
بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی موت پہ بہت ساری تحریریں لکھی گئیں۔ سادہ لوح قلم کاروں نے ان کی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو لفظوں کے پردے سے ڈھانپنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ’’سَنگھی ذہن‘‘ کے مالک ایک انتہا درجے کے شاطر انسان کا نام تھا: ’’اٹل بہاری واجپائی‘‘۔
زیرِ نظر تحریر ان پر لکھی گئی اب تک کی تمام تحریروں میں بہتر اور محقِّقانہ تحریر محسوس ہوئی، جسے جناب شبیع الزماں پونہ نے خونِ دل سے رقم کیا ہے۔
(ادارہ)
۱۶؍اگست کو بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ۹۳سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔اٹل بہاری واجپائی طویل عرصے بھارتی پارلیمان کے ممبر رہے۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی موت کے بعد دو طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں، اکثر لوگ انہیں سنت (saint) ثابت کرنے پر تلے ہیں اور بعض نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے ان کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لیاہے۔ مسلمانوں میں بھی بعض لیڈر راہنما right person in wrong party کے نام سے یاد کرنے لگے اور کچھ حالات کی دہائی دے کر اور کچھ سیرت رسولﷺ کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ان کی تنقید سے روکتے رہے۔
ان مسلم رہنماؤں اور علما سے تو خیر کوئی گلہ نہیں، سادہ لوحی صرف عادت ہی نہیں بلکہ ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن حیرت ان مسلم و غیر مسلم راہنماؤں اور صحافیوں پر ہوئی جو دن رات عملی سیاست میں پڑھ،لکھ اور دیکھ رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اٹل بہاری واجپائی نے پچھلے چالیس سال میں ہندوتوا برانڈ کی سیاست کو کھڑا کیا۔ وہ بھی انہیں لبرل لیڈر کہہ کر شردھانجلی دے رہے ہیں۔
بات اس حد تک تو درست ہے کہ کسی شخص کی موت پر اس کی شخصی برائیاں اور عیوب بیان کرنا بری بات ہے لیکن کسی سیاسی راہنما کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لینا کوئی معیوب بات نہیں، پوری صحافتی دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے۔
اٹل بہاری کی موت پر مختلف لوگوں نے جن باتوں کے ذریعہ ان کو صحیح آدمی اور لبرل راہنما بنانے کی کوشش کی اس میں عجیب طرح کی باتیں پیش کی گئی ہیں، جیسے کہ وہ چکن بڑے شوق سے کھاتے تھے،وہسکی ان کو بہت پسند تھی ،اپنے اوپر تنقید کو بڑا دل کرکے برداشت کرتے تھے،شاعر تھے، موسیقی کا خاص ذوق رکھتے تھے، مخالفین سے ہنس کر ملتے تھے، صحافیوں کو پیار سے ڈانٹتے تھے۔ ممکن ہے یہ تمام صفات ان میں پائی جاتی ہوں لیکن یہ سب باتیں ان کی پہچان یا شناخت نہیں تھیں ان کی پہچان وہی تھی جو وہ خود بیان کیا کرتے تھے کہ اول سیوم سیوک ہُوں اور آخر سیوم سیوک ہُوں۔ یا جوانی میں جو نظم انہوں نے لکھی تھی جو آج بھی سنگھ کی شاکھاوں میں پڑھی جاتی ہے۔
’’ہندو تن من ہندو جیون۔رگ رگ میرا ہندو پریچئے‘‘
اٹل بہاری کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ دنیا انہیں کن ناموں سے یاد کرتی ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ خود وہ کیا کہتے اور کرتے رہے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی اس تنظیم کے ممبر تھے، جس کا مقصد ملک میں اکثریت کا غلبہ اور دبدبہ قائم کرنا ہے اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانا ہے۔ اس نظریہ سے ان کو کبھی بھی اختلاف نہیں رہا بلکہ زندگی بھر وہ اس خیال کی آبیاری کرتے رہے ہیں اورجب کبھی موقع آیا کہ سنگھ یا لبرل سیاست میں سے ان کو کسی ایک کو چننا ہے تو انہوں نے نقصان اٹھانا گوارا کیا لیکن سنگھی سیاست سے علیحدہ ہونا گوارا نہیں کیا۔
اس سیاست میں وہ کوئی برائے نام، حاشیہ پہ پڑے ہوئے لیڈر نہیں تھے کہ سنگھی سیاست سے غلطی سے وابستہ ہوگئے اور بحالت مجبوری اسے گھسیٹ رہے ہیں بلکہ وہ بہت ہی متحرک اورآگے بڑھ کر لیڈ کرنے والے قائد تھے۔
اختلاف صرف طریقہ کار میں تھا، اٹل بہاری واجپائی یہ کام تشدد سے نہیں چاہتے تھے لیکن مقصد تو بہر حال وہی تھا، جو سنگھ کا ہے۔لیکن جب کبھی بھی تشدد کا استعمال کیا گیا اس پر کبھی انھوں نے کوئی تنقید نہیں کی بلکہ اس کا دفاع کرتے رہے اور جب بھی کبھی ان کے اندر کا سنگھی بے قرار ہوکر باہر آجاتا وہ بھی وہی تشدد کی زبان بولنے لگتے جو سنگھ پریوار کا خاصہ ہے۔ ان کی تمام تر زندگی اسی سنگھی فکر سے عبارت تھی۔
۱۹۷۰ء میں لوک سبھا میں احمد آباد اور بھیونڈی فسادات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’جو کچھ بھی وجہ ہو لیکن مسلمان دن بہ دن کمیونل ہوتا جا رہا ہے، جس کے ’ردعمل‘ میں ہندو زیادہ سے زیادہ جارح ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ کوئی اور چیز ہندوؤں کو جارح نہیں بناتی ہے۔ اگر اس کا ذمہ دار آپ ہمیں بنانا چاہتے ہو تو بناؤ لیکن اس ملک میں ہندو اب مزید ظلم نہیں سہے گا۔ ہندو شروعات نہیں کرے گا لیکن اگر تم مسلم فرقہ پرستی کو ہوا دوگے تو دوسروں کے جذبات بھی بھڑکیں گے۔ کمیونزم دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔میں مانتا ہوں بدلہ کی بھاونا اچھی نہیں ہے۔ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ لیکن کیا یہ قانون صرف ہندوؤں کے لیے ہے؟ کیا یہ مسلمانوں پر لاگو نہیں ہوگا‘‘۔
کیا یہ گفتگو کسی لبرل لیڈر کی ہوسکتی ہے۔ ہر لفظ سے گھٹیا سنگھی فرقہ پرست ذہنیت جھلکتی ہے۔
۱۹۸۳ء میں آسام کے انتخابات میں بنگلادیشی دراندازوں کے موضوع پر زہریلی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’ بیرونی لوگ یہاں گھس گئے اور حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ یہاں کے بجائے پنجاب میں گھسے ہوتے تو لوگ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے واپس پھینک دیتے‘‘۔
واجپائی کے اس بیان کے بعد آسام میں مسلمانوں پر زبردست حملہ کیا گیا، جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ اوپر کے دونوں بیانات کسی right person کے بیانات نہیں ہیں بلکہ یہ ہندوتوا دی نظریے اور فکر کے صحیح ترجمان کے الفاظ ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت سے ایک رات قبل کی ان کی مکمل تقریر سنیے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کار سیوا کرنی ہے، اور کار سیوا کرکے ہم عدالت کے حکم کی پیروی کریں گے۔ وہاں کافی ’نکیلے پتھر‘ نکل آئے ہیں ہمیں زمین ہموار کرنی ہوگی۔ پوری تقریر کو شروع سے لے کر آخر تک بغور سنیے۔ مکارانہ فن خطابت کا بہترین نمونہ ہے۔ اس تقریر سے واضح ہوتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کوئی درد مند دل رکھنے والا فنکار نہیں بلکہ ایک گھاگ اور عیار سیاستدان ہے۔ وہ ذو معنی الفاظ کا استعمال کرکے اپنی بات عوام کے سامنے رکھ رہے تھے اور عوام کے جذبات، ان کی نعرہ بازی اور طنزیہ ہنسی یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا نیتا نہایت مکاری کے ساتھ ایک پیغام دے رہا ہے تاکہ وہ قانون کی گرفت سے باآسانی باہر رہ سکے اور اس کے کیڈر تک پیغام بھی پہنچ جائے۔ لوگ تقریر، اس کے لب و لہجہ اور پیغام کو decode کر رہے تھے۔ کیڈر سمجھ رہا تھا کہ ان کا لیڈر ان سے کیا کہنا چاہ رہا ہے اور کل انہیں کیا کرنا ہیں۔ اس گفتگو میں اٹل بہاری کی عیاری پوری طرح عیاں ہوتی ہے کہ ایک جرم کرتے ہوئے آپ اپنے آپ کو اس جرم سے کیسے بَری کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ قتل تو کریں لیکن خون کے داغ آپ کے دامن پر نہ ہوں۔ اٹل بہاری اس فن کے ماہر تھے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
گجرات فسادات کے معاملہ میں ان کا کردار دیکھ لیجیے فسادات کو روکنے کے لیے کوئی کوشش ان کی طرف سے دکھائی نہیں دیتی ہے، اس کے بعد جس راج دھرم والے بیان کے لیے انہیں سر پر بٹھایا جاتا ہے وہ ویڈیو دیکھ لیں۔ اس میں وہ خود سے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ایک رپورٹر کے پوچھنے پر بحالت مجبوری یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نریندر بھائی سے کہوں گا کہ راج دھرم کا پالن کرے۔ ان کے بغل میں بیٹھے نریندر بھائی نہایت عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہیں، وہی تو کر رہے ہیں صاحب اور اس کے بعد اٹل بہاری چالاکی کے ساتھ اپنا لب و لہجہ بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نریندر بھائی وہی کر رہے ہیں۔
لیکن گوا میں ان کے اندر کا پرچارک پوری طرح باہر آجاتا ہے اور وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر سابرمتی ایکسپریس میں معصوم، بے گناہ اور بے بس لوگوں کو زندہ جلایا نہیں گیا ہوتا تو گجرات واقعہ کو ٹالا جا سکتا تھا۔گجرات واقعہ قابل مذمت ہے لیکن آگ لگائی کس نے، اور آگ پھیلائی کس نے۔ مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ نہ ہی مل کر رہتے ہیں اور نہ ہی باہمی مفاہمت کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات امن پسندی کے ساتھ پہنچانے کے بجائے اپنی بات خوف اور دہشت کی بنا پر منوانا چاہتے ہیں‘‘۔
پارلیمان میں جب ان سے اس بیان کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی تو کہا کہ میری مراد عسکری اسلام کو ماننے والوں سے تھی نہ کہ سبھی مسلمانوں سے۔ گودھرا آتش زنی آج تک ثابت نہیں ہوئی کہ کس کا ہاتھ اس میں تھا لیکن ملک کا سب سے زیادہ ذمہ دار آدمی مسلمانوں کو بنا کسی ثبوت کے اس کے لیے مجرم ٹھہرا رہا ہے اور اس طرح گجرات نسل کشی کی تاویل کر رہا ہے۔
بعض مسلمان بہت دور کی کوڑی لائے کہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے بھی سیکھنا چاہیے اور ان کی اچھی باتوں کی تعریف کرنی چاہیے۔ اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے لیکن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر غیر ضروری طور پر دشمن میں وہ صفات تلاش کرنا جو کہ اس میں تھیں ہی نہیں اعلیٰ ظرفی کی نہیں ذہنی مرعوبیت کی علامت ہے۔
بحیثیت اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم اٹل بہاری کا کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے، جس کے لیے انہیں یاد رکھا جائے۔
اسی طرح جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ ان کا نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس دور میں تو وہ تنقید تک سننے کے ردودار نہیں تھے اور تھوڑی سے مخالفت پر تلملا اٹھتے تھے۔ اس زمانے میں ’’آؤٹ لک‘‘ میگزین نے righing prime Minister کے نام سے کور اسٹوری چلادی تھی اور اس کی بڑی قیمت میگزین کے ایڈیٹر کو چکانی پڑی اور میگزین کے پروپرائیٹر کے گھر پر انکم ٹیکس کے بڑے چھاپے پڑے تھے۔
اٹل جی کے زمانے میں کوئی نئی اور مضبوط معاشی پالیسیاں نہیں بنیں بلکہ وہی سرمایہ دارانہ پالیسیاں جو نرسمہا راؤ نے بنائی تھیں، انہوں نے اس کو آگے بڑھایا۔ بعد میں منموہن سنگھ نے ان پالیسیوں کو مزید ترقی دی۔ اس میں انہوں نے کچھ بھی نیا نہیں کیا۔
اسی طرح پوکھران نیوکلیائی تجربہ بھی اٹل جی کے وزیر اعظم بننے کے دو ماہ بعد کیا گیا، ظاہر ہے اس طرح کے پروجیکٹ برسوں کی منصوبہ بندی اور محنت کے بعد بنتے ہیں۔ پوکھران کی پوری منصوبہ بندی نرسمہا راؤ کے زمانے میں ہوگئی تھی، اٹل جی نے آکر صرف بٹن دبا دیا۔ اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ان کے عہد میں کوئی بھی ایسا بڑا اہم کام نہیں ہوا، جس سے کہ دیش یا عوام کو کوئی بڑا فائدہ پہنچا ہو۔ بلکہ ان کے دور میں کئی ایسے کام ہوئے، جس سے کہ دیش کو نقصان ہوا اور دیش اب تک انہیں بھگت رہا ہے۔جیسے تعلیم کا بھگوان کرن منصوبہ ان ہی کے دور میں شروع ہوا۔ آج دانشوروں کو قوم مخالف کہا جارہا ہے۔ یہ شروعات انہی کے دور میں ہوئی اور آج اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اٹل بہاری کے زمانے میں جو اسکالر کمیونل سیاست کی مخالفت کر رہے تھے، مرلی منوہر جوشی نے ان کے لیے “intellectual terrorism…. more dangerous than cross-border terrorism” کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس دورکے مقابلے میں آج اس میں ترقی ہوئی، اب گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ دانشوروں کو آسانی سے قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ چیزیں تدریج کے ساتھ ہی آگے بڑھتی ہیں، اہم کام ایسے کاموں کی شروعات کرنا ہے۔
کھندمال فسادات انہی کے دور میں ہوئے۔ فادر اسٹینس کو انہیں کے زمانے میں ہندو شدت پسندوں نے زندہ جلایا، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ دھرم پریورتن پر ملکی سطح پر بحث ہونی چاہیے۔ یعنی ایک شخص کو اس کے معصوم بچوں سمیت زندہ جلا دیا گیا اور ملک کا وزیراعظم اس بے رحمانہ قتل کے خلاف کھڑا ہونے کے بجائے کہہ رہا ہے کہ دھرم پریورتن پر گفتگو ہونی چاہیے۔ یہی اٹل بہاری واجپائی کی چالاکی تھی کہ اصل موضوع سے توجہ ہٹا دیتے تھے۔
واجپائی کا کردار سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دور کو سمجھا جائے، جب انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کی شروعات کی تھی۔ ساورکر کا دہشت گردانہ ہندوتوا کا فارمولا ناکام ہوچکا تھا۔ اس کے بعد سنگھ نے دہشت گردانہ ہندوتوا کے بجائے سیاسی اور سماجی طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سنگھ کی تمام تر سیاست ہی مکر اور فریب کی سیاست ہے۔ یہ عیاری ،مکاری، چالاکی اور موقع پرستی سے بھری ہوئی سیاست ہے۔ سنگھ کو اپنی اس سیاست کے لیے ایسے منجھے ہوئے اور چالاک سیاست داں کی ضرورت تھی جو نظریات کے اعتبار سے تو پورا سنگھی ہو لیکن سماج میں اس کی شبیہ ایک موڈریٹ اور لبرل لیڈر کی ہو، جس کو ہندوستانی عوام تسلیم کر سکے۔ کثیر الجماعتی سیکولر جمہوری ہندوستان میں جو چل سکے۔ ہندوتوا کی سخت گیری کے لیے اس کے پاس کئی راہنما تھے لیکن موڈریٹ شبیہہ والا سنگھی کوئی نہیں تھا۔ سنگھ کو ایک مکھوٹے کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو اٹل بہاری واجپائی نے پورا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹل بہاری واجپائی نے کبھی بھی اپنے آپ کو سیکولر یا موڈریٹ نہیں کہا بلکہ وہ ہمیشہ اس سے انکار کرتے رہے بلکہ اسے سازش قرار دیتے رہے کہ لوگ انہیں لبرل اور موڈریٹ کہتے ہیں اور پارٹی کو فاشسٹ۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’میں اول بھی سیوم سیوک ہوں اور آخر بھی سیوم سیوک‘‘۔ وہ غلط پارٹی کے صحیح آدمی نہیں تھے بلکہ غلط پارٹی کے غلط آدمی تھے۔ ان کی اصلی جگہ سنگھ پریوار ہی تھی اور وہ صحیح جگہ پہنچے تھے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا
Leave a Reply