
عارف نقوی پاکستان کی تاریخ کا وہ کردار ہے جس نے کمال ہنرمندی سے اپنی صلاحیت اور دولت کا استعمال کیا۔ وہ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا بنے۔ وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بیک وقت ڈیل کرنے اور تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کراچی الیکٹرک کمپنی کی نجکاری کی آج تک کسی کو سمجھ نہ آسکی۔ یہ صرف عارف نقوی اور حکمران ٹولہ جانتا ہے کہ کراچی کے اہم اثاثے ’’کے الیکٹرک‘‘ کو کیسے لُوٹا گیا۔
عارف نقوی کی درج بالا داستان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفاد پرستی اور دولت کی ہوس کے باوجود جب قدرت کی لاٹھی کسی پر برستی ہے تو وزیراعظم سمیت کوئی بھی مفاد یافتہ سیاستدان یا ادارہ اُس کی مدد کو نہیں آتا۔ شاید عارف نقوی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عارف نقوی کے امریکا اور چین کے مفادات کے درمیان سینڈوچ بن جانے پر پاکستان کے حکمران اور ادارے یہ طے نہیں کر پائے کہ انہیں چین کا ساتھ دینا ہے یا امریکا کا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ عارف نقوی امریکا منتقل ہونے کے بعد کس کس کو امریکی عدالتوں میں بے نقاب کرتے ہیں؟ امریکیوں سے کیا ڈیل کرتے ہیں؟ پاکستان کو امریکا سے بے وفائی کی کیا سزا دلواتے ہیں؟ یا سرخرو ہو کر واپس آتے ہیں، جس کا کم ہی امکان ہے۔
جیسے ہی جج نے ملزم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنا دوسرے ملک کو حوالگی کا مقدمہ ہار گیا ہے تو ملزم ایک لمحے کے لیے فرش کو گھور کر رہ گیا۔ یہ ملزم کوئی اور نہیں بلکہ طاقتور ترین اَبراج گروپ کے بانی عارف نقوی تھے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ اس خبر کا اُن پرکیا اثر ہوا ہو گا کہ اب انہیں امریکاکے حوالے کر دیا جائے گا، جہاں ساٹھ سالہ عارف نقوی کو اپنے خلاف الزامات ثابت ہونے پر باقی زندگی زنداں کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑ سکتی ہے۔ کورونا کے ہنگام چہرے پر ماسک چڑھائے عارف نقوی اس مختصر عدالتی کارروائی کے دوران میں بیشتر وقت خاموش ہی رہے۔ اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے باوجود آخر میں انہوں نے ہاتھ بلند کرکے جج کا شکریہ ادا کیا۔
ہم کمرۂ عدالت سے باہر آنے لگے تو ایک صحافی نے تبصرہ کیا ’’کیا زبردست شخصیت ہے!‘‘ ۲۰۱۸ء میں اَبراج گروپ کے ٹوٹنے سے پہلے میڈیا سے وابستہ جتنے افراد عارف نقوی کو جانتے ہیں وہ انہیں ایسے ہی الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اورتعلیم سے وابستہ ابھرتی مارکیٹ میں انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر خود کو ہیرو ثابت کر دیا تھا۔ دورِ عروج میں اَبراج گروپ کے پاس ۱۳ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی اور اس کے پیچھے ایک ہی شخص تھا: عارف نقوی۔
۲۰۱۷ء میں اَبراج گروپ کی قسمت کا ستارہ غروب ہونے لگا۔ اس مقام پر نقوی کی المیہ کہانی یونانی اساطیری داستان ’’اکاروس‘‘ سے مشابہ ہونے لگی۔ جب اکاروس کو اس کے کاریگروالد نے مصنوعی پَر لگا دیے تھے کہ ان کے ذریعے وہ پرواز کر سکے۔
۲۰۱۷ء میں کسی مخبر نے سرمایہ کاری کرنے والوں کو بذریعہ ای میل کمپنی کے اسکینڈل اور کمپنی کے اچانک ٹوٹنے کے بارے میں خبردار کر دیا۔ اس نے سرمایہ کاروں کو یہ بھی آگاہ کیا کہ کمپنی سرمایے کے بارے میں مبالغے سے کام لے رہی ہے۔ نیز مخبر نے فنڈ کے حسابات اور منافع میں بے ضابطگیوں کے الزامات بھی عائد کیے۔ اس دوران ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کمپنی کے پاس سرمایہ ختم ہو چکا ہے اور کمپنی صحت سے متعلقہ فنڈ کے غلط استعمال سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگیا اور انہوں نے اپنے سرمایے کی واپسی کے تقاضے شروع کر دیے۔ ۲۰۱۸ء میں اَبراج گروپ نے ایک بلین ڈالر کے قرضہ جات کی بے باقی کے لیے کاروبار کے اختتام کا اعلان کر دیا۔
اپریل ۲۰۱۹ء میں عارف نقوی کو ہیتھرو ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر امریکا میں مالی بے ضابطگیوں اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات تھے۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل کام کرتے ہوئے طیارے پر رہنے والے عارف نقوی کی آج کی زندگی ماضی میں گزری شاندار زندگی سے قطعاً اُلٹ ہے۔ ۱۵ ملین ڈالر کی ضمانت کے بعد ساری جائیداد فروخت کرنے کے بعد آج وہ جنوبی کنسنگٹن کے اپنے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں جو اس وقت ان کی بچ جانے والی واحد جائیداد ہے۔ وہ کیمروں کی مسلسل نگرانی میں رہتے ہیں اور انہیں محض دو گھنٹے چہل قدمی کی اجازت ملتی ہے۔ اس گھر کو بعض اوقات پُرتعیش رہائش گاہ قرار دیاجاتا تھا جو عارف نقوی کے لیے اب محض ایک قید خانہ بن کر رہ گیا ہے۔
گزشتہ دو سالوں سے نقوی صاحب زندگی کے اس نشیب و فراز پر غور کر رہے ہیں۔ یہ ڈرامائی زوال بہت سے سوال اٹھاتا ہے: کیا نقوی کا کردار یونانی داستان کے کردار ’’اکاروس‘‘ سے مشابہ ہے؟ جس میں زوال سے پہلے تکبر اور فخر کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ کامیابیوں کے باوجود کیا اس کا بلندی کی سمت سفر گہنا گیا ہے؟ حوالگی کے کیس میں جج ایما اربتھ ناٹ نے عارف نقوی کے بارے میں دو ماہرین نفسیات کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ماہرین نفسیات کی رپورٹ کو اہم سمجھتی ہوں کہ عارف نقوی خودکشی کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق عارف نقوی ماضی کی یادوں کی طرف واپس جانے کی شدید تڑپ رکھتے ہیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان میں اب زندہ نہ رہنے کی آرزو پیدا ہو رہی ہے۔ نفسیاتی اور مالی لحاظ سے وہ شدید کرب سے گزرے ہیں۔
فیصلے میں اور بھی دردناک تفصیلات شامل تھیں۔ جون ۲۰۱۹ء میں چار ہفتوں میں نقوی کا وزن دس کلو گرام کم ہو گیا۔ جون ۲۰۲۰ء میں امریکی حکومت کی طرف سے متعین ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کمنگز کا کہنا تھا کہ جب نقوی سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں حکومت کی تحویل میں دیا گیا تو وہ کیا کریں گے؟ اس سوال کا جواب عارف نقوی نے اس طرح دیا کہ وہ اپنے خاندان والوں کو کبھی یہ نہیں سوچنے دیں گے کہ عارف نقوی کے پاس قانونی لڑائی کے لیے پیسے تھے اور نہ دیگر ذرائع۔ جب نقوی سے مزید پوچھا گیا تو انہوں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ پچھلے مہینے ڈاکٹر کمنگز اور دفاع کے لیے تعینات ماہر نفسیات ڈاکٹر فیلن کو معلوم ہوا کہ عارف نقوی کی صحت بگڑ گئی ہے۔ انہوں نے نقوی میں نفسیاتی علامات کے ساتھ ساتھ شدید مایوسی کی موجودگی کی بھی نشان دہی کی اور اس حالت کا جج نے بھی اعتراف کیا۔ تاہم آخر میں جسٹس اربتھ ناٹ نے ان کی امریکا کو حوالگی کی اجازت دے دی۔
عارف نقوی کسی غیرقانونی کام سے انکار کرتے ہیں مگر ان کی طرف سے الزامات کو مسترد کرنا تبھی سامنے آئے گا جب ان پر مقدمے کی کارروائی (ٹرائل) شروع ہوگی۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کی جانے والی چارج شیٹ ابراج گروپ کی مبینہ غلط کاریوں کا ڈرامائی بیان ہے۔
اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ عارف نقوی پہلا معرکہ ہار چکے ہیں۔ ان کی پیدائش اور ورثے کی جگہ ’’پاکستان‘‘ میں عارف نقوی کے مقدمے نے ملے جلے ردعمل کو ابھارا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر خوشی ہے کہ امریکی مقدمہ عارف نقوی کے پاکستانی سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مراسم سے پردہ اٹھا دے گا۔ بعض لوگ اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ عارف نقوی کی داغ دار میراث ان پاکستانی کاروباری حضرات کے مستقبل پر بُرے اثرات مرتب کرے گی جو دنیا بھر میں اپنا مستقبل بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اَبراج گروپ کے لیے یہ ناکامی سب سے مہلک ثابت ہوئی، جب وہ K-Electric کمپنی میں اپنے ۶۶ فیصد حصص شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی کو فروخت کرنے میں ناکام رہے، جن کی فروخت سے ۴۵۰ ملین امریکی ڈالر مل سکتے تھے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ان بہت سارے اسٹیک ہولڈر میں سے ایک تھے، جو ابراج گروپ کی کمپنی کراچی الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی کے ہاتھوں فروخت کو گہری نظر سے دیکھ رہے تھے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر ابراج گروپ کو اس بات کی اجازت مل جاتی کہ وہ کراچی الیکٹرک کمپنی میں اپنے حصص شنگھائی الیکٹرک کمپنی کو فروخت کر دیں تو عارف نقوی آج آزاد ہوتے۔
آپ مجھے بتائیں ایک ایسا انسان جس کے پورے ملک میں طاقتور ترین لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے وہ اپنے حصص کی فروخت میں حائل انتظامی رکاوٹوں کو ختم نہیں کر سکا۔ یہ ایک ایسا سودا تھا جس کے پاکستان کے لیے کوئی مالی مضمرات نہیں تھے اور یہ سودا پاکستان کے لیے بہت زیادہ منافع بخش تھا۔ اس سارے معاملے میں جو کچھ نظر آرہا ہے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ کچھ لوگ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و نفوذ کے بارے میں امریکیوں میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں طاقتور لوگوں کے لیے سب کچھ ممکن ہے اگر وہ صحیح دروازوں پر دستک دیں، یہ سودا کیوں ناممکن بن گیا؟ کیا امریکیوں نے کراچی الیکٹرک کے سودے کو ناکام بنایا؟ اگر ایسا ہی ہوا تھا تو کیا یہ ابراج گروپ کو بچا سکتا تھا؟
میرلبون کی عدالت میں پیشی کے بعد جب عارف نقوی مایوسی کے تاثرات لیے کمرۂ عدالت سے باہر آئے تو صحافیوں کے ایک گروپ سے کہا کہ ’’اس قدر اُداس اور بیزار نہ ہوں‘‘۔ کیا وہ ماسک کے پیچھے چہرے پر مسکراہٹ لانا چاہ رہے تھے؟ یہ اندازہ لگانا خاصا مشکل تھا۔ بہرحال ان کی اس بات نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اسی حیرت میں ان سے پوچھا کہ ’’وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا کہ ’’بالکل ٹھیک‘‘ مگر اُن کا یہ جواب مجھے قطعی قائل نہ کر سکا۔
“Footprints: Arif Naqvi — the man who flew too close to the sun”. (“Dawn”. Feb.1st, 2021)
Leave a Reply