
مختار مسعود نے ایرانی انقلاب کی تحریک کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے ملک پر بھی جا بجا نظر ڈالی ہے۔ ان کی نظر میں ایرانی انقلاب کی تحریک کی سب سے اہم خوبی وہاں کے لوگوں کا نظم و ضبط ہے ۔
’’تہران کا بادشاہ ہٹاؤ جلوس مال روڈ لاہور والے حکومت گراؤ جلوس سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ اس میں نظم و ضبط بہت زیاد ہ ہے۔ جمگھٹا ہے مگر ایک نظر آنے والی ترتیب کے ساتھ۔ ہجوم ہے مگر ایک نظر نہ آنے والی قطار بندی کے ساتھ۔ گاہے جلوس ٹکریوں میں بٹا ہوتا ہے اور گاہے ایک سرے سے دو چار میل کے فاصلہ پر دوسرے سرے تک یک جان و یک قالب۔ سڑک دو رویہ ہو تو یہ ایک سڑک ٹریفک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ لوگ کسی چوک پر ٹریفک کی بتی نہیں توڑتے۔ کہیں او منی بس نہیں جلاتے۔ کہیں ہلڑبازی نہیں کرتے۔ ہمارا جلوس سیلاب کی طرح ہوتا ہے۔ کناروں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تباہی مچاتا ہے۔ کوئی عورت ایسے جلوس میں شامل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اور یہاں ہر روز ہزاروں عورتیں جلوس میں شامل ہوتی ہیں۔ عورتوں والے حصے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ سیاہ چادروں میں لپٹے ہوئے دوہرے بدن کچھ اور زیادہ بھاری بھرکم اور باوقارنظر انہیں ایرانی عورتوں کے دستے کے نزدیک کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ادھر ہمارے گھر کی حالت یہ ہے کہ چودہ اگست کو جو گھرانے برقی آرائش دیکھنے کے لئے باہر نکلتے ہیں انہیں معاشرے کے تاریک ترین پہلو کا نظارہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
جہاں قانون شکنی کو اہم شخصیت ہونے کی دلیل سمجھا جائے، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو آزادی قرار دیا جائے، آوارہ گردی تفریح اور غنڈہ گردی پیشہ بن جائے وہاں لوگوں کو اس بات کا یقین کیسے آئے گا کہ تہران میں انقلاب کی افراتفری اور نفسانفسی کے دنوں میں ایک بار چار پانچ لاکھ افراد کے جلوس کو نکلے ہوئے جب بہت دیر ہو گئی تو راستے میں جہاں کہیں پبلک ٹیلیفون بوتھ بنے ہوئے تھے وہاں کچھ رضاکارریز گاری لے کر کھڑے ہو گئے تاکہ لوگ اپنے گھر والوں کو فون پر خیریت کی اطلاع اور دیر سے واپس آنے کی خبر دے سکیں‘‘۔ (صفحہ نمبر ۱۸۱)
مختار مسعود نے ایران اور اپنے ملک کے نعروں کا بھی موازنہ کیا ہے ۔
’’نعروں کے معاملہ میں ایران اور پاکستان میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ حمایت کے لئے ہمارے ہاں ’’زندہ باد‘‘ ہے اور یہاں ’’درود‘‘۔ مخالفت کے لئے ہمارے ہاں’’مردہ باد‘‘ ہے اور یہاں ’’مرگ‘‘۔ جوش پیدا کرنے کے لئے دونوں جگہ اللہ اکبر۔ نعرے لگانے کا طریقہ البتہ دونوں ملکوں میں مختلف ہے۔ ان کا نعرہ پھلجھڑی کی طرح ہوتا ہے اور ہمارا پٹاخے کی طرح۔ یہ بے حد بڑا جلوس ہے اور شہنشاہ سے اس قدر کی ناراضی ہے مگر ان دونوں باتوں کا احساس نعرے سے نہیں ہوتا۔ مرگ برشاہ ایک بے رعب اور پھس پھسا نعرہ ہے۔ نہ رواں پڑھا جا سکے۔ نہ بے ساختہ لگایا جا سکے۔ نہ انترا اٹھایا جا سکے۔ اس میں نہ ’’مردہ باد‘‘ کا دبدبہ۔ نہ ’’لے کے رہیں گے‘‘ کی دھاک۔ نہ مطلب کیا، لا الہ الااﷲ، کی ایمان افروزی۔ انقلاب کے بنیادی نعرے وہی تین ہیں۔ مرگ برشاہ، درود برخمینی، مرگ بر امریکہ۔۔ ۔دو نعرے نفرت کی نذر ہیں۔ ایک محبت کے لئے وقف ہے۔ نفرت شہنشاہ سے اور امریکہ سے۔ محبت آیت اللہ خمینی سے۔ نفرت ایک جگہ ٹھہری ہوئی ہے۔ محبت ہے کہ روز بروز برھتی جا رہی ہے۔ درود برخمینی کے بغیر کام ہوتا ہے نہ کلام۔ یہ مرکز ہے دوسرے نعرے اس کے گرد گھومتے ہیں۔ دوسرے نعرے جوش اور غصہ سے لگائے جاتے ہیں۔ مگر یہ نعرہ ادب اور احترام سے لگایا جاتا ہے۔ اس نعرے کی کچھ نئی صورتیں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ نہضتِ ماحسینی است۔ رہبرِ ماخمینی است۔ (جدوجہد حسینی ہے اور رہنما خمینی ہے)۔ اللہ اکبر، خمینی رہبر۔ اس نعرے کی دلکشی میں کچھ حصہ اس کے سر اور آہنگ کا بھی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۲۔۲۰۳)
۱۰ جنوری ۱۹۷۹ء کے روزنامچے میں مختار مسعود لکھتے ہیں:
’’شہنشاہ نے اعلان کیا ہے کہ شاہی خاندان کی ساری جائیداد پہلوی فاؤنڈیشن کو ہبہ کر دی گئی ہے۔ اتنا بڑ انقلابی قدم اتنی دیر سے اور ایسے حالات میں اٹھایا گیا ہے کہ اس اعلان میں رضاو رغبت کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ سراسر مجبوری۔ جیسے کوئی چور فرار ہوتے ہوئے یہ اعلان کر دے کہ وہ ساراسامان جو میں ہمراہ نہیں لے جا سکا۔ اسے میں اہل خانہ کے لئے وقف کرتا ہوں۔ لوگوں کو ایسے مضحکہ خیز اعلانات پر اب ہنسی بھی نہیں آتی۔ گیا ہے وقت نکل۔ اس قسم کے اعلانات سے وہ واپس آنے سے تو رہا‘‘۔ (صفحہ نمبر ۲۳۶)
اورآخر کار وہ دن آگیا جب شاہ ایران سے رخصت ہو گئے۔ مختار مسعود یوں خبر دیتے ہیں۔
’’دفتر میں دو بجے دن کی خبریں بیٹری سے چلنے والے ریڈیو سیٹ پر بڑے اہتمام سے سنی جاتی ہیں۔۔۔خبروں کو شروع ہوئے پانچ منٹ ہو گئے کہ یکا یک اناؤنسر کا لہجہ بدلا۔ وہ ذرا سا رکا اور پھرذرا فکر مند آواز میں بولا۔ ایک انتہائی اہم خبر ابھی ابھی موصول ہوئی ہے۔ شہنشاہ آج دوپہر ایک بج کر تیس منٹ پر تہرا ن سے روانہ ہو گئے ہیں۔۔ ۔میں سلمان کو لینے آیا ہوں۔ ایک تاریخی لمحے سے اس ٹین ایجر کی ملاقات کرانی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بزرگ راہوں، خیابانوں اور گلی کوچوں میں زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور جدھر منہ کا رخ ہوا ادھر چلنا شروع کر دیا۔۔۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ خوشی کا اظہار کس طرح کریں۔جی تو چاہتا ہو گا کہ گٹا ر بجائیں۔ اور گت بھریں۔ فٹ پاتھ پر سٹریو کیسٹ پلیئر رکھ کر اتنا اونچا بجائیں کہ کان کے پردے اڑا دیں۔۔۔مگر ناچنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ اس انقلاب کے سربراہ ایک آیت اللہ العظمی ہیں۔ جس ماہ میں یہ تحریک اوج پر پہنچی وہ محرم تھا۔ دو چار دن کے بعد چہلم کی تقریب ہے۔ ان حوالوں نے خوشی کے اظہار کی حد بندی کر رکھی ہے۔ ۔۔۔ کئی میل گھومنے کے بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں فوج کے د و ٹرک کھڑے ہیں۔ ایک ٹرک پر بڑا بڑا لکھا ہے۔ ارتش بہ ملت ملحق شد۔ فوج ملت کے ساتھ شامل ہو گئی ہے۔۔ ۔۔ایک فوجی بلند اور محفوظ جگہ پر کھڑا خوشیاں منانے والے کاروان کو دیکھ رہا ہے۔ ہجوم جب اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ہے۔ تو وہ عوام کو بندوق سے سلامی دیتا ہے۔ لوگ اس منظر میں گم ہیں۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ آج دوپہر شاہ کو سلامی دے کر رخصت کرنے والی فوج سہ پہر کے وقت عوام الناس کو سلامی دے رہی ہے۔ ایک نوجوان ٹیلے پر چڑھ کر ایک آدھ دیوار پھاند کر اس فوجی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے پہلے فوجی سے ہاتھ ملایا پھر اسے چوما۔ شوخی اور تعظیم دونوں اس بوسے میں شامل ہیں۔ ہجوم میں سے ایک لڑکی آگے بڑھی اور فوج کے ٹرک تک جا پہنچی۔ وہاں ایک قطار میں پانچ دس فوجی کھڑے ہیں۔ اس لڑکی نے قطار کے سرے پر کھڑے ہوئے افسر کو کارنیشن کا پھول پیش کیا۔ حجاب اٹھ رہا ہے۔ فاصلے کم ہو رہے ہیں۔ کچھ ہجوم آگے بڑھا کچھ فوجی آگے بڑھے۔ ہاتھ ملائے جارہے ہیں۔ گاہے گلے بھی مل رہے ہیں۔ سلمان نے کہا یہ فوج بھی خوب نکلی۔ اوپر سے شاہ کے ساتھ، اندر سے آیت اللہ کے ساتھ۔ کل تک گولیاں چلانے والے اور معتوب،آج چومے جانے والے اور پھول کا تحفہ وصول کرنے والے محبوب۔شاہ اور اس کے باپ کے مجسمے توڑے جا رہے ہیں۔ جو مجسمہ ٹوٹتا نہیں اس کے گلے میں رسی ڈال کر لوگ اسے علامتی پھانسی دے دیتے ہیں‘‘۔ (صفحہ نمبر ۲۴۱ سے ۲۴۵)
