
بھارت میں مسلم تہذیب و تمدن کے آثار اگرچہ شدت پسند ہندو تنظیموں کو روزِ اول سے کھٹکتے ہیں لیکن اب بھارت کی سیاست کا مرکزی نکتہ ہی برصغیر پر مسلم تہذیب کے اثرات سے چھٹکارا اور مسلمانوں کی نشانیاں مٹانا بن گیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال گزشتہ دنوں اس وقت دیکھی گئی جب بھارت کے تاریخی حیثیت کے شہر الٰہ آباد کا نام اتر پردیش کی ریاستی حکومت کی جانب سے تبدیل کر کے ’’پریاگ راج‘‘ اور فیض آباد کا نام بدل کر ’’ایودھیہ‘‘ رکھا گیا۔ الٰہ آباد جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کرنے کی مضحکہ خیز وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شہر کا ’’اصلی اور پرانا‘‘ نام پریاگ راج ہی تھا۔ حکومتی جماعت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ صرف تاریخ میں درج ’’غلطیوں‘‘ کو درست کر رہی ہے۔ حالانکہ تاریخ دان اس بات کو سرے سے نہیں مانتے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر این آر فاروقی کے مطابق تاریخی دستاویزات اور کتابوں کے مطابق پریاگ راج نام کا کبھی کوئی شہر بسا ہی نہیں، البتہ ’’پریاگ‘‘ نام سے منسوب ہندوؤں کا ایک زیارتی مقام ضرور ہوا کرتا تھا، جس کا ذکر اب صرف کتابوں میں موجود ہے۔
مغل سلطنت کے بانی جلال الدین محمد اکبر کا آباد کردہ ۴۴۳ سالہ قدیم شہر الٰہ آباد نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کے لیے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ۱۹۳۰ء میں اپنا خطبہ اسی شہر میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دیا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ اسی لیے جب اکبر نے اقبال کو ’’لنگڑے آم‘‘ کا تحفہ بھیجا تو اس پر بے ساختہ اقبال نے کہا:
اثر یہ تیرے انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا
بھارت کے لیے یہ شہر اس حوالے سے اہم ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا میلا ’’کمبھ کا میلہ‘‘ جو ہر بارہ سال بعد منعقد ہوتا ہے ’اسی شہر میں ہوتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ہندو مت کے دو مقدس دریاؤں گنگا اور جمنا کا سنگم ہوتا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کا تاریخی گھر ’’آنند بھون‘‘ بھی اسی شہر میں ہے اور یہ شہر بالی وڈ اسٹار امیتابھ بچن کی جائے پیدائش بھی ہے۔
الٰہ آباد اور فیض آباد کے ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ہی ریاست میں آگرہ، لکھنؤ اور علی گڑھ کے نام بھی بدل کر ہندو ناموں پر رکھنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ اس سے قبل بھارتیا جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے چند ماہ قبل دیوبند شہر کا نام بدل کر ’’دیوورند‘‘ رکھنے کی تجویز بھی پیش کی تھی اور ریاستی حکومت اس مطالبے پر بھی ’’سنجیدگی‘‘ سے غور کر رہی ہے۔ شہروں کا نام تبدیل کرنے سے انتہا پسند تنظیموں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور مسلم تہذیب کی علامات کوچن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اترپردیش کی دیکھا دیکھی بھارتی ریاست گجرات کی حکومت نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ ’’احمد آباد‘‘ کا نام بدل کر ’’کرناوتی‘‘ کرنے جا رہی ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ وجے روپانی کا کہنا ہے کہ ریاست کے لوگ ایک عرصے سے احمد آباد کا نام تبدیل کر کے کرناوتی رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اب حکومت ان کے مطالبہ پر ’’غور‘‘ کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اگر نام بدلنے کے عمل میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں آئی تو آئندہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے احمد آباد کا نام تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس کے لیے مطلوبہ منظوری حاصل کرنے کے لیے قانونی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ نائب وزیراعلیٰ نے وزیراعلیٰ کے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ احمد آباد نام ہندوؤں کی غلامی کی علامت ہے جبکہ کرناوتی ہندوؤں کے افتخار، وقار، ثقافت اور خود مختاری کا غماز ہے۔
