
ترکی کے شہر استنبول میں جامع مسجد سلطان محمد کے قریب واقع ’’آیا صوفیا‘‘ ایک شاندار تاریخی عمارت ہے، جسے مشہور عیسائی بادشاہ قسطنطین کے بعد بازنطینی عیسائی بادشاہ جسٹنین اول نے ۵۳۲ء میں دوبارہ تعمیر کروایا۔ پانچ سال مسلسل اس کی تعمیر جاری رہی۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد ۵۳۷ء میں باقاعدہ طور پر اسے چرچ کا درجہ دے کر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ ’’آیا صوفیا‘‘ دنیا میں فن تعمیر کا ایک منفرد عالیشان جہاں لیے ہوئے ہے، جسے رومی اور ترک انجینئروں نے اپنے اپنے دور میں کمالِ مہارت سے دنیا کا آرکٹیکچر فن پارہ بنایا۔ آج بھی دنیا سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو دیکھنے آتے ہیں اور معماروں کی کمالِ مہارت کی داد دیے بنا نہیں رہتے۔
آیا صوفیا پر کئی مشکل دور آئے، صلیبی جنگوں کے دوران خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں نے اس کو شدید نقصان پہنچایا۔ آخری بار ۱۳۴۶ء میں اس کی تعمیر کی گئی۔ بعدازاں عثمانی دورِ خلافت میں اس کی تعمیر و ڈیزائن میں ترمیم ہوتی رہی۔ سلطان محمد الفاتح نے ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد پہلی مرتبہ اسے مسجد کا درجہ دیا اور یہاں نماز ادا کی۔ انہوں نے اس پر ایک شاندار مینار تعمیر کروایا، پھر بایزید ثانی کے دور میں اس کا ایک اور بلند مینار بنایا گیا۔ اس وقت آیا صوفیا کے چار بڑے مینار ہیں۔
۴۸۱ سال تک یہاں مسلمان اذانیں دیتے اور نمازیں پڑھتے رہے۔ لیکن ۱۹۳۴ء میں کمال اتاترک نے اپنی روشن خیالی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے جہاں ترکی میں دیگر مساجد میں اذان اور نمازیں پڑھنے پر پابندی لگائی، وہیں آیا صوفیا میں بھی نماز اور اقامت پر پابندی لگا کر اسے ایک میوزیم قرار دے دیا گیا۔ ۱۹۹۱ء میں آیا صوفیا کے ساتھ جڑے ہونکار نامی محل کی مسجد بنائی گئی، جس کے دروازے آیا صوفیا کی طرف کھولے گئے، جہاں لوگ نماز پڑھتے رہے۔ دوسری طرف طیب اردوان کے دور میں جہاں رفتہ رفتہ دیگر اسلامی شعائر آزاد ہوتے رہے، وہیں آیا صوفیا کو بھی مسجد کی حالت پر واپس لانے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ چنانچہ ۲۰۱۴ء میں اناطولین یوتھ ایسوسی ایشن نے آیا صوفیا کو سابقہ حالت پر واپس لانے کے لیے زبردست تحریک چلائی، جس کا نام تھا ’’اپنے مصلے لے کر آیا صوفیا پہنچو‘‘۔ اس تنظیم کے بقول ’آیا صوفیا‘ کو مسجد والی حالت میں واپس لانے کی اس تحریک میں ۱۵ ملین سے زائد لوگوں نے دستخط کیے جس کے بعد اس دور کے ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے یقین دلایا کہ معاملے پر غور کیا جائے گا۔ چنانچہ اب طیب اردوان کی حکومت نے اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے آیا صوفیا کو بطور مسجد بحال کرکے باقاعدہ امام مقرر کر دیا ہے۔ ۸۲ سال بعد پہلی مرتبہ مسلسل پانچوں نمازوں کے لیے آیا صوفیا کے چار میناروں سے اذان کی آواز گونجے گی اور مستقل نمازیں پڑھی جائیں گی۔ ترک حکومت کے اس تاریخی فیصلے کے بعد عالم اسلام بالخصوص ترک اسلام پسندوں میں خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے، جبکہ دوسری طرف مغرب میں اس پر کافی تشویش پائی جارہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلطان محمد فاتح کی شاندار فتح کے بعد یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر کنٹرول آگیا تھا، اکثر عیسائی یہاں سے چلے گئے اور جو بچے انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر یہ خدا کی زمین ہے جس کی نیابت خدا اپنے ایمان والے بندوں کو دیتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے نہ صرف یہ ایک تاریخی جگہ ہے، بلکہ خدا کی طرف سے نیابت میں دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے، جس کے لیے ان کے آباء اجداد نے قربانیاں دیں۔ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسطنطنیہ فتح کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سے نوازا۔ مغرب اگر آیا صوفیا میں عبادت پر نالاں ہے تو اسے کم ازکم اپنے دہرے رویے پر غور کرنا چاہیے، جہاں قرطبہ میں مسجدوں کو گرجا گھر بنا دیا گیا اور مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا، بلکہ آج بھی مغرب کے ہاں مذہبی آزادی نہیں، مسلمانوں کو حجاب اور نسلی تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ سلطان فاتح نے عیسائیوں کے ساتھ بے انتہا حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا، قیدیوں کو رہا کیا اور انہیں پُرامن ہجرت کی اجازت دی۔
ترکی میں طیب اردوان حکومت اسلام کے لیے کافی کوششیں کررہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی اٹھانا، مساجد اور مدارس کو دینی تعلیم کے لیے آزادی دینا اور کمال اتاترک کی جانب سے اسلامی شعائر پر لگائی گئی پابندیوں کا اٹھانا، پھر دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا نہایت مستحسن اقدام ہے۔ طیب اردوان حکومت کے انہی اچھے اقدامات کی وجہ سے ترک عوام نے انہیں مسلسل تیسری بار حکومت کے لیے منتخب کیا اور ماضی قریب میں ہونے والی بغاوت کو ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر کچلا۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۰؍نومبر۲۰۱۶ء)
Leave a Reply