
علامہ اقبال ؒ کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا کلام برصغیر میں لکھا، یہاں کے لوگوں نے اسے جس حد تک سمجھا اس کا اظہار ۱۹۴۰ء کی قرار داد لاہور میں ہو گیا۔ پھر ۱۹۴۷ء میں اس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آگیا۔ بس اللہ اللہ خیر سلا۔
لیکن علامہ اقبال ؒ کے افکار کو حقیقی طور پر برصغیر سے باہر ایران میں سمجھا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ علامہ اقبال ؒ کے فارسی کلام کی نظیر خود فارسی زبان میں بھی موجود نہیں ہے۔ اس کا اعتراف ایرانی کھلے دل سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانیوں کا کہنا ہے کہ پورا فارسی ادب علامہ اقبال ؒ کے بعض اشعار کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ ان میں سے ایرانیوں کی نظر میں درج ذیل اشعار خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں:
آں امام عاشقاںؑ پور بتولؑ
سروِ آزادے زبستان رسولؐ
اللہ اللہ باے بسم اللہ پدر
معنیٔ ذبح عظیم آمد پسر
موسی و فرعون و شبیرؓ و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
(کلیاتِ اقبال فارسی)
اسرار و رموز ہی میں علامہ اقبال نے حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے بارے میں جو نظم لکھی اسے بھی فارسی زبان کے ایک شاہکار ادب پارے کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمۃ للعالمینؐ
آں امام ِ اولین و آخریں
بانوے آں تاجدار ھل اتی
مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا
مادرِ آں مرکز پر کار عشق
مادر آں کارواں سالار عشق
مرزع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ
(کلیاتِ اقبال فارسی)
ایک طرف ایرانیوں کی نظر میں اقبال ؒ کا یہ مقام بلند اور دوسری طرف علامہ اقبال کی نظر یہ دیکھ رہی تھی کہ استعمار کے خلاف اٹھنے کی حقیقی صلاحیت اور قوت صرف ایرانیوں میں ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے یوں کیا :
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
شعراء اور ادباء کا یہ خاصہ رہا ہے کہ جب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی دوسرے کا کلام ان کو عاجز کر رہا ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ پورا کلام لے لو اور اس کے بدلے اپنا ایک شعر یا اس کا ایک مصرع دے دو۔ غالب نے مومن کے شعر :
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کے بدلے اپنا پورا کلام دینے کی پیش کش کی تھی۔ انیس و دبیر نے اپنے پورے پورے دیوان حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ کی مشہور رباعی :
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
کے بدلے دینے کی پیش کش کی تھی۔
زیر نظر کتاب بھی اس نوع کی ہے کہ اس کے بدلے اردو ادب کی تمام لائبریریاں دے دی جائیں تو بھی قیمت پوری نہ ہو سکے۔یہ کتاب ان کتابوں میں سے ہے جو ماضی کے آئینے میں حال اور مستقبل کو سنوارنے کی راہ دکھاتی ہیں۔
’’لوح ایام‘‘ لکھنے والے ادیب محتاج تعارف نہیں اس سے قبل وہ ’’آواز دوست‘‘ اور ’’سفر نصیب‘‘ لکھ کر داد حاصل کر چکے ہیں۔
یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ ’’لوح ایام‘‘ اپنی اشاعت اول جنوری ۱۹۹۶ء سے لے کر اب تک بہت زیادہ پڑھی گئی۔ ایک بار ملک کے ممتاز ادیب ڈاکٹر صابر کلوروی کے ذاتی کتب خانہ (ایبٹ آباد) جانے کا موقع ملا توطلسم ہوش ربادکھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ کتاب بھارت سے لائے تھے۔ لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ زندگی میں اسے پڑھ نہیں سکیں گے۔ اہل پاکستان نے ’’لوح ایام‘‘ کو بہت زیادہ پڑھا لیکن فی الحال وہ اسے مزید تفہیم کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ شاید کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں ’’لوح ایام‘‘ کو نوشتہ دیوار سمجھیں گی اور اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کا تعین کریں گی۔
مختار مسعود بر صغیر کے ان ادیبوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بہت کم لکھا مگر جو لکھا اتنا بامقصد لکھا کہ اس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔
کسی کے ایک آنسوسے ہزاروں دل تڑپتے ہیں
کسی کاعمر بھر رونا یوں ہی بیکار جاتا ہے
پیشے کے اعتبار سے مختار مسعود ایک بیوروکریٹ مگر سوچ کے اعتبار سے ایک داناو بینا مفکر ہیں۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ انتہائی گہرا ہے۔ ان کی کتابوں میں روایتی اعتبار سے زیادہ حوالے نہیں ہوتے۔ اسی طرح مصادرومراجع کا ذکربھی کم ہوتا ہے۔ مگر قاری لمحہ بھر کے لئے تشنگی محسوس نہیں کرتا۔ مختار مسعود نے لوح ایام کیوں لکھی۔ آئیے خود ان کے الفاظ میں جانتے ہیں:
’’اس کتاب کو لکھنے میں اتنا وقت نہیں لگا جتنا یہ طے کرنے میں کہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اور اگر لکھا جائے تو اس کی حد بندی کیسے کی جائے‘ وجہ معلوم کرنے کیلئے آپ کو کتاب پڑھنی ہو گی؛ اس کے بعد گریباں میں جھانکنا ہو گا۔ اگر وہ سلامت نظر آیا تو گویا انقلاب کے موضوع پر لکھنے کا فیصلہ کچھ ایسا درست نہ تھا۔
انقلاب خوہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو جائے اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ امید اور عمل، بیداری اور خودشناسی، جنوں اور لہو کی داستاں بھی کہیں پرانی ہو سکتی ہے۔ زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے۔ فرق صرف نام، مقام اور وقت کا ہوتا ہے‘‘۔
’’لوح ایام‘‘ صرف تین حصوں پر مشتمل ہے۔ (۱)شاہنامہ (۲)آمد نامہ (۳)منظر نامہ
’’لوح ایام‘‘ کا موضوع ایران کا انقلاب ہے۔ اس کے مخاطب اہلِ پاکستان،لکھنے والا انقلاب کا چشم دید گواہ، واقعات حیران کن اور بیان مسحور کن ہے۔ اس نے کتاب کو ’’آواز دوست‘‘ اور ’’سفر نصیب‘‘ کی طرح ایک منفرد ادبی شاہکار بنا دیا ہے۔
اردو قارئین کی یہ خوش بختی ہے کہ مختار مسعود اس زمانے میں ایران گئے۔ جب امریکیوں اور شہنشاہ ایران کی نظر میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت اپنے عروج تک پہنچ گئی تھی اور شہنشاہ ایران اپنے آپ کو لازوال سمجھنے لگے تھے۔ مختار مسعود کی نظر نے دیکھا کہ صورت حال کچھ اور ہے صرف ایک سال کے عرصہ میں کایا پلٹ گئی۔ وہ جو اپنے آپ کو ڈھائی ہزار سال سے ملانے کے لئے اپنا کلینڈر اور پوری قوم کی گھڑیاں پیچھے کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ وہ ذلت آمیز انداز میں ملک سے رخصت ہو گئے قوم نہ چاہے تو گھڑیاں آگے پیچھے کرنے سے وقت کی رفتار بدلی نہیں جا سکتی۔
جب مختار مسعود ایران پہنچے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ صرف ایک سال میں ایرانی قوم صدیوں کا سفر طے کر لے گی۔ لیکن مختار مسعود دیکھ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے ملکوں کے لوگ ایران سے جا رہے تھے تو مختار مسعود نے اپنی اہلیہ عذرا اور اپنے بیٹے سلمان کے ساتھ وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ درست تھا۔ اگر وہ بھی بھاگ جاتے تو بھاگنے والوں کے زمرے میں آتے اور یہ عظیم ادبی شہ پارہ تخلیق نہ کر پاتے۔ مختار مسعود کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں ان پر کئی ایسی راتیں آئیں۔ جب وہ موم بتی روشن کرکے گزارا کیا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) کے نہایت اعلیٰ سفارتی عہدے (سیکرٹری جنرل) پر فائز تھے۔
کتاب کا پہلا حصہ شاہنامہ ہے۔پہلے حصے کے کل ۸ ابواب یوں ہیں (۱)مارگلہ سے البرز تک (۲)ایک تھا بادشاہ (۳)خانہ بدوش (۴)جستجو اور گفتگو (۵)بزم آرائی اور ہنگامہ آرائی (۶)بات بس سے نکل چلی ہے (۷)نئے نام پرانی تصویریں (۸)شاہ رفت، اللہ اکبر۔
اس حصے میں وہ اسلام آباد سے تہران پہنچنے کے مراحل بیان کرتے ہیں۔ ایران کے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔
’’یہ بات ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ ایران کے جنوب سے ایک زیر فرمان اٹھا اور فرمانروا کو شکست دے کر بادشاہت پر کیونکر قناعت کرتا۔ شہروں شہروں اپنا جھنڈا گاڑتا ہوا اور ملکوں ملکوں دوسروں کے جھنڈے سرنگوں کرتا ہوا دریائے فرات کے کنارے بابل تک جا پہنچا جو اس زمانہ کا سب سے بڑا شہر تھا۔ دیوتاؤں کا شہر۔ بہت بڑی سلطنت کا دارالسلطنت۔ تین طرف تہ بہ تہ مضبوط فصیل۔ چوتھی جانب فرات کا دریا۔ قلعہ بندی مکمل۔ بظاہریہ شہر ناقابل تسخیر نظر آتا تھا۔ مگر ایک کسر تھی۔ وہ یہ کہ لوگوں میں اتحاد اور اتفاق نہ تھا۔ آپس میں ان بن، حکومت سے بیزار، بادشاہ سے ناراض، ملک اور مستقبل سے لا تعلق۔ بے چینی کے کئی اسباب تھے۔ ایک سبب یہ بے ڈھب اعتراض تھا کہ مقامی دیوتاؤں کی بہتات کے باوجود بادشاہ نے پوجا پاٹ کے لئے غیرملکی دیوتائوں کے بت کیوں درآمد کئے ہیں۔ لوگ بتوں سے ان کی قومیت اور خداؤں سے ان کی شہریت پوچھتے تھے۔ جہاں انسانوں کے ساتھ دیوتا بھی مقامی اور مہاجر کی بحث میں شامل ہوجائیں اور درآمد برآمد کے جائز یا ناجائز ہونے کے جھگڑے میں فریق بن جائیں وہاں حملہ آور کا کام آسان ہو جاتا ہے۔۔۔ اس بادشاہ کے مقبوضات اور اس کے کارنامے مشرق میں دریائے سندھ اور سر زمین ترکستان سے لے کر مغرب میں ساحلِ اناطولیہ اور خطہ یونان تک پھیلے ہوئے تھے۔۔ ۔۔کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ لوگوں نے سر پر بٹھایا۔ مورخین نے اپنے تذکروں اور ادیبوں نے اپنی تحریروں میں اسے جگہ دی۔ فارس کا گمنام رئیس دنیا کا سب سے طاقتور اور نامور بادشاہ بن گیا۔
تاریخ نے اس کے سارے نام محفوظ کر لئے۔ سائرس، خورس،خورش، کیخسرو، کوروش۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں جس شخص کو ذوالقرنین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے وہ یہی سائرس ہے۔ بعض لوگ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کا نام چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شخص کے نام کے ساتھ اعظم، عظیم یا کبیر کا لاحقہ لگا کر اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ ایران میں وہ آج کل کوروشِ کبیر کے نام سے مشہور ہے۔باقی دنیا کے لئے وہ سائرس دی گریٹ ہے۔۔۔ مگر سائرس کی مٹیالے رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی قبر کو چھت بھی میسر نہ آئی۔ سائرس کی قبر ایک وسیع اور خاموش وادی میں واقع ہے۔ زندگی کے شور اور ہنگاموں سے بہت دور، فطرت کے بے حجاب نظاروں سے بہت قریب، کھنڈرات کے پراسرار اور پرسکون ماحول میں۔ وہ کوئی تاج محل نہیں کہ لوگ مرنے والے کو مرنے کے بعد بھی دم نہ لینے دیں۔
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ وادی پاسارگاد کی خاموشی اور سائرس کی خلوت میں ہیلی کاپٹر کے شور سے خلل پڑا۔ ایک جشن شاہی کا پر تصنع آغاز ہو رہا تھا۔ ہزامپیریل میجسٹی شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی آریا مہر بڑی سج دھج کے ساتھ ہیلی کاپٹر سے اترے اور چبوترے پر چڑھ کر ایک کہنہ قبر اور ٹی وی کیمرہ کی طرف منہ کرکے سائرس سے یک طرفہ گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ ’’اے کوروش، اے عظیم الشان بادشاہ، اے بادشاہوں کے بادشاہ، اے ہخامنشی شہنشاہ، میں شہنشاہ ایران آپ کو قوم کی طرف سے مبارک بادپیش کرتا ہوں۔۔۔ ہم آج آپ کی ابدی آرام گاہ کے سرہانے صرف یہ کہنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ اب آپ اطمینان کے ساتھ سو سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم بیدار ہو چکے ہیں‘‘۔ ان الفاط کی گونج ابھی فضامیں باقی تھی کہ ایران بیدا ر ہو گیا۔ وہ ہنگامہ آرائی ہوئی کہ کوروش نے خواب میں رضا شاہ پہلو ی سے پوچھا۔ یہ ایران میں کیا ہو رہا ہے۔ لوگوں نے کوروش سٹور کو آگ لگا دی ہے۔ کوروش بنک کا دوالا پٹنے والا ہے۔ خیابان کوروش کبیر پر ایک ملین آدمی جمع ہیں اور مرگ برشاہ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں آرام سے سوجاؤ۔ میری تو نیند اڑ گئی ہے۔ یہ بیداری ہے یا انقلاب۔
اس بیداری کے ساتھ سائرس کی جرأت و حکمت کے بل پر تعمیر کی ہوئی سلطنت سے لے کر خود ساختہ پہلوی خاندان کی حکومت تک، ایران میں بادشاہت کا جو طویل تسلسل تھا وہ بالآخر ڈھائی ہزار سال کے بعد اچانک ختم ہو گیا۔ سائرس ایران کا پہلا بادشاہ تھااور رضا شاہ آخری شہنشاہ۔ جس دن ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا میں اس روز وہاں موجود تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھے۔ یہ انہی دنوں کی داستان ہے‘‘۔ (صفحہ نمبر۱۱ سے ۱۴)
پھر حال کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور خصوصی طور پر شاہ ایران کے احوال پر روشنی ڈالتے ہیں۔ شاہ ایران کے خلاف ابھرنے والی تحریک کے خدو خال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ماضی کی رخصتی ہوتی ہے ایک نیا حال وجود میں آتا ہے۔ شاہ ایران بے چارگی کے عالم میں ایران سے رخصت ہوتا ہے اور دربدرکی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ مختار مسعود نے اس عرصے میں جو کچھ دیکھا وہ کتاب کے پہلے حصے میں پھیلا ہو اہے۔ اس وقت بظاہر ایران ترقی یافتہ ملک دکھائی دیتا تھا۔ شہنشاہ ایران کی نظرمیں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ اس زمانے میں اسلام کی دل کھول کر توہین کی جاتی تھی۔ علماء کا مذاق اڑا یاجاتاتھا۔ایک بار مختار مسعود کو شاہ کے ساتھ افطاری کرنے کی دعوت ملی۔ افطاری کیا تھی ایک جشن تھا،گانے بجائے جا رہے تھے۔ایسے میں اذان ہوئی کسی نے توجہ نہ دی۔ مختار مسعود اور ان کی اہلیہ عذرا محو حیرت رہے۔ انہیں افطاری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ افطار کاکسی کو تردد ہی نہیں تھا۔ فقہاء کے مابین جو آٹھ دس منٹ کا وقفہ ہے وہ بھی گزر گیا اور جب انہیں افطاری کے لئے کچھ ملا تو مختارمسعود کے الفاظ میں ان کا روزہ اٹھ پہراہو چکا تھا۔اس افطاری کے کچھ مزید مناظرخود ان کے الفاظ میں:
’’وہاں سالم ہرن آگ پربھونا جا رہا ہے۔ میری پلیٹ میں دہی اور زر شک پلاؤ ہے۔ میں نے جس میز سے کھانا لیا ہے اس کا بھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا۔ چہ جائیکہ میں سروو صنوبر کے جھنڈ میں ہرنوں کی ڈار تلاش کرتا پھرتا۔ شاہی دعوت ہے ظاہر ہے پرتکلف ہو گی۔ میں احترام رمضان کی خاطر اس تکلف کی تفصیلات میں جانے سے انکار کرتا ہوں۔
اسٹیج پر روشنی ہوئی اور تفریحی پروگرام شروع ہو گیا۔ خواتین کے ایک طائفے نے جو یورپ سے آیا ہے گانا سنایا۔ اس کے بعد دو چار مغربی ساز بجانے والے آئے۔ پھر ایک جادوگرنے تماشا دکھایا۔ آخر میں ایک ہندوستانی بازیگر آیا۔۔۔ شہنشاہ ایران، بہت ساری تالیاں اور بہت دیر تک تالیاں۔ لوگ جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں۔ کاخ سعد آباد میں روسٹ ہرن کھانے کے بعد اگر راگ درباری نہ گاتے تو اور کیا گاتے‘‘۔ ( صفحہ نمبر۱۲۸۔۱۲۹)
دن گزرتے گئے شاہ کے خلاف تحریک تیز تر ہوتی گئی۔ ملک بھر میں مظاہرے بڑھتے گئے۔ کتاب کے چھٹے باب ’’بات بس سے نکل چلی ہے‘‘ میں مختار مسعود نے انہی ایام کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے جب حالات شاہ ایران کے قابو سے نکلتے جا رہے تھے۔ اس زمانے میں شریف امامی وزیراعظم تھے۔جن کی حکومت مظاہرین کے ہاتھوں بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ مختار مسعود نے بتایا :
’’شریف امامی کی حکومت کا حال بھی وہی ہے جو ایران ائیر کا ہے۔ حکومت کچھ ہوا میں معلق ہے۔ کچھ زمین پر ہے مگر بے بس اور بے تعلق۔ تہران میں ایک ادارہ ایسا ہے جو بہ یک وقت بند بھی ہے اور کھلا بھی۔ یہ تہران یونیورسٹی ہے۔ پڑھائی لکھائی کے لئے بند۔ شورش اور ہنگامے کے لئے کھلی۔ سارے جلوس یونیورسٹی کی طرف جاتے ہیں۔۔۔شریف امامی کہتا ہے میری بات سنو۔ نہ لوگ اس کی بات سنتے ہیں، نہ علماء اور نہ فوج۔ سب کہتے ہیں مکار، عیار، ناقابل اعتبار۔۔۔میں اعلان کرتا ہوں کہ میں ایران کا وزیراعظم ہوں اور میں (اس عہدہ پر )ڈٹا رہوں گا۔۔ ۔۔ابھی اس اعلان کی گونج باقی تھی کہ شریف امامی لا پتا ہو گئے۔شریف امامی کے اس آخری بیان سے کوئی سال بھر پہلے ہمارے وزیراعظم نے بھی اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی۔ انہو ں نے ٹی وی پر تقریرکرتے ہوئے کرسی کے بازو پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ یہ کرسی بڑی مضبوط ہے۔ مگر وہ کرسی بڑی کمزور نکلی۔ اگر کوئی شے مضبوط نکلی تو وہ لکڑی کا کندہ تھا جسے چیر کر کبھی کرسی بناتے ہیں، کبھی منبر اور تختہ دار‘‘۔ (صفحہ نمبر۱۴۷ سے ۱۴۹)
’’سارے ایران میں عمومی مارشل لاء نافذ ہو گیا ہے۔ شریف امامی رخصت ہوئے۔ سول حکومت ختم ہوئی۔ جن کے لئے راہ ہموار کی جارہی تھی اوروہ جو آنے کے لئے بے تاب نظر آرہے تھے بالآخر آہی گئے۔ لیکن اس وقت آنے کا فائدہ کیا۔ تیر بارانی تو پہلے ہی ہو رہی ہے اور بے اثر ہے۔ ان حالات میں یہ کون سا تیر مار لیں گے‘‘۔ (صفحہ نمبر ۱۵۳)
کتاب کے ساتویں باب’’نئے نام،پرانی تصویریں‘‘ میں مختار مسعود نے تبدیلی کواورقریب سے دیکھا ہے۔ پرانے نام متروک ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ نئے نام آرہے ہیں۔ ’’رضا شاہ، شاہ رضا، مادر ملکہ،اشرف پہلوی یہ نام کتنے پرانے لگتے ہیں۔ ہویدا، آموز گار، امامی، اظہری، شاہپور، سن راعفہ، طوفانیاں،پاکراں، قرہ باغی، اویسی، رحیمی۔ زاہدی،خلعت باری، انصاری، نہاوندی۔ یہ سب باسی پھولوں کے نام ہیں، جنہیں صفائی کے وقت جھاڑو پھیر کر جمع کرتے ہیں اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتے ہیں۔ نئے پھولوں کے لئے خود بخود جگہ بن گئی ہے۔ جگہ جگہ ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ خمینی، طالقائی، مطہری، منتظری، بہشتی، خامنہ ای، رفسنجانی۔ ان سب کا تعلق قم کے دینی مدرسوں سے ہے۔ ایک نام شریعتی کا بھی ہے۔ حکومت نامہربان نے اتنا عرصہ پہلے ان کے ناموں کی تختی پر سیاہی لگا کر اپنی دانست میں انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔۔۔ آج کل ایران میں سب سے پرانا اور فرسودہ نام شہنشاہ رضا شاہ کا ہے اور سب سے تازہ اور تابندہ نام آیت اللہ روح اللہ خمینی کا ہے‘‘۔ (صفحہ نمبر ۱۷۲۔۱۷۳)
جاری ہے
Leave a Reply