
امریکی صدر براک اوباما کی بیٹیاں مالیا اور ساشا وقت سے پہلے بڑی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اور وقت کے یوں تیزی سے گزرنے کا صدر اوباما کو بھی افسوس ہے کیونکہ اس راہ میں بہت کچھ چھوٹ گیا ہے۔ صدر اوباما نے جب پہلی بار صدارت کا منصب سنبھالا تھا، اس سے پہلے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعطیلات گزارنے ہوائی آئے تھے، تب مالیا اور ساشا بہت چھوٹی تھیں اور ہر وقت اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔ ساحل پر سیر کے دوران یا پھر ڈولفن شو میں وہ ایک لمحے کو بھی براک اوباما سے الگ رہنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ تب سے اب تک پانچ بار کرسمس گزری ہے اور اب دونوں بیٹیاں خاصی قد آور ہوگئی ہیں۔ وہ اپنی ماں مشل کی طرح طویل القامت ہیں۔ ان میں اعتماد بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے اور وہ اپنے اپنے انداز سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ باسکٹ بال کا گیم دیکھا ہے، ساحل پر بھی گئی ہیں اور کوہ پیمائی بھی کی ہے مگر مجموعی طور پر وہ اب اپنی مرضی کے مطابق جی رہی ہیں۔ صدر اوباما فراغت کے لمحات گولف کے میدان میں دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں جبکہ ساشا اور مالیا اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں۔
صدر اوباما اپنی سالانہ تعطیلات جزیرہ ہوائی کے کائی لوا ساحل پر گزارنا پسند کرتے ہیں۔ پانچ برس امریکی ایوان صدر میں گزارنے کے بعد اوباما فیملی کے اطوار بدل گئے ہیں۔ ان کی طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ آج ان کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو پانچ چھ سال پہلے تک نہیں تھا۔ کہنے کو پانچ سال ہوئے ہیں مگر کئی زمانے گزر گئے ہیں۔ محض پانچ برسوں میں ساشا اور مالیا خاصی بڑی ہوگئی ہیں۔ اب صدر اوباما عوام کے سامنے بھی گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرتے ہیں اور اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا ہے۔ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ وائٹ ہاؤس میں پانچ سال بیت گئے ہیں اور ان کا گھرانہ غیر معمولی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ جس کے بھی بچے ہیں، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ گزشتہ نومبر میں پارٹی کے عطیات جمع کرنے کی ایک تقریب کے دوران صدر اوباما نے کہا تھا: ’’میری بیٹیاں تو ایسی بڑی ہوئی ہیں جیسے خود رو جھاڑیاں۔ وہ تیزی سے بڑی ہوئی ہیں اور ان کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ وہ مختلف سرگرمیوں میں ایسی مصروف ہیں کہ اب ان کی پوری توجہ اپنی زندگی پر مرکوز ہے۔‘‘ بعد میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے تھے۔
گزشتہ ماہ اوباما اور ان کے اہل خانہ نے جب تعطیلات گزارنے کے لیے ہوائی کا رخ کیا تو ان کا استقبال وہاں کے گورنر نیل ایبرکومبی نے کیا۔ ایبر کومبی کا اوباما کے گھرانے سے دوستانہ تعلق ہے، جو ایک طویل مدت پر محیط ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اوباما کی پرورش اور ان کی بیٹیوں کی پرورش میں بہت فرق ہے۔ اوباما کے والد ان کے ساتھ نہیں تھے۔ والدہ انہیں لے کر ایک اجنبی معاشرے میں سکونت پذیر ہوئیں۔ اوباما کی بیٹیوں نے بہت اچھا ماحول پایا ہے۔ وہ امریکی صدر کی بیٹیاں ہیں اور ایوان صدر میں پرورش پارہی ہیں۔ جن مسائل اور مشکلات کا براک اوباما کو سامنا رہا تھا، وہ کسی بھی طور ساشا اور مالیا کے حصے میں نہیں آئیں۔ کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے جب وہ اپنے والد سے کہتی ہیں کہ آپ کی سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔ اوباما کہتے ہیں کہ وہ تین پختہ عمر کی عورتوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ مشل اوباما کی والدہ ایوان صدر کی تیسری منزل پر رہتی ہیں۔ اگر انہیں بھی گن لیا جائے تو اوباما دراصل چار پختہ عمر کی عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘۔
صدر اوباما کا شکوہ ہے کہ ان کی بیٹیاں اب انہیں زیادہ وقت نہیں دیتیں۔ وہ تنہائی محسوس کرنے لگے ہیں۔ تنہائی کا احساس دور کرنے کے لیے انہوں نے گزشتہ موسم گرما میں سنی نام کے پِِلّے کو اپنالیا۔
پندرہ سالہ مالیا ہائی اسکول میں پڑھتی ہے اور اسے ٹینس کھیلنے کا بہت شوق ہے۔ اوباما اس میں وکیلوں کی سی صفات دیکھتے ہیں۔ مالیا اب ڈیٹنگ کے لیے بھی تیار ہے۔ معروف کامیڈین اسٹیو ہاروے سے گفتگو میں صدر اوباما نے از راہِ تمسخر کہا تھا کہ میں نے چند مسلح گارڈز اس کے ساتھ رکھے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ بوائے فرینڈ کو دور رکھا جاسکے۔
بارہ سالہ ساشا ساتویں جماعت کی طالبہ ہے۔ وہ باسکٹ بال کھیلتی ہے۔ فیشن بلاگرز نے اسے تیزی سے ابھرتی ہوئی اسٹائل آئکون قرار دیا ہے۔ ساشا کی طرزِ زندگی جداگانہ ہے۔ گزشتہ ماہ اس نے ایک باسکٹ بال میچ اپنے والدین کے ساتھ دیکھا۔ اس موقع پر اس نے جس ڈیزائن کا سوئیٹر پہنا تھا، وہ چند گھنٹوں میں بڑی تعداد میں فروخت ہوگیا۔
حالیہ عشروں کے دوران امریکی ایوان صدر میں ساشا اور مالیا جیسی چھوٹی لڑکیاں کم ہی پروان چڑھی ہیں۔ صدر اوباما اور ان کی اہلیہ نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ ہر اعتبار سے نارمل زندگی بسر کریں۔ اسٹاف موجود ہے مگر اس پر بھی وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ دونوں بیٹیاں رات کو اپنا بستر خود بچھائیں۔ انہیں نیوز میڈیا سے حتی الامکان دور رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو۔ مگر خیر، ان تمام کوششوں کے باوجود ساشا اور مالیا کی زندگی ہر اعتبار سے نارمل نہیں رہ پاتی۔ وہ ایوان صدر میں قدم رکھنے والوں سے ملتی ہیں اور ان سے متاثر بھی ہوتی ہیں۔ مختلف شعبوں کی مشہور شخصیات ایوان صدر میں آتی ہیں تو دونوں بیٹیوں کی ملاقات ہوتی ہی ہے۔ ملالہ یوسف زئی جب ایوان صدر آئی تو ساشا اور مالیا بھی ملالہ سے صدر اوباما کی ملاقات میں موجود تھیں۔ وہ اپنی سہیلیوں کو بھی تیسری منزل پر منعقد ہونے والی پارٹیوں میں مدعو کرتی ہیں۔
صدر اوباما اور خاتون اول نے یہ بات میڈیا میں بھی بتائی ہے کہ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو زیادہ سے زیادہ نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے سخت ہدایات دیتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان ہدایات کے حوالے سے مزاحمت بھی سامنے آئی ہے۔ والدین نہیں چاہتے کہ ’’دُخترانِ اول‘‘ ویک اینڈ پر ٹی وی دیکھیں، اِلّا یہ کہ کوئی پروگرام ان کے اسکول کے نصاب سے متعلق ہو۔ بارہ سال سے کم عمر میں کسی بھی بیٹی کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ مشل اوباما نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ کوئی بھی بیٹی موبائل فون کی عادی ہوکر نہ رہ جائے۔ انہیں اسمارٹ فون کے استعمال کے معاملے میں سخت تر ہدایات کا سامنا ہے۔ والدین کا خیال ہے کہ ساشا ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ سوشل میڈیا پر جاسکے۔ اور مالیا کو بھی فیس بک پر محدود وقت میسر ہے۔ گزشتہ ماہ اے بی سی کی باربرا والٹرز سے گفتگو میں مشل اوباما نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’وہ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے فیس بک کو کوئی بہت اچھی چیز نہیں گردانتیں‘‘۔ وہ کہتی ہیں کہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جو چھوٹی عمر کی لڑکیوں اور لڑکوں کو نہیں دیکھنی چاہئیں۔ اور یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ساشا اور مالیا نے اپنی والدہ کو چند دوسرے سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس (انسٹا گرام، وائن وغیرہ) کے بارے میں بتایا ہے!
صدر اوباما اور خاتون اول سیاسی گفتگو میں بھی دونوں بیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا تذکرہ سیاسی اعتبار سے غیر موزوں نہ ہو۔ حال ہی میں ایک ریڈیو شو کے دوران مشل اوباما نے بتایا کہ ساشا جب چار سال کی تھی تب شدید بیمار پڑی تھی اور خوش نصیبی یہ تھی کہ انہوں نے ہیلتھ انشورنس کرایا ہوا تھا۔ یہ پروگرام اوباما کے ہیلتھ کیئر پروگرام کے بارے میں تھا۔ بوسٹن یونیورسٹی کی محقق الزبیتھ مہرین نے امریکی صدور اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صدر اوباما کو اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے یادوں کی منزل سے آگے جاکر بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ عوام کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوا کرتی کہ ان کے صدر، گورنر یا کسی وزیر کے اہل خانہ کیا کر رہے ہیں۔ اوباما کی بیٹیاں کس انداز سے بڑی ہو رہی ہیں، کیا کر رہی ہیں اور ان کی پرورش کے دوران براک اوباما اور ان کی اہلیہ کو کن مراحل سے گزرنا پڑا، ان تمام باتوں سے کسی بھی امریکی کو کچھ خاص غرض نہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
براک اوباما اب بھی رات کا کھانا بیٹیوں کے ساتھ کھاتے ہیں اور کبھی کبھی وہ بیٹیوں کو لے کر باہر بھی نکل جاتے ہیں۔ امریکی ایوان صدر میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی انہوں نے یہ معمول تَرک نہیں کیا ہے۔
امریکی صدور کی تاریخ مرتب کرنے والے رابرٹ ڈیلک کہتے ہیں کہ ’’اپنی بیٹیوں کے بڑے ہونے سے اوباما میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ان کا رویہ اعتدال پر آیا ہے اور اب وہ امریکا کی مختلف کمیونٹیز اور علاقوں کے بارے میں ایسی رائے رکھتے ہیں، جو انہیں قابل قبول بناتی ہے۔ بڑی ہوتی ہوئی بیٹیوں نے انہیں دوسروں کی اولاد کی بہبود کے بارے میں سوچنے کی بھی تحریک دی ہے۔
(“As Sasha and Malia Obama become young women, a father laments time slipping by”… “Washington Post”. Dec. 30, 2013)
Leave a Reply