
گزشتہ برس نومبر میں ایک آسٹریلوی گروپ ’’جوس میڈیا‘‘ نے مغربی پاپوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک سرکاری ویڈیو اشتہار بنایا۔ اس ویڈیو میں مغربی پاپوا میں انڈونیشیا کی جابرانہ پالیسیوں اور آسٹریلیا کی جانب سے ان پالیسیوں کی حمایت پر شدید تنقید کی گئی۔ پاپوا میں حالیہ بحران کے دوران جوس گروپ کی ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں پاپوا میں آسٹریلیا کے عزائم کے بارے میں انڈونیشیا کے خدشات کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی، جس کو انڈونیشیا میں آسٹریلیا کا اشتعال انگیز اشتہار قرار دیا گیا، لوگوں کاکہنا تھا کہ ہوشیار ہوجاؤ، آسٹریلیا پاپوا کو ضم کرنے کے لیے تیار ہے، انڈونیشیا کے اتحاد کی حفاظت کرو۔ یہ ویڈیو پورے انڈونیشیا میں بڑے پیمانے پر دیکھی گئی، یہاں تک کہ یوٹیوب نے اس کو بلاک کردیا۔ ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح پاپوا میں کشیدگی اور تنازع انڈونیشیا اور آسٹریلیا کے تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔ ویڈیو میں آسٹریلیا کی جانب سے انڈونیشیا کی خودمختاری کی حمایت، اس کی فوج اور پولیس کو تربیت کی فراہمی اور ریو ٹنٹو میں سونے اور تانبے کی کان کنی میں شمولیت کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔
آسٹریلیا انڈونیشیا کی خودمختاری کی مکمل حمایت کرتا ہے، اس کے باوجود آسٹریلیا نے ۲۰۰۶ء میں پاپوا کے ۴۳ باشندوں کی پناہ کی درخواست قبول کرلی تھی، جس کے جواب میں انڈونیشیا نے اپنے سفیر کو کینبرا سے واپس بلا لیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاپوا میں تنازع کس طرح دونوں ممالک کے تعلقات کو غیر مستحکم کرسکتا ہے۔ پناہ گزینوں کا بحران لومبوک معاہدے کے بعد ختم ہوگیا،جس کے تحت دونوں فریق متفق ہوگئے کہ کوئی بھی استحکام، خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کے لیے خطرہ بننے والی سرگرمیوں میں مدد گار نہیں بنے گا،نہ ہی اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے اپنی زمین کے استعمال کی اجازت دی جائے گی۔دونوں میں سے کوئی بھی علیحدگی پسندوں کی حمایت نہیں کرے گا۔لومبوک معاہدے کے باوجود آسٹریلیا میں پاپوا کے علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں جاری رہیں اور دونوں ممالک میں کشیدگی برقرار رہی۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا میں انڈونیشیا کے فوجی افسران کی تربیت کا عمل بھی پاپوا سے متعلق تناؤ کا شکار ہوگیا۔
۲۰۱۷ ء کے آغاز میں انڈونیشیا کی فوج کے دسویں کور کے کمانڈر جنرل کیٹوٹ نور منتیو نے آسٹریلیا سے دفاعی تعاون معطل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پرتھ میں فوجی تربیت کے دوران ’’پاپوا کو ہر صورت میں آزاد ہونا چاہیے‘‘ کے عنوان سے اہلکاروں کو ایک اسائنمنٹ دیا گیا۔ پاپوا کا تنازع انڈونیشیا کی جانب سے ۱۹۶۳ء میں علاقے کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے جاری ہے۔ علاقے میں آزادی پسندوں کے مظاہرے اور نسل پرستی کے واقعات نئے نہیں ہیں، بہرحال گزشتہ مہینوں میں ہونے والے مظاہروں نے تنازع کی حیثیت کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے انڈونیشیا کے انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ کے ۲۰۱۷ء کے تجزیے کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ آزادی پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ نوجوان نسل زیادہ منظم ہے اور جلاوطن رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں رہتی ہے۔ جاوا میں پاپوا کے طالب علموں کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اختیار کیا گیا، انہیں بندر، کتا اور سور پکارا گیا، جس نے پاپوا کے باشندوں کو متحد کردیا۔کیوں کہ پاپوا کے باشندوں کی بڑی تعداد اس صورتحال سے دوچار ہوتی ہے۔ جس کے بعد نسل پرستانہ باتیں آزادی اور ریفرنڈم کے نعروں میں تبدیل ہوگئیں، مظاہروں میں پاپوا کے باشندوں کے نعرے تھے کہ بندروں کو انڈونیشیا سے آزاد کرو، نسل پرستی ریفرنڈم کے ساتھ ہی ختم ہوگی۔ علاقے کا جغرافیہ، مظاہروں کا تسلسل، بدترین تشدد، جانوں کا نقصان اورانفرااسٹرکچر کی تباہی بہت اہم ہے، اس سے انڈونیشیا میں موجود پاپوا اور اس کے باشندوں کے حالات واضح ہوتے ہیں۔ پاپوا کے طلبہ کے خلاف حالیہ نسل پرستانہ تشدد وسورابایا اور دیگر علاقوں میں سیکورٹی فورسز اور قوم پرست گروہوں کی جانب سے شروع کیا گیا ہے۔ سیکورٹی فورسز اور قوم پرست انتہائی سختی کے ساتھ پاپوا کو انڈنیشیا کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں، جبکہ پاپوا کے طلبہ کو انڈونیشین باشندہ تسلیم نہیں کرتے۔ تشدد کے خدشات کی وجہ سے پاپوا کے سیکڑوں طلبہ دیگر صوبوں سے اپنے گھروں کو واپس آگئے ہیں۔ ویمینا میں ۲۳ ستمبر کو ہونے والے فسادات اور ہلاکتوں کی وجہ بھی طلبہ سے نسل پرستانہ رویے کی خبریں تھیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ بیس برس میں پاپوا میں سب سے زیادہ خونی دن تھا، جب ۲۴ گھنٹوں کے دوران کم ازکم ۲۴؍افراد مارے گئے، ویمینا میں فسادات پاپوا کے مقامی باشندوں اور انڈونیشین آبادکاروں کے درمیان ہوئے تھے۔ ویمیناکے مقامی پولیس سربراہ ٹیٹو کارنیویان نے علاقے میں انڈونیشین آبادکاروں کے تحفظ کے لیے مزید پولیس اہلکار تعینات کرنے کااعلان کیا ہے۔ جکارتہ پوسٹ کے مطابق ویمینا سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں، انڈونیشین آبادکار جے پورہ اور تی میکا جارہے ہیں جبکہ پاپوا کے باشندے پہاڑی علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ ویمینا میں دو قوموں کے درمیان لڑائی سیاسی اور معاشی کشیدگی کا بھی عکس ہے۔ پاپوا قوم پرستی کے فروغ اور آزادی کی بڑھتی ہوئی حمایت کی وجہ انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کی کوشش بھی ہے۔ ۲۰۱۰ء میں انڈونیشیا کے باشندوں کی آبادی کا تناسب ۳۴ فیصد تک پہنچ گیاتھا، جبکہ پاپوا کے باشندوں کا شہری معیشت میں حصہ بھی بہت کم ہے۔
پاپوا میں ابتدائی مظاہروں کے بعد اور خوں ریز فسادات سے قبل ’’انڈونیشین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز‘‘ میں پاپوا امور کے ماہر کیریو پامو نگاس نے دونوں قوموں کے درمیان تنازع کے خدشات کا اظہار کیاتھا۔مشرقی تیمور کی علیحدگی میں آسٹر یلیا کا کردار پاپوا تنازع کے دوران انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں کشیدگی کا سبب ہے اور جکارتہ میں موجودسیاسی اور عسکری اشرافیہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ویسے بھی آسٹریلیا ۱۲برس تک پاپوا پر انڈونیشیا کے قبضے کے خلاف آزادی پسندوں کی حمایت کرتارہا ہے۔مشرق تیمور کے تجربے کی روشنی میں آسٹریلیا کی جانب سے مسلسل یہ بیان دہرایا جاتا ہے کہ ہم پاپوا کے حوالے سے انڈونیشیا کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، اس بات کو لومبوک معاہدے میں بھی تسلیم کیاگیا ہے۔لیکن جکارتہ کے نزدیک آسٹریلیا کے اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، انڈونیشیا کا غیر اعلانیہ ردعمل اور مشرقی تیمور پر بھی ایک عرصے تک آسٹریلیا کا یہی موقف رہاتھا۔ موجودہ بحران کے کئی ہفتوں بعد آسٹریلیا کی وزیرخارجہ ماریس پاین نے ایک سوال کے جواب میں پرتشدد واقعات پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔انڈونیشیا کے تمام پڑوسی ممالک میں پاپوا تنازع کے پرامن حل کے لیے آسٹریلیا سب سے زیادہ فعال دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ بحران ظاہر کرتا ہے کہ انڈونیشیا کی پالیسی اور فوجی طاقت پر بہت زیادہ انحصارپاپوا میں آزادی پسندوں کی حمایت کم کرنے میں ناکام رہاہے۔ یہ آسٹریلیا کے قومی مفاد میں ہے کہ وہ انڈونیشیا کو تنازع کے پرامن حل کے لیے پالیسی تشکیل دینے پر آمادہ کرے، جس سے پاپوا کے باشندوں کو لگے گا کہ وہ بھی انڈونیشیا کاحصہ ہیں اور انڈونیشین باشندوں کو بھی وہ ہم وطن کے طور پر قبول ہوں گے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Australia–Indonesia relations: Don’t mention Papua”. (“aspistrategist.org”. Oct 2, 2019)
Leave a Reply