مختار مسعود نے اس دن شام کے ایک اخبار کی سرخی کا یوں ذکر کیا ہے۔
’’اندھیرا گھپ اور گہرا ہے۔ اگر روشنی کی کوئی کرن کہیں سے پھوٹ رہی ہے تو وہ ایک اخبار ہے۔ اخبار بھی نہیں بلکہ ایک ورق کا ضمیمہ ہے۔ آج شام کو شائع ہوا تھا۔ ایک طرف بالکل خالی ہے۔ دوسری طرف آدھے صفحے پر سرخی لکھی ہوئی ہے۔ باقی صفحے پر آٹھ دس سطر کی عبارت ہے۔ سرخی صرف دو لفظ پر مشتمل ہے۔ شاہ رفت۔ نصف صدی کی پہلوی سلطنت کا قصہ دو لفظ میں تمام ہو گیا۔ شاہ کے ملک بدر ہونے کی خبر جب پیرس میں آیت اللہ خمینی کو ملی تو ان کا ردعمل بھی صرف دو الفاظ پر مشتمل تھا۔ اللہ اکبر‘‘۔ (صفحہ نمبر ۲۴۷۔۲۴۸)
دوسرا حصہ آمد نامہ ہے اس میں چار ابواب ہیں، ان ابواب کی ترتیب یوں ہے،بازگشت، خانہ جنگیِ، خوف اور خون، فرد جرم۔آیت اللہ خمینی یکم فروری ۱۹۷۹ء کو تہران پہنچے تھے۔ اپنی یکم فروری کی یاداشت مختار مسعودنے الفاظ میں لکھی ہے۔
’’چودہ پندر ہ دن پہلے جو شخص بے بسی اور نا مقبولی کے عالم میں تخت اور ملک چھو ڑ کر چلاگیا اس نے کوئی چودہ پندرہ سال پہلے بادشاہ وقت کی حیثیت سے ایک شخص کو جلا وطنی کی سزا سنائی تھی۔ سزا یافتہ کی سزا بالآخر ختم ہوئی۔ وہ آج واپس آنے والا ہے۔ سزا دینے والے کی جلا وطنی اب جا کر شروع ہوئی ہے اور عمر بھر کے لئے ہے۔ جانے والا شہنشاہ ہے اور آنے والا درویش۔ ایک جلالت مآب اور دوسرا صاحب جلال۔ جانے والے کو لوگ بے ایمان، ظالم اور گنہگار، اس کے خاندان کو فساد کی جڑ، اس کے ساتھیوں کو شیطان کا ٹولا اور اس کی حکومت کو رژیم ابلیسی لکھتے ہیں۔ اخبار، رسالے، کتابیں، پمفلٹ، پوسٹر اس طرح کے القابات سے بھرے پڑے ہیں اور جب اس شخص کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو پہلے پانچ دس لاکھ افراد جمع ہو کر ایک جلوس نکالتے ہیں پھر مل کر نعرہ لگا تے ہیں۔ مرگ برشاہ۔ آنے والے کو لوگ رہبر بزرگ، قائد اعظم، بت شکن، آیت اللہ، آیت اللہ العطمی، نائب امام، امام اور فرشتہ لکھتے ہیں اور جب اس کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو پہلے دس پندرہ لاکھ افراد جمع ہو کر ایک جلوس نکالتے ہیں پھر مؤدب ہو کر کہتے ہیں۔ درود برخمینی۔ جلاوطن آیت اللہ وطن واپس آرہے ہیں۔ ایک سال سے ذرا کم ترکی میں رہے۔ تیرہ سال عراق میں گزارے۔ چار ماہ فرانس میں۔جلا وطنی کی کل مدت چودہ سال تین ماہ بنتی ہے۔ اتنا عرصہ نظروں سے اوجھل رہنے والے کو لوگ بھول جاتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ جلا وطنی کے باوجود وہ شخص لوگوں کے دل میں بسا رہا اور آج ہر ایک اس کے لئے چشم براہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ مہر آباد کے ہوائی اڈے سے بہشت زہرا کے قبرستان تک کتنے لوگ اسے لینے اور دیکھنے کے لئے آئیں گے۔ ایک ملین، دو ملین یا اس سے بھی زیادہ۔ اس ہجوم میں دو پاکستانی بھی ہوں گے۔ میں اور پندرہ سولہ سالہ سلمان مسعود‘‘۔ (صفحہ نمبر ۲۵۱۔۲۵۲)
اب ایران کے وزیراعظم شاہ پور بختیار بن گئے۔ ان کی حکومت بھی شریف امامی کی طرح نہایت کمزور ثابت ہوئی اور لوگ زور آور ہوتے چلے گئے۔
آیت اللہ خمینی تہران پہنچ گئے بے مثل استقبال ہوا پوری دنیا کے مبصرین منتظر تھے کہ آیت اللہ جذبات کے طوفان میں بہہ جائیں گے مگر ہوا اس کے برعکس۔ مختار مسعود کے الفاظ یوں ہیں۔
’’آیت اللہ کی تقریر جذبات، شعریت اور خیال بندی سے خالی تھی۔ جوش، ہیجان، آگ اور دھوئیں سے عاری تھی۔ نہ کوئی فخریہ بات جو ایسے موقع پر بے اختیار منہ سے نکل جاتی ہے۔ نہ فتح مندی کا نشہ جو کامیابی کے بعد بن بتائے چڑھ جاتا ہے۔ ساری تقریراستدلالی اور منطقی تھی۔وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بادشاہت ایک ایسا نظام ہے جو غیرقانونی، غیرعقلی اور حقوق انسانی کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے۔ اصول یہ بیان کیا کہ لوگوں کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے کا پورا پورا حق ہوتا ہے کہ ان کا حکمران کون ہوگا۔
۔۔۔۔آیت اللہ نے یہ دلیل دینے کے بعد کہا کہ محمد رضا شاہ کی حکومت بہرعنوان غیرقانونی ہے۔ اس نے ایران کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا زور تین باتوں پر تھا۔ معیشت کی تباہی، اخلاق کی تباہی اور غیرملکیوں کی غلامانہ فرماں برداری۔ اخلاق کی تباہی کے سلسلے میں انہوں نے یہ مثال دی کہ تہران میں میخانوں کی تعداد کتب خانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ صورت حال کے اس منطقی جائزے میں صرف دو جملے شروع میں اور ایک جملہ آخر میں نظام بادشاہت سے ہٹ کر کہا۔ آغاز میں کہا کہ ملت نے قتل، ظلم اور غارت کی صورت میں جو مصیبت برداشت کی ہے اس کی میں کہاں سے تلافی کر سکتا ہوں۔ اس کا اجر اللہ تعالیٰ دے گا۔ آخر میں کہا اسلام تمہارے لئے کفر سے بہتر ہے۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں اور غیرغیر ہوتے ہیں۔
یہ اُس تقریر کا خلاصہ ہے جس کے لئے ایک دنیا اس ڈر سے گوش برآواز تھی کہ جب آتش فشاں پھٹے گا تو نہ جانے کون کون سی بستی اس کی زد میں آکر ویران ہو گی اور تو اور وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ آج غالب کے پرزے اڑیں گے وہ بھی حیرت سے کہنے لگے۔ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا۔ شاہ کے بارے میں بڑے ٹھنڈے دل سے باتیں کیں۔ آواز بلند ہوئی نہ سخت الفاظ استعمال کئے۔ صرف اتنا کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اسے واپس کیا جائے۔ جب شہنشاہ کا ذکر آیا اور اس کو جی بھر کر برا بھلا کہنے کا موقع ملا تو ساری بات دو لفظ میں کہہ ڈالی اور جس موضوع پر بات ہو رہی تھی اسے جاری رکھا۔ ایک جملہ معترضہ تک نہ کہا۔ صرف دو اسم صفت استعمال کئے۔ خائن اور خبیث۔ اس تقریر پر ایک جہاں دیدہ سفیر کا تبصرہ صرف اتنا تھا۔ ڈرو اس شخص سے جو اپنے نفس پر اتنا اختیار رکھتا ہو۔
۔۔۔۔ہوائی اڈے پر ایک غیرملکی صحافی نے پوچھا۔ آپ ایک طویل جلا وطنی اور عظیم جدوجہد کے بعد ایران واپس پہنچ گئے ہیں۔ کامیاب و کامران۔ یہ بتائیے اس لمحہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ آیت اللہ نے بغیر رکے اور بغیر پلک جھپکے بڑی متانت سے جواب دیا۔ ہیچ۔ کچھ بھی نہیں‘‘۔ (صفحہ نمبر ۲۷۹۔۲۸۰)
مختار مسعود نے آیت اللہ خمینی کی آمد کے بعد آنے والی تبدیلیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جب وہ ایران پہنچے تو وہاں ایک حکومت شاہ پور بختیار کی قیادت میں قائم تھی۔ انہوں نے آتے ہی مہدی بازرگان کی قیادت میں ایک انقلابی حکومت قائم کی اور یوں ایران میں بیک وقت دو حکومتیں چلنے لگیں۔ یکم فروری سے لے کر ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء تک پورا ملک شدید کشمکش سے دو چار رہا اس عرصہ میں ملک بھر میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اور کئی مقامات پر فوج نے بغاوت کر دی اور آیت اللہ خمینی کو سلامیاں دی جانے لگیں۔ آخر کار ۱۱ فروری کو پورا ملک ایک بالکل ہی نئے دورمیں داخل ہو گیا۔ شاہ پور بختیار کی حکومت یوں ختم ہوئی کہ آیت اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کر دیا کہ فوج کے اہلکاروں نے جو حلف ایک طاغوتی طاقت کی فرمانبرداری کے لیے اٹھایا تھا وہ باطل ہے اس طرح فوج کے لئے یہ راہ کھل گئی کہ وہ شاہ پور بختیار کی وفاداری سے جان چھڑا کر مہدی بازرگان کی حکومت کی پناہ میں آجائے۔ خانہ جنگی کے آخری دن کے احوال کی منظر کشی کرتے ہوئے مختار مسعود لکھتے ہیں۔
’’خانہ جنگی شروع ہوئے آج تیسرا دن ہے۔ چار بجے سہ پہر فوج کی طرف سے ایک اعلان جاری ہوا۔ خوشگوار حیرت کے ساتھ سب نے اس اعلان کو سنا۔ امرائے ارتش یعنی فوج کے اعلیٰ افسروں نے طے کیا ہے کہ موجودہ سیاسی جھگڑے میں فوج غیرجانبدار رہے گی۔ لہٰذا فوج کے سپاہیوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ فوراً اپنی بارکوں میں واپس آجائیں۔ اس حکم کے ساتھ ہی لڑائی بندہو گئی۔ فوجی ادارے خاموش اور فوجی اڈے سنسان ہو گئے۔ بانوے دن کے بعد فوجی ٹینک ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن سے واپس چلے گئے۔ ہر جگہ ڈیوٹی پر تعینات سپاہی فرار ہو گئے۔ درجہ دار فوجیوں نے اپنی وردیاں پھاڑ دیں۔ درجے کے نشان نوچ ڈالے۔ بڑے افسر گھروں میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ بعض فوجیوں نے اپنے ٹھکانوں پر آیت اللہ خمینی کی تصویریں آویزاں کر لیں۔جس فوجی کے جی میں جو آیا اس نے وہی کیا۔ شکست خوردہ فوج کا ہمیشہ یہی انجام ہوتا ہے۔
تھانوں اور چھاؤنیوں پر عوامی قبضے سے بات چلی اور دور تک نکل گئی۔ عوام نے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کر لیا۔ عوام نے وزیراعظم کے دفتر پر قبضہ کر لیا۔ عوام نے گلستان پیلس پر قبضہ کر لیا۔ عوام نے تہران کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو گرفتار کر لیا۔ (صفحہ نمبر ۳۰۴)
ایک فوجی افسر دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے بھاگا چلا آرہا ہے۔ اس نے پادگان کی پچھلی دیوار پھاند کر سڑک کے دوسری طرف کھڑے ہوئے ہجوم کی طرف رخ کیا۔ فریاد کرتا جاتا ہے اور کپڑے اتارتاجاتا ہے۔ بھاگتے ہوئے وردی کا کوٹ اتار کر پھینکا۔ رکا، جھکا اور پتلون اتار کر پھینک دی۔ گریبان چاک کیا۔ قمیص کے ٹکڑے سڑک پر بکھیر دئیے۔ وہ صرف جانگیا پہنے ہوئے ہجوم کے سامنے آن کھڑا ہوا۔۔۔ایک نوجوان نے دیوار کے پاس جا کر اس کی وردی اٹھا کر دیکھی۔ خوشی سے نعرہ لگایا اور بانس پر ٹانگ کر ہوامیں لہرانے لگا۔ اس وردی پر کرنل کے عہدے کے امتیازی نشان لگے ہوئے تھے‘‘۔ (صفحہ نمبر ۳۰۲)
مختار مسعود نے ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کی مزید منظر کشی یوں کی ہے۔
ریڈیو کہتا ہے۔ توجہ بفرمائید، توجہ بفرمائیدتوجہ بفر مائید۔ ایں صدائے انقلاب است۔ ٹی وی پر نیا ترانہ بجایا گیا۔ اس نئے ترانے کے ساتھ نیا ایران وجود میں آگیا۔ اس وقت شام کے سات بجے ہیں۔ بادشاہت کا سورج غروب ہو گیا ہے۔ میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جب یہ سورج طلوع ہوا تھا تو اس روز میں وہاں موجود نہ تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے کہ یہ بات ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ جب ایران میں انقلاب آیا تو میں یہاں موجود تھا۔ آج انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت کو شکست ہوئی ہے تو میں یہاں موجود ہوں۔ یہ واقعہ چند گھنٹے پہلے رونما ہوا ہے۔ آج اتوار کا دن ہے۔ گیارہ تاریخ ہے۔ مہینہ فروری کا ہے۔ سال عیسوی ۱۹۷۹ ہے۔ شام کا وقت ہے۔ میں موم بتی کی روشنی میں روزنامچہ لکھ رہا ہوں۔ خوشی کے مارے موم بتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں‘‘۔ (صفحہ نمبر ۳۰۴)
کتاب کا گیارہواں باب انقلاب کے بعد شہنشاہ کے زمانے کے ظالم افسروں کو دی جانے والی سزاؤں کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ مختار مسعود لکھتے ہیں:
