
گزشتہ سال کے اختتام پر ایران میں اقتصادی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، جیسے جیسے ان مظاہروں نے شدت اختیار کی سیاسی مخالفین بھی ایران کی حکومت کے خلاف ان مظاہروں میں شریک ہونا شروع ہوگئے، ڈونلڈ ٹرمپ کی ان مظاہرین کے حق میں کی گئی ٹوئیٹ سے ایرانی حکومت کے حامی بھی ان مظاہروں میں شامل ہوگئے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مظاہرین ایرانی صدر، روحانی پیشوااور حکومت کی نامناسب اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور ان کی نظریاتی سیاست سے نالاں ہیں۔
ایران کے سپریم کمانڈر نے مبینہ طور پر امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کو ملک میں ہونے والی بغاوت کا ذمہ دار قرار دیا ہے، ۳ جنوری کو پاسداران انقلاب کے سربراہ نے ملک میں ہونے والی بغا وت کو کچلنے کا بھی اعلان کیا تھا، اس کے فوراً بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ایرانی کمپنی‘‘ شاہد بخاری کے صنعتی گروپ کی پانچ مصنوعات پر پابندی لگا دی، یہ گروپ ایران میں دفاع سے متعلق امور انجام دیتا ہے اور میزائل تیار کرتا ہے، پہلے بھی امریکا کی لگائی گئی پابندیوں سے یہ گروپ کافی نقصان اٹھا چکا ہے۔
ایران میں کیا ہونے جارہا ہے؟
امریکا، ایران حکومت کی تبدیلی اور اس پر نئی پابندیاں لگانا چاہتا ہے!
امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر کچھ بنیادی پابندیاں عائدکی گئی تھیں، کئی سالوں کی سفارت کاری کے بعد ایک موثر نیوکلیئر معاہدے (جے سی پی او اے۲۰۱۵) کے تحت ایران پر ۲۰۱۶ء میں اقتصادی و معاشی اور توانائی کے شعبوں میں لگائی گئی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں، اٹامک انرجی کے ادارے نے بھی معاہدے کی پابندی کرنے پر ۲۰۱۶ء میں یہ پابندیاں ایران پر سے اٹھالی تھیں، تاہم بینک اور کمپنیوں پر ثانوی نوعیت کی پابندیاں ابھی بھی عائد ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پالیسی میں تبدیلی کے لیے پارلیمان کے اراکین کی رائے لی اور اتفاق رائے سے (آئی ایس اے کے تحت) ایک عشرے کے لیے ایران پر لگی پابندیوں کی مدت میں توسیع کردی، اوباما انتظامیہ نے ۲۰۱۶ء کے اواخر میں اسی ایکٹ کے تحت شرائط ماننے پر پابندی ہٹانے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ڈیمو کریٹک ممبران پارلیمان (جو اوباما انتظامیہ کا حصہ تھے) نے بھی اپنے وعدے کے برعکس ایران کے خلاف رائے کا اظہار کیا ہے۔
سعودی عرب سے اقتصادی و معاشی مفادات اور تعاون کے معاہدوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ایران مخالف پالیسیوں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا آغاز کر دیا تھا۔ ۳۵۰ بلین ڈالر کے فوجی تعاون کے منصوبوں پر سعودیہ اور امریکا دونوں دستخط کر چکے ہیں اور اب امریکا مشرق وسطیٰ میں ایران کے علاقائی اور دفاعی ہتھیاروں کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔
اکتوبر میں امریکا نے ایرانی میزائل پروگرام اور آئی آر جی سی جیسے اداروں پر پابندیاں لگائیں، ٹرمپ نے کانگریس اور امریکی اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے تک جے سی پی او اے معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
اقتصادی دباؤ کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے خفیہ طریقوں سے ایران کو قابو کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے، مغرب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق انتہائی متنازعہ شخص کو ایران مخالف آپریشن کے لیے افسر نامزد کیا گیا ہے، نیویارک ٹائمز کی اطلاع کے مطابق ۲۰۱۷ء میں قدامت پسند ایرانیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے مائیکل ڈی انڈریا کو سی آئی اے میں ایران مخالف کارروائیوں کے لیے اہم عہدے پر فائز کیاگیا ہے۔
۲۰۱۴ء کی سینیٹ رپورٹ کے مطابق مائیکل ڈی انڈریا کو سی آئی اے میں نائن الیون کے حملوں کے بعد سے ’’ڈارک پرنس‘‘ یا ’’آیت اللہ مائیک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا تھا اوراپنے دشمنوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے بین الاقوامی طور پر اس کی شدید مذمت کی گئی ہے، موساد کے ساتھ مل کر ۲۰۰۸ء میں حزب اللہ کے رہنما عماد مغنیہ کو قتل کرنے میں اس کا اہم کردار تھا، اوباما انتظامیہ کے ساتھ مل کر یمن اور پاکستان میں ڈرون حملے اسی کی نگرانی میں کیے جاتے رہے ہیں اور ایران پر خفیہ دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جانے والے معاہدے میں اس کے دستخط کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
معاشی استحکام کے لیے ایران کی کوششیں
۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کے عرصے تک پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی معیشت متاثر ہوئی تھی، ۲۰۱۳ء میں خام تیل کی یومیہ برآمدات ۵ء۲سے گر کر ۱ء۱ ملین بیرل تک آگئی، نتیجتاً ۲۰۱۴ء کے شروع میں تیل کی قیمتیں تیزی کے ساتھ نیچے آئیں، ۲۰۱۵ء میں ایران کی معیشت قدرے سنبھل گئی لیکن اس سے پہلے پہلے تک ۲ سالوں میں لگائی گئی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی معیشت ۹ فیصد تک خسارے میں رہی۔
۲۰۱۵ء میں ایران کی معیشت مستحکم ہونا شروع ہوئی، پابندیاں ختم ہوئیں تو تیل کی بر آمدات میں اضافہ ہوا اور ایران کی معیشت پابندی سے پہلے والی صورتحال پر آگئی، ایران نے بیرونی ممالک سے فنڈ لینے شروع کیے، ۲۰۱۶ء تک ایران کی معیشت میں ۷ فیصد تک اضافہ ہوا، غیر ملکی توانائی کے اداروں نے ایران میں توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی، ایئر کرافٹ بنانے والے بڑے ادارے نے ایران کی تجارتی ایئر لائن کو نئے ایئر کرافٹ فروخت کیے، معیشت کے اسی استحکام کی وجہ سے ۲۰۱۷ء میں ہونے والے انتخابات میں صدر حسن روحانی کامیاب ہوئے۔
تیل کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی ترقی ہوئی ہے، ۲۰۱۷ء سے ۲۰۱۸ء میں جی ڈی پی ۲ء۴ فیصد تک پہنچ گیا، اگر مالیاتی شعبوں میں ہونے والی اصلاحات کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ۲۰۱۸ء کے درمیان تک جی ڈی پی کے ۵ء۴ فیصد تک بڑھنے کی امید کی جارہی ہے۔
موجودہ صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ مغرب میں فوری طور پر ایران میں مظاہروں کو بے روزگاری سے جوڑا جارہا ہے جبکہ اقتصادیات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ایران میں ۱۳ فیصد لوگ بے روزگار ہیں، جس میں ۲۱ فیصد نوجوان اور ۳۰ فی صد خواتین شامل ہیں، اس حوالے سے سعودیہ میں بھی بیروزگاری کی شرح ۱۳ فیصد ہے، نوجوانوں میں یہ شرح ۳۳ فیصد ہے جبکہ ایک تہائی خوا تین بھی بے روزگار ہیں، حقیقت میں بے روزگاری صرف ایران کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام عرب ممالک کا مسئلہ ہے۔
یہ احتجاج ۲۰۰۹ء کے مظاہروں کی طرح نہیں ہے، جو کہ صرف ایران کے کچھ شہری علاقوں تک محدود تھا بلکہ حالیہ مظاہرے چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں تک پھیل گئے ہیں، یہ مظاہرے احمدی نژاد کے حمایت یافتہ علاقوں سے شروع ہوئے، سابق ایرانی صدر احمدی نژاد جو کہ سیاست میں واپس آنا چاہتے ہیں اور آج کل لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے الزام میں گرفتار ہیں۔
ایران کا حالیہ معاشی عدم استحکام امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے ہے جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔
مشرق کی طرف واپسی
مظاہروں سے دو ہفتے پہلے ایران کے میڈیا نے رپورٹ کیاکہ ایران ۲۰۱۸، میں روس کی قیادت میں یوروشین اقتصادی یونین میں شامل ہوگا، امریکا کے زیر قیادت وسطی ایشیا کے تحت مرتب کیے گئے برزنسکی اصول و قواعد اب ترکی اور ایشیا کے لیے پر اثر نہیں رہے ہیں اور یہ دونوں اب امریکا کے اثر سے دور اپنا مستقبل کہیں اور تلاش کر رہے ہیں۔
روس کے زیر قیادت یورشین اقتصادی یونین میں قازقستان، بیلاروس، کرغیزستان اور آرمینیا شامل ہیں، اس یونین میں شامل تمام ممالک معاہدے کی رو سے آپس میں تجارت اور آمدورفت کے تعلقات آزادانہ طور پر کریں گے، ای ای یو میں ایران کی شرکت سے یونین کی آبادی ۲۶۰ ملین تک بڑھ جائے گی جب کہ جی ڈی پی ۱یک اعشاریہ نو پر بند ہوگی اور ایران کی اس میں شمولیت سے یہ بھارت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا آبادی والا ادارہ بنے گا۔
ایران اس لیے بھی اہم ہے کہ ایران ’’اوبی اوآر‘‘ معاہدے میں شامل ہے۔ ۱۶۔۲۰۱۵ کی شدید پابندیوں کے باوجود بھی ایشیائی ممالک ایران کے ساتھ تجارت کر رہے تھے، آنے والے دنوں میں یہی ممالک ایران کو پابندیوں کے دباؤ سے نکلنے اور معاشی صورتحال بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔
حالیہ پابندیوں سے پہلے چین اور کوریا نے تیل کی درآمد کی منظوری دے دی تھی، جب کہ جاپان اور ایشیا ئی ممالک ایران کے ساتھ آہستہ آہستہ تجارتی رابطے بڑھا رہے ہیں، ایران بیرون ملک بینکوں میں موجود ۱۱۵ بلین ڈالر تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اسی کے ساتھ۲۰۱۶ء میں چین نے ایرانی بین الاقوامی تجارت میں ۲۰ سے ۳۱ فیصد تک شیئرز کا اعلان کیا ہے، ایران میں مجموعی طور پر۲۰۱۶ء میں بیرونی سرمایہ کاری میں ۵ گنا اضافہ ہوا ہے۔
امریکا کی جارحانہ پابندی کی پالیسی گمراہ کن اور خود امریکا کے لیے نقصان دہ ہے، یہ پالیسی امریکی اتحادیوں کو کمزور اور امریکا کے مخالفین کو مضبوط کر رہی ہے۔ امریکی پابندیوں سے ایران معاشی طور پر اور او بی او آر کی شراکت میں کچھ کمزور ہوجائے گا لیکن اقوام عالم میں وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے گا۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“As Iranian Regime Teeters, A Pivot To China”. (“valuewalk.com”. January 15, 2018)
Leave a Reply