
سن ۵۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ ایران پر رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج چمک رہا تھا، اقتدار کی سخت گرفت ایرانی عوام کو اپنی گردنوں پر محسوس ہوتی تھی، جذبات کے اظہار پر تعزیریں تھیں چنانچہ آہیں بھرنے پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ ایک ایرانی شاعر مہدی اخوان ثالث نے اُن دنوں ’’سرما‘‘ کے عنوان نظم کی صورت میں جو آہ بھری تھی اس کا مفہوم کچھ یوں تھا:
’’ہم تمہاری خوش مزاجی کے جواب میں خوش مزاجی دکھانے سے قاصر ہیں، ہم تمہارے سوال کا جواب دے سکتے ہیں نہ ہمیں کوئی دوست دکھائی دیتا ہے ….. سینے سے برآمد ہونے والی سانس بھی سیاہ بادل بن جاتی ہے اور دیوار کی مانند ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے‘‘۔
یہ نظم نوجوان، مثالیہ پرست، شیعہ عالم دین (آیت اللہ) علی خامنہ ای کو پسند ہوا کرتی تھی اور وہ شراب نوش شاعر کے جذبات و احساسات سے ہم آہنگ تھے۔ آج ۲۰۰۹ء کے ان دنوں میں، اقتدار کی سخت گرفت اور اس سے ابھرنے والے جذبات کی تپش تہران کی گلیوں میں محسوس کی جا سکتی ہے، اور ستم ظریفی ہے کہ اس بار وہی خامنہ ای ہیں جنہیں اقتدار کی اس سختی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جبر اور آزادی کے مابین کوئی سادہ سی کشمکش نہیں۔ احتجاج کی لہر نے، جس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حکومت کا تختہ الٹا ہے نہ وہ الٹنا ہی چاہتی ہے تاہم ۳۰ سال قبل شاہ کو اٹھا کر پھینک دینے والے انقلاب کے بعد سے، احتجاج کی یہ لہر ایران کی سیاست میں سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ایران کی مذہبی قیادت کی ساکھ تک کو بڑے پیمانے پر مجروح کر دیا ہے، معصومیت تو بہت پیچھے رہ گئی۔ عزائم اور تصورات کی پیچیدہ کشمکش ہر انقلاب میں ہوتی ہے، یہی ایران کے معاملے میں ہوا۔ اہداف، اور اہداف کی ناکامی سے ابھرنے والی تلخی رزم آرا ہوئی، جس کے دوران سڑکوں پر مظاہرین آ گئے اور سازشی عناصر بند کمروں میں جا بیٹھے۔ موبائل فون کیمروں کی مدد سے بنائی جانے والی، اور سنسرشپ کی تمام پابندیوں کے باوجود دنیا تک پہنچنے والی ویڈیوز آپ نے انٹرنیٹ اور ٹی وی پر دیکھی ہوں گی جن میں ہزاروں لاکھوں لوگ تہران کی سڑکوں پر چلے جا رہے ہیں، وہ خاموش ہیں۔ دوسری طرف ملیشیا کے ڈنڈا بردار موٹر سائیکل سواروں کے دستے ہیں۔ اس دوران سرکاری فورسز اور عمارات بعض اوقات مظاہرین کے غم و غصے کا نشانہ بنیں۔ یہ سب کیسے ہوا؟ یہ بحران احمدی نژاد کے، بھاری اکثریت سے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے شروع ہوا۔ ان ہی مظاہرین کے ہاتھوں میں آپ نے مقابل امیدوار میر حسین موسوی کی تصاویر دیکھی ہوں گی جو ایرانیوں کے لیے امید کی علامت بن چکے ہیں۔
اس تناظر میں سرکاری ٹی وی پر ۶۹ سالہ خامنہ ای کا چہرہ نمودار ہونا جمود کا وقفہ معلوم ہوتا ہے۔ مغرب کے جن لوگوں کو آیت اللہ خمینی کا چہرہ یاد ہے، انہیں خامنہ ای قطعی بے رنگ معلوم ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں وہ شاید کرشماتی شخصیت ہوں گے لیکن ٹی وی پر ان کی شخصیت میں کوئی کرشماتی پہلو دکھائی نہیں دیتا، بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو گی کہ خمینی کے انتقال پر انہیں حادثاتی طور پر سپریم لیڈر بنایا گیا تھا، کہ اس وقت کوئی متبادل موجود نہ تھا۔ اگر وہ دو عشروں سے اس عہدے پر متمکن ہیں تو اس کا سبب ان کی شخصیت یا رعب داب نہیں حتیٰ کہ مذہبی طاقت بھی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے مختلف گروہوں کے حوالے سے توازن پیدا کرتے ہوئے خود کو ایسا غیر جانبدار ظاہر کیا ہے جو ہر تنازع سے بالاتر ہے۔
درحقیقت ایسا نہیں، یعنی وہ تنازع سے بالاتر شخصیت کبھی نہیں رہے، اور احمدی نژاد کی صدارت کے گزشتہ چار برسوں میں ان کی حالت اس امیر بوڑھے کی سی ہے جس نے اپنی زندگی کی گاڑی ملازموں کے ہاتھ میں دے دی ہو۔ انہوں نے ملک کی سب سے متنازع شخصیت احمدی نژاد کا دفاع کرنا شروع کر دیا ہے۔ خامنہ ای کو ۴۰ سال سے زائد عرصے سے جاننے والے ایک سیاست داں نے کہا ’’ہر اس شخص کی طرح جو طویل عرصے سے اقتدار میں ہو، خامنہ ای بھی پسند کرتے ہیں ان کا احترام کیا جائے‘‘۔ اکثر ایرانیوں کی طرح انہوں نے بھی، شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’’حیرت ہوتی ہے، خوشامد سے انسان کو کس حد تک دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ یہ شخص احمدی نژاد اسلامی جمہوریہ کا پورا نظام، بشمول خامنہ ای کو، تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے، لیکن خامنہ ای اس کی حمایت کرتے ہیں محض اس لیے کہ وہ چوہے کی طرح ان کے سامنے بیٹھا رہتا ہے اور ان کی قدم بوسی کرتا ہے‘‘۔
گزشتہ برسوں کے دوران خامنہ ای نے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے فوج اور سلامتی کے اداروں کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار کر لیے۔ انہوں نے حکومت میں اور اپنے ’’بیت رہبری‘‘ کے گرد بیوروکریسی کا مجمع اکٹھا کر لیا، لیکن اس بحران کی ابتدا ہی میں معلوم ہوا کہ ان کا بندوبست کمزور تھا۔ وہ ایران کی سڑکوں پر کمزور نکلے جہاں پر، مبینہ دھاندلی سے احمدی نژاد کے انتخاب پر لوگ باہر آ گئے۔ نیز خود (منقسم) مذہبی حلقے میں بھی ان کی کمزوری الم نشرح ہو گئی جس نے ان کے اقتدار کو چیلنج کیا ہے۔ اس مذہبی حلقے کی اندرونی چپقلش پیچیدہ اور قدیم ہے۔
ایرانی انتخابات کے ایک ہفتے بعد خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے اجتماع میں احمدی نژاد اور موسوی کے علاوہ دوسرے دو امیدواروں پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی اور سابق اسپیکر پارلیمنٹ مہدی کروبی کو حاضر ہونے اور فیصلہ سننے کی ہدایت کی۔ رپورٹروں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ ماضی میں ہر بحران کے موقع پر، انقلاب کے رہنمائوں کو جب بھی اکٹھا ہونے کو کہا گیا وہ اکٹھا ہوئے (ایران میں برطانیہ کے سابق سفیر سر رچرڈ ڈالٹن کے مطابق ’’ایرانی رہنما جانتے ہیں کہ اگر اکٹھا نہ ہوں گے تو انہیں باری باری فنا ہونا پڑے گا‘‘)۔ تاہم اس بار صورتحال مختلف تھی۔
موسوی آئے نہ کروبی۔ احمدی نژاد پہلی صف میں موجود تھے۔ خامنہ ای نے وفاداری نہ دکھانے والوں کو تنبیہ کی اور اعلان کیا کہ وہ سپر نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے واشگاف انداز میں کہا ’’اول تو انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، اور اگر ہوئی بھی ہو تو ان گیارہ ملین ووٹوں کے فرق کو کیا کہیں گے جو احمدی نژاد اور ان کے حریف کے مابین موجود ہے۔ انتخابی نتائج کو نہ ماننا ایسا ہی ہے جیسے انقلاب کو نہ مانا جائے‘‘۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الفاظ استعمال کر کے خامنہ ای نے دراصل سیکورٹی فورسز کو کریک ڈائون کی چھٹی دے دی لیکن اس کی ذمہ داری مظاہرین پر ڈالی جائے گی۔ خامنہ ای کے الفاظ تھے ’’خونریزی ہوئی تو مظاہرین کے رہنما اس کے ذمہ دار ہوں گے‘‘۔
ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تقریر میں خامنہ ای نے عالمی سیاست میں ایران کی اہمیت اجاگر کی، خاص کر اس بات کی کہ ایران امریکا، برطانیہ اور اسرائیل جیسے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں کوئی ’’نرم‘‘ انقلاب نہیں آئے گا، نہ داخلی راستے سے نہ بیرونی مالی امداد کے بل پر۔ کوئی بیرونی عنصر ایران کو سِکھانے کی کوشش نہ کرے۔ خامنہ ای کی اس تقریر کا ان کے کٹر حامیوں پر جو اثر پڑا سو پڑا، خود موسوی کے حامی بھی ششدر رہ گئے۔
خامنہ ای کو جاننے والے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی خلافت قائم کرنا چاہ رہے ہیں جہاں انصاف اور مساوات ہو۔ تاہم انہوں نے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے جس شخصیت، احمدی نژاد، کا انتخاب کیا ہے وہ مثالیت پسند (idealist) نہیں بلکہ ذاتی مفادات کو پورا کرنے والی ہے۔ ایک سابق ساتھی کا کہنا تھا کہ اپنے ہدف کے حصول میں خامنہ ای ایک قسم کی تنگ نظری کا شکار ہو چکے ہیں، بعض اوقات وہ ایران کے زمینی حقائق فراموش کر دیتے ہیں، کیونکہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو تعلیم یافتہ ہیں اور زیادہ تر شہری علاقوں میں مقیم ہیں، نوجوان طبقے کی امنگیں ایرانی قیادت کی سوچ سے بڑھ کر ہیں۔ یہ طبقہ احمدی نژاد کو خوف کی علامت تصور کرتا ہے جو ایران کو دنیا کے ساتھ بلا ضرورت بھِڑا دینا چاہتا ہے۔
اپنے حامیوں کے مشورے کو نظرانداز کر کے خامنہ ای نے اپنی قسمت کو احمدی نژاد کی قسمت سے وابستہ کر دیا ہے۔ بیرون ملک مقیم ایک ایرانی صحافی کے مطابق گزشتہ اگست میں خامنہ ای نے احمدی نژاد کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں صدر کی تعریف کی، کیونکہ ان کے بقول احمدی نژاد نہ جھُکنے والے رہنما ہیں، وہ دنیا کے سامنے مدافعانہ نہیں جارحانہ رویہ اپناتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے دو پیش رو رہنمائوں سے بہتر ہیں۔ انتخابات سے ایک ماہ پہلے ایرانی کردستان کے دورے میں خامنہ ای نے صاف صاف کہا کہ وہ اس امیدوار کی حمایت کریں گے جو سپر طاقتوں سے لڑنے والا ہو، سادہ زندگی گزارتا ہو اور بے خوف ہو۔ خامنہ ای کے ایک سابق ساتھی نے، جو اب اصلاح پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں، کہا ’’اُس لمحے کے بعد سے انتخاب احمدی نژاد اور موسوی کے درمیان نہ رہا بلکہ یہ ایسا ریفرنڈم بن گیا جس کا مقصد خامنہ ای اقتدار کو جواز بخشنا تھا‘‘۔
مقتدر حلقوں میں باغیانہ روش سر اٹھا رہی ہے اور بظاہر یہ مظاہروں کا اثر ہے لیکن یہ روش نئی نہیں، بہت پرانی ہے، اتنی پرانی کہ بہت سے مظاہرین اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان حلقوں کی کھینچا تانی ہی سے ایرانی سیاست تشکیل پائی ہے اور یہ انقلاب کے بعد سے کسی نہ کسی صورت، حتیٰ کہ ۸ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران بھی جاری رہی۔ اس کشمکش میں ایرانی علما کبھی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئے تو کبھی ایک دوسرے کی حمایت میں۔ خمینی نے سب کو نوازا، رفسنجانی کے بارے میں کہا: جب تک ہاشمی (رفسنجانی) زندہ ہے، انقلاب زندہ رہے گا۔ خامنہ ای کے بارے میں کہا: اس کی پرورش و پرداخت میں نے خود کی ہے۔ عراق سے جنگ کے دنوں میں رفسنجانی مجلس کے اسپیکر رہے، بائیں بازو کا نوجوان دانشور میر حسین موسوی وزیر اعظم اور خامنہ ای صدر۔ موسوی ان سے اکثر اختلاف کرتا، خامنہ ای کی اکثر جیت ہوتی، جو موسوی کے لیے باعثِ صدمہ بنتی۔
۱۹۸۹ء میں خمینی کے انتقال پر متبادل سپریم لیڈر کوئی نہ تھا۔ یہاں کسی آیت اللہ کو ہونا تھا جو تمام شیعہ علما کے لیے مرجع ہو۔ ایک آیت اللہ حسین علی منتظری تھے جنہیں کئی سال سے خمینی کا جانشیں سمجھا جا رہا تھا لیکن ایک واقعے کی بنا پر وہ خمینی کی نظروں میں گر گئے۔ ان کے انتقال سے ایک سال پہلے ’’ایون‘‘ (Evin) کی جیل میں ہزاروں سیاسی قیدی ہلاک کر دیے گئے۔ منتظری نے اس پر کڑی نکتہ چینی کی تھی جبکہ رفسنجانی، موسوی اور خامنہ ای خاموش رہے۔ خمینی نے کہا: منتظری جیسے سادہ لوح ملک چلانے کے اہل نہیں۔
خمینی کی جگہ نئے سپریم لیڈر کے چنائو کی ذمہ داری علما کے ایک گروپ کو سونپی گئی۔ چنائو کے اس عمل میں شریک ذرائع نے نیوزویک کو بتایا کہ رفسنجانی نے دن رات ایک کر کے اس گروپ کو قائل کیا کہ اُن کے پرانے دوست خامنہ ای کو چن لیا جائے۔ اُس وقت خامنہ ای کو مرجع تو درکنار، آیت اللہ بھی نہیں مانا جاتا تھا تاہم رفسنجانی کی شخصیت پر اعتبار کرتے ہوئے علما نے خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا، گویا یہ خامنہ ای پر رفسنجانی کا احسان تھا۔
اب رفسنجانی صدر بن گئے، نیا آئین بنایا جس میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا۔ موسوی سیاست چھوڑ گئے (اور حال میں میں دوبارہ وارد ہوئے)۔ اس کے ساتھ ہی رفسنجانی نے سپریم لیڈر کی آئینی حیثیت کو اس قدر مستحکم کر دیا کہ تمام اہم امور پر اس کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے۔ ۱۹۸۹ء کے اُن دنوں میں ایران میں عام خیال تھا کہ رفسنجانی نے خامنہ ای کو سپریم لیڈر اس لیے بنوایا ہے کہ وہ خامنہ ای کو کنٹرول کرنا آسان سمجھتے ہیں۔ شاید خامنہ ای نے ان کی یہ سوچ پڑھ لی تھی۔ جب یہ شخصیات ملک کے سب سے بڑے دو عہدوں پر براجمان ہو گئیں تو ان کے خیالات میں پایا جانے والا اختلاف ظاہر ہونے لگا۔ رفسنجانی کا اثر و رسوخ ملک کے تاجر طبقے میں تھا چنانچہ انہوں نے پالیسیاں بنانے میں اقتصادی نمو اور ترقی کو اہمیت دی۔ ان کا خاندان تیزی سے خوشحال ہونے لگا۔ اس کے برخلاف خامنہ ای نے ایرانی عوام کو مخاطب کیا۔ چونکہ وہ ابتدا ہی سے شاعری اور ادب کے دلدادہ تھے، مظلوموں سے ہمدردی رکھتے تھے، انہوں نے علما، فوج اور بیوروکریسی میں اپنی حمایت تلاش کی۔ یہ وہ طبقے تھے جہاں وفاداری کا انعام دیا جاتا ہے اور فرد اپنی غربت کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں، جب عراق سے جنگ جاری تھی، انہوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ قریب تعلقات بھی استوار کر لیے، بہت سے انقلابیوں نے یہی کیا تھا، شاید اِن سب کا خیال تھا کہ ظلم سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دشمن کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ ایران کی ایک باغی شخصیت اکبر گنجی نے گزشتہ سال ’’فارن افیئرز‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا کہ ۱۹۸۹ء میں سپریم لیڈر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد خامنہ ای نے کابینہ کے ساتھ اولین ملاقات میں ’’دہشت کا نظریہ‘‘ پیش کیا تھا جس سے سلامتی کے امور پر اُن کی سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ اکبر گنجی کے بقول خامنہ ای نے کہا تھا ’’ایرانی عوام کی اکثریت خاموش ہے، لیکن بے غرض لوگوں کا ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو دہشت کو استعمال کر کے ریاست کو مستحکم کر سکے‘‘۔
اگر یہ بات درست ہے تو یہاں ایک پیچیدگی جنم لیتی ہے۔ ایران خود کو اسلامی جمہوریہ کہتا ہے، اور صدام حسین کے عراق اور مشرق وسطیٰ کی بہت سی آمریتوں کے مقابلے میں یہاں پر آزادیٔ اظہار پائی جاتی ہے۔ احتیاط سے چنے گئے چند امیداواروں میں سے ایرانی ووٹروں کو اپنا پسندیدہ امیدوار منتخب کرنے دیا جاتا ہے تاہم یہاں مقابلہ حقیقی ہی ہوتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کی معمر قیادت اور اس کے سخت گیر ادارے تبدیلی کی اُس چاپ سے کس قدر بے خبر ہیں جو ایرانی معاشرے میں بالعموم محسوس کی جا رہی ہے۔ سیٹلائٹ ٹی وی نے، جو اگرچہ غیر قانونی ہے تاہم ہر جگہ دیکھا جاتا ہے، دنیا کو ایرانیوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ پھر انٹرنیٹ ہے۔ آبادی کی اکثریت ۳۰ سال سے کم عمر ہے، یہ نوجوان طبقہ جو تیزی سے تعلیم یافتہ ہو رہا ہے، زیادہ آزادی اور مواقع چاہتا ہے۔
۱۹۹۷ء کے انتخابات میں اصلاح پسند محمد خاتمی بھاری اکثریت سے جیتے، انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دینے والوں کے لیے یہ جیت قطعی غیر متوقع تھی، اور سپریم لیڈر نے اسے خطرہ محسوس کیا۔ خاتمی نے آزاد روی لانے اور شہری اداروں کو مستحکم کرنے کا عزم کیا، چنانچہ ایسا لگا کہ خوف اور جبر کا زمانہ گزر گیا ہے، لیکن موسم بہار مختصر نکلا۔ خامنہ ای، اور پس پردہ رفسنجانی کی طرف سے بھی، مستقل دبائو برقرار رہا جس نے اصلاح پسندوں کو تھکا دیا اور ان کی ساکھ ختم ہو گئی۔ دوسری مدتِ صدارت کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کرتے ہوئے خاتمی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور اگرچہ وہ جیت گئے تاہم انہیں پہلے سے زیادہ اجنبی ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا کیونکہ ان کے حامیوں کو گولی مار دی گئی، گرفتار کیا گیا یا پھر جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔
ادھر سپریم لیڈر اپنے دوسرے بیٹے ۴۰ سالہ مجتبیٰ خامنہ ای کو سامنے لانے لگے۔ گھرانے کے لوگ محسوس کرنے لگے کہ وہی باپ کا جانشیں بنے گا، لیکن اب مجتبیٰ ایران کی سڑکوں پر ہونے والے واقعات سے باپ کو باخبر کرنے کا کام کر رہا ہے، یعنی اس کی حیثیت انتہائی اہم رابطہ کار کی ہوچکی ہے۔ رفسنجانی کے قریبی ساتھی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوزویک کو بتایا ’’مجتبیٰ کا خیال ہے کہ خاتمی کے آٹھ سالہ دور میں اصلاح پسند حلقے خامنہ ای کو دغا دیتے رہے‘‘۔ اب، چونکہ ان مبینہ اصلاح پسندوں میں سے بہت سوں کو شاہ کے زمانے میں عوامی مہم منظم کرنے کا تجربہ ہے، اس لیے وہ موجودہ حکومت کے لیے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔ خاتمی کی دو مدتوں کے بعد مجتبیٰ نہ خامنہ ای، کوئی انہیں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتا۔
۲۰۰۵ء کے انتخابات کے موقع پر رفسنجانی نے بھی خود کو بطور امیدوار پیش کیا تھا لیکن اب ان کی مقبولیت کا وہ عالم نہ رہا تھا، اس پرانے انقلابی کو اب بدعنوان اور عوام سے دور رہنے والا سمجھا جاتا ہے۔ خامنہ ای نے رفسنجانی کی بجائے تہران کے میئر احمدی نژاد کی حمایت کی۔ احمدی نژاد محنت کش طبقے سے، اور پاسدارانِ انقلاب سے تعلق رکھتے تھے، اور سپریم لیڈر کے آگے بچھے جاتے تھے، چنانچہ وہ جیت گئے۔
گزشتہ چار سالہ دور میں ایران نے تیل کی بلند قیمتوں سے حاصل ہونے والے زبردست منافع کو استعمال میں لاتے ہوئے جوہری افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا، غزہ میں حماس کی حمایت کی، اسرائیل سے ۲۰۰۶ء کی جنگ میں لبنان کے حزب اللہ کی حمایت کی۔ احمدی نژاد عالمی نقشے سے اسرائیل کا وجود مٹا دینا چاہتے ہیں۔ ایٹمی پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھانا ان کی ترجیح اول ہے اور خامنہ ای اس معاملے میں ان کی پشت پر ہیں۔
امریکی صدر اوباما نے مارچ میں نئے ایرانی سال کے آغاز پر نیک خواہشات کا پیغام دیا تو خامنہ ای نے کہا: اگر امریکا اپنا رویہ بدلے تو ایران بھی بدل سکتا ہے۔ تاہم انتخابات کے نتائج کے بعد رونما ہونے والی پیچیدگیاں کیا اس سلسلے کو آگے بڑھا سکیں گی۔ جہاں تک دھاندلی کے سوال کا تعلق ہے تو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فراڈ کے شواہد موجود ہیں تاہم ان کا یہ بھی خیال ہے کہ دھاندلی کے باوجود احمدی نژاد جیت جاتے۔ خامنہ ای کے وفاداروں کا گمان ہو گا کہ بہت بڑے فرق سے احمدی نژاد کی فتح اصلاح پسندوں کی رہی سہی طاقت کو کچل دے گی۔ دوسرے رفسنجانی اینڈ کمپنی، باغی آیت اللہ منتظری اور دیگر بھی ٹھکانے لگ جائیں گے، لیکن یہ سب تخمینے الٹ گئے۔ غیرمحفوظ رہنما اندھا دھند قتل کراتے ہیں اور نتیجتاً خود کو زیادہ غیر محفوظ کر لیتے ہیں۔
آج ایران اپنے ۳۰ سالہ دور کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے جو اندر سے ابھرا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ جو الیکشن وہ جیت چکے تھے اس کے نتائج کو انہوں نے بدلنا چاہا۔
(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۹ جون ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: منصور احمد)
Leave a Reply