
بیجنگ اور واشنگٹن ایشیا کا معیار اور اس کے اصول طے کر رہے ہیں، لیکن خطے میں موجود ممالک خود اپنے مستقبل کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
ایشیا اس وقت حیرت انگیز طور پر تیزی سے تبدیل ہورہا ہے لیکن خطے میں موجود دو طاقتیں اپنا وجود کمزور کر رہی ہیں، امریکا اور چین ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، ۱۸۰ ڈگری کے زاویے سے تبدیل ہوتے موضوعات میں تجارتی اصولوں سے لے کر ڈیٹا ایکسز تک ہر موضوع پر مقابلہ جاری ہے اور اب یہ جیو پولیٹیکل کی سطح پر آکر کورونا وائرس ویکسین کی جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔کورونا کی عالمی وبا نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، چین اور امریکا ایک دوسرے کی مذمت کرنے اور ایک دوسرے پر تجارتی بد عنوانیوں کا الزام لگانے میں مصروف ہیں۔ایشیا کے دوسرے ممالک چین اور امریکا کو اس خطے میں تیزی سے بگاڑپھیلاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، یہ دونوں ممالک اس خطے میں تباہی پھیلانے کے لیے ایک دوسرے کے معاون و مدد گار بن چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایشیا کا مستقبل چین کی اقدار وثقافت سے مشروط نہیں جیسا کہ امریکا ڈراتا رہا ہے کہ چین اپنے مستقبل کے خدوخال اس خطے میں ڈھونڈ رہا ہے۔ ایشیا کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر اتحادیوں میں ردوبدل کے ذریعے اور ایشیا کے ملکوں کے معیارات، اصولوں اور اقدار میں الجھن اور مایوسی پیدا کر کے اس خطے کو اپنے زیر اثر کیا جاسکتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا اور چین نظریاتی اور تزویراتی اختلاف کے باوجود ایک جیسے طریقے سے خطے پر اپناکنٹرول کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ہر ایک ایشیائی ملکوں کو اپنے ترجیحاتی اداروں، اپنی اقدار،اپنے معیارات قبول کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہی دونوں ملک ایشیائی ملکوں کو اپنے حریفوں سے سیکورٹی کے معاملات اور تجارتی اتحاد سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکا نے ان ایشیائی کمپنیوں پر جرمانہ کیا ہے، جو چین کی ایڈوانس ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی تجارت بڑھا رہی ہیں مثال کے طور پرامریکا نے تائیوان کی چپ ساز TSMC کمپنی پر ہائی ٹیک درآمدی ک+نٹرول نافذکیا تاکہ چین کی کمپنی ٹیلی لیڈر کی ذیلی کمپنی ’’ہواوے‘‘ کی بڑھتی ہوئی تجارت کوروکا جاسکے۔ بالکل اسی طرز پر چین نے جنوبی کوریا کی فرم پر جرمانہ اس لیے کیا کہ سیئول میں ہونے والی کانفرنس میں امریکا نے کوریا کے رہنماؤں کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ امریکا کامیزائل پروگرام THAAD تعینات کریں، جو چین کو ناپسند ہے۔چین نے آسٹریلیاکی تمام مصنوعات پر پابندی لگادی ہے کیونکہ کینبرا نے امریکا کے اس بیان کی حمایت کردی ہے، جس میں امریکا نے کورونا وائرس کے اصلی مقام کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیز پر یہ دباؤ ڈالا ہے کہ اس دوران جب کہ امریکا چین کے خلاف شدید مزاحمت کر رہا ہے، وہ ہانگ کانگ میں بیجنگ لائن کودیوار سے لگادیں لیکن ایشیائی ممالک امریکا یا چین دونوں میں سے کسی بھی ملک کے زیر اثر جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔
دو طرفہ حماقت
ایشیائی ممالک کے لیے امریکا یا چین کی مزاحمت کرنا آسان نہیں ہے یہ دونوں ریاستیں طاقتور ہیں، چین طاقتور تجارتی معاشی سیکورٹی کے ذریعے مارکیٹ تک رسائی پر پابندی لگائے گاجبکہ امریکا اپنے بینکاری نظام تک رسائی اور ڈالر کی کمرشل لین دین سے فائدہ اٹھائے گا۔لیکن کچھ حالات یہ واضح کردیتے ہیں کہ موجودہ برسوں میں کیا ہورہاہے۔مثال کے طور پر تجارتی اصول طے کرنے کے لیے گیارہ ملکوں کے درمیان لین دین کی شراکت داری کے لیے جامع اور مسلسل تجارتی ترقی (CPTPP) کے معاہدے ہوئے ہیں، ان تجارتی معاہدوں میں امریکا یا چین میں سے کسی کو بھی شامل نہیں کیاگیا۔ ان معاہدوں کو تجارتی شعبے کی طرح دوسرے شعبوں میں بھی قابل عمل بنایا جائے گا۔ علاقائی دلچسپی کی بنیاد پردوسرے ملکوں کو معاہدے میں شامل کیا جائے گا، مشترکہ مسائل کی بنیادپر اتحاد تشکیل دیے جائیں گے۔
سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اپنے اپنے جداگانہ بلاک ترتیب دیے، جس کی وجہ سے فطری طور پر کچھ مقاصدترتیب پاگئے۔ ان مقاصد کی روشنی میں ایشیا کا ’’کل‘‘ طلوع ہوگا۔ خطے کے ممالک اپنی جگہ بیٹھ کے بیجنگ اور امریکا کے مابین معاملات کو غور سے دیکھیں گے، اس کی روشنی میں اپنا ایجنڈا طے کریں گے اور پھرآپس میں ایشیا کی ترقی کے معاہدے طے کیے جائیں گے۔
واشنگٹن اور بیجنگ ایشیا میں اپنا مستقبل برابری کی بنیاد پر نفع اور نقصان کے طور پر ترتیب دے رہے ہیں، لیکن ان کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ دونوں ہی اپنے اپنے فائدے کو بڑھا چڑھا کے بتارہے ہیں اورایشیا میں ۱۹۹۷ء سے ۱۹۹۸ء کے دوران معاشی بدحالی سے پیدا ہونے والی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کررہے، انہی معاشی مسائل نے خطے میں موجود ممالک کووسیع اور مضبوط بنیادوں پراپنا مستقبل طے کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
ابھرتا ہوا خطہ
بھارت، انڈونیشیا،جاپان اور جنوبی کوریا جیسے کھلاڑیوں نے خطے میں اپنا مستقبل بنانے کا آغاز کردیا ہے، ایشیا میں موجود کوئی بھی ملک چین پر بھروسہ نہیں کرتا، لیکن ان ملکوں میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں کہ چین کو نظر انداز کر کے امریکا کا طے شدہ مستقبل قبول کر لے۔
درحقیقت ان دو دہائیوں کے دوران ایشیا نے اپنے معاہدات اور اداروں سے امریکا کو باہرنکال دیا ہے، جب کہ امریکا نے حتی الامکان ایشیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران چین نے ۲۰۱۳ء میں ایشیا انفرااسٹریکچر بینک قائم کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکا اس بینک کا مخالف نہیں ہے لیکن وہ مسلسل اس میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، نئے بینک کو کوڑے دان میں ڈالنا اور اتحادیوں پر اس بینک سے دور رہنے کے لیے دباؤ ڈالناجب کہ اتحادی اس دباؤکو قبول بھی کر لیتے ہیں۔امریکا یہاں بھی ویسی ہی غلطی دہرا رہا ہے جیسی اس نے چین بیلٹ روڈ منصوبے کی مخالفت کر کے کی تھی، بجائے اس کے کہ امریکا چین سے قرضے لینے میں دوسرے ملکوں کی مدد کرتااس نے چین کی کرنسی کا مکمل بائیکاٹ کر کے تمام ملکوں کو ناکامی کی طرف دھکیلا۔
ابھی تک واشنگٹن اپنی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں ہے، امریکا کا کہنا یہ ہے کہ چین پان ایشیا اکنامک اینڈ انسٹی ٹیوشن کو بڑے پیمانے پر تعمیر کرنا چاہتا ہے اور وہ اسے چین کے دباؤ پر ایشیا کی کمزوری قرار دے رہا ہے، امریکا کا چین پر یہ الزام ہے کہ چین کی وجہ سے ایشیائی ریاستی اداروں اور اقدامات میں ہم آہنگی اور تعاون کی فضا پیدا ہوئی ہے، تاہم عصر حاضر کے ایشیا میں علاقائیت کے دلدادہ چین کے علاوہ بھی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ایشیا کی علاقائیت کے مختلف رنگوں کے بجائے مشترکات پر ہم آہنگی پیدا کی جائے، یہ ریاستیں گہری تاریخی جڑیں رکھتی ہیں اور ایشیا کی چیمپئین قوموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جاپان کے امریکا سے ایشیا میں اس کی موجودگی سے متعلق اس کی منصوبوں کے باوجودطویل عرصے سے تعلقات ہیں، امریکی افواج جاپان میں موجود ہیں اور وہ امریکا کی طرح چین پر اپنے شبہات کا اظہار بھی کر چکا ہے اور وہ امریکا کا اتحادی بھی ہے، لیکن اس پر بہت زیادہ تجزیے موجود ہیں کہ دو ریاستیں چین کے نئے پان ایشیا منصوبوں کی سربراہی کر رہی ہیں اور ان میں ایک جاپان ہے۔ امریکا یہ کہہ چکا ہے کہ پان ایشیا منصوبہ صرف اور صرف چین کی ایما پر تیار کیا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے ٹوکیو نے ہی سب سے پہلے اس منصوبے کو پیش کیا، امریکی مخالفت کے باوجود ۱۹۹۷ء میں جاپان نے ایشیا مانیٹری فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، امریکا کے دباؤ پر اس منصوبے پر کام شروع نہیں کیا جاسکا لیکن اس کے نتیجے میں ایشیا کی واحد کرنسی وجود میں آئی، جس کی وجہ سے ایشیا کرنسی کے تبادلے اور تجارتی منصوبوں کا آغاز ہوا اور یہ صرف جاپان ہی نہیں تھا بلکہ ۱۹۹۰ء میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ڈیڈ آن آرائیول کے نام سے ایسٹ ایشیا اکنامک گروپ کی تجویز پیش کی تھی۔
ایشیا میں حالیہ تجاویزکے تحت ۱۰ رکنی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا ہے، اس کا نام ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشن ہے۔ اس تجویز میں خطے میں جامع معاشی شراکت داری اور پان ایشیا تجارت کا منصوبہ شامل ہے، اس منصوبے میں امریکا کو اصل مد مقابل کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے، اگر امریکا نے سی پی ٹی پی پی سے دستبرداری اختیار کرلی تویہ منصوبہ آگے بڑھے گا، اس منصوبے کے لیے ایشیا کے تجارتی اصول دو بنیادوں کے تحت آگے بڑھیں گے یا تو امریکا اور بھارت کو اس معاہدے سے دور رکھا جائے یا پھر چین کو اس معاہدے سے خارج کر دیاجائے۔ اگر ایشیائی ریاستیں اس منصوبے پر یکجا ہوگئیں تو امریکا کی فری انڈو پیسیفک پالیسی کھوکھلے خول سے زیادہ حیثیت کی حامل نہیں ہوگی۔ دوٹوک انداز میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اگر چین ایشیا پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کرسکے تب بھی واشنگٹن کے منصوبے اور تجارتی مفاد میں ایشیا شامل نہیں ہے۔
معیشت کی منتقلی
امریکا کی جانب سے پان ایشیا ازم کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو وہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ اگر ہم بین الاقوامی تناظر میں دیکھیں تو امریکا کی کرنسی ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے بعد بہت نیچے آگئی ہے اور ۱۹۹۷ء سے ۱۹۹۸ء میں ایشیا کے معاشی بحران سے پہلے ہی اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں گر گئی تھی۔ مغربی مارکیٹ اور دارالحکومت پر ایشیائی انحصار کی ایک طویل بحث اپنے اختتام کو پہنچی ہے لیکن اب یہ معیشتیں خطے کی برآمدات کے لیے کوئی غیر مناسب مطالبہ کرنے کی اہل نہیں ہیں، ایشیا ئی خودمختاری اور نجی فنڈ تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔
ترقی کرتے ہوئے شعبوں میں ایشیا کی معیشت ایک بڑے صارف کے طور پر موجود ہے، ان شعبوں میں قدرتی گیس، خنزیر کا گوشت، مکئی اور سویا بین شامل ہیں۔ایشیا اب صرف وصول کنندہ نہیں بلکہ ایک سرمایہ کاری کا ذریعہ بن چکا ہے، چین نے بیلٹ روڈ منصوبے کے ذریعے سرمایہ بر آمد کرنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو ایک نئی شکل دی ہے اور واشنگٹن اس سے نفرت کرتا ہے۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور دیگر ایشیائی ریاستوں سے آنے والا سرمایہ خطے میں پیداوار اور معیشت کے نئے نئے مواقع بنا رہا ہے۔
اسی دوران ایشیا ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن رہا ہے، اس میں بھارت بھی شامل ہے، لیکن مغرب کی فن تعمیر کے مقابلے میں ابھی ایشیا کے پاس ذرائع کم ہیں گرچہ کہ چین اور بھارت دونوں نے ای آئی آئی بی میں شمولیت اختیار کی اور چین نئے ڈویلپمنٹ بینک کا بانی ر کن بھی ہے اس کے باوجود بھارت پر چین کے تحفظات بھی موجود ہیں۔
تصادم کا تبادلہ
تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں کے باوجودیہ بات حیران کن نہیں ہوگی کہ اگر کوئی ایشیائی ریاست امریکا کی ایشیا پالیسی میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرے۔چین بھی امریکا کی طرح اسٹریٹیجک غلطیاں کر رہا ہے، چین اپنے پڑوسی ممالک کو امریکا کے ساتھ تعاون پر سخت دھمکیاں دیتا ہے، اس کی وجہ سے خطے میں چین کا خوف بیٹھ گیا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی کوریا نے تھاڈ میزائل کا نظام متعارف کروایا تو چین نے اسے سزا دی جس کی وجہ سے جنوبی کوریا نے سینجو میں میزائل کی تعیناتی شروع کردی حالانکہ اس سے پہلے جنوبی کوریا نے تعینات نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
واشنگٹن کو ایشیا میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ایشیا سے ہی امیدیں بھی ہیں کیونکہ یہاں اس کے کچھ مفادات پورے ہوتے ہیں۔چین کے بارے میں امریکی سیاستدان سخت رویہ رکھتے ہیں حتیٰ کے کچھ ڈیموکریٹ ٹرمپ کے مخالف ہونے کے باوجود اس کی چین پالیسی سے خوش تھے۔چین اور امریکا کا ایک دوسرے کے ساتھ مخالفانہ رویہ بارک اوباما کے دور میں بھی نظر آیا تھا جب ۲۰۱۵ء میں ٹرانس پیسیفک منصوبے سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ ’’ہمیں اپنے اصول طے کرنے ہوں گے اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پھر چین یہ کام کرے گا‘‘۔
کورونا نے مشکلات بڑھائی ہیں، ماضی میں صحت عامہ کے مسائل اور معاشی مسئلوں کے باوجود چین اور امریکا کے درمیان تعاون کی فضا کبھی قائم نہیں ہوسکی۔اگر بیجنگ اور واشنگٹن مسائل کے حل کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے تو ایشیائی ریاستیں اپنے مفادات کوپیش نظر رکھتے ہوئے اپنے طریقے سے معاملات طے کریں گے، اس کی ایک سامنے کی مثال ڈیٹا گورننس کی ہے ٹوکیو سے لے کر نئی دہلی تک ہر دارالحکومت میں مقابلے کی ایک فضا بن رہی ہے، ایشیائی ممالک ایشیا کو مقابلے کی اس دوڑ میں آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ کوششیں صحت عامہ،ڈیٹا ایکسز اورڈیٹا ٹرانسفر کے شعبوں میں آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے، مختلف ممالک مل کر اس پر کام کر رہے ہیں۔اگر سی پی ٹی پی پی کی بات کی جائے تو ایشیائی ریاستیں باہمی اتفاق رائے سے بیجنگ کو اس منصوبے سے الگ کردیں گی، اگر خطے کی ترقی کے لیے کام نہیں کیا گیا تو امریکا اور چین دونوں کو ہی اس منصوبے سے نکال دیا جائے گااور اس کے بعدایشیا کی دوسری ریاستیں خطے کا مستقبل طے کریں گی۔
( مترجم: سمیہ اختر)
“Asia’s future beyond U.S.-China competition”. (“carnegieendowment.org”. Sept. 9, 2020)
Leave a Reply