اسی طرح گجرات کی پڑوسی ریاست مہاراشٹر میں بھی کم از کم دو شہروں کے نام بدلنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ حکمران جماعت شیوسینا کے رکن پارلیمان ’’سنجے راوت‘‘ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے الٰہ آباد کا نام پریاگ راج اور فیض آباد کا نام ایودھیا کر دیا ہے، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اورنگ آباد کا نام سمبھا جی نگر اور عثمان آباد کا نام دھارا شیو نگر کب رکھیں گے؟
راوت نے مزید کہا کہ ان دونوں شہروں کے نام بدلنے کا مطالبہ بہت پرانا ہے لیکن ماضی کی حکومتوں نے مسلمانوں کی ناراضی کے خدشے سے ان کا نام تبدیل نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں بھی ایک ہندو نواز رہنما نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کی حکومت اسمبلی انتخابات میں اقتدار میں آ گئی تو وہ حیدرآباد اور جڑواں شہر سکندر آباد کے اسلامی ناموں کو بدل دیں گے۔ ان ناموں کو بدلنے کے پیچھے بھی یہی دلیل دی جا رہی ہے کہ ان کے موجودہ نام ہندوؤں کی غلامی کی علامت ہیں۔ بقول ان کے یہ سبھی شہر دورِ قدیم میں ہندوؤں اور ہندو مذہبی کرداروں کے نام پر تھے جنہیں مسلم حکمرانوں بالخصوص مغلوں نے تبدیل کر دیا۔ ابھی تک کوئی ایک بھی ایسی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی جا سکی، جس کی بنا پر یہ دعویٰ ثابت کیا جا سکے مگر ہندو تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں سے کارکنان تک سبھی اس بات کو دہراتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں بالخصوص مغل حکمرانوں نے ہندو مت کے تاریخی شہروں کا نام قصداً تبدیل کیا۔
دنیا بھر کے مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شہروں، علاقوں کے نام بدلنے کے پیچھے اصل مقصد ماضی کی نام نہاد عظمت اور تہذیبی وراثت کو بحال کرنا نہیں بلکہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کو یہ باور کروانا ہے کہ جمہوری بھارت کی تہذیب و تمدن کا مطلب ’’ہندو تہذیب و تمدن‘‘ ہے اور اس تہذیب میں مسلمانوں اور ماضی کے مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں، خود بھارت کے اندر بھی منصف مزاج شخصیات کی جانب سے ایسے خدشات کا بارہا اظہار کیا جا چکا ہے۔
شہروں کے نام تبدیل کرنے کے مطالبات کے علاوہ تاج محل، پرانا قلعہ اور دہلی کی جامع مسجد جیسی تاریخی عمارتوں کے گرد نئے تنازعات کھڑے کیے جا رہے ہیں اور تاریخی عمارتوں کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ عمارتیں ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی تھیں۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے ہمایوں پور میں واقع تُغلق دور کے ایک مقبرے کو مندر میں تبدیل کیا جا چکا ہے جبکہ دہلی کے مرکز میں انڈیا گیٹ کے نزدیک واقع اکبر روڈ کا تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو اکبر روڈ کے سائن بورڈ پر کہیں کالک لگا دی جاتی ہے تو کہیں راتوں رات ’’مہارانا پرتاپ روڈ‘‘ کا بورڈ نصب کر دیا جاتا ہے حالانکہ سرکاری طور پر ابھی تک سڑک کا نام تبدیل کرنے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔ کافی عرصے سے اکبر روڈ کا نام شدت پسند ہندو تنظیموں کو کھٹک رہا ہے اور کئی بار سڑک کے بورڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزام میں کئی ہندو انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا مگر کچھ عرصہ قبل بھارت کے وزیراعظم نے بھی دہلی کے اکبر روڈ کا نام تبدیل کر کے رانا پرتاپ کے نام پر رکھنے کا اشارہ دیا تھا، جس سے شدت پسند تنظیموں کو شہ ملی مگر اس بیان پر خود بھارت کے چند نمایاں طبقات کی جانب سے غیر متوقع ردِ عمل سامنے آیا۔ بھارت کے مشہور دانشور پروفیسر رام پُنیانی نے اپنے مختلف لیکچروں میں سڑک کا نام تبدیل کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
پروفیسر پُنیانی کے بقول ’’سٹرک کا نام تبدیل کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بادشاہ اکبر غیر ملکی اور مسلمان تھا اور اس کا ہندوستانی تاریخ سے بطور ہندوستانی کوئی تعلق نہیں تھا۔ جبکہ مہارانا پرتاپ ہمارے اپنے ہندو راجہ تھے۔ اس لیے اکبر روڈ کا نام تبدیل کر کے مہارانا پرتاپ روڈ رکھا جائے۔
آیے! دیکھتے ہیں کہ کیا مہارانا پرتاپ اور بادشاہ اکبر کی لڑائی اپنی حکومت اور ریاست کے لیے تھی یا یہ ہندو مت اور اسلام کی جنگ تھی۔ بادشاہ اکبر اور رانا پرتاپ کی لڑائی ہلدی گھاٹی کے مقام پر لڑی گئی۔ ایک طرف بادشاہ اکبر کی فوج کھڑی تھی اور دوسری طرف رانا پرتاپ کی۔ حیران کن صورت حال یہ تھی کہ اکبر کی فوج میں بادشاہ خود موجود نہیں تھا اور فوج کی کمان راجہ مان سنگھ کے پاس تھی۔ یعنی بادشاہ کی غیر موجودگی میں اس کی جگہ ’راجہ مان سنگھ‘ فوج کی کمان سنبھالے ہوئے تھا اور اس کے زیرِ کمان شہزادہ سلیم تھا۔ راجہ مان سنگھ، بادشاہ اکبر کے پردھان سینا پتی (آرمی چیف) تھے۔ دوسری طرف رانا پرتاپ کی فوج کی کمان کس کے پاس تھی؟ حکیم خان سور کے پاس۔ یعنی ایک طرف ہندو اور دوسری طرف مسلمان۔ تو کیا یہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہے یا دو راجاؤں کی لڑائی ہے؟‘‘
بھارت میں مذہبی جنون کے زیرِ اثر نہ صرف شہروں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں بلکہ تاریخ کے نصاب اور متن میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کی جنگوں کی تشریح ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ‘‘ کے طور پر کی جارہی ہے اور ہندو حکمرانوں کو فقط راجا نہیں بلکہ ہندو مذہب کے ہیرو اور چیمپیئن جبکہ مسلم حکمرانوں کو غاصب اور لٹیروں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق بار ہا یہ بات کی جاتی ہے کہ اس نے خزانہ لوٹنے کے لیے سورت پر حملہ کیا۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاہی خزانہ دہلی میں تھا یا سورت میں؟ پھر یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ مغل حکمرانوں نے برصغیر کا خزانہ کہیں اور منتقل نہیں کیا بلکہ تمام تر پیسہ برصغیر پر ہی خرچ ہوا۔ کوئی ایک مغل بادشاہ بھی ایسا نہیں تھا جس نے برصغیر کا پیسہ لوٹ کر کسی دوسرے ملک (افغانستان) منتقل کیا ہو بلکہ مغل حکمرانوں نے تو برصغیر میں جابجا عوام کے لیے مسافر خانے بنوائے اور ایسی شاہکار عمارات بنوائیں، جن کا حسن آج بھی بھارت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ خود بھارتی حکومت کے مطابق بھارت آنے والے ایک چوتھائی سے زائد سیاح صرف تاج محل دیکھنے بھارت آتے ہیں اور سالانہ کروڑوں مقامی و غیر ملکی سیاح تاج محل کے حسن سے مسحور ہونے کے لیے آگرہ کا رخ کرتے ہیں۔اس کے باوجود بغضِ مسلم کا عالم یہ ہے کہ حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما سوم سنگیت نے تو مطالبہ کیا ہے کہ مغل بادشاہوں ’بابر، اکبر، شاہجہاں اور اورنگزیب کا نام بھارت کی تاریخ سے مٹا دیا جائے‘۔ اس سارے پس منظر میں بھارت کے مسلم رہنما اسد الدین اویسی کا یہ مطالبہ لائقِ توجہ ہے کہ مسٹر مودی لال قلعے کی فصیل پہ بھارتی جھنڈا لہرانا بند کر دیں کیونکہ لال قلعہ بھی ’’غداروں‘‘ کا بنایا ہوا ہے اور اگر حکومت میں دم ہے تو یونیسکو سے کہے کہ تاج محل کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکال دے۔
بھارت میں تاریخ کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے، اس پر خود تاریخ دان بھی حیران ہیں۔ چار، پانچ صدیوں کے بعد بھارتی عوام کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ مغل بادشاہ ’’جلال الدین محمد اکبر‘‘ ایک کٹر مذہبی بادشاہ تھا جس کی تمام تر تگ و دو اپنے مذہب کے لیے تھی، حالانکہ یہ وہ سفید جھوٹ ہے، جو چھپائے نہیں چھپ سکتا کیونکہ اکبرِ اعظم کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ مذہب سے اس حد تک متنفر تھا کہ اس نے اپنے ایک الگ مذہب ’’دینِ اکبری‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جس میں سب سے زیادہ سہولیات ہندوؤں کو ہی دی گئی تھیں۔ (حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے یہ بات واضح ہے کہ دورِ اکبری میں کفار برملا شعائرِ اسلام کی توہین کرتے تھے، مسلمانوں کے جان و مال غیر محفوظ تھے، مسجدیں شہید کی جاتی تھیں، اسلامی احکام کی انجام دہی ممنوع قرار دی گئی اور مسلمانوں کو دینی امور کی انجام دہی سے باز رکھا جاتا) پھر اکبر کے نو رتنوں (مشیروں) میں سے اکثریت ہندو مت ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے باوجود اکبر سے اس بغض کی سب سے بڑی وجہ ہلدی گھاٹ کی وہ لڑائی ہے، جس میں اکبر نے رانا پرتاپ کو شکست سے دوچار کیا۔ مگر انتہا پسند ہندو آج بھی اس بات کو دل سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ رانا پرتاپ کو، جسے بھارت میں مہارانا پرتاپ کہا جاتا ہے، کو انتہا پسندوں کے نزدیک ایک اوتار کا درجہ حاصل ہے اور اوتار کسی سے شکست نہیں کھا سکتا۔ سخت گیر ہندو نظریات کی وجہ سے شہرت پانے والے ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’اکبر کو نہیں بلکہ رانا پرتاپ کو عظیم کہا جائے‘‘۔ اسی طرح بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے ریاست راجستھان کے اس فیصلے کا سرعام خیرمقدم کیا جس میں ریاست نے(تاریخ کو بدلتے ہوئے) بچوں کو نصاب میں یہ پڑھانے کا فیصلہ کیا کہ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں اکبر کی فوج کو شکست اور مہارانا پرتاپ کو فتح ہوئی تھی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس بات کا خیال مہارانا پرتاپ کی ۴۷۵ویں برسی کے موقع پر ہی کیوں آیا؟ کیا پونے پانچ سو سال تک عوام کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی رہی جبکہ یہ سوال بھی اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ اگر بالفرض اکبر کو ہلدی گھاٹی کے مقام پر مہارانا پرتاپ کی فوج سے شکست ہوئی تھی تو تختِ دلّی پر کون قابض ہوا تھا؟کیونکہ تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ۱۵۷۶ء میں ہلدی گھاٹی میں ہونے والی جنگ کے بعد راجپوت راجہ رانا پرتاپ پہاڑوں کی طرف چلے گئے اور بعد میں اکبر نے فوج کی خود کمان سنبھالی اور اس خطے کے بیشتر علاقوں پر قبضہ حاصل کر لیا۔
دوسری طرف مہاراشٹر کے اسکولوں میں بھی مغل حکمرانوں کی تاریخ کو نصاب سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے اور ان کے بجائے نصاب مکمل طور پر ’’شیوا جی‘‘ پر مرکوز کر دیا گیا ہے۔اس ’’تاریخ‘‘ کے مطابق ۱۷ویں صدی میں شیوا جی نے مغلوں کو شکست دے کر مراٹھا سلطنت کی بنیاد رکھی اور مہاراشٹر سمیت ہندوستان کے کئی حصوں پر حکومت کی۔ مہاراشٹر کی ’’ہسٹری ٹیکسٹ بک کمیٹی‘‘ کی اس حوالے سے توضیح یہ ہے کہ ’’مغل تاریخ کا احاطہ کرنے کے لیے ہم کتابوں سے مراٹھا تاریخ کو نہیں ہٹا سکتے۔ہمارے بچے مہاراشٹر کے ہیں لہٰذا مراٹھا تاریخ سے ان کا تعلق پہلے بنتا ہے اور یہ قدم صفحات کی تعداد محدود ہونے کے باعث اٹھایا گیا‘‘۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان‘‘ کا نام بھی نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ ’’باہر سے آنے والے‘‘ مسلمانوں نے رکھا۔ وہی اس کو ’’ہند، ہند‘‘ پکارتے تھے۔ اسی مناسبت سے یہاں آباد لوگوں کو ’ہندو‘ کا نام دیا گیا اور یہاں کی بولی کو ہندی یا ہندوی کہہ کر پکارا گیا۔ پھر یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب تک ’’اردو‘‘ لفظ عام نہیں ہوا تھا تب تک اس زبان کو ہندی یا ہندوی ہی کہا جاتا تھا حتیٰ کہ اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب تک اس زبان کو ہندی یا ہندوی کہتے تھے۔ موجودہ رسم الخط میں لکھی گئی اردو کو پہلے ’’ہندی رسم الخط‘‘ ہی کہا جاتا تھا۔ آج بھی میوزیم یا پرانے کتب خانوں میں مروجہ اردو رسم الخط میں لکھی گئی ایسی کتابیں مل جاتی ہیں جن کی پیشانی پر ’’ہندی رسم الخط‘‘ کے الفاظ واضح ہوتے ہیں۔اس لیے بھارت کے حکمران اور انتہاپسند ہندو بھلے اس بات سے لاکھ انکار کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان پر مسلمانوں اور مسلم و مغل حکمرانوں کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتی۔
(بحوالہ: “hilal.gov.pk”)
Leave a Reply