’’انقلاب کو پورا ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ صرف تین چار دن گزرے ہیں۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب جب آدھی بیت گئی تو مدرسہ رفاہ میں اسلامی انقلابی عدالت نے چند بڑے آدمیوں کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع کی۔ راتوں رات چار مقدموں کی سماعت مکمل ہوئی۔ فیصلہ سنایا گیا۔ اس پر عمل بھی اسی سرعت کے ساتھ ہوا۔ ان سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد بھی رات اتنی باقی تھی کہ مجرموں کی تصویریں چند گھنٹے کے بعد طلوع ہونے والی صبح کے اخباروں میں چھپ سکیں۔ اس روز اخبار بہت فروخت ہوا۔ خبر صرف ایک ہے اور تفصیل اس قدر ہے۔ ملک، ایران۔ شہر، تہران۔ مقام،مدرسہ رفاہ۔ عدالت، داد گاہ اسلامی۔ جرم، فساد فی الارض۔ سماعت، فوری۔ سزا، موت۔ فیصلہ پر عمل درآمد، فی الفور۔ عمل گزار، رضا کار۔ باڑھ داغنے کی جگہ، ایک گمنام مدرسہ کی چھت۔
اخبار میں سزا یافتہ مجرموں کے مردہ جسموں کی بڑی بڑی تصویروں کے نیچے وہ نام لکھے ہوئے ہیں جن سے یہ جسم اس وقت پہچانے جاتے تھے جب ان میں جان ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں یہ کچھ زیادہ ہی جاندار اور منہ زور ہوا کرتے تھے۔انقلابِ زمانہ نے ان کی لاشوں کا حلیہ خراب کر دیا ہے۔دیکھ کر عبرت ہوتی ہے۔ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ گولیوں سے چھلنی جسم ٹھنڈے ہونے سے پہلے نصیری، رحیمی، خسرود اور نجفی کہلاتے تھے۔ یہ چاروں ایرانی فوج کے نامور جنرل تھے۔ فاعتبرو ا یااولی الابصار‘‘۔ (صفحہ نمبر ۳۱۸)
مختار مسعود نے شاہ ایران کی افطاری کا ذکر کتاب کے صفحات ۱۲۸۔۱۲۹ میں کیاتھا۔انقلاب کے بعد وزیراعظم بازرگان نے مسلمان سفرا کو افطار کی دعوت دی۔ عام سے کارڈ، سائز درمیانہ، چھپائی سادہ، عبارت اس سے بھی سادہ۔ صرف تین سطریں تھیں۔مزید تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے مختار مسعود کہتے ہیں :
’’افطاری کا انتظام وزارت خارجہ کے کلب میں کیا گیا ہے۔ کل تک اس کلب کی شہرت مے نوشی اور خوش باشی، ناچ اور گانے، تیراکی اور بے باکی کی وجہ سے تھی۔۔ ۔جبہ و دستار میں صرف ایک شخص ہے اور وہ بھی بے ریش۔ کسی نے بتایا کہ بہت اہم روحانی ہیں۔ ضد انقلاب نے انہیں گولی ماری تھی۔ ہسپتال میں داخل تھے۔ آج ہی صحت یاب ہو کر واپس آئے ہیں۔ نام، ہاشمی رفسنجانی۔روزہ کھلنے میں چند منٹ کی تاخیر کی وجہ سب سفیروں کو معلوم تھی۔ ٹی وی پر مغرب کی اذان شروع ہوئی۔ اذان کے طویل ہونے کی وجہ سے بھی سب باخبر تھے۔ بارے وہ ختمِ تاخیر اُن روزہ داروں کو ذرا عجیب لگی جو اللہ کا نام سنتے ہی کھجور منہ میں ڈال لیتے ہیں اوراللہ اکبر کے دہرائے جانے تک آدھی درجن گٹھلیاں پلیٹ میں جمع کر لیتے ہیں۔ ان روزہ داروں کو اول وقت افطاری کی فضیلت کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اذان کے ختم ہونے تک وہ اپنے حصے کی افطاری کھا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ ادھر ابھی سوپ بھی ختم نہیں ہوا کہ لوگ ساتھ والے کمرے کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں کبھی تاش کی بازی لگتی تھی وہاں نما ز با جماعت کے لئے قالین پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھی۔ بازرگان نے ہاشمی رفسنجانی سے کہا، نما ز پڑھائیے۔ انہوں نے جواب دیا، یہ کام وزیراعظم کرتا ہے۔ وہ قوم کا امام ہوتا ہے۔ بازرگان یہ سنتے ہی مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے۔۔ ۔میں نے دائیں بائیں نمازیوں پر نظر ڈالی۔ پہلی صف میں نیل کے ساحل لے کر تابخاک کا شغر تمام اسلامی ممالک کے سفیر یا نائب سفیر شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دوسری دو صفوں میں ایران کی وزارت خارجہ کے افسر، کچھ انقلاب کے نمائندے اور مسلمان روزہ دار موٹر ڈرائیور شامل ہیں۔ اس جماعت میں کہیں جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال بھی کھڑے ہوں گے وگرنہ میں نیت باندھنے تک جذبات سے اس قدر مغلوب نہ ہو جاتا۔ سفارتی نمائندے عالم اسلام کی وحدت اور اتحاد کا ایک ایسا منظر پیش کر رہے ہیں جس کا ہم صرف خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ منظر صرف تین رکعات تک برقرار رہے گا اور اس کے بعد عالم اسلام حسب معمول انتشار کا شکارہو جائے گا۔ جی چاہا کہ یہ تین رکعتیں بڑی طویل ہو جائیں اور یہ نماز ایک نیت اور ایک وضو کے ساتھ سحری تک کھنچ جائے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی نمازی نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور کسی نے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ دونوں دوش بدوش کھڑے ہیں۔ اس گڈ مڈ کے باوجود کہ قیام کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھنے کے وقت سفیر ہاتھ چھوڑے خاموش کھڑے رہے اور نماز ختم ہونے کا بھی کسی مقتدی کو بروقت پتہ چلا اور کسی کو چند لمحہ بعد، ان تین رکعتوں کا کیف و سرور اور ان کی سرشاری کا عالم بڑا منفرد ہے۔ دل نے کہا تم کتنے عجیب و غریب تجربے سے دو چار ہوئے ہو۔ ایک بار تمہیں عالم اسلام کے ایک مختصر مگر نمائندہ گروہ کے ساتھ رکوع و سجود اور قیام و قعدہ کی یک جہتی نصیب ہوئی ہے۔ رہی مسلک کے اختلاف کی بات تو یہ بتاؤ تمہیں نماز میں اس کا خیال کیسے آیا۔ تم نماز پڑھ رہے تھے کہ دوسروں کی نماز کا حساب لگا رہے تھے۔ تمہاری نماز ہر وقت مسائل میں کیوں گھری رہتی ہے۔ ضاد کا تلفظ، آمین کا اخفا، ہاتھوں کا باندھنا، چھوڑنا اور اٹھانا، نماز سے نکلنے کا طریقہ، دعامیں امام کی مفرد ضمیروں کی کراہت۔ تمہارا دھیان بٹ جاتا ہے۔ تم فروعات میں گم ہو جاتے ہو۔ خرافات میں کھو جاتے ہو۔ ایسے میں حضوری کہاں نصیب ہو سکتی ہے۔ ایک زمانے میں تم مولانا روم کے چند اشعار لہک لہک کر پڑھا کر تے تھے جن میں وہ خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں نماز میں کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ ایک تم ہو کہ نماز کے وقت تمہیں سب فضول اور بیکار باتیں یاد آجاتی ہیں۔ تمہاری نماز فاسد ہوئی۔ جاؤ، جا کر دوبارہ ادا کرو۔۔ ۔کھانا اقسام کے لحاظ سے بہت مختصر ہے۔ چاول، زعفرانی اور کشمکشی۔ ایک سالن اور وہ بھی بینگن کا۔ اس کے علاوہ صرف سلاد اور پھل۔ روزہ داروں کو بھوک لگی ہوئی ہے۔ کھانا لذیذ ہے۔ حدیہ ہے کہ بینگن بھی لذیذ ہیں۔ مہمانوں نے کھانا خوب ڈٹ کر کھایا اور پھر پھل اس طرح کھائے جیسے کھانے میں کچھ بھی نہ کھایا ہو۔کھانے کے بعد سفیروں نے شاہ ایران کی گراں مایہ مہمان پروری کو یاد کیا۔ بازرگانی کھانے اور شاہی دسترخوان کا موازنہ اور مقابلہ کیا۔ ایک دعوت سمر قندی اور دوسری دعوتِ شیراز۔ نیشنل آئل کی سالانہ ضیافت کو یاد کیا۔ جس کے لئے ماکولات سے لدا ہوا بوئنگ سات چار سات پیرس سے اس اہتمام کے ساتھ تہران آتا تھا کہ کھانے کی لذت اور گرماہٹ میں فرق نہ آنے پائے۔ اِسراف اور اِتلاف کی مثالوں کا تبادلہ ہوا۔ بازرگان کے افطار ڈنر کی وجہ سے شہنشاہ کی فرد جرم میں ایک الزام کاا ضافہ ہوگیا‘‘۔ (صفحہ نمبر ۳۷۲ سے ۳۷۵)
کتاب کا تیسرا حصہ منظر نامہ ہے۔ جو انقلاب، برپا کرنے والے کچھ عوامل اور شخصیات اور ضد انقلاب مراحل کو بیان کرتا ہے۔ اس حصے کے ابواب یوں ہیں فنکار، الفاظ، افکار، اشعار اور آخرِ کار۔
ہر انقلاب کے بعد اس کے مخالفین اسے ناکام بنانے کے لئے اور کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آتے ہیں جو اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ قائدین انقلاب کا کمال ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر قابوپائیں اور انقلاب کی رفتار اور سمت کو متاثر نہ ہونے دیں۔ مختار مسعو د نے یہ تمام مراحل بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ انقلاب کے فوراً بعد انقلابیوں میں کھینچا تانی بھی ہوئی لیکن اس پر قابو پا لیا گیا۔مخالفین نے ملک کے صدر اور وزیراعظم کو بم دھماکے سے اڑا دیا۔ ۷۲ ارکان مجلس ایک اور دھماکے کی نذر ہو گئے مگر انقلاب کی راہ مسدود نہ ہو سکی ایک طرف لوگ مرحومین کے لاشے اٹھاتے تھے دوسری طرف مجلس آئین ساز میں آئین کی تیاری جاری تھی۔خاص بات یہ تھی کہ آیت اللہ خمینی نے کوئی عہدہ قبول نہ کیا۔ ملک میں آئین کے لئے استصواب رائے کروایا اور نئے ایران (اسلامی جمہوریہ ) کی بنیادیں مستحکم کر دیں جو آج تک قائم ہے۔
کتاب کے پندرھویں باب میں مختار مسعود نے انقلاب کے فکری بانیان کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمومی طور پر اس وقت ایران میں یہ سمجھا جاتا تھاکہ انقلاب ڈاکٹر علی شریعتی کے افکار کا مرہون منت ہے۔ مختار مسعود کہتے ہیں:
’’میں خیابان شاہ رضا پر تہران یونیورسٹی کے صدر دروازہ کے بالکل سامنے کتابوں کی ایک دکان میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی لکھی ہوئی کتابوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اسلام شناسی، سیمای محمد، امت و امامت، انسان و تاریخ، روش بررسی قرآن، قرآن و کا مپیوتر، فاطمہ فاطمہ است، زن مسلمان، جبر تاریخ، تشیع علوی تشیع صفوی، نامہ ای بہ دفع از علامہ اقبال و مسلم لیگ‘‘۔ (صفحہ نمبر ۴۲۳۔۴۲۴)
مختار مسعود نے ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے ۴۴ برس کی مختصر زندگی پائی لیکن اتنے زیرک انسان تھے کہ صدیوں کا سفر دنوں میں طے کر لیا۔ ۱۹۷۰ء میں وہ تہران آگئے اور ایک غیرسرکاری ادارے حسینۂ ارشاد میں تاریخ شناسی اور انسان شناسی کی تعلیم دینے لگے۔ ۔۔ انہوں نے تین برس میں کوئی دو سو تقریریں کیں۔ کسی بھی تقریر میں شہنشاہ ایران یا خاندان پہلوی کا ذکر تک نہیں ملتا۔ سب کچھ فلسفہ تاریخ اور تشیع علوی کے حوالے سے کہتے رہے۔ گفتہ آیددَ حدیثِ دیگراں۔ بظاہر گرفت کا موقع نہ دیا۔ مختار مسعود نے ان کی ایک تقریر کے کچھ حصے نقل کیے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر علی شریعتی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے :
’’اسلام ایک ایدیالوجی ہے۔ مگر کونسا اسلام۔ بات نازک ہے اس لئے اصطلاحات کا سہارا لینا ضرور ی ہو جاتا ہے۔ وہ اسلام جو آزادی و آگاہی اور حرکت کا اسلام ہے، نہ کہ اسلامِ اسارت و خواب و سکون۔ اسلامِ عدالت و رہبری نہ کہ اسلامِ خلافت وطبقہ و اشرافیت۔ اسلامِ ابو ذر نہ کہ اسلامِ کعب الاحبار۔ اسلامِ مجاہد نہ کہ اسلامِ روحانی۔ اسلامِ جہاد اعتقادی و اجتماعی و اجتہاد علمی و عقلی، نہ کہ اسلامِ تقلید و تعصب و تسلیم۔ اسلامِ قرآن، نہ کہ اسلامِ مفتاح الجنان۔ تشیع علوی، نہ کہ تشیع صفوی۔ تشیع تقویٰ و مسؤلیت و اعتراض، نہ کہ تشیع تقیہ وشفاعت و انتظار۔ حسینِ خون نہ کہ حسین اشک۔ کربلای فریاد خواہ اور انصاف طلب، نہ کہ کربلای نوحہ گری اور سینہ زنی‘‘۔ (صفحہ نمبر ۴۳۱)
شریعتی کے علاوہ مختار مسعود نے ایران میں شہنشاہیت کا قلع قمع کرنے کی راہ ہموار کرنے والے مفکرین میں مطہری، صادق ہدایت، جلال آل احمد کو شمار کیا ہے۔ ان چار شخصیات یعنی شریعتی، مطہری، صادق ہدایت اور جلال احمد کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔
’’پہلا یورپ کا پڑھا ہوا معلمِ انقلاب۔ دوسرا، دینی مدارس کا ذہن ترین فلسفہ باف۔ تیسرا، سب سے بڑا اشتراکی ناول نگار۔ چوتھا، ایک مشہور ادیب جو پہلے اشتراکی تھا اور پھر اسلامی ہو گیا‘‘۔ (صفحہ نمبر ۴۳۵)
کتاب کا آخری صفحہ ۴۹۴ خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثناء اور تکبیر و تہلیل پر ختم ہوتا ہے یہ کتاب شاہ بیگم اور شیخ عطاء اللہ ٹرسٹ نے شائع کی ہے۔ اس کا سرورق اسلم کمال نے بنایا ہے۔ جبکہ تزئین خورشید عالم خورشید رقم کی ہے۔ کتاب کے اب تک ۱۳ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مندرجہ بالا حوالہ جات کتاب کے ایڈیشن جنوری ۲۰۰۳ء کے مطابق ہیں۔
Leave a Reply