Articles by Ghias Udin
یورپ ایک عجیب موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس سے اس کا اشتراکِ عمل صدیوں پر محیط ہے۔ امریکا کے ساتھ مل کر یورپ نے کم و بیش ڈیڑھ صدی تک پوری دنیا پر بھرپور راج کیا ہے۔ اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ یورپ اپنا راستہ بدلنا چاہتا ہے۔ یورپ کے قائدین امریکی پالیسیوں سے غیر معمولی پریشانی اور دقت محسوس کر رہے ہیں۔ امریکا تمام معاملات کو عسکری قوت سے درست کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے اپنی ترقی کی بنیاد اسلحے کی صنعت اور دھونس دھمکیوں پر رکھی ہوئی ہے۔ یورپ اس راہ سے دور ہونا چاہتا ہے۔ امریکا اب تک ’’سخت قوت‘‘ کا دلدادہ ہے مگر یورپ ’’نرم قوت‘‘ کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہے۔ ایک طرف انفارمیشن [مزید پڑھیے]
چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا کورونا وائرس اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ۱۶۲؍ممالک میں کورونا وائرس کے کیس سامنے آچکے ہیں۔ چین سمیت پوری دنیا میں کم و بیش سات ہزار ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں چین میں ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر اٹلی ہے۔ اٹلی میں ۱۲۰۰؍سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس پر بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ چین میں اس وائرس کی زد میں آنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار سے زائد ہے۔ اٹلی میں ۱۳؍ہزار کیس سامنے آئے۔ ایران میں ۹ ہزار سے زائد کیس رجسٹر کیے گئے۔ ایران میں ہلاکتوں کی تعداد ۷۰۰ سے زائد رہی ہے۔ [مزید پڑھیے]
کورونا وائرس نے پوری دنیا میں سنسنی پھیلائی ہے۔ کم و بیش ہر ملک کے باشندے انتہائی خوفزدہ ہیں۔ چین سے باہر سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں۔ یہ بہت خطرناک اور تشویشناک بات ہے۔ اٹلی کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ یورپ کا ملک ہونے کے ناطے اس کا طرزِ زندگی معیاری اور بلند ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ اٹلی میں کورونا وائرس سے اب تک کم و بیش دو ہزار ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں۔ مجموعی کیسز کی تعداد ۲۵ ہزار سے زائد ہے۔ اور اٹلی ہی سے یہ روح فرسا خبر بھی آئی ہے کہ حکومت نے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے ۵۰ معمر افراد کے علاج سے معذرت کرلی ہے۔ [مزید پڑھیے]
افراد اور قوموں کی اپنی کوئی نہ کوئی تہذیب ہوتی ہے جس سے ان کی بہت گہری وابستگی ہوتی ہے۔ تہذیبوں کا مذہب یا اجتماعی نظام سے بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے کہیں کہیں تہذیب سے مذہب سے بھی بڑھ کر جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس وقت مغربی تہذیب کی یہی مثال ہے۔ اس نے مذہب کی جگہ لے لی ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک مذہب سے کہیں زیادہ اپنی تہذیب کے بارے میں حساس ہیں۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام اس تہذیب کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ جمہوریت کا بہت پرچار کرتے ہیں لیکن اس کو خالص شکل سے اسلامی قوتوں کا مستفید ہونا انہیں گوارا نہیں ہے۔ ۱۹۹۲ء میں الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ، ۲۰۰۶ء میں فلسطین میں حماس [مزید پڑھیے]
سرمایہ دارانہ نظام اب بھی دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ معمولی استثنیٰ کے ساتھ پوری دنیا معاشی پیداوار کو ایک ہی طریقے سے منظم کیے ہوئے ہے۔ مزدوری کے لیے رضاکار ہوتے ہیں، بیشتر سرمایہ نجی ہاتھوں میں ہے اور پیداوار کو غیر مرکزی طریقے سے مربوط کیا جاتا ہے اور منافع اس کی حوصلہ افزائی کی وجہ بنتا ہے۔ اور اس کامیاب منظر نامے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں سرمایہ داری موجود تو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کا ایک مربوط نظام سرمایہ داری کے مقابلے کے لیے موجود رہا ہے۔ چاہے وہ چھٹی صدی میں میسوپوٹیمیاکا دور ہو، قرون وسطیٰ کا، رومن سلطنت کا یا پھر جدید دور کاآغاز، سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل ہمیشہ [مزید پڑھیے]
امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں دستخط شدہ امن معاہدے کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہونے پائی کہ چند روز کے بعد ہی اس کے تاروپود بکھرتے نظر آرہے ہیں، حالانکہ اس کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکی خارجہ پالیسی کے تحت طے پائے اس کمزور تر سمجھوتے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ اس کے تانے بانے بننے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کردار ادا کیا ہے اور قطر نے بین الاقوامی سمجھوتا طے پانے کے عمل میں ایک ’’سہولت کنندہ مصالحت کار‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ قطر برسوں سے اپنے انتہا پسند دوست رجیم کے ناقدین کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اس [مزید پڑھیے]
پشاور کے چرچ پر حملہ القاعدہ کی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے کیونکہ جس دن یہ حملہ ہوا ‘اسی دن کینیا کے شہر نیروبی میں ایک بڑے شاپنگ مال میں بھی اسی قسم کا حملہ ہوا، جہاں اتوار کے روز ہزاروں لوگ موجود تھے۔پشاور میں حملہ کرنے والوں کا تعلق پاکستانی تحریک طالبان سے نہیں بلکہ القاعدہ کے ’’جند اللہ حفصہ‘‘ گروپ سے ہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے صومالیہ کی الشباب تنظیم اور القاعدہ کے درمیان مفاہمت ہوئی تھی۔ ’’جند اللہ حفصہ‘‘ اس معاہدے میں شامل تھا‘ جس نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے۔پشاور میں دو خودکش حملہ آور ہلاک ہو گئے جبکہ نیروبی میں سات آٹھ حملہ آور تھے، جن کے پاس ہتھیار تھے اور انہوں نے یہ [مزید پڑھیے]
پروپیگنڈا- ایک مؤثر ہتھیار ’فرانسوبرون‘ کا کہنا ہے کہ: ’’پروپیگنڈا، ذہین لوگوں پر احمقانہ تاثرات ڈالنے کا نام ہے‘‘۔ بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے، جسے امریکیوں نے اگرچہ ایجاد نہیں کیا، لیکن ایک مؤثر ہتھیار کی شکل ضرور دی ہے۔ اس کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا، بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھا۔ امریکیوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’انہی کی بدولت یورپ، نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے‘‘۔ یہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکا ان کے لیے کسی [مزید پڑھیے]
فرانس میں اگر کوئی شخص دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں پر ڈھائے جانے والے نازی مظالم کی حقیقت سے انکار کرے یا ان پر شبہ ظاہر کرے تو اسے نسل پرستی پر مبنی جرم قرار دے کر قانونی کارروائی کی جاتی ہے، مگر اسی ’’فراخ دل‘‘ اور ’’وسیع النظر‘‘ فرانس میں اہانت پر مبنی کارٹون اور خاکے شائع کرنا اظہار رائے کی آزادی کا بامِ بلند قرار دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ فرانس کے سیاست دان پریس کی آزادی کا ہر حال میں دفاع کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے رہتے ہیں، اور یہ آزادی دراصل اس بات کی ہے کہ کسی کے مذہب پر وار کرتے وقت کچھ بھی نہ سوچا جائے۔ فرانسیسی اخبار ’’چارلی ہیبڈو‘‘ نے امریکی فلم [مزید پڑھیے]
آج کل آزادیٔ رائے کے نام پر ایک مخصوص گروہ قراردادِ مقاصد کے خلاف جس طرح ہذیان اُگل رہا ہے، اُس سے جی متلانے لگتا ہے۔ اس مہم میں ٹیلی ویژن ٹاک شو سے لے کر کالم نویسی اور خبروں سے لے کر عوامی رائے عامہ کو اس طرح سے استعمال کیا جارہا ہے جیسے قراردادِ مقاصد یا تو متروک ہو گئی ہے، یا پھر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے قائداعظم کے فرمودات کے خلاف قرارداد مقاصد کی شکل میں کوئی سازش کی گئی ہو، جس سے وطنِ عزیز میں ’’تنگ نظری‘‘ اور ’’انتہاپسندی‘‘ پھیل گئی ہے۔ میڈیا کی آزادی کا ایک بڑا مخمصہ یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے اور خبر میں امتیاز نہیں رہا اور نہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق۔ [مزید پڑھیے]
تیونس میں جمہوریت کو حقیقی معنوں میں متعارف ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا مگر اس چھوٹے سے ملک کو پھر فسادات نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ جو کچھ عشروں میں بگڑا ہے، وہ لمحوں میں درست ہو جائے۔ ایسے میں بہتری کی توقع کس طور رکھی جاسکتی ہے؟ تیونس میں لوگ معاشی مشکلات سے پریشان ہیں۔ عوامی انقلاب کے برپا ہونے سے بہت کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ مگر قوم حکومت کو وقت دینے کے لیے تیار نہیں۔ تقریباً دو سال قبل جب عرب دنیا اور شمالی افریقا میں عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو سب سے پہلے تیونس میں زین العابدین بن علی کی [مزید پڑھیے]
اگر میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ لکھنے بیٹھ ہی گیا ہوں تو پھر لازم ہے کہ میں ان مراحل کی بھی نشاندہی کروں جن سے گزر کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ اس کام کے لیے ہمیں اس کی سیاست، معیشت اور معاشرتی ارتقا کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آئین کی تشکیل میں تاخیر اور اناڑی پن کا مظاہرہ، مکارانہ سیاست اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں پر عوام کے اعتماد کا فقدان اور ان کی نیتوں پر شبہ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کو سقوطِ پاکستان کی تاریخ رقم کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاہم میری کوشش تو اُس خرابی کو سمجھنے کی ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کیا [مزید پڑھیے]
بیسویں صدی کے عبقری نے اپنی تحریروں میں جابجا فرمایا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم‘ گروہ‘ ملت‘ تحریک اس وقت تک نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ اپنا مقام برقرار رکھ سکتی ہے‘ جب تک کہ اس میں علم وفکر اور تحقیق و جستجو کی خو نہ ہو‘ ذوق نہ ہو اور وہ اسے اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست نہ رکھے۔ علم و تحقیق سے خالی گروہ اور قوم کھوکھلی اور بودی ہوتی ہے۔ نہ اس کا کوئی وزن ہوتا ہے اور نہ اس کا دیرپا اثر۔ بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کئی صدیوں سے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے میدان سے باہر ہے اور آج کی استعماری و استبدادی قوتیں اسے سمجھا بھی رہی ہیں کہ یہ میدان اس کے [مزید پڑھیے]
ایشیا کی معیشتیں عالمی سطح پرتیزی سے ابھر رہی ہیں۔ جاپان ایک زمانے سے دوسری بڑی معیشت کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اب جاپانی بزنس مین مغربی انداز کی قیادت کو اپنانے کے موڈ میں ہیں اور اس کے لیے انہوں نے اپنے اسکولوں کا ڈھانچا تبدیل کیا ہے۔ تعلیم اور تعلم کے حوالے سے نئے رجحانات کو اپنایا جارہا ہے۔ بیشتر اسکول اب اس مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں کہ ایشیا کی سطح پر قائد کا کردار ادا کرنے والے طلبہ تیار کیے جائیں۔ لن کوبایاشی ٹوکیو کے نواح میں ایک بزنس ایجوکیشن فاؤنڈیشن قائم کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کا ادارہ ایشیا کی سطح پر سوچنے والے ’’بزنس لیڈر‘‘ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ [مزید پڑھیے]
مسٹر این سی استھانا (NC Asthana) سینٹرل ریزرو پولیس فورس، کوبرا (ایک ایلیٹ کمانڈوفورس) کے انسپکٹر جنرل ہیں ۔ ان کی اہلیہ مسز انجلی نرمل پولیس انتظام کاری (Police Administration) میں پی -ایچ -ڈی ڈگری کی حامل ہیں ۔ مسٹر این سی استھانا ا ور مسز انجلی نرمل نے اگست ۲۰۱۲ء کے آخر میں شائع شدہ اپنی مشترکہ تصنیف “India’s Internal Security: The Actual Concerns” میں مختلف بھارتی پالیسیوں ،بشمول انٹیلی جنس ناکامی، دہشت گردانہ حملوں میں ذرائع ابلاغ کا کردار، داخلی سلامتی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم اور انتقامی کارروائیوں کا محاکمہ و تجزیہ کیا ہے۔ کنل مجمدار نے مصنفین سے ان میں سے کچھ امور پر بات چیت کی، جو حسبِ ذیل ہے: o کیا ہندوستانی سلامتی ادارے حقیقی خطرات سے صرفِ [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
117
»