پشاور کے چرچ پر حملہ القاعدہ کی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے کیونکہ جس دن یہ حملہ ہوا ‘اسی دن کینیا کے شہر نیروبی میں ایک بڑے شاپنگ مال میں بھی اسی قسم کا حملہ ہوا، جہاں اتوار کے روز ہزاروں لوگ موجود تھے۔پشاور میں حملہ کرنے والوں کا تعلق پاکستانی تحریک طالبان سے نہیں بلکہ القاعدہ کے ’’جند اللہ حفصہ‘‘ گروپ سے ہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے صومالیہ کی الشباب تنظیم اور القاعدہ کے درمیان مفاہمت ہوئی تھی۔ ’’جند اللہ حفصہ‘‘ اس معاہدے میں شامل تھا‘ جس نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے۔پشاور میں دو خودکش حملہ آور ہلاک ہو گئے جبکہ نیروبی میں سات آٹھ حملہ آور تھے، جن کے پاس ہتھیار تھے اور انہوں نے یہ اعلان کر کے حملہ کیا کہ ’’ہم صومالیہ کے مسلمانوں کا بدلہ لے رہے ہیں، جن پر کینیا اور ایتھوپیا کی عیسائی افواج ظلم ڈھا رہی ہیں‘‘۔ پشاور حملے کے واقعے کو ایمن الظواہری کے اس بیان کے تناظر میں دیکھیں تو بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ گزشتہ ماہ ایمن الظواہری نے اعلان کیا تھا کہ عالم اسلام پر غیر اسلامی دنیا کی طرف سے بڑے بڑے حملے کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ ہم نے ان لوگوں سے انتقام لینے کا منصوبہ بنایا ہے، جس پر عمل درآمد ہوگا۔
القاعدہ اس مدافعتی قوت کا حصہ ہے جس نے ۱۹۹۰ء میں سویت یونین کو افغانستان سے نکالا۔ ۹۰ کی دہائی میں ہزاروں مجاہدین افغانستان میں موجود تھے۔ ۶۰ ہزار مجاہدین ستر ممالک سے آئے تھے۔ ان کے علاوہ ۴۰ ہزار پاکستانی مجاہدین تھے۔ تاہم ان میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد صرف ڈھائی ہزار تھی، جو اسامہ بن لادن کے زیر کمان تھے۔ ۱۹۹۰ء میں القاعدہ کے یہ لوگ سوڈان چلے گئے اور جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کو افغانستان پر کنٹرول حاصل ہوا تو یہ لوگ پھر واپس افغانستان آگئے اور طالبان کے مہمان بن کر رہے۔ القاعدہ کے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ لوگ مسلح جدوجہد میں عموماً حصہ بھی نہیں لیتے لیکن ان کی منصوبہ بندی بہت ٹھوس ہوتی ہے۔ افغانستان کے جہاد میں بھی یہ لوگ جنگی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ ان کی توجہ افغان عوام کے فلاحی کاموں پر تھی۔اس کام کے لیے امریکا اور سعودی عرب چار سو ملین ڈالر سالانہ کی رقم القاعدہ کو فراہم کرتے رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے امریکا نے القاعدہ کو تقریباً ختم کر دیاہے۔ سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اب صرف ۱۵۰ کے قریب لوگ باقی رہ گئے ہیں جو افغانستان‘ پاکستان اور دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ایمن الظواہری نے کہا ہے کہ اب ان کی تنظیم انتقامی حملے کرے گی۔ پشاور اور نیروبی میں ہونے والے یہ حملے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ایسے حملے یورپ میں بھی ہو سکتے ہیں اور امریکا میں بھی۔ اسی طرح کے دو حملے چند روز پہلے شام اور نائجیریا میں بھی کیے گئے ہیں، جہاں مسیحی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا ہے اور پادریوں اور عبادت گزاروںکو قتل کیا گیا ہے۔ القاعدہ سے منسلک تنظیموں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بین المذاہب نفرتوں اور دہشت گردی کا یہ نیا سلسلہ ہے جسے القاعدہ کو ختم کردینے کے باوجود روکا نہیں جا سکا ہے، بلکہ ’اسٹارفش‘ کی طرح القاعدہ کے نئے سر اور بازو پیدا ہو گئے ہیں جس کے سد ِباب کے لیے عالمی سطح پر نئی سوچ، تدبیر اور عمل کی اشد ضرورت ہے۔
ہماری حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ان حملوں کے پیچھے اصل کردار کون ہیں؟ افسوس یہ ہے کہ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے، لگتا ہے کہ تفتیش اور سراغ رسانی کے مراحل طے کیے بغیرہی اس بات کا تعین کرلیا جاتا ہے کہ فلاں گروہ اس واقعے کا ذمہ دار ہے۔ اگر کسی نے ذمہ داری قبول کر لی تو پولیس کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ چلو جان چھوٹی۔ اس لیے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ اب اے پی سی کے مقاصد پر عمل درآمد مشکل ہو گیا ہے‘ درست نہیںہے۔ اے پی سی کے مقاصد پر عمل ضرور ہونا چاہیے۔طالبان کے ساتھ مذاکرات بہت ضروری ہیں۔ اس راستے میں رکاوٹیں آئیں گی اور ان کو دور کرنا ہی اصل کام ہے۔ جنوبی وزیرستان میں امریکا کا تازہ ڈرون حملہ بھی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔امریکا کے ڈرون حملے رکوانے ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کی حکومت نے جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی امریکا نے ڈرون حملہ کر کے مفاہمت کی فضا کو سبوتاژ کیا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کا اولین مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی جاری رہے۔ پاکستان کی ایک لاکھ کے قریب فوج افغان سرحدوں پر ہی پھنسی رہے۔حالانکہ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کی مغربی سرحدوں کی ذمہ داری وہاں کے قبائل پر ہے‘‘۔ جو وہ اب تک بخوبی انجام دیتے رہے ہیں لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقصد ہے کہ اب یہ ذمہ داری پاک فوج خود سنبھالے اور بھارتی سرحد کی طرف سے اپنی فوج کو ہٹا لے۔
طالبان کے ساتھ ٹریک ٹو پالیسی اپنائی جانی چاہیے یعنی خفیہ روابط بھی ہونے چاہئیں اور علی الاعلان بات چیت کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے۔ جب اتنا بڑا کام ہو رہا ہو تو اس کو خفیہ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دشمن بہت ہیں جو تحریک طالبان کے ساتھ مجوزہ سمجھوتے میں بڑی رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔پشاور کے واقعہ کو طالبان سے بات چیت میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کچھ اور ہے۔ مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے بہت سے عناصر پاکستان کے اندر موجود ہیں مثلاً جنہوں نے شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں پر حملہ کر کے بیس کیمپ میں غیر ملکی سیاحوں کو مارا‘ وہ تحریک طالبان سے ٹوٹا ہوا ایک گروپ ہے اور ان میں پاکستان کی کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ صرف تحریک طالبان پاکستان کو اس کام میں ملوث نہیں کیا جا سکتا۔ میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرنے کا ذمہ دار بھی تحریک طالبان کا ٹوٹا ہوا ایک گروپ ہے اور ایسے کئی گروپ بن چکے ہیں جو اس قسم کی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں اور بیرونی آقائوں کے اشاروں پر تخریب کاری کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا پاکستان میں امن کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔ اس کی پالیسی ہے کہ خطے میں بھارت کی بالادستی قائم ہو۔ امریکا کی خواہش اور خطے میں اس کے مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔سب سے خطرناک بات امریکا کی حکمت عملی میں آنے والی یہ قابل ذکر تبدیلی ہے کہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے طاقت کے بجائے سازشوں کی راہ اختیار کی جائے تاکہ وہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں۔ وہ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کو ہوا دے کر ‘ انہیںآپس میں لڑا کر، اپنے مفادات حاصل کرے گا جیسا کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی اور شام میں شیعہ سنی فرقوں کے درمیان خوفناک جنگ جاری ہے۔
مسلمانوں کے اندر اختلافات بڑے واضح ہیں۔ مثلاً سیاسی طور پر‘ سیکولر اور مذہبی رحجانات کے اختلافات۔ فرقہ وارانہ تفریق‘ یعنی شیعہ سنی اختلافات اوراب پاکستان میں جس اختلاف کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ سنی اکثریت کے اندر دیوبندی اور بریلوی مسلک کے اختلافات ہیں۔ ان اختلافات کو کس نے پیدا کیا اور کیوں؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ امریکا ان اختلافات کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرے گا، جس طرح اس نے مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی پر ڈالروں کی بارش کر کے اسے خرید لیا۔ ایسا شخص جو فوج میں نماز کی خود امامت کرتا تھا‘ امریکیوں کے ہاتھوں بک گیا۔ سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی جوحکمت عملی امریکا اور یورپ نے اپنائی ہے‘اس پر عمل کرتے ہوئے اب مسلم دنیا کی تباہی و بربادی کا سامان ‘ خودمسلمانوں ہی کے ہاتھوں کیا جائے گااور ڈالروں کی چمک سے میر جعفر اور میر صادق جیسے ضمیر فروشوں کے ہاتھوں مسلم دنیا کے مضبوط حصاروں کے عقبی دروازوں کی چابیاں دشمنوں کے حوالے کر دی جائیں گی۔
(مضمون نگار پاکستانی فوج کے سابق سپہ سالار ہیں)
(بحوالہ: روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘۔ ۲۹ ستمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply