۷۷ سال کی عمرمیں انہوں نے فوجیوں کو غزہ سے سے تمام اسرائیلی بستیوں کو اجاڑنے کا حکم دیدیا اور ساتھ ہی مغربی کنارہ کی چار یہودی بستیوں کو بھی خالی کرانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ اب شیرون اپنے ناقدوں سے تنگ آکر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کو خطرے میں ڈال دیا ہے اب یروشلم میں اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی کے آدمی انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ دریں اثناء فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو روک سکتے ہیں مخالف جنگجوئوں کو غیر مسلح کرسکتے ہیں‘ بدعنوانی کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور اپنے عوام کی زندگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ دونوں رہنمائوں نے گزشتہ ہفتے نیوز ویک کے نمائندے لیلی وی مائوتھ سے گفتگو کی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے۔
ایریل شیرون۔ اسرائیلی وزیراعظم
وی مائوتھ: آپ کیوں اس فیصلے پر پہنچے کہ انخلاء ایک درست اقدام ہے ؟
شیرون: میں نے اس امکان کو کبھی درست خیال نہیں کیا کہ غزہ کی ایک چھوٹی سی یہودی اقلیت یعنی ۷ یا ۸ ہزا اسرائیلی آبادی ۱۲ لاکھ فلسطینیوں کے مابین رہتے ہوئے جن کی تعدادوقت کے ساتھ دوگنی ہورہی ہے کبھی اکثریت میں تبدیل ہوسکتی ہے یا غزہ کو ایک ایسی جگہ میں تبدیل کرسکتی ہے جو اسرائیلی ریاست کا جزو لائنفک ثابت ہو۔
وی مائوتھ: امن مذاکرات میں اگلا قدم کیا ہوگا؟
شیرون : کوئی شخص بھی اسرائیل پر کوئی منصوبہ مسلط نہیں کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ جس پر اتفاق کرلیا گیا ہو۔ مثلاً روڈ میپ (یہ منصوبہ ۲۰۰۳ء میں بش انتظامیہ سامنے لائی تھی)
وی مائوتھ: تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلا قدم روڈ میپ کے مرحلے میں داخل ہونا ہے؟
شیرون: ہم اس وقت روڈ میپ سے قبل کے مرحلے میں ہیں روڈ میپ کے مرحلے میں داخل ہونے کے لئے دہشت گردی ‘ جنگ اور اشتعال انگیزی کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔ فلسطینی انتظامیہ کو دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرناہوگا۔
وی مائوتھ: آپ کا مطلب حماس اور اس سے وابستہ تنظیم سے ہے؟
شیرون: ہاں! میرا مطلب حماس اور اسلامی جہاد سے ہے لیکن کچھ دوسری دہشت گرد تنظیمیں بھی وہاں ہیں اگر ہم غزہ چھوڑتے ہیں اور پھر بھی وہاں دہشت گردی موجود رہتی ہے تو ہمارا ردعمل انتہائی سخت ہوگا۔
وی مائوتھ: بنجامین نیتن یاہو آپ کو پارٹی (لیکوڈ پارٹی) کے اندر چیلنج کررہے ہیں کیا آپ اپنی پارٹی میں موجود رہتے ہوئے مقابلہ کریں گے یا اپنی نئی پارٹی تشکیل دیں گے؟
شیرون: میرا خیال ہے کہ سابق وزیر مالیاتی وزیراعظم ہونے کے لئے بے چین ہیں لہٰذا انہوں نے قبل از وقت انتخابات ابتدائیات (Primaries) کے انعقاد کے لئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی صحیح طریقہ ہے۔ نیتن یا ہو یہاں سب سے زیادہ انتہا پسند گروپ کے لیڈر بن چکے ہیں اور اس کی وجہ سے یقیناً مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
وی مائوتھ: لیکوڈ پارٹی میں لوگ آپ سے ناراض ہیں اس لئے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیاہے؟
شیرون: میرے خلاف نفرت اور غصے جیسے کچھ داخلی مسائل ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ میں ان پر قابو پالوں گا۔
وی مائوتھ: اس رپورٹ سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ پارٹی سے ٹوٹ کر ایک نئی پارٹی بنانے والے ہیں؟
شیرون: لیکوڈ پارٹی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دوں گا میں سپراندانہ ہونے نہیں جارہا ہوں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مجھے کیوں سبکدوش ہونا چاہئے۔
وی مائوتھ: امریکا چاہتا ہے کہ آپ مغربی کنارے پر اپنے ناجائز فوجی کیمپوں کو ختم کریں کیا آپ ایسا کرنے جارہے ہیں؟
شیرون: ہم یہ کریں گے ہم انہیں غیرقانونی فوجی کیمپ قرار دیتے ہیں۔
وی مائوتھ: کیا ابھی بستیوں کو ہٹائیں گے؟
شیرون: جو بڑے بڑے بلاس ہیں وہ اسرائیل کے حصے کے طور پر باقی رہیں گے دوسری بستیوں کا فیصلہ روڈ میپ کے مطابق ہوگا یہی وہ آخری چیز ہے جس پر ہمیں گفتگو کرنی ہے۔
وی مائوتھ: گویا سیٹلمنٹ بلاکس پر آپ اپنا قبضہ مستحکم کریں گے؟
شیرون: ہاں!
وی مائوتھ: امریکا کا اس پر ردعمل کیا ہوگا؟
شیرون: میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اسے بہت زیادہ خوشی ہوگی لیکن یہ بہت اہم سیٹلمنٹ بلاکس ہیں اور ہم انہیں ضرور تعمیر کریں گے۔ حتی کہ اب بھی تعمیر ہورہی ہے۔
وی مائوتھ: فلسطینی صدر محمود عباس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جنہیں ابوماذن بھی کہاجاتا ہے؟
شیرون: ابوماذِن دہشت گردی کے خطرہ کا ادراک رکھتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں؟
وی مائوتھ: رپورٹ یہ ہے کہ جنوری کے انتخابات میں حماس فلسطینی مجلس قانون ساز کی ۳۰ سے ۴۰فیصد نشستیں جیت لے گی۔
شیرون: ابوماذن پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مضبوط ہوسکتے ہیں۔
وی مائوتھ: تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ابو ماذن کے پاس اتنی قدرت ہوگی کہ وہ حماس کے خلاف کارروائی کرسکیں ؟
شیرون: نہیں! انہون نے اس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیا ہے اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
وی مائوتھ: انہوں نے ان سے معاہدہ کیوں کیا؟
شیرون: اس معاہدے کے ذریعے سیز فائر ممکن ہوسکا۔
وی مائوتھ: کیا انخلاء کے فیصلے کی وجہ سے آپ کی جان کو بے شمار خطرات لاحق ہیں؟
شیرون: جواب میں ‘ میں ہاں کہوں گا۔ کبھی یہ خطرہ صرف عربوں کی جانب سے تھا اب دونوں سمتوں سے ہے۔
وی مائوتھ: کیا غزہ سے انخلاء کے نتیجے میں امن کو کوئی بڑا فائدہ پہنچے گا؟
شیرون: ہم یہ کام اس وجہ سے نہیں کررہے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ دنیا میں اس وقت اسرائیل کی پوزیشن کہیں زیادہ بہتر ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے اور عربوں کے مابین جو بڑے مسائل ہیں وہ حل ہوں۔
وی مائوتھ: تو اس کی رعایت کرتے ہوئے آپ مغربی کنارہ کے کچھ حصوں سے دستبردار کیوں نہیں ہوجاتے؟
شیرون: ہم کوئی دوسرا یکطرفہ انخلاء کرنے نہیں جارہے ہیں۔
وی مائوتھ: لیکن وہ لوگ اگر اقدامات کرتے ہیں اور اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں؟
شیرون: ہم کوئی بھی اقدامات تنہا اٹھانے نہیں جارہے ہیں۔ ہم نے بہت ہی نتیجہ خیز قدم اٹھایا ہے جو کہ اپنی نوعیت میں انتہائی قدم ہے۔ اب ہم ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ضروری اقدامات کریں‘ پھر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
وی مائوتھ: تو آپ کے خیال ہیں آپ حقیقتاً مزید پیش رفت تب کرسکتے ہیں جب ابوماذِن اپنے حصے کا کام پورا کریں؟
شیرون: اگر وہ اپنے حصے کا کام انجام دیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہم مزید بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن پہلے انہیں اپنے حصے کا کام پورا کرنا ہوگا۔
محمود عباس ۔ فلسطینی صدر
وی مائوتھ: اب جبکہ اسرائیلی غزہ سے انخلاء کا عمل مکمل کرچکے ہیں تو آپ کیا کرنے جارہے ہیں؟
عباس: ہمارے پیش نظر تین مراحل تھے ایک غزہ سے یہودی آبادی کا انخلاء سو وہ ہوگیا۔ اب ہمارے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہے یہ کہ اسرائیلی فوج علاقے کو خالی کرے۔ تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ اسرائیل نے جو عوام کے لئے سہولتیں چھوڑی ہیں انہیں ہمیں برقرار رکھنا ہے اور فلسطینی عوام کے فائدے میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ ابھی ہم بعض مسائل حل نہیں کرسکے ہیں مثلاً غزہ اور مصر کے مابین رفاہ کراسنگ کا مسئلہ‘ غزہ میں داخلے اور خرج کے لئے محفوظ راہدری کا مسئلہ اور ایئرپورٹ کا مسئلہ۔
وی مائوتھ: جب اسرائیلی فوج واپس جائے گی تو وہاں کا کنٹرول فلسطینی انتظامیہ لے گی اور حماس کو ان علاقوں میں جانے سے روکے گی جہاں پہلے یہودی بستیاں تھیں؟
عباس: ہم سیکورٹی کے کُل معاملات کنٹرول کرنے کے لئے تیار ہیں ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے۔کہ وہ سیٹلمنٹ والے علاقوں میں داخل ہوں۔ ہم اسرائیلیوںسے یہ چاہیں گے کہ وہ اپنے تمام صومعوں کو وہاں سے ہٹالیں وہ ہر کام یکطرفہ طور پر کرتے ہیں وہ ہم سے صلاح و مشورہ نہیں کرتے۔
وی مائوتھ: آپ نے حماس کے ساتھ تعاون کی بات کی ہے اور اسے ایک سیاسی پارٹی میں تبدیل ہونے کے لئے موقع دینے کی بات کی ہے۔ آپ ان سے نمٹتے کیوں نہیں؟
عباس: ہم محفوظ راستے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم ان سے اس لئے تعاون کریں گے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی میں تبدیل ہوجائیں۔ شروع میں انہوں نے جنگ بندی کو قبول کیا اس کے بعد انہوں نے میونسپل انتخابات میں حصہ لیان اب وہ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے سوچ رہے ہیں۔
وی مائوتھ: لیکن ان کے پاس یہاں غزہ میں ۵ ہزار افراد پر مشتمل فوج ہے؟
عباس: ان کے پاس فوج ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک قانون اور ایک حکومت ہوعباس:ان کے پاس فوج ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک قانون اور ایک حکومت ہونی چاہئے تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے۔
وی مائوتھ: اگر صرف ایک قانون ہوتا چاہئے تو حماس اپنا الگ فوجی بازو کیونکر رکھ سکتی ہے؟
عباس: اب ہم لوگ اپنی تیاری کررہے ہیں جب ہم بہت زیادہ طاقتور ہوجائیں گے توہم سب کے لئے ایک قانون کی بات کریں گے۔ ہم حماس لڑنے نہیں جارہے ہیں۔ اس لئے کہ ہم کسی خانہ جنگی کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔
وی مائوتھ: کیا وہ آپ کے لئے یا فلسطینی انتظامیہ کے لئے خطرہ نہیں ہیں؟
عباس: کوئی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
وی مائوتھ: امن کے مرحلے میں اگلا قدم کیا ہونا چاہئے؟
عباس: روڈ میپ کی جانب واپسی‘ یہ معاہدہ تھا کہ اسرائیلی مغربی کنارہ کے بعض شہروں کو خالی کریں گے۔ جس پر عمل نہیں ہوا ۔ہم نے قیدیوں کے متعلق بات کی اور انہوں نے ان میں سے کسی کو بھی رہا نہیں کیا یقیناً ہم چاہتے کہ وہ مغربی کنارہ میں سیٹلمنٹ کے حوالے سے اپنی تعمیراتی سرگرمیاں روک دیں اور دیوار کی تعمیر پر بھی روک لگائیں۔
وی مائوتھ: آپ اپنے عوام کے لئے کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں؟
عباس: ہمیں ان کی زندگی بہتربنانی ہے ورنہ انخلاء کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انخلاء کے دوسرے دن ہی کم از کم زمین پر سو منصوبوں پر کام ہوتاکہ عوام کو یہ اطمینان ہو کہ کوئی تبدیلی آرہی ہے۔
وی مائوتھ: کیا آپ کے پاس ایسے منصوبے ہیں؟
عباس: سعودی عربیہ کے غزہ میںدو بڑے منصوبے ہیں او ر متحدہ عرب امارات کا ایک منصوبہ ہے۔ امریکیوں نے ہمیں ۵ کروڑ ڈالر یہاں منصوبوں کے لئے دیئے ہیں اور تین کروڑ ڈالر پانی کے لئے دیئے ہیں۔ جرمنی نے ہمیں ۶ کروڑ ڈالر سیوریج کے لئے دیئے ہیں اگر یہ چیزیں یہاں بہتر ہوتی ہیں تو پوری فضاء بہتر ہوجائے گی اس کے بعد لوگ شوٹنگ‘ شیلنگ اور حملوں کو قبول نہیں کریں گے۔
وی مائوتھ: یہ کہا جارہا ہے کہ آپ نے ایک بار چیئرمین یاسرعرفات سے کہا تھا کہ تشدد ایک غلطی تھی؟
عباس: میں نے کئی بار کہا۔ بہت شروع سے میری یہ سوچ رہی ہے ۔ جب انتفاضہ شروع ہوا تو اس کے دوسرے دن میں نے چیئرمین عرفات سے کہا کہ مہربانی فرما کر اسے رکوایئے‘ بہت ہوگئی ہم جہنم کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
وی مائوتھ: عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حماس اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں اپنی دہشت گردی کی تحریک کو مغربی کنارہ لے جارہی ہیں۔
عباس: اگر وہ مغربی کنارہ کی جانب بڑھیں گی تو کامیاب نہیں ہوں گی لیکن یقیناً وہ اس کی کوشش ضرور کریں گی۔
وی مائوتھ: وزیراعظم شیرون کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو انخلاء کے سرخیل ہیں؟
عباس: انخلاء کے بعد میں نے وزیراعظم شیرون کو فون کیا اور انہیں ان کے جرأتمندانہ اقدام پر مبارکباد پیش کی ۔ میں نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ میں آپ سے نیویارک یا یروشلم میں ملنا چاہتا ہوں انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔
وی مائوتھ: صدر بش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
عباس: میرے نقطۂ نظر سے وہ مددگار رہے ہیں اور میں امریکا کے ایسے دورے کو ایک بڑی کامیابی خیال کرتا ہوں۔
وی مائوتھ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے ان کی بہت زیادہ ہمدردی رہی؟
عباس: انہوں نے دیانتدارہونے کی ضرور کوشش کی مگر ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے مابین تعلقات کس قدر گہرے ہیں۔
وی مائوتھ: ظاہر ہے آپ اسے پسند نہیں کرتے ہوں گے؟
عباس: یہ امریکیوں پر منحصر ہے۔ ہم ان کے تعلقات سے بخوبی واقف ہیں لیکن ہم انہیں دیاتندار دیکھنے کے خواہشمند ہیں اگر وہ یہاں مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ اگر ان کی جانبداری اسرائیل کے ساتھ رہی تو پھر وہ موثر نہیں ہوسکتے۔
وی مائوتھ: خودکش بمباری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
عباس: میں کُلّی طورسے اس کے خلاف ہوں ۔ ہم نے اس کی مذمت کی ہے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply