
ایک ماہ کے عرصے میں ایک ’’فوج نواز‘‘ اخبار کے کالم نگار U Ngar Min Swe نے فیس بک کے لیے دس بریف لکھے، جن میں اس نے سویلین لیڈر مادام سوچی پر رشوت لینے اور ملک کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ ایک پوسٹ میں اس نے نام لکھے بغیر انہیں ’’اقتدار کی بھوکی طوائف‘‘ قرار دیا۔ گزشتہ ماہ پولیس اسے بغاوت پر اکسانے کے الزام میں عدالت لے گئی، تو جج نے اسے سات سال قید کی سزا سنائی۔ مادام سوچی کی حکومت چاہتی تو مقدمہ عدالت میں جانے سے روک سکتی تھی۔ نوبل انعام یافتہ اور ایک وقت جمہوریت کی چیمپیئن سمجھی جانے والی مادام سوچی اب تنقید کو بزور بازو دبانے کی علامت بن گئی ہے۔
آزادی اظہار کے وکیل Maung Saungkha، جو پچھلی حکومت کے دور میں چھ ماہ جیل بھی کاٹ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’اگر حکومت کا یہی چلن جاری رہتا ہے، تو ہم کبھی جمہوریت کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکیں گے اور واپس آمریت کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے‘‘۔ ڈھائی برس قبل جب مادام سوچی برسراقتدار آئیں تو دنیا بھر کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں، مگر اب تو سب کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔
مادام سوچی جو کبھی فوجی حکومت کے خلاف ایک مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی تھیں، اب انہیں نسل کشی کی معاون اور آزادی صحافت کی دشمن سمجھا جانے لگا ہے۔ اب وہ تمام امیدیں دم توڑنے لگی ہیں کہ وہ پارلیمان میں اپنی پارٹی کی اکثریت کو معاشی ترقی کی حوصلہ افزائی اور جابرانہ قوانین کا خاتمہ کریں گی۔
اس وقت جب ان کی حکومت کی آدھی مدت پوری ہوچکی ہے۔ آج ایک بار پھر میانمار کا اسی طرح ایک اچھوت ریاست بننے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس طرح اسے فوجی حکومت میں سمجھا جاتا تھا، جب اس نے مادام سوچی کو گھر میں ہی نظربند کر رکھا تھا۔ برسلز کے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق ’’شاید ہی کسی رہنما کی شہریت کو اتنا زیادہ اور اتنی تیزی سے نقصان پہنچا ہو‘‘۔
اگست سے مغربی طاقتوں اور عالمی تنظیموں نے میانمار کے خلاف مختلف الزامات کے تحت تادیبی اقدامات کیے ہیں، جن میں آبروریزی، اسلحے کا استعمال اور قتل و غارت سے ۷۰ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنا شامل ہیں۔ امریکا نے اس پر بعض پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک مشن نے اعلیٰ جرنیلوں کو نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنے کاکہا ہے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ججوں نے فیصلہ دیا ہے کہ انہیں معاملے کی تحقیقات کرنے کا اختیار ہے۔ میانمار پر رائٹرز کے دو صحافیوں U Wa Lone اور U Kyaw Soe Oo کو بھی رہا کرنے کے لیے دباؤ ہے، جنہیں گزشتہ ماہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی رپورٹنگ کرنے کے الزام میں سات سات برس کی سزا سنائی گئی تھی۔
جمہوریت کے داعی Daw Nyo Nyo Thin کہتے ہیں ’’این ایل ڈی حکومت سے قبل عالمی برادری کو ہمارے ملک پر ترس آتا تھا، کیونکہ ہم فوجی حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے، مگر اب دنیا ہمیں ایسے ملک کے طور پر دیکھتی ہے جہاں اکثریت اپنی اقلیت کا قتل عام کر رہی ہے‘‘۔
۷۳ سالہ مادام سوچی جس نے فوجی دور حکومت میں ۱۵ سال گھریلو نظربندی کا سامنا کیا تھا۔ اپنی تنہائی سے نکل کر دنیا بھر میں ایک ہیرو بن کر ابھری تھیں۔ ان کی جماعت نے ۲۰۱۵ء کا انتخاب کلین سویپ کیا تھا اور اگلے برس عنانِ حکومت سنبھالی تھی۔ پارلیمان اور صدارت اب دونوں ان کے ہاتھ میں ہیں، مگر وہ فوجیوں کے بنائے ہوئے آئین کے ہاتھوں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں، جو آئین اختیارات کو جرنیلوں اور نام نہاد سویلین حکومت میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ انہیں صدارت سے بھی محروم کرتا ہے جوکہ انہوں نے اپنے دیرینہ اتحادی U Win Myint کو اپنا عہدیدار بنا رکھا ہے جو انہیں رپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے خود کو ریاست کی کونسلر اور وزیر خارجہ قرار دے رکھا ہے۔ ان کرداروں میں وہ ایک سخت گیر اور شاہانہ مزاج حکمراں بن کر سامنے آتی ہیں۔
آئین، آرمی چیف جنرل Min Aung Hlaing کو خودمختاری دیتا ہے، وہ کابینہ کے تین وزراء کی تقرری کرتا ہے، جو ملکی سلامتی کے امور دیکھتے ہیں اور پارلیمان کے ایک چوتھائی ارکان کی نامزدگی بھی کرتا ہے، تاکہ حکومت کو آئینی ترمیم کرنے سے روکا جاسکے۔ مادام سوچی کے بعض سابق حامی ان کی فوج کے ساتھ قربت پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں سنگاپور میں انہوں نے کہاکہ ان کے فوج کے ساتھ بُرے تعلقات نہیں ہیں۔ ان کی کابینہ میں شامل تین جنرل بہت اچھے انسان ہیں۔
مادام سوچی شاید ہی میڈیا کو کبھی انٹرویو دیتی ہیں۔ ان کی ترجمان U Zaw Htay نے نیویارک ٹائمز کی طرف سے کی گئی متعدد کالوں کا جواب نہیں دیا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فوج کے بے پناہ اختیارات نے ان کے پاس بہت کم آپشن چھوڑے ہیں۔
Nyo Nyo Thin کہتی ہیں کہ ’’مادام سوچی نے یہ موقع کھو دیا ہے کہ وہ ان سیکڑوں جابرانہ قوانین کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئیں، جو فوجی حکومت اور بعض تو برطانوی دور سے چلے آرہے تھے، جن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ بھی شامل ہے۔ جس کے تحت رائٹرز کے دو رپورٹرز کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لندن میں قائم برما کمپین کے ڈائریکٹر Mark Farmaner کا کہنا ہے کہ ’’ابھی انہوں نے ان دو رپورٹرز کو رہا کرنا ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں آمرانہ رجحانات پائے جاتے ہیں اور انہیں صحافت اور اظہار رائے کی آزادی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے‘‘۔
ویتنام میں ایک فورم پر مادام سوچی نے کہاکہ رپورٹرز کو صحافت نہیں، ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دی گئی ہے۔ ’’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس معاملے میں انصاف کا خون ہوا ہے تو میں چاہوں گی کہ وہ اس کی نشاندہی کرے‘‘۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو یہ صحافی اس وقت ان دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر رپورٹنگ کر رہے تھے، جن کی اجتماعی قبریں انہوں نے دریافت کی تھیں۔ یہ مقتولین بھی ان بے شمار روہنگیا مسلمانوں میں شامل تھے، جنہیں مغربی ریاست راکھائین میں قتل کر دیا گیا تھا، تاکہ مسلمان خوفزدہ ہو کر ملک چھوڑ کر بنگلادیش چلے جائیں۔
میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو بدھ مت کی پیروکار اکثریت نے عرصے سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور عوام کی اکثریت انہیں بنگلادیش سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے، حالانکہ وہ کئی نسلوں سے میانمار میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ مشن کی رپورٹ جس میں آرمی چیف اور دوسرے جرنیلوں پر نسل کشی کے الزام میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے، مگر مادام سوچی کو یہ کہہ کر جرنیلوں سے علیحدہ کردیا گیا کہ انہوں نے حکومت کی حقیقی سربراہ کی حیثیت میں اور اپنی اخلاقی اتھارٹی کو میانمار میں ہونے والے مظالم کی روک تھام میں استعمال نہیں کیا۔
رپورٹ کہتی ہے کہ اس کے بجائے ان کے حکومتی اہلکاروں نے جھوٹا بیانیہ پھیلایا اور اس الزام کی تردید کی کہ فوجی جرنیلوں نے کوئی غلط کام کیا ہے یا شہادتوں کو ضائع ہونے دیا اور اقوام متحدہ کے مشن سمیت اس قتل عام کی آزادانہ تحقیقات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کیں۔
۱۸؍ستمبر کو جنیوا میں یو این انسانی حقوق کونسل کو پیش کی گئی ۴۴۴ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’سویلین حکومت نے اپنے عمل اور کوتاہیوں کی صورت میں اس ظالمانہ جرم میں اپنا کردار ادا کیا ہے‘‘۔ گزشتہ مہینے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے بھی کہا ہے کہ اسے روہنگیا مسلمانوں کی وطن بدری جیسے انسانیت سوز ظلم کی تحقیقات کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ ان مظالم کی بڑے پیمانے پر نشر و اشاعت سے میانمار میں بیرونی سرمایہ کاری کی کوششوں کے عمل کو بھی شدید دھچکا لگا ہے اور پچھلے دو برسوں میں روہنگیا ایشو کی وجہ سے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
“Aung San Suu Kyi Dashes Hopes About Myanmar”. (“nytimes.com”. Sept. 29, 2018)
Leave a Reply