گیارہ ستمبر کی منصوبہ بند تباہی کے پیچھے اہم امریکی مقاصد میں سے ایک مقصد پاکستان کو نشانہ بنانا تھا اور اس کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرنا تھا جو کہ خود پاکستان (جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے) کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری سی آئی اے کی مسلط کردہ جنگ میں نہ صرف تیزی آ رہی ہے بلکہ اس جنگ میں عراق جنگ کی مانند پاکستانی ریاست اور معاشرہ کو تباہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی حربوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ سالہا سال پاکستانی فوج امریکی جنگ کا اصل آلہ کار رہی لیکن اب اپنے سی آئی اے کے ساتھ تازہ تجربات کی روشنی میں پاکستانی فوج کو جنگ کے حتمی اہداف کے حوالے سے شک و شبہ ہونے لگا ہے۔ اوبامہ کے منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی سی آئی اے کی خواہش ہے کہ اس جنگ کو پورے پاکستان میں پھیلا دیا جائے۔ چنانچہ یہ جنگ پاکستان کی بقا کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اب اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے کو ہے جبکہ پاکستانی فوج لمبے عرصے تک امریکا کے زیرِ اثر رہنے کے باوجود پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ اس کے کامیاب ہونے یا ناکام ہونے کا دار و مدار اس کے ذریعہ اپنائے گئے اقدامات پر ہے۔
پاکستان کے خلاف امریکی مقاصد:
جب سوویت یونین نے عالمی بالادستی کی اپنی جستجو ترک کر دی تو اس کی وجہ سے امریکا اس فریب میں مبتلا ہو گیا کہ اس نے سرد جنگ جیت لی ہے۔ اس ناپائیدار لمحے میں روس کی طرح اپنی بساط لپیٹنے کے بجائے طاقت کے نشے سے مخمور صہیونی اور نو قدامت پرست امریکی افسران نے اپنی زوال آمادہ تقدیر کو مسلم دنیا کی فتح، اس کی سرحدوں کے ازسرِ نو تعین اور اس کے وسائل پر قبضہ کے ذریعہ عروج کی جانب پھیرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ مسلم دنیا کے پاس توانائی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے (یعنی دنیا کی کل توانائی کا ۴۰ فیصد)، معدنیات کے ذخائر ہیں (دنیا کے کل ذخائر کا ۲۰ فیصد) نیز انتہائی منفعتی نوعیت کی حامل سرزمین ان کی تحویل میں ہیں۔
مسلم دنیا پر حملے کا جب کوئی بہانہ انھیں نہیں مل رہا تھا تو صہیونی نوقدامت پرست عناصر پر مشتمل سازشی ٹولہ نے گیارہ ستمبر کی منصوبہ بند تباہی کی صورت میں یہ موقع اور جواز خود ہی خلق کر لیا۔ لہٰذا اگر کوئی اپنے ذہن پر گیارہ ستمبر کے مجموعی محرک، اس کے مقاصد، اس کا دائرہ، اس کے مختلف آلات نیز اس حملے کے بعد پوری دنیا میں امریکا کے جارحانہ رویے کے حوالے سے زور دے تو معاملہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
پاکستان امریکا کے عالمی نوعیت کے جغرافیائی و سیاسی منصوبوں میں فِٹ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ چنانچہ امریکا پاکستان کے حوالے سے دو مقاصد رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اسے اس کے جوہری اسلحوں سے محروم کر دیا جائے اور اس سے اس کی جوہری صلاحیتیں بھی چھین لی جائیں اور اس طرح اس کی حیثیت اتنی کمتر کر دی جائے کہ یہ بھارتی بالادستی قبول کرنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے اس ملک کے سیاسی نیز اقتصادی و معاشرتی حالات کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے ایک زبردست قسم کی خانہ جنگی پاکستان پر مسلط کر دی جائے۔ مزید یہ کہ اس ملک کو پے در پے دہشت گردی کے الزامات سے متہم کیا جائے یہاں تک کہ امریکا اقوام متحدہ کے توسط سے یا خود اپنے طور پر پاکستان کو ایک انتہائی غیر مستحکم اور ناقابل اعتماد ملک قرار دیدے اور دنیا میں یہ تاثر عام کر دے کہ یہ ملک دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے اور پھر اسے ایک ناکام اور دہشت گرد ریاست کا نام دے دے۔ اگر ایک بار یہ کام ہو گیا تو پھر اقوام متحدہ کو ہموار کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے جوہری اسلحوں کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرے۔ اس طرح پاکستان کے مسلمانوں کو ان کی اپنی ریاست سے محروم کر دیا جائے گا اور انھیں فرقہ وارانہ اور لسانی خطوط پر بُری طرح تقسیم کر دیا جائے گا۔ چنانچہ تمام خفیہ اور اعلانیہ امریکی کوششوں کا ہدف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
سی آئی اے کی طرف سے پاکستان جنگ کے لیے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء انفرااسٹرکچر کی تیاری
مشرقِ وسطیٰ میں امریکا نے عراق کے ہمسایہ ممالک میں اپنے اڈے قائم رکھے تھے جہاں سے وہ عراق پر حملہ آور ہو سکتا تھا۔ لیکن اس طرح کا کوئی اڈہ جنوبی ایشیا میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ افغانستان ایک واضح اور آسان ہدف تھا اگرچہ اس کا گیارہ ستمبر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہرحال امریکا یہاں پاکستان کی لاجسٹک اور انٹیلی جنس تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی وزیر خارجہ کولن پائول کے ایک فون کال کے بعد جنرل پرویز مشرف کی سرنگونی نے خود کولن پائول کو حیران کر دیا ۔ اس لیے کہ جنرل پرویز امریکا کے مطالبات سے بڑھ کر امریکا کے مفاد میں کام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ وہ افسوسناک فیصلہ اب پاکستان کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔ مشرف نے یہ سوچا تھا کہ پاکستان کے طویل المیعاد مفادات کی حفاظت کی خاطر یہ سرنگونی بہت تھوڑی قیمت ہے۔ اس نے یہ خیال نہیں کیا کہ یہ محض تھوڑے وقت کی بات ہے کہ واشنگٹن پاکستان پر حملہ آور ہونے سے قبل عراق میں اپنی مخالفت کو کسی حد تک خاموش کرنے کی کوشش کرے گا ۔ افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے بعد سی آئی اے نے پاکستان کے اندر اور باہر انٹیلی جنس نیٹ ورکس کا جال بننا شروع کر دیا اور ایسے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کی جس کا بنیادی مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا۔ اس منصوبے کا تعلق طالبان سے یا افغانستان میں جاری جنگ سے کچھ بھی نہیں تھا۔ پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد سے جسے افغانستان اور اس سے متصل پاکستانی قبائلی علاقوں کی اچھی معلومات تھی سی آئی اے نے جاسوسی اثاثوں تک براہِ راست رسائی حاصل کر لی جو اب تک صرف آئی ایس آئی کی دسترس اور تصرف میں تھے۔ سی آئی اے نے افراد اور قبائلی رہنمائوں کے رُخ اور وفاداریوں کو اپنی جانب موڑ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام قبائل ہی کو رام کر لیا آیا بہت ہی بڑی رقوم دے کر یا اگر کسی نے مزاحمت کی تو اس کو بذریعہ قتل راستے سے ہٹا کر۔ اس وقت سی آئی اے کے ذریعے آگے لائے ہوئے بیت اللہ محسود گوانتا ناموبے میں تھے جہاں انھیں پہلے تعدیب اور شکنجے کے مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد شمولیت کی پیشکش کی جاتی تھی۔ بالآخر وہ جھک گئے اور سی آئی اے کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ انھیں قبائلی علاقوں میں واپس بھیج دیا گیا جہاں وہ پاکستان طالبان تحریک کے قائد بن گئے۔ اسی طرح کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئر بیس میں گوانتاناموبے جیسے ظالمانہ حربوں کو استعمال کرتے ہوئے متعدد قیدیوں کو اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پرمجبور کر دیا گیا اور پھر انھیں قبائلی علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد مشرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئی ایس آئی کو ایسے سیکولر یا اسلامی افراد سے پاک کریں جو طالبان یا پاکستانی قبائلی آبادی سے تال میل یا ہمدردی رکھتے ہیں۔ سی آئی اے نے الزام لگایا کہ یہ (آئی ایس آئی کے) عناصر خفیہ طور سے سی آئی اے سے حاصل شدہ انٹیلی جنس معلومات دشمن کو بہم پہنچاتے ہیں جس کی وجہ سے امریکا کی فوجی کارروائیاں ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ مشرف نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل اطاعت کی اور آئی ایس آئی کو اُن عناصر سے پاک کر دیا جو خود اپنے عوام کے خلاف سی آئی کے ساتھ کام کرنے میں ہچکچا رہے تھے اور سی آئی اے کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ چنانچہ آئی ایس آئی خود اپنے ہی انٹیلی جنس اثاثوں سے الگ تھلگ کر دی گئی اور نتیجتاً اسے اپنے ہی قبائلی علاقوں کی اندرونی معلومات کے لیے سی آئی اے پر انحصار کرنا پڑا۔
سی آئی اے ہی نے مشرف کی پیٹھ ٹھونکی کہ جو کوئی بھی اس کی مطلق العنان حکومت کو چیلنج کرے اس کے خلاف وہ کارروائی کرنے سے دریغ نہ کریں۔ پھر سی آئی اے نے مشرف کی ظالمانہ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ کو کیش کرایا اور تکفیریوں، (وہ افراد جو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر اُن کے قتل کو جائز مانتے ہیں) فرقہ پرستوں اور نام نہاد جہادیوں اور جہادی تنظیموں مثلاً باجوڑ ایجنسی کے مولانا فقیر محمد، سوات کے مولانا فضل اللہ اور جنوبی پنجاب کے سپاہ صحابہؓ اور لشکر جھنگوی وغیرہ کو اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسی جنگجو تنظیموں کو بلوچستان میں شامل کر لیا گیا۔ بلوچی تو پہلے ہی سے باغی ہو چکے تھے اس لیے کہ ان کے خلاف یا ان کی تنظیموں کے خلاف برسوں سے فوجی آپریشن جاری ہے۔ تنظیمی اعتبار سے سی آئی اے نے ان تمام گروپوں کو ایک دوسرے سے جُدا رکھا ہے باوجودیکہ یہ سب ان کے پے رول پر ہیں۔ یہ گروہ اپنے مقامی علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں یہ کمتر سطح کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ چینی انجینئروں کے اغوا اور قتل میں بھی شامل ہیں جو بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر کا کام کر رہے ہیں۔ یہ پورٹ بحیرہ عرب میں خلیج فارس کے داخلے پر واقع ہے اور کراچی اور ایرانی سرحدوں کے درمیان میں واقع ہے۔ مولانا فضل اللہ سوات میں ایف ایم ریڈیو پر اپنے اعلانات کے ذریعہ حکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ لوگوں کو اپنی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔ مولانا بتدریج مقامی حکومت کی قانون نافذ کرنے کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ہیں اپنے ہاتھ میں لیتے جا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ سی آئی اے نے تقریباً تمام ناراض مقامی تنظیموں کو اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے دامِ تزویر میں لے لیا ہے۔ جو لوگ بھی سی آئی اے کے عدم استحکام سے متعلق پروگرام کا حصہ بنتے ہیں خواہ ان کا تعلق پاکستان سے ہو یا افغانستان سے، انھیں مالی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اسلحے فراہم کیے جاتے ہیں اورانھیں پاکستان کے اندر اور فوج کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس پروگرام میں سی آئی اے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے بھی مدد لیتی ہے جن کے گماشتے اُن افغان شہروں میں سرگرم ہیں جن کی سرحد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملتی ہے۔
بھارت نے ان افغان شہروں میں اپنے متعدد قونصل خانے کھول رکھے ہیں یہ قونصل خانے درحقیقت درپردہ جاسوسی کے اڈے ہیں۔ دوسری جانب سی آئی اے پاکستان سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اُن جنگجوئوں کو جن کی سی آئی اے خود پشت پناہ ہے کچلنے کے لیے اقدام کرے۔ یہ بہت ہی واضح ہے کہ امریکا کا دونوں جانب رقوم اور ہتھیار فراہم کرنا خانہ جنگی کو جنم دینے کے مقصد سے ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج جنگجوئوں سے عسکری طور پر نمٹنے کے بجائے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ شدت پسندوں اور حکومت کے مابین کتنے ہی معاہدے طے پا گئے لیکن سی آئی اے نے اپنی حرفت بازیوں سے کسی کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے سی آئی اے اور امریکا نے اُن قبائلی رہنمائوں کو قتل کیا جو پاکستان کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر چکے تھے۔ نیک محمد بیت اللہ محسود کے منظر نامے پر ابھرنے سے قبل محسود قبیلے کے قائد تھے۔ لیکن جب انھوں نے اپنا مؤقف بدلا اور پاکستانی فوج کے ساتھ امن معاہدہ کیا تو انھیں فوراً ہی امریکی میزائل حملے کے ذریعہ قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح وہ تمام قبائلی رہنما اور قبائل جو پاکستان اور اس کی فوج کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے اور ان کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا سی آئی اے کے ڈرون حملوں کا شکار ہو گئے۔
امریکا اس پر اصرار کرتا رہا ہے کہ سی آئی اے کے شہ یافتہ جنگجوئوں سے مذاکرات کے بجائے یا اُن سے امن معاہدہ کرنے کے بجائے پاکستانی فوج انھیں بے دردی سے کچل ڈالے۔ اس طرح واشنگٹن کا پاکستانی فوج پر اپنے ہی عوام پر حملے کے لیے دبائو ڈالنا دانستہ تھا تاکہ قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی کی صورت حال مسلط کی جا سکے۔ امریکا تاریخی طور پر حکومتوں کے خلاف باغیوں کو دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے پر اُکساتا رہا ہے اوران کے سہارے حکومتوں کو اقتدار سے بے دخل بھی کرتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے معاملے میں امریکا خانہ جنگی کے لیے دونوں فریق کی مالی مدد کرتا رہا ہے تاکہ ریاست کو کمزور کیا جا سکے۔ ان پالیسیوں کے نفاذ کے نتیجے میں آئی ایس آئی کا اثر و رسوخ قبائلی علاقوں میں بتدریج ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہ فوجی کاروائیوں کو وہاں موـثر بنانے میں عاجز ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ بہت ہی مختصر وقت میں سی آئی اے نے قبائلی علاقوں میں خفیہ معلومات کی جمع آوری، افراد کی بھرتی اور آپریشن کو منظم کرنے کے حوالے سے چارج سنبھال لیا اور آئی ایس آئی و دیگر پاکستانی ایجنسیوں کو کنارے لگا دیا۔ دریں اثنا امریکا کا یہ اصرار ہے کہ پاکستان کو عسکریت پسندوں کے خلاف لازماً کارروائی کرنی چاہیے اور امریکا کی طرف بظاہر اس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ بیان کیا جا رہا ہے۔ آئی ایس آئی اپنی آنکھ اور کان کھو چکی ہے اور خود اپنے قبائلی علاقوں میں زمینی حقائق کے حوالے سے ایک اندھے کی طرح بے خبر ہے۔
آئی ایس آئی کا سی آئی اے کے ساتھ تصادم، ۲۰۰۶۔۲۰۰۷ء
بالآخر ۰۷۔۲۰۰۶ء میں فوج اور آئی ایس آئی نے اُس ڈبل گیم کو ورک کر لیا جو سی آئی اے کھیل رہی تھی۔ وہ حیران ہوئے کہ صرف وہی قبائلی افراد کیوں سی آئی اے کے ڈرون حملوں کا شکار ہو رہے ہیں یا ان حملوں میں مارے جا رہے ہیں جن کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں اور جو امن معاہدوں کے ذریعہ تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
اُن کے سامنے یہ سوال آیا کہ سی آئی اے کے پروردہ باغیوں کی تنخواہیں کیوں پاک فوج کے ملازمین سے اچھی ہیں؟ یہ باغی کس طرح پاک فوج سے بھی زیادہ جدید اسلحوں سے مسلح ہیں؟ اور پھر یہ کہ یہ کس طرح پاک فوج کی پوزیشنوں سے متعلق بالکل درست معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہیں؟ اور انھیں بہتر لاجسٹک تعاون کس طرح حاصل ہے؟ باغیوں کی ایک بڑی تعداد کو نہ صرف یہ کہ بھارتی ’’را‘‘ اور اسرائیلی ’’موساد‘‘ کا تعاون حاصل ہے بلکہ یہ ایجنسیاں خود اپنے آدمیوں کو بھی پاکستان کے اندر دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے بھیج رہی ہیں۔ اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب کچھ بیرونی درانداز مارے گئے اور مقامی قبائلی افراد جب ان کو غسل دینے لگے تو انھیں معلوم ہوا کہ مقتول افراد مسلمان نہیں ہیں اس لیے کہ وہ مختون نہیں تھے۔ آئی ایس آئی نے سی آئی اے کے پروردہ کچھ مقامی باغیوں کو نیپال، کابل اور کچھ دوسرے بیرونی شہروں میں را اور موساد کے گماشتوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے بھی دیکھا۔ سی آئی اے پر اعتماد کرنے کی اپنی عظیم غلطی کا ادراک کرتے ہوئے آئی ایس آئی نے اس طرح کی شہادتوں کے ساتھ امریکیوں سے الجھنے کا فیصلہ کیا لیکن اس طرح کہ انھیں اَپ سیٹ بھی نہ کیا جائے۔ مشرف حکومت اور آئی ایس آئی اس حوالے سے بہت کچھ نہیں کر سکی سوائے یہ کہ اپنے آپ کو خفیہ امور پر اُن سے دوری اختیار کر لی اور اپنے آپ کو سی آئی اے سے آزاد ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
جنگ کا آغاز لال مسجد کے قتلِ عام سے ہوا جولائی ۲۰۰۷
جولائی ۲۰۰۷ء میں اسلام آباد کی لال مسجد کی انتظامیہ اور سیکوریٹی فورسز کے مابین تصادم نے ایک وسیع تر جنگ کا زمینہ ہموار کیا۔ سیکوریٹی فورسز نے مذہبی احاطے کا محاصرہ کر لیا۔ جس میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ (لڑکیوں کا مدرسہ اور ہاسٹل) شامل تھے اور جہاں سیکڑوں طلبا اور اساتذہ (مرد و عورت) اُن قبائلی علاقوں سے بہت دور محصور تھے جہاں یہ تصادم برپا تھا۔ امریکا نے مشرف کو شہ دی کہ وہ اپنی قوت کا اظہار کریںاور اُن کو کامیابی کے ساتھ کچلنے کی صورت میں بہت بڑے معاوضے کی مشرف کو پیش کش کی۔ آخر کار امریکا اور مغربی دنیا نے مشرف کو اتنا چڑھایا کہ وہ اس کے دام میں پھنس گئے اور صدام حسین نے جس طرح ان کے چڑھائے میں آکر کویت پر جارحیت کی تھی پرویز مشرف بھی مسجد اور مدرسہ پر حملہ کر بیٹھے۔ پاکستانی کمانڈوز نے لال مسجد احاطے پر حملہ کیا اور مردوں، عورتوں اور بچوں کا بڑے سفاکانہ انداز میں قتلِ عام کیا۔ یعنی اس حملے میں کیمیائی اسلحوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف غم و غصہ پہلے ہی عروج پر تھے۔ ان چند سالوں میں مشرف نے عام افراد کو جنہیں لاپتا افراد کہا جاتا ہے اغوا کر کے اور پھر انھیں القاعدہ طالبان کا آدمی قرار دے کر یا ان کا ہمدرد قرار دے کر سی آئی اے کے حوالے کیا اور اس کے عوض کروڑوں ڈالرز حاصل کیا۔ متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں جہاں آزاد ذہن کے حامل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے تاکہ حکومتی ایجنسیوں اور ان کے حکام پر دبائو ڈالا جا سکے کہ وہ یا تو مغوی افراد کو ریکارڈ پر لائیں یا انھیں رہا کریں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کا امریکا منتظر تھا۔ لوگوں کی اکثریت فوج کے خلاف نفرت میں مبتلا تھی اور لال مسجد انتظامیہ، ان کے اساتذہ اور طلاب کی ان کے شدت پسند خیالات کے باوجود حمایت کر رہی تھی۔ مقتول اساتذہ اور طلاب کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سی آئی اے کے درپردہ حمایت یافتہ باغیوں نے ریاست کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ کر دیا۔ تکفیری فرقہ پرست گروہ اور بیت اللہ محسود کے قبیلہ نے فوج، آئی ایس آئی اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف پے در پے خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ایسی حالت میں کہ یہ حکومتی اور فوجی کارندے پہلے ہی عوام سے پوری طرح الگ تھلگ ہو چکے تھے۔ زیادہ تر واقعات میں لوگ فوج کو مار کھاتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، سیکڑوں فوجی اور پیراملٹری فورسز مارے جا چکے ہیں۔ بمباروں نے کوئی بھی جگہ نہیں چھوڑی ہے۔ انھوں نے اُن کمانڈوز کے ڈائننگ ہال میں بم دھماکہ کر دیا جنہوں نے لال مسجد آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ آرڈدیننس فیکٹری واہ پر حملہ کیا اور متعدد سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں پر حملہ کیا جو ان کے نظریہ کی مخالفت کرتے تھے۔ ہزاروں بے گناہ لوگ بھی ان خود کش دھماکوں کی نذر ہو گئے۔ ۲۰۰۷ء کے اختتام پر مشرف مزید تنہا ہو گئے جب انھیں سپریم کورٹ کی طرف سے خطرہ لاحق ہوا جہاں ایک فُل بنچ اس درخواست کی سماعت کر رہا تھا کہ آیا مشرف کو آرمی چیف ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب لڑنا چاہیے یا نہیں۔ کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر مشرف نے عدلیہ کے اعلیٰ افسران کو برطرف کر دیا اور ۳ نومبر کو ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وکلا کی تحریک جو اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے لیے اُٹھی بہت مقبول ہوئی۔
۲۰۰۷ء کے اختتام پر ہی امریکا نے سی آئی اے کی ماتحتی میں کام کرنے والے قبائل اور تکفیری فرقہ پرست گروہوں کو جو اب تک الگ الگ کام کر رہے تھے اشارہ دیا کہ وہ ایک تنظیم کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ چنانچہ نومبر ۲۰۰۷ء میں یہ تمام گروہ بیت اللہ محسود کی سربراہی میں تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے نیچے جمع ہو گئے۔ افغان طالبا ن نے فوراً ہی اس گروہ کی جانب سے طالبان کا نام استعمال کرنے کی بنا پر مذمت کی اس لیے کہ عام لوگوں میں یہ چیز غلط فہمی کو جنم دے رہی تھی اور لوگ سمجھنے لگے کہ طالبان اب پاکستان میں بھی آگئے۔ افغان طالبان کے سربراہ مُلّا عمر نے تحریکِ طالبان پاکستان کی اس کے پاکستان میں سیاسی عزائم کی وجہ سے مذمت کی۔ مُلّا عمر نے وضاحتی بیان جاری کیا اور کہا کہ ان کی تنظیم کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ وہ پاکستان میں اپنے کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان نے پاکستان میں اپنے مقاصد و اہداف کو واشگاف نہیں کیا ہے۔ امریکا یہ باضابطہ طور پر سمجھتا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا سربراہ بیت اللہ محسود ایک دہشت گرد ہے لیکن سی آئی اے کے زیرِ کنٹرول ہے اور سی آئی اے نے اُس کی سمت متعین کی ہے اور اس کو مسلح کیا ہے تاکہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ سکے۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف نے اپنے استعفیٰ والی ٹیلی ویژن تقریر میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی نے بیت اللہ محسود اور اس کے ساتھیوں کے حقیقی ٹھکانوں کی معلومات سی آئی اے کو دی لیکن اُن کو کبھی نشانہ نہیں بنایاگیا۔
پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے امریکا کی کثیرالجہتی جنگ
جبکہ سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغیوں نے پورے ملک میں حملوں کا سلسلہ شروع کیا تو امریکی افواج نے ۲۰۰۸ء کے اوائل سے قبائلی علاقوں میں اپنے ڈرونز کے ذریعہ میزائل مارنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے سیکڑوں معصوم لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ابتدا میں یہ جنگ صرف قبائلی علاقوں تک محدود تھی۔ اب یہ جنگ شہروں اور متصل علاقوں تک بھی پھیل گئی ہے۔ ۲۰۰۸ء کے موسمِ گرما کے اواخر میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغی باجوڑ ایجنسی اور سوات میں بھی پھیل گئے۔ سیکڑوں غاروں کو استعمال میں لاتے ہوئے نیز زیر زمین سرنگوں اور ٹھکانوں کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے مہلک ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ جمع کر لیا جس میں اینٹی ٹینک میزائل، راکٹ لانچرز اور مشین گنز شامل ہیں پھر ان اسلحوں کے ساتھ انھوں نے پاکستانی افواج پر حملے شروع کر دیے۔ ۳ ستمبر کو ایک عدیم المثال دشمنانہ اقدام میں امریکا کی زمینی قوتیں پاکستانی سرزمین میں داخل ہو گئیں اور قبائلی علاقوں کے ایک گائوں پر حملہ کیا۔ مشرف پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی حمایت کی وجہ سے کافی غیرمقبول ہو چکے تھے لہٰذا امریکا نے بڑی کامیابی سے سیاسی تبدیلی کے لیے اپنا پرانا حربہ استعمال کیا۔ اس نے بے نظیر بھٹو سے اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) سے اپنے اختلافات دور کیے۔ مذاکرات کے نتیجے میں ایک نامناسب عنوان سے سہ طرفہ ڈیل ہوئی یہ نا مناسب عنوان National Reconciliation Ordinance (NRO) تھا جس کے تحت پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے تمام الزامات واپس لے لیے گئے۔ انھیں وطن واپس لوٹنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ طے ہوا کہ اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو انھیں حکومت بنانے کی اجازت ہو گی جبکہ مشرف محض نام کے صدر ہوں گے۔ لیکن انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی بے نظیر قتل کر دی گئیں۔ فطری طور سے انتخابات میں دیر ہونی تھی لیکن جب یہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی اور نتیجتاً مرحومہ بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری صدر بن گئے۔ ایک چھوٹے سے سنیما ہال کے مالک ہونے کے ناتے زرداری کو دولت جمع کرنے کی ہمیشہ تمنا رہی اور وہ اس کے لیے ہر غیر اخلاقی کام کرنے کے لیے آمادہ رہے۔ انھوں نے جلد ہی پاکستان کے سب سے زیادہ بدعنوان آدمی کی حیثیت سے شہرت حاصل کر لی۔ زرداری ایک رشوت خور کردار ہے اور مشرف سے بھی بدتر ہے۔
زرداری نے امریکا کے ہر حکم کی اطاعت کی ہے اور ان کی قیادت میں نظام مزید بدعنوان ہو گیا ہے، معیشت کمزور ہوئی اور چند مہینوں کے اندر زرداری نے ملک کو نادہندگی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اپنے ملک کے اندر وسائل تلاش اور پیدا کرنے کے بجائے وہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کاسۂ گدائی لیکر آئی ایم ایف کے پاس پہنچ گئے۔ اب بھی ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے۔ اگرچہ زرداری حالات کو تیزی سے اُس طرف لے گئے ہیں جس کی وجہ سے امریکی مداخلت آسان ہو گئی ہے تاہم امریکا زرداری سے بہت زیادہ خوش نہیں ہو سکتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں امریکا نے پاکستان کو مزید کمزور کرنے کے لیے اپنی جنگ کو بین الاقوامی اور سفارتی سطح تک بھی وسعت دی۔ مغرب پاکستان پر ’’مزید کارروائی کرو‘‘ (To do more) کے عنوان سے مستقل دبائو بنائے ہوا ہے۔ مغرب کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کو داخل ہونے سے روکے کیونکہ بقول اس کے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ مغرب نے پاکستان کے لیے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے اول بعض افراد پر دہشت گردی کے ارتکاب کا الزام لگاتے ہوئے پھر ان عام شہریوں کا آئی ایس آئی کے بعض ریٹائرڈ افسران سے تعلق جوڑتے ہوئے کہ وہ ان کو فوجی تربیت دیتے ہیں اور آخر میں خود آئی ایس آئی پر براہِ راست الزام رکھتے ہوئے کہ یہ بیرونِ ملک دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور ملک سے باہر متعدد دہشت گردانہ کارروائیاں اس ایجنسی کی مدد اور پشت پناہی سے انجام پاتی ہیں۔ بہرال کوئی ٹھوس ثبوت اس حوالے سے کبھی فراہم نہیں کیا گیا۔ امریکا اور بھارت نے آئی ایس آئی پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ یہ جولائی ۲۰۰۸ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانہ پر خود کش بم دھماکہ کی ذمہ دار ہے بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے۔ اس کا مقصد ایجنسی کو اتنا بدنام کرنا ہے کہ اس کو ختم کرنے کا مطالبہ ناقابل مزاحمت بن جائے۔ اگر آئی ایس آئی کو ختم کر دیا جاتا ہے تو فوج اور حکومت دونوں ہی بالکل اندھی یعنی لاچار ہو جائیں گی اور پھر مغرب ایک بڑے ہدف کی طرف بڑھے گا جو کہ ملک اور فوج دونوں ہی کی تحدید و تخفیف ہے۔ امریکا خطّے میں بھارت کو پروان چڑھاتا رہا ہے تاکہ وہ چین کے مقابلے میں کھڑا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایس آئی کے انہدام کو یقینی بنایا جائے تاکہ یہ اِقدام پاکستانی فوج اور ریاست کو بھوٹان جیسے ملک کی سطح پر لانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ جس کے بعد اس ملک کے لیے بھارتی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار ممکن نہیں رہے گا۔ اس طرح مغرب نے بھارت کو اپنی صف میں شامل کرتے ہوئے اسے اجازت دی ہے کہ دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کا چہرہ مسخ کرنے کی مہم چلائے۔ ہر چند سالوں میں بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ کرایا جاتا ہے آیا ہندو جنونیوں کے ذریعہ یا دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ یا پھر سی آئی اے اور موساد کی ملی بھگت سے لیکن اس کا الزام پاکستان پر ڈالا جاتا ہے۔ ممبئی حملے اس تسلسل کی کڑی ہیں جس کے لیے پاکستان کو بغیر کسی ثبوت کے موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے ہر ایک واقعہ کے بعد کشیدگی میںاضافہ ہوتا ہے اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی بھارتی بیان بازیوں کا مقصد جنگ چھیڑنا نہیں ہوتا ہے بلکہ جھوٹے الزامات کے ذریعہ پاکستانی فوج کو بدنام کرنا اور آئی ایس آئی کو ایک دہشت گرد ایجنسی کے طور پر مشہور کرنا نیز نام نہاد جمہوری حکومت کو اتنا کمزور کرنا ہے کہ معاملات پر اس کا کنٹرول کمزور سے کمزور تر ہو جائے۔ اس طرح امریکا جوہری اسلحوں کے پھیلائو کے الزامات کے ذریعہ بھی ’’غیر مستحکم‘‘ پاکستان کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ۷۰ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے آغاز سے ہی پاکستان کے خلاف جوہری اسلحوں کے پھیلائو کے الزامات کثرت سے سننے میں آئے۔
سب سے پہلے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف اُکسانے والے صہیونی ہیں لیکن سردجنگ کے دوران امریکا دوسرے زاویے سے دیکھتا تھا۔ بہرحال سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب بہت جری ہو گیا۔ اگر صہیونی ایران کے غیر موجود جوہری اسلحوں سے متعلق تشویش کا اظہار کر سکتے ہیں تو انھیں پاکستان کے حقیقی جوہری اسلحوں کے متعلق ضرور پریشان ہونا چاہیے۔ مشرف نے ایک حرفت کے ذریعہ اُن کی تشویش کو دور کرنے کی کوشش کی جس سے مغرب نواز حکمران اچھی طرح آشنا ہیں۔ یعنی ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اُن کے سامنے سرنگوں ہو جائو اور اُمید رکھو کہ وہ تم کو چھوڑ دیں گے۔ مشرف نے خفیہ طور پر صہیونیوں سے دوستی قائم کی اور پھر صہیونی ریاست سے خفیہ رابطے قائم کیے یہاں تک کہ استنبول میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین اعلانیہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ مشرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب تھے۔ مگر عوام کے تیکھے تیور دیکھ کر رُک گئے۔ امریکا کے نومنتخب صدر بارک اوباما نے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے حیرت انگیز خارجہ پالیسی کی ابتدا کی ہے یہ اقدام امریکا کی نیک نیتی کے سبب نہیں ہے۔ اس لیے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اس پر بہت زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب کبھی امریکا یا مغرب تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے تو یہ محض اُن کے اپنے مفادات کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں امریکی نیک نیتی کا اعلان ایک دوسرا مذموم پہلو بھی رکھتا ہے۔ جبکہ اسلام آباد کا تنہا دشمن بھارت ہے چنانچہ پاکستان نے بہ تکرار یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے جوہری اسلحے بھارت سے مخصوص ہیں اور اگر مسئلہ کشمیر کسی حد تک حل ہو جاتا ہے تو پاکستان کے پاس ان اسلحوں کے رکھنے کا کوئی جواز نہ ہو گا۔ لہٰذا مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد پاکستان کو مجبور کیا جائے گا وہ اپنے جوہری اسلحے اور اس سے متعلق دیگر صلاحیتیں آئی اے ای اے کے ذریعہ امریکا کی تحویل میں دے دے۔ سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی پاکستان بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے جیسا کہ اس کے تقریباً تمام ہی سیاسی رہنما امریکا کے زیرِ اثر ہیں۔ مسئلے کی نوعیت جو بھی ہو اسلام آباد میں موجود یہ امریکی سفیر ہے جو وائسرائے کی مانند اختیارات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے سے متعلق ہدایت دیتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (ANP) جو روایتی طور پر بائیں بازو کی جانب رجحان رکھنے والی پارٹی ہے نے امریکا کے کردار کو بطور ثالث خاموشی سے تسلیم کر لینے میں گو ہچکچاہٹ محسوس نہیں۔ اس کے رہنمائوں نے کروڑ ہا ڈالرز امریکا سے بطور رشوت وصول کیے۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ بھی مضبوطی کے ساتھ مغربی کیمپ میں رہی ان کی پیشکش کو قبول کرنے کی خواہش کے ساتھ۔ اگرچہ دونوں ایک ہی آقا کے خدمت گزار ہیں لیکن گلیوں کی سطح پر اے این پی اور ایم کیو ایم بندوق بردار ہو کر برسوں سے باہم دست و گریباں رہے ہیں اور بندرگاہی شہر کراچی کو انھوں نے مفلوج بنا رکھا ہے۔ بڑے پیمانے پر افواہ پھیلی ہوئی ے کہ آئندہ سال اس قسم کے لسانی فسادات دوبارہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ رونما ہو ں گے۔ دونوں پارٹیوں کو عام طور سے امریکا کا باج گزار خیال کیا جاتا ہے جو اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے فوری طور سے فسادات کروا سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکا نے اپنے آدمی بیورو کریسی میں اہم مناصب پر بٹھا رکھے ہیں جو اختیار کی تمام ڈوروں کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔
سی آئی اے کے اوبامہ کے لیے جنگی منصوبے
امریکا کے لیے اسٹیج تیار کر دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی گردن کے گرد اپنا پھندا کسے۔ ملک کو سی آئی اے کی حمایت یافتہ چھاپہ مار جنگ کے ذریعہ کمزور کر دیا گیا ہے جبکہ امریکا نے پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے بھی عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ہر مسئلے میں بدنام کیا گیا اور اس بدنامی کا دائرہ جوہری اسلحوں کے پھیلائو اور دہشت گردی سے لیکر اسلحوں کی دوڑ تک وسیع ہے۔ صہیونیوں نے نومنتخب صدر بارک اوبامہ کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اس کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے کا مشکل ایجنڈا دیا ہے۔ اس ایجنڈا پر پیشرفت کی خاطر اوباما نے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس سے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کو کہا ہے تاکہ وہ پاکستان جنگ کی نگرانی کر سکے۔ امریکا عراق سے اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے اور اپنے مزید تین لڑاکا بریگیڈز افغانستان میں موسم بہار کے آخر تک تعینات کرے گا۔ ان فوجیوں کو طالبان سے نہیں لڑنا ہے جو پہلے ہی ملک کے ۷۰ فیصد حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں اور تقریباً کابل کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ انھیں زیادہ تر جنوب میں تعینات کیا جائے گا جیسا کہ گیٹس نے گیارہ دسمبر کو اپنے قندھار کے دورے کے دوران نشاندہی کی۔ اسی طرح اوباما کو ان کی پہلی مدت ہی میں پاکستان منصوبہ کو کامیاب بنانے کا فریضہ سونپا گیا ہے یعنی ۳ سے ۴ سال کی مدت میں۔ وقت کے دورانیہ کا تعین بہت اہم ہے اور آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ رابرٹ گیٹس سے ملاقات کے بعد افغانستان میں اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل David Mckiernan نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’افغانستان سیکوریٹی فورسز کی تعمیر میں ۳ سے ۴ سال کا عرصہ لگے گا جس میں سیکوریٹی فورسز و افر طریقہ سے اپنی اُس صلاحیت کو پہنچ جائیں گی جس کے بعد ان کا انحصار ۷۰ہزار بیرونی افواج پر کم ہو جائے گا (اس سلسلے میں خاصا زور تھا)‘‘۔ اس کے لیے امریکا نے بھارت سے معاہدہ کیا ہے کہ وہ ڈیڑھ لاکھ افواج افغان سیکوریٹی فورسز کی تربیت کے لیے بھیجے۔یہ بھارتی فوجی افغانستان جنگ میں بھی حصہ لے سکتے ہیں اور شاید پاکستان جنگ میں بھی۔ بھارت پہلے ہی سے افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو تربیت دے رہا ہے۔ مذکورہ بالا دورانیہ کے حوالے سے زیادہ صحیح تاریخ کا تعین امریکی حکومت کے دوسرے بازو کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ایک امریکی رپورٹ جو دسمبر کے اوائل میں بائی پارٹیزن کمپنی کی طرف سے عام تباہی کے اسلحوں کے پھیلائو اور دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق جاری ہوئی ہے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر امریکا پر تباہ کن اسلحوں سے حملہ ہوتا ہے تو اس کا منبع پاکستان ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق ’’اگر کسی کو آج دہشت گردی اور عام تباہی کے اسلحوں کا نقشہ تیار کرنا ہو تو تمام شاہراہیں پاکستان میں جاکر ملتی ہیں‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکی پالیسی کا نقطۂ ارتکاز پاکستان کو سیاسی و اقتصادی استحکام کے حصول میں مدد دینا ہونا چاہیے‘‘۔ اس کے حصول کے لیے جس سال کا تعین کیا گیا ہے وہ ۲۰۱۳ء ہے یعنی ٹھیک اب سے چار سال بعد۔ کمپنی نے ۳دسمبر کو صدر بش، نومنتخب نائب صدر جوزف بائیڈن اور سینئر کانگریس رہنمائوں کو بریفنگ دی اور متنبہ کیا۔ ’’زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردانہ حملوں کے لیے عام تباہی کے اسلحوں کو یہاں اپنے ملک میں اور دنیا کے اطراف میں استعمال ہونے دینے سے روکنا ہے‘‘۔ یہ بیان وائٹ ہائوس پریس سیکریٹری مس ڈانا پیرینو نے اس وقت دیا جب ان سے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے مزید کہا ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی مزید اقدام کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو کچھ ہم کر چکے ہیں وہ آئندہ کی ٹیم کے لیے واقعتا ایک اچھی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ اس مہم کو آگے لے جا سکیں اور ہم سب کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر سکیں‘‘۔
رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان امریکا کا اتحادی ہے لیکن ’’اس بات کا سنگین خطرہ ہے کہ یہ نادانستگی میں امریکا پر دہشت گردانہ حملے کا سرچشمہ بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے ساتھ‘‘۔ کمیشن نے آئندہ انتظامیہ اور کانگریس کو تاکید کی ہے کہ وہ پاکستان کی جانب خصوصی توجہ دے کیونکہ یہ جغرافیائی دوراہا ہے دہشت گردی اور عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے لیے۔ امریکا کی خفیہ پالیسی یہ ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کو بتدریج اس حد تک کمزور کر دے کہ پاکستان کو اس کی جوہری صلاحیت سے محروم کرنے کا اسے جواز مل جائے۔ الزام کی حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لیے امریکی ’’کمزوری‘‘ جیسی عام اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ پاکستان کو کمزور کون کر رہا ہے جبکہ ساتھ ساتھ امریکا بنیاد پرست اسلامی جنگجو کا مسئلہ اٹھا رہا ہے یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت تک ان کی رسائی ہو سکتی ہے یا پاکستان کے جوہری اسلحے ان کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس سے عالمی امن کا خطرہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ۸۵ جوہری اسلحے اور ان کے اجزا پاکستانی فوج کے مکمل کنٹرول میں ہیں اور ان کے اندرونِ ملک چوری ہونے یا بیرونی عناصر کے ذریعے چرائے جانے کا امکان معدوم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’شدت پسند اسلامی عناصر مثلاً القاعدہ یا طالبان کی ان جوہری اسلحوں تک رسائی کا خطرہ حقیقی ہے‘‘۔ رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ ’’اگر پاکستانی حکومت مزید کمزور ہوئی اور پاکستان کے جوہری اسلحوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جائے گا‘‘۔ لہٰذا امریکی پالیسی واضح ہے۔ ایک بار جب پاکستانی ریاست کمزور ہو جاتی ہے جہاں ان کے خیال میں پاکستان کے حوالے سے یہ بات کہنے کا وقت آ گیا ہے تو یہ لوگ اسلامی شدت پسندوں اور جنگجوئوں کے مسئلے پر شور مچائیں گے کہ یہ عناصر پاکستان کے جوہری اسلحوں پر کنٹرول حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ امریکی منصوبہ پاکستان کو جوہری صلاحیتوںیا جوہری اسلحوں سے محروم کرنا ہے تاکہ اس ملک کو سِکم اور نیپال کی سطح پر لایا جا سکے۔ اس صورت میں پاکستان اس قابل نہیں ہو گا کہ وہ بھارت کی بالادستی کو چیلنج کر سکے۔ اس طرح امریکا گرم پانی تک رسائی یعنی گوادر پورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس طریقے سے وہ ایران اور چین کو اپنے نرغے میں لے سکے گا اور خلیج فارس و وسط ایشیا کے توانائی کے سرچشموں نیز ان تک رسائی کے راستوں پر اپنا کنٹرول قائم کر سکے گا۔
کسے یہ حق ہے کہ آمریت اور بدعنوان نظام کو تبدیل کرے
اس طرح نوشتۂ دیوار پڑھا جا سکتا ہے۔ ہدف، دورانیہ اور تاریخ نیز وہ میکنزم جس کے ذریعہ ہدف حاصل کیا جانا ہے سب کچھ واضح ہے۔ اگر جنرلز چند سالوں میں بیدار نہیں ہوتے ہیں تو نہ ان کو موجودہ مراعات حاصل ہوں گی اور نہ ان کے پاس کمانڈ کرنے کے لیے طاقتور ڈویژنز ہوں گی۔ بلکہ وہ ایک کمزور پاکستان میں ٹریفک ڈیوٹی انجام دے رہے ہوں گے۔ ملکی مفادات کی قیمت پر اپنے ذاتی اور طبقاتی مفادات کے لیے ان کی تگ و دو نیز حرص و ہوس اور سطحی سوچ نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور پاکستان کا وجود ہی سرے سے معرضِ خطر میں پڑ گیا ہے۔ بعض لوگ اس پر خوش ہیں کہ فوج اور پولیس ایجنسیاں خود کش دھماکوں کے سبب اپنے زخم چاٹ رہی ہیں اور یہ کہ اب وہ آئندہ وردی میں باہر نکلنے کے قابل نہیں رہیں گی۔ لوگوں کا یہ احساس ہے کہ وہ وہی کاٹ رہی ہیں جو انھوں نے بویا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ احساس درست ہو سکتا ہے لیکن یہ سراسر تنگ نظری پر مبنی ہے اس لیے کہ اگر ملک مکمل طور پر امریکا کے کنٹرول میں چلا جاتا ہے اور پورا نظام منہدم ہو جاتا ہے تو اس کا نقصان ہر ایک پاکستانی کو ہو گا۔ بعض دوسرے لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ موجودہ مغرب نواز اور بدعنوان سیاسی نظام ختم ہو رہا ہے اور اگرچہ اُفق پر کوئی مثبت علامات نظر نہیں آ رہی ہیں وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس نو آبادیاتی نظام کے ملبے پر اسلامی نظام کی کوئی شکل تعمیر ہونے جا رہی ہے۔ ان کا یہ خیال بھی سادہ لوحی اور خوش فہمیوں پر مبنی ہے۔ اسلامی نظام اپنے آپ معرضِ وجود میں نہیں آ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا حامیٔ مغرب نظام کو اس طرح کبھی منہدم نہیں ہونے دے گا کہ اسلامی نظام کا قیام اس کی جگہ پر عمل میں آئے جیسا کہ عراق میں اس کے رویے سے ظاہر ہے۔ امریکا کو وہ کام کیوں کرنا چاہیے جس کی بنیادی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے؟ دوسری طرف بات یہ ہے کہ اگر مسلمان ایک ملک یا ریاست رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو وہ چھوٹی یا بڑی کسی اسلامی تبدیلی کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اسلامی انقلاب کا خواب؟ آمریت، بدعنوان و غیر عادلانہ نظام بے شک خراب ہیں جو قوموں کو ذلت اور مایوسی سے دوچار کرتے ہیں لیکن وہ غلامی جو بیرونی جارحیت کے نتیجے میں مسلط ہوتی ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا عذاب ہے مسلمانوں کو جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ جب امریکا نے عراق پر قبضہ کر لیا تو موساد کے ایجنٹس خفیہ طریقے سے یہاں داخل ہو گئے اور عراق کے بہت سارے عبقری میزائل و جوہری سائنس دانوں اور انجینئروں کو قتل کر دیا۔ اس پہلو پر میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ اسی طرح ان گماشتوں نے سنیوں اور شیعوں کی مساجد کو دھماکوں سے مسمار کر دیا تاکہ معاشرے کو فرقہ وارانہ خانہ جنگی سے دوچار کر دیا جائے۔ یہ عمل معاشرے کو ناکارہ بنا کر رکھ دینا ہے جس کے بعد کوئی معاشرہ مدتوں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ معاملات وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں استعماری طاقتوں سے آزادی کے بعد کی مدت کو نو استعماری دور کہا جاتا ہے جہاں استعمار کا نظام، اس کی قدریں، اس کے اصول، اس کے قوانین سے استفادے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ تین بلکہ اس سے زیادہ نسلوں تک باقی رہتے ہیں۔ یہ تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے خاص طور سے مسلمانوں کی کہ وہ بدعنوان اور غیر عادلانہ یا ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکیں ورنہ انھیں اس کی بھاری قیمت چُکانی پڑے گی۔ اُن کا یہ بھی حق اور فرض ہے کہ ہر ممکن طریقے سے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ اسلام کی قدروں سے زیادہ قریب ہو سکیں قطع نظر اس سے کہ اس میں کتنا طویل عرصہ لگتا ہے۔ بیرونی غلامی جو بیرونی جارحیت کے نتیجے میں مسلط ہوتی ہے بھاری قیمت وصول کرتی ہے اور تادیر قائم رہتی ہے۔ بیرونی قوت پر انحصار کے نتیجے میں معاشرے کی تخلیقی صلاحیت بانجھ پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ بہرحال پاکستان سے متعلق امریکی اہداف کے حوالے سے کوئی بھی مشکل ایسی نہیں ہے کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مقابلہ مؤثر طریقے سے کیا جا سکتا ہے اگر ہم قوتِ ارادی، عزم اور اتحاد سے کام لیں۔ مشکل کی کلید یہ ہے کہ ہم بتدریج اپنے آپ کو امریکا اور اس کی پالیسیوں سے دور کریں۔ درج ذیل اقدامات رہنما اصول ہو سکتے ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے ملک کو محفوظ اور مستحکم کر سکتے ہیں:
(۱) پہلے قدم کے طور پر نااہل اور پوری طرح بدعنوان زرداری کو منصب سے سبکدوش ہونا چاہیے اور ان کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح کا معاملہ ان کی حکومت کے ساتھ ہونا چاہیے جس کے وہ سربراہ اور قائد ہیں۔ زرداری سیکوریٹی رسک بن چکے ہیں۔ بھارت کے سامنے ان کا معذرت خواہانہ رویہ اور مختلف مسائل پر ان کے بیانات کافی پریشان کن ہیں اور ان میں پاکستان سے وفاداری کا فقدان ہے۔ مثلاً یہ کہ زرداری نے بھارت اور امریکا کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کو قبول کر لیا۔ انھوں نے بھارت کی طرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو ایک ’’تکنیکی غلطی‘‘ سے تعبیر کیا۔ وہ چناب ندی میں بھارت کی جانب سے پانی کے بہائو روکے جانے پر خاموش رہے جس کی وجہ سے کاشت کی ہزار ہا ایکڑ زرخیز اراضی پاکستان میں بنجر اور بے کار ہو گئیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود زرداری کا اصرار ہے کہ بھارت دشمن نہیں بلکہ پاکستان کا دوست ہے۔
(۲) آئی ایس آئی اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو سیاست میں اور عام آدمیوں کی زندگیوں میں مداخلت بند کرنا چاہیے۔
(۳) معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو فوری طور سے ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن پر بحال کرنا چاہیے۔
(۴) سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر آئین معطل کرنے اور اسی طرح کے دوسرے سنگین جرائم کی وجہ سے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
(۵) سرکاری عہدہ کے حامل کسی بھی سیاستدان کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اثاثے اور روپے ملک سے باہر رکھے۔ وہ اپنے تمام بیرونی اثاثے اور نقد رقوم پاکستان واپس لائے۔ عام انتخابات کا پانچ سال کے بجائے ہر ۴ سال پر انعقاد ہونا چاہیے۔
(۶) دو کمیشن قائم کیا جانا چاہیے ایک قومی سلامتی پر اور دوسرا اقتصادی پالیسیوں پر اور جن کے آزاد اراکین کو نہ مغرب نواز ہونا چاہیے اور نہ آئی ایم ایف کے زیر اثر۔ اقتصادی کمیشن کے اراکین کی اصل خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود انحصاری پر مبنی اقتصادی پالیسیاں تشکیل دیں اور مقامی وسائل پیدا کریں اور منصوبوں کو مقامی وسائل سے مکمل کریں۔
(۷) کالج سے فارغ ہونے والے طلبہ (۱۷ یا ۱۸ سال کے طلبہ) کو اعلیٰ تعلیم کی طرف جانے سے پہلے لازمی فوجی تربیت دینی چاہیے تاکہ امریکا کے مسلط کردہ جنگ کے خلاف اپنے ملک کے دفاع کے لیے تیار رہیں۔
(۸) اُن تمام سیکولر اور تکفیری تنظیموں کی شناخت کی جانی چاہیے اور اُن پر پابندی عائد کرنی چاہیے جنہیں سی آئی اے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مالی امداد اور اسلحے دے رہی ہے۔
(۹) دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام تعاون کو فوری طور سے روک دینا چاہیے اور اُن تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو امریکا اور سی آئی اے کے آلۂ کار کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
(۱۰) بین الاقوامی سطح پر شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہیے اور امریکا و نیٹو کے ساتھ تعاون کو کم کرنا چاہیے یہ انتہائی منطقی بات ہے کہ ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ تعاون کو بڑھانا چاہیے اور روبہ زوال ظالم طاقتوں کے ساتھ تعاون کو ختم کرنا چاہیے۔ نا ہی اللہ تعالیٰ اور نا ہی انسان بیک وقت دو کشتیوں پر سوار ہونے کو (منقسم وفاداری کو) پسند کرتا ہے۔
(۱۱) ایران پاکستان بھارت (IPI) پائپ لائن کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جانا چاہیے اگر بھارت امریکی دبائو کی وجہ سے اس میں شریک نہ بھی ہو تب بھی۔ چین نے ایران پاکستان چین (IPC) پائپ لائن میں پہلے ہی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
(۱۲)ازسرِ نو پاکستانی خارجہ پالیسی کا رُخ متعین کیا جانا چاہیے یہ کہ ’’مشرق کی طرف دیکھو‘‘ جس کا مطلب ہے ایران اور چین کی طرف دیکھو اور علاقائی تعاون کو فروغ دو۔
(۱۳) پاکستان ایران اور چین کو چاہیے کہ وہ افغانستان مسئلے کا حل صرف افغان طالبان کے ساتھ مل کر نکالیں تاکہ افغانستان اپنے پڑوسی ممالک اور خطّے کے مفادات کے خلاف کام نہ کرے۔ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو اور غیر ملکی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ رہے۔ اس کے بعد غیرملکی افواج سے افغانستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱۴) پاکستانی فوج اور فضائیہ دونوں کو فوری طور سے امریکا اور نیٹو کا جواب دینا چاہیے تاکہ وہ پاکستانی سرزمین پر براہِ راست یا سی آئی اے کے زیرِ تحویل ڈرونز کے ذریعہ اپنے حملوں کو روکیں۔
(۱۵) اگر امریکا جوابی کارروائی کرتا ہے تو پھر سمجھنا چاہیے کہ یہ اُس معاہدے کی تنسیخ ہے کہ جس کے تحت پاکستان امریکی اور نیٹو فورسز کو اپنی سرزمین کے راستے لاجسٹک تعاون، پانی، ایندھن، غذائی اشیا فراہم کرتا ہے۔
یہ کم سے کم اقدامات ہیں جو ملک کو آنے والی تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ اقدامات پاکستانی قیادت کو نہ صرف آزمانے کے لیے ہے کہ وہ کس قدر ملک کو بچانے کے لیے مخلص ہیں بلکہ پاکستان کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے ممالک جوہری اسلحوں سے محروم ہونے کے باوجود امریکا کے ناپاک عزائم کے خلاف اپنا کامیاب دفاع کر سکتے ہیں تو پاکستان جو کہ ایک قدرے بڑا اور طاقتور ملک ہے ایسا ضرور کر سکتا ہے بشرطیکہ یہ ویژن اور سیاسی قوتِ ارادی سے کام لے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’کریسنٹ انٹرنیشنل، ٹورانٹو۔ جنوری۲۰۰۹ء)
Leave a Reply