
تیرہ فروری ۲۰۰۸ء آسٹریلیا کی تاریخ میں نہایت اہم دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس روز آسٹریلین حکومت نے آسٹریلیا کے مقامی سیاہ فام باشندوں کے سامنے وہ چھوٹا سا لفظ کہا، جسے کہہ کر دنیا بھر کے بچے بڑے ایک دوسرے سے بڑی سے بڑی شکایتیں اور گلے شکوے دور کر لیتے ہیں، یعنی ’’سوری!‘‘ لیکن آسٹریلیا میں اور خاص طور پر مقامی آبادی جسے Aborigines کہا جاتا ہے، ان کے کان یہ چھوٹا سا لفظ سننے کے لیے سال ہا سال ترستے رہے ہیں۔ یہ ایک لاکھ سے زائد وہ بچے تھے جنہیں ۱۹۱۰ء اور ۱۹۷۰ء کے دوران اس مفروضے کے تحت زبردستی ان کے ماں باپ سے چھین لیا گیا تھا کہ یہ مقامی آبادی اب معدوم بھی ہو رہی ہے اور یہ لوگ اپنے بچوں کی ٹھیک سے پرورش کرنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ یہ بچے جنہیں اب ’’مسروقہ نسلوں‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، سیاہ فام مائوں کی گودوں سے چھین کر سفید فام خاندانوں کے حوالے کر دیے گئے تھے، جہاں انہیں گھریلو ملازمین کی طرح رکھا گیا۔ کہنے کو تو یہ سفید فام خاندان ان بچوں کے متبادل والدین کہلاتے تھے، لیکن ان نام نہاد والدین میں سے اکثر نے ان بچوں پر جو مظالم ڈھائے، وہ ناقابل بیان ہیں۔ ان کے ساتھ جنسی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کا بدترین استحصال کیا گیا۔ اس ظلم نے ان معصوم بچوں میں سے اکثر کی زندگیاں یا تو بالکل تباہ کر دیں یا پھر ان کے دل و دماغ پر نہ مٹنے والے زخموں کے نشان چھوڑ دیے۔ بچوں کی اس لوٹ مار میں نشانہ بننے والے اکثر و بیشتر وہ بچے تھے جو مقامی عورتوں پر سفید فام حکمرانوں کے جنسی حملوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے اور جن کے جسم کی رنگت سیاہ کے بجائے بھوری تھی۔ چنانچہ ان دنوں سیاہ فام والدین اس خوف سے کہ گورے ان کے بچوں کو چھین کر نہ لے جائیں، اپنے بچوں کے جسم کوئلہ مل کر کالا کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ بھورے نظر نہ آئیں۔ آسٹریلیا کی مقامی آبادی کا شاید ہی کوئی گھرانا ایسا ہو جس کا بچہ اس دور میں چھینا یا چُرایا نہ گیا ہو۔ اس وقت بھی تیرہ ہزار سے زائد افراد موجود ہیں، جو خود کو مسروقہ نسل سے یا اس کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے بارہ سالہ دور میں سابق وزیراعظم جان ہاورڈ اور ان کے ساتھیوں نے ماضی میں ہونے والے اس ظلم پر مقامی آبادی سے معافی مانگنے یا ’’سوری‘‘ کہنے کے مسئلے کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ جو کچھ ماضی میں ہوا وہ ہماری حکومت کی ذمے داری نہیں ہے تو ہم معافی کیوں مانگیں؟ حالیہ انتخابات سے قبل آسٹریلین لیبر پارٹی اور خاص طور پر اس کے رہنما کیون رَڈ نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیراعظم بنے تو مسروقہ نسل سے معافی ضرور مانگیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۳ فروری ۲۰۰۸ء کو اپنا یہ وعدہ پورا کر دیا۔ بدھ کے روز آسٹریلیا میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوا تو کپون رڈ نے آسٹریلیا کے قدیم باشندوں خاص کر’’مسروقہ نسل‘‘ سے معافی مانگی۔ یہ تاریخی منظر سڈنی اور میلبورن کے کھلے میدانوں میں لگائی گئی بڑی بڑی اسکرینوں کے ذریعے عوام کو دکھایا گیا۔ اس دوران ملک بھر میں ایبوریجنل پرچم بھی لہرایا گیا۔ یہ تو طے ہے کہ وزیراعظم کپون رڈ کی معافی کے حوالے سے مختصر سی تقریر تاریخی حیثیت کی حامل ہے جس کی ہر طرف واہ واہ ہوئی ہے اور بیرونی دنیا کے کروڑوں لوگوں کو آسٹریلیا کے اس تاریک پہلو کے بارے میں اور اس کی مسروقہ نسل پر ہونے والے مظالم کے بارے میں جان کر شاید حیرت بھی ہوئی ہو اور ان کی آنکھیں کھل گئی ہوں۔ ایک لحاظ سے یہ یقیناً بڑا عمل ہے بھی، تاہم بعض حلقوں کا خیال یہ بھی ہے کہ صرف سوری کہنے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے تقریباً پانچ لاکھ سیاہ فام مقامی لوگ جن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان پر اس معافی سے کیا اثر پڑے گا؟ ان لوگوں کی پوری نسل کو مفت کی شراب پلا پلا کر قطعی ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کے لیے آسٹریلیا کی باقی آبادی کی طرح علاج معالجے اور صحت کی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں اور ان کے درمیان بچوں کے ساتھ جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات کی بھرمار ہے۔ جیلیں مقامی باشندوں (حتیٰ کہ بچوں) سے بھری ہوئی ہیں اور یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ آسٹریلیا میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے مقامی باشندوں کا تناسب غالباً دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ محض سوری کہنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایبوریجنل آبادی کے لیے صحت عامہ، تعلیم، روزگار اور رہائش کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دے، یہی اصل کارنامہ ہوگا۔ اس لیے کہ فی الوقت یہ مقامی لوگ تیسری دنیا کے لوگوں سے کہیں بدتر حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیون رَڈ کے معافی مانگنے سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، کم از کم ایک وعدہ اور ایک مقصد تو ضرور پورا ہو گیا کہ ایک قوم کو اس اجتماعی ظلم کا احساس ہو گا جو یہاں کے لوگوں پر ایک عرصے تک کیا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ ۱۹۹۷ء میں ایک قومی تحقیقاتی ٹیم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا کہ ۱۹۱۰ء اور ۱۹۷۰ء کے درمیانی عرصے میں مقامی آبادی کے ہر تین میں سے ایک بچے کو زبردستی اس کے والدین سے چھینا گیا تھا اور پھر انسانی حقوق کی تنظیم اور یکساں مواقع کے ادارے کے اصرار پر اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جج رونالڈ ولسن نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ بچوں کی لوٹ مار کا یہ عمل دراصل ایک ’’قتل عام‘‘ تھا، جس کا مقصد مقامی آبادیوں، خاندانوں اور ان کے ثقافتی ورثے کو نیست و نابود کرنا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کی یہ رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم جان ہاورڈ کو خاصی ناگوار گزری تھی اور انہوں نے تقریباً دو سال تک غور کرنے کے بعد معافی سے گریز کرتے ہوئے ماضی کے اس گھنائونے جرم پر محض اظہار افسوس کرنا ہی کافی سمجھا تھا۔ ان کے بعض ساتھیوں کا کہنا تھا کہ کسی نسل کے صرف دس فیصد مظلوموں کو نسل قرار دینا بھی غلط ہے۔ اس لیے حزب اختلاف کے بیشتر رہنما کیون رَڈ کی تقریر کا متن دیکھے بغیر اس معافی کی حمایت کرنے پر تیار نہیں تھے۔ گو کہ اس بات کی وضاحت کر دی گئی تھی کہ معافی کے نتیجے میں ظلم کا شکار ہونے والے لوگوں کے لیے کسی مالی امداد یا کسی بھی قسم کے معاوضے کا کوئی امکان نہیں ہے، یہ صرف پرانے زخموں کو مندمل کرنے اور مقامی پسماندہ لوگوں کو حکومت اور دیگر عوام کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی کوششوں میں پہلا قدم ہے۔ یوں یہ معافی آسٹریلیا کے قدیم باسیوں کو کوئی مادّی فائدہ تو نہ دلا سکی، البتہ ان سمیت سارے آسٹریلیا اور دنیا بھر میں یہ احساس ضرور اجاگر کر گئی کہ ایبوریجنل باشندوں کے ساتھ ان کی زمین پر قابض ہونے والوں نے کیسے کیسے ستم ڈھائے ہیں۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۲۴ فروری ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply