
برما کے صوبے اراکان میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اب عالمی برادری کا ضمیر کسی حد تک انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اراکان کی صورت حال کو انتہائی خطرناک اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے علاقے کو ’ایشیا کا فلسطین‘ قرار دیا ہے۔ یہ گویا اس امر کا اعتراف ہے کہ برمی حکومت اور فوج روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر سنگین مظالم ڈھا رہی ہے۔ امت مسلمہ کو اس حوالے سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بیان میں برمی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں نے بھی برمی بھائیوں کا درد محسوس کرتے ہوئے ان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ کئی فلسطینی شہروں میں مظاہرے ہوئے اور اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں بھی دھرنا دیا گیا۔ فلسطینی مسلمانوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کا فوری نوٹس لے اور بے گھر ہونے والوں کی مدد کی جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے تصدیق کی ہے کہ برمی صوبے اراکان میں روہنگیا مسلمانوں پر شدید ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ میں ایمنیسٹی نے کہا کہ برمی حکومت اور فوج مل کر مسلمانوں کی نشل کُشی کر رہی ہیں۔ نسل پرستی پر مبنی حملوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے برمی مسلمانوں کے قتل عام کے علاوہ خواتین کی بے حرمتی کی بھی تصدیق کی ہے۔ تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معمر افراد اور بچوں کا بھی احترام نہیں کیا جارہا۔ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے اور دنیا بھر میں تہذیب اور تمدن کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو صورت حال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے برمی حکومت پر بہتر اقدامات کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے۔ فورسز نے کئی مقامات پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر نوجوان لاپتا ہیں۔ سیکڑوں نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا گیا ہے جہاں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
غیر جانبدار اعداد و شمار کے مطابق اراکان میں دو ماہ کے دوران کم و بیش بیس ہزار مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ پانچ ہزار خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب تک سوا لاکھ سے زائد افراد علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ ۴۷ مساجد شہید کی جاچکی ہیں۔ ۳۰۰ سے زائد مساجد میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران نماز اور تراویح دونوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کے مکانات، دکانیں، گاڑیاں اور دیگر املاک بڑے پیمانے پر نذر آتش کی جاچکی ہیں۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اب تک ۴۷ دیہاتوں کو تاراج کیا جاچکا ہے۔ کریک ڈاؤن میں فورسز اور پولیس کا کردار بھی غیر معمولی طور پر جانبدار اور متعصب رہا ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام میں سرکاری مشینری کے کردار کو اب بین الاقوامی اداروں نے بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے البتہ اس حوالے سے اب تک چپ سادھ رکھی ہے۔ کسی بڑی مغربی حکومت نے برمی حکومت پر تنقید نہیں کی۔ یہ روش اِس امر کی غماز ہے کہ مغربی دنیا نے اسلامی اور غیر اسلامی دنیا کے لیے الگ الگ معیارات مقرر کر رکھے ہیں۔ کہیں ایک آدھ معبد بھی جلادیا جائے تو مغرب کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے لیکن اراکان میں درجنوں مساجد کا شہید کردیا جانا مغرب کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں۔ اسلامی دنیا میں پاکستان، ترکی، ایران، متحدہ عرب امارات اور فلسطین نے برمی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ترکی کا موقف ہے کہ برمی مسلمانوں کے مسائل کو بین الاقوامی اداروں میں اٹھایا جائے اور ان پر بحث کرکے برمی حکومت کو اصلاح کی طرف مائل کیا جائے۔ انسانی حقوق کی پامالی ایسا معاملہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس حوالے سے قراردادِ مذمت بھی منظور کی جاچکی ہے۔ ایران نے برمی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کا قتل عام روکا جائے اور اب تک کی صورت حال کے حوالے سے غیر جانبدار تفتیش کرائی جائے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے ایک بیان میں کہا کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو عالمی برادری کا ضمیر جھنجھوڑنا چاہیے۔
برما کے روہنگیا مسلمان نسلی طور پر برما ہی کا حصہ ہیں مگر انہیں برمی تسلیم کرنے سے یکسر انکار کیا جارہا ہے۔ تیس سال قبل ایک ایسا قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برمی تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ تب سے اب تک روہنگیا مسلمان اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے خاموش ہیں۔ برمی مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے معاملے میں سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو ایک بار پھر قتل کیا جارہا ہے مگر سلامتی کونسل نے تاحال اس معاملے کو زیر بحث لانے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
برما کی صورت حال کے حوالے سے انتہائی افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ جب برمی فوج اور نسل پرست بدھسٹوں کے مظالم سے محفوظ رکھنے کے لیے روہنگیا مسلمانوں نے اپنی خواتین اور بچوں کو شکستہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش روانہ کیا تو انہیں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور واپس بھیج دیا گیا۔ شدید مایوسی کے عالم میں واپس آنے والی ان مسلم خواتین اور بچوں کو برمی فورسز اور نسل پرستوں نے شہید کردیا۔ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے تحت بھی ان مسلمانوں کو پناہ دی جانی چاہیے۔ اِس نوع کے اقدامات پر بنگلہ دیشی حکومت کے خلاف بھی عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ جو حکومت پناہ گزینوں کو قبول نہ کرے اور یہ اقدام ان بے بس انسانوں کی موت کا سبب بن جائے اُس کے خلاف بھی کارروائی کرنا لازم ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply