
سیستانی ایک ایسا نام ہے جو پردۂ اسرار میں لپٹا ہوا ہے۔ بہت تھوڑے مغربیوں کو عراق کے اس طاقتور ترین شخص تک رسائی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اگر کسی کو موقع ملا ہو تو اس نے ایک دبلے پتلے اور باریش شخصیت کا مشاہدہ کیا ہو گا جسے دفتری زرق برق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آیت اﷲ العظمیٰ علی حسینی سیستانی ملک کے ڈیڑھ کروڑ شیعی عوام کے انتہائی محترم رہنما ہیں۔ یہ تمام آنے والوں سے خواہ و طاقتور ہو یا کمزور ایک طرح سے ملتے ہیں۔ ان کا معمولی سا گھر نجف اشرف کی ایک گرد آلود گلی میں ہے جس کے ایک سادہ اور خالی کمرے میں وہ آنے والے ملاقاتیوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر فرش نشین ہوتے ہیں۔ ان کا لباس انتہائی سادہ ہے جس میں عبا اور دستار شامل ہے۔ ان کے ایک قریبی شخص کا کہنا ہے کہ دس سال سے ان کی الماری میں کوئی نئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ وہ بہت ہی نفیس اور محترم ہیں اور بولنے سے زیادہ سنتے ہیں۔ لیکن ان کی جاذبیت اور کشش حیرت انگیز اور غیرمعمولی ہے۔ محمد کامل الرداعی جو کہ بغداد میں ایک یونیورسٹی پروفیسر ہیں اور آیت اﷲ سے ان کو ملاقات کا شرف اکثر حاصل رہتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’ان کی آنکھیں لوگوں کے اندرون میں جھانک لیتی ہیں وہ لوگوں کو سمجھنے کے حوالے سے ایک ماہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے سوالوں کا جواب ایسا دیتے ہیں کہ سائل کے دل میں اتر جائے۔
جب سیستانی بولتے ہیں تو عراقی تعمیل کرتے ہیں۔ اس ۷۴ سالہ شیعہ روحانی پیشوا کو عام طور سے قوم کا ضمیر خیال کیا جاتا ہے جو غیرمعمولی اخلاقی طاقت سے آراستہ و مزین ہے اور عراق کے مستقبل کا ثالث ہے۔ اگرچہ یہ صدام کے طویل دورِ جبر میں جبکہ شیعوں پر سالہاسال ظلم و ستم ڈھائے جاتے رہے‘ خاموش رہے تاہم اس مطلق العنان شخص کے زوال کے بعد سیستانی ملک کی انتہائی اہم سیاسی شخصیت کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ عراق کے عوام خواہ وہ شیعہ ہوں‘ سنی ہوں یا کرد ہوں‘ ان کے خیالات کو کافی اہم اور وزنی خیال کرتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ ان کے اثر و رسوخ کا دائرہ واشنگٹن تک وسیع ہے‘ جہاں انہوں نے بارہا بش کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کی بات مانے۔ انہوں نے ایسے فتوے جاری کیے جس نے جنگ کے بعد کے عراق کے لیے امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ گوشۂ گمنامی میں رہنے والے آیت اﷲ العظمیٰ علی سیستانی سیاسی مقابلے میں اس وقت اترتے ہیں جب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہی انہوں نے اپنا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فروری میں ہونے والے انتخاب میں عوام کو بھرپور شرکت پر ابھارا اور انہوں نے عراقی حکومت کو ووٹرز کے رجسٹریشن کا کام شروع کرنے کی تاکید کی۔ جو بھی قوتیں عراق میں ہیں وہ انہیں اپنے وجود کی قیمت پر ہی نظرانداز کر سکتی ہیں۔ سیستانی نے اگست میں اپنا اثر و رسوخ ثابت کر دکھایا جب نجف شورش و انتشار میں ڈوب گیا تھا۔ جونہی لڑائی شروع ہوئی وہ اچانک شہر چھوڑ کر علاج کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ یہ افواہیں گشت کرنے لگیں کہ سیستانی کی موت کا وقت اب قریب ہے‘ سیستانی خوف زدہ ہیں‘ سیستانی‘ نوجوان شعلہ بیان عالم مقتدیٰ صدر جس کے جنگجوئوں نے امریکی فوج سے جنگ کرتے ہوئے اسے تعطل سے دوچار کر دیا تھا‘ کے مقابلے میں اپنا اثر و رسوخ کھو رہے ہیں۔ لیکن ۲۶ اگست کو جبکہ امریکی عراق کے اہم ترین مقاماتِ مقدسہ پر حملوں میں مصروف تھے‘ سیستانی نے ثابت کر دیا کہ انکی ہستی اب بھی موجود ہے۔ وہ لندن کے ہسپتالِ قلب سے اپنے علاج کو ادھورا چھوڑ کر بصرہ کی طرف محوِ پرواز ہوئے‘ جہاں سے وہ لاکھوں غیرمسلح افراد کے ہجوم کے ساتھ نجف میں داخل ہوئے۔ لاکھوں عوام کا ہجوم ان کے وفاداروں کا ہججوم تھا‘ جو ان کے حکم پر شہر کی جانب مارچ کر رہا تھا۔ گھنٹوں کے اندر جنگ کے بعد کے عراق کی سب سے خونی جنگ آیت اﷲ کے حکم پر ختم ہو گئی۔ حتیٰ کہ حد سے بڑھی خود اعتمادی کے شکار الصدر نے بھی اپنا سرِ تسلیم خم کر دیا‘ جب وہ سیستانی کے سامنے ان کے سادہ اور معمولی قالین پر دوزانو ہوئے اور آیت اﷲ کے حکم کی تعمیل کا اعلان کیا۔ بعض مغربی ذہنوں میں ایک بزرگ‘ سفید ریش اور دستارِ سیہ پوش شخصیت جس پر عوام جان نچھاور کرتے ہوں‘ کے تصور سے ایک دوسرے شیعہ ملا کا تصور آجاتا ہے یعنی آیت اﷲ روح اﷲ خمینی کا جنہوں نے ایران کو ایک شدید معاند اسلامی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ سیستانی کا تعلق ایک دوسری نسل سے ہے۔ انہوں نے فