پاکستان آرمی نے مرکزی، شمالی اور جنوبی کمانیں قائم کر کے اپنے کمانڈ اسٹرکچر کی تنظیمِ نو کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فارمولے کے مطابق فوج کی موجودہ تمام نوکورز ان تین کمانوں میں سے کسی ایک کمان کے تحت آئیں گی جس کا سربراہ ایک تھری اسٹار جنرل ہو گا۔ ایک ایسے وقت پر جب ملک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اس ری اسٹرکچرنگ کا مدعا کیا ہو سکتا ہے؟
لوگ حیران ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ اس کا تعلق جنرل پرویز مشرف کی اس خواہش سے ہے کہ آئندہ آرمی چیف کے اختیارات کم کر دیے جائیں۔ اس خیال کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ وہ یونیفارم اتار نے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ یہ اور اس قسم کے دیگر نظریات میں اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ افسر شاہی سے متعلق بڑے ادارے اس طرح کے اہم فیصلے خود اپنی ٹائمنگ پر کرتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اس ادارے کے باہر سیاسی اور انتظامی حالات کی مطابقت میںکیے گئے ہوں۔
مثال کے طور پر اکتوبر ۱۹۷۱ء میں فوج نے بھارت کے ساتھ جنگ سے صرف دو مہینے پہلے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا۔ ماضی کی اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے کسی کو بجا طور پر حیرت ہو سکتی ہے کہ فوجی جرنیلوں نے ایک ایسے وقت پر ویلفیئر مزید استحقاق اور مراعات کے بارے میں کیونکر سوچ بچار کیا جب ملک بحران سے گزر رہا تھا۔ اس سے صرف بڑے پیمانے کے اداروں کی اپنی اندرونی حرکیات کا اثبات ہوتا ہے۔
دراصل اس سے فوجی ادارے کی سست رو بیورو کریٹک ورکنگ بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے بہت پہلے ایک ویلفیئر آرگنائزیشن قائم کرنے کے بارے میں سوچا ہو۔ لیکن اس کا قیام ایک بڑے قومی بحران سے پہلے عمل میں آیا اور اس سلسلے میں ٹائمنگ پر کوئی غور نہ کیا گیا۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ ایک طاقتور ادارہ ہونے کی حیثیت سے فوج نے اس بات کی پروا ہی نہ کی ہو کہ اسے باہر تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی حقیقتوں کے بارے میں بھی احساس ہونا چاہیے، اس کے بجائے اس نے اپنے تنظیمی مفادات کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
موجودہ صورتحال بھی ۱۹۷۱ء جیسی ہے۔ ضروری نہیں کہ نئی متعارف ہونے والی تبدیلی ایک فوری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو بلکہ اس کا تعلق برسوں قبل کی اس منصوبہ بندی سے بھی ہو سکتا ہے جس پر سوچ بچار کا آغاز سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے دور میں ہوا تھا۔ اس وقت جی ایچ کیو میںایک ری اسٹرکچر نگ سیل قائم کیا گیا تھا جسے فوج کی استعدادِ کار بڑھانے کی غرض سے اس کی تنظیم نو کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھیں۔ اس سیل کا سربراہ ایک میجر جنرل کو بنایا گیا اور اسے اسٹرکچر تبدیلیاں لانے کا ٹاسک سونپا گیا لیکن شاید یہ تبدیلیاں متعارف کرانے کا وقت اب آیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ تبدیلی اعلیٰ سطح کی سیاست سے کلیتاً بے نیاز ہے۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ ری اسٹرکچرنگ کا واحد لازمی مقصد استعدادِ کار میں اضافہ نہ ہو لیکن میری معروضات خود اسٹرکچرل تبدیلی ہی کا احاطہ کریں گی۔ نئے اسٹرکچر سے پرانا اسٹرکچر ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ ایک متوازی کمانڈ اسٹرکچر وجود میں آئے گا۔ تین نئے لیفٹیننٹ جنرل اور ان کا اسٹاف پہلے سے موجود نو کور کمانڈروں اور ان کے اسٹاف کے علاوہ ہو گا او ان کا مقصد اپنی اپنی کمان کے تحت آنے والی کورز کی فوجی سرگرمیوں کو مربوط اور منظم رکھنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کمان کے تحت تین کورز آئیں گی۔
اگر مقصد استعداد کا بڑھانا ہوتا تو اس کے لیے ملٹری ہائی کمان ایک جوائنٹ سروسز کمانڈ اسٹرکچر قائم کرنے کی تجویز دیتی جو تینوں سروسز کی سر گرمیوں کو مربوط کرنے میں مدد دیتی۔ فضائیہ کا اپنا اور اب آرمی کا بھی اپنا کمانڈ اسٹرکچر ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو انٹر سروسز کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ فی الحقیقت کارگل آپریشن سے ایک بار پھر ظاہر ہو گیا کہ آرمی اپنی منصوبہ بندی خود کرتی ہے اور دوسری سروسز کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ فی الحقیقت کارگل ایک ایسا ملٹری آپریشن تھا جس میں ڈائریکٹوریٹ آف آرمی ( فوج کی نظامت اعلیٰ) کو بھی کافی دیر کے بعد شامل کیا گیا۔
ری اسٹرکچرنگ کی مشق ہمارے قریب ترین ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ہو رہی ہے اور اسے کولڈ اسٹارٹ (Cold Start) کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی کی افادیت اور کارگر ہونے کے بارے میں کسی فرد کے احساس سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ اس کا مقصد انٹر سروسز پلاننگ کلچر متعارف کرنا ہے جس کے تحت تینوں سروسز ملٹری کے محدود جنگی منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے مل کر کام کریں گی۔ نئی دہلی بھی مربوط ڈیفنس اسٹاف کے نظریے کو عملی شکل دینے اور اسے مضبوط بنانے کی جدوجہد کر رہی ہے اور اگر وہ ایسا کر پائی تو اس سے اس کی آپریشنل استعداد میں اضافہ ہو گا۔
لیکن پاکستان آرمی میں تبدیلی کے لیے مربوط کلچر کی منطق رو بہ عمل آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں تک آرمی کے اندر منصوبہ بندی کا تعلق ہے، ماضی کے پیش نظر اس سے کوئی بڑی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ عملاً یہ ہو گا کہ تین نئی کمانڈز کے سر براہ اپنے منصوبوں اور اندازوں کو نوکور کمانڈروں سے آزاد رہ کر آگے بڑھائیں گے۔
لیکن دوسری جانب ان تین کمانڈروں کے پاس افواج کی کمان نہیں ہو گی اور ان کے تحت صرف ان کے ہیڈ کوارٹرز کا اسٹاف ہو گا۔ اس سے ان کی پوزیشن بے اختیار جوائنٹ چیف آف اسٹاف ہیڈ کوارٹرز سے مختلف نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کا چیئرمین افواج کی کمان نہیں کر تا اس لیے وہ عملاً کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ نتیجتاً جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بڑی حد تک ایک پوسٹ آفس یا تینوں سروسز کے مابین ایک کلیئرنگ ہائوس کا کردار ادا کرتی رہی اور یہ نسبتاً بڑی سروس کے زیرِ اثر رہی ہے۔ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے قیام کے نتیجے میں آرمی چیف کے اختیارات کم کر کے بھی سیاسی کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔
گھڑ دوڑ طرز کی جنگی حکمت عملی بھی بڑی بیورو کریٹک اداروں کی ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ آرمی میں ایک دوسرے کے لیے اچھے جذبات کے باوجود حقیقت یہی رہے گی کہ فیلڈ میں موجود تمام بارہ لیفٹیننٹ جنرلوں کے مابین پلاننگ میں زیادہ اثر انداز ہونے کے لیے مقابلہ اور زیادہ اختیارات کے لیے جدوجہد کی فضا برقرار رہے گی۔ اس بات کا امکان بھی رہے گا کہ کور کمانڈرز اور ان کا اسٹاف اہم معلومات میں دوسروں کو شریک کرنے پر خوش نہ ہو۔ یہ صورتحال ایک دوسری تنظیم، ڈیفنس ایکسپورٹ پر وموشن آرگنائزیشن (DEPO) سے واضح ہو چکی ہے جس کا قیام ڈیفنس انڈسٹری کی برآمدی استعداد بڑھانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس آرگنائزیشن کا سر براہ ایک میجر جنرل کو بنایا گیا اور اس کا اسٹاف تینوں سروسز سے لیا گیا۔ تاہم یہ مسئلہ بد ستور برقرار رہا کہ DEPO برآمدات کے لیے ایک مرکزی ادارہ نہ بن سکا بلکہ اس کی حیثیت ملک کے اندر نمائش منعقد کرنے اور مجموعی برآمدی استعداد میں اضافے کی کوششوں تک محدود رہی۔ ڈیفنس پروڈکشن کے اداروں نے جن کے اپنے آزاد مارکیٹنگ کے شعبے بھی ہیں اپنی سرگرمیاں از خود جاری رکھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ برآمدی اعداد شمار میں اضافہ DEPO کی کسی خصوصی کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کے نئے منیجر مارکیٹنگ کی بہتر انتظامی صلاحیتوں کی بدولت ہوا۔ لہٰذا نئی ایکسپورٹ آرگنائزیشن ڈیفنس انڈسٹریز کی برآمدی استعداد بڑھانے میں کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ اس کی اتنی حیثیت بھی نہ رہی کہ وہ وزیراعظم کو اس حقیقت سے آگاہ کر سکے کہ چینی ۲۲پی فریگیٹ کی اندرون ملک تیاری کی افادیت بہت محدود ہے۔ ان جہازوں کی ٹیکنالوجی پرانی ہے، یورپ اور امریکہ تو دور کی بات ہے وہ ایشیا میں بہت سے دیگر پلیٹ فارمز پر تیار ہونے والے جہازوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ DEPO نے دوسری ڈیفنس پروڈکشن آرگنائزیشنز کے ساتھ باہمی سرگرمیاں بڑی حد تک کم کر دی ہیں۔ اسی طرح نیا کمانڈ اسٹرکچر بھی ذمہ داریوں کی واضح تقسیم کے بغیر مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ واضح منصوبہ بندی کے بغیر نئے کمانڈ اسٹرکچر کی تشکیل آرمی میں نئی آسامیاں پیدا کرنے کی ایک بے معنی مشق بن کر رہ جائے گی۔ اس سے صرف تین نئے تھری اسٹار جنرلوں کا اضافہ ہی نہیں ہو گا بلکہ میجر جنرل، بریگیڈیئر، کرنل اور دیگر متعدد عہدوں کی آسامیاں بھی پیدا کرنا پڑیں گی۔ بیورو کریسی میں اس توسیع سے موجودہ آرمی چیف کو اپنی سروس میں یقینی طور پر مقبولیت حاصل ہو گی۔ شاید یہ مشق آرمی میں بڑھتی ہوئی سیاست سازی اور ملک میں عمومی بے چینی سے توجہ ہٹانے کا ایک اچھا راستہ ثابت ہو۔
(مضمون نگار اسلام آباد میں مقیم ایک آزاد دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان میں فوجی معیشت کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ ہیں)۔
(ترجمہ:ملک فیض بخش۔ بشکریہ ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ شمارہ: ۹ مئی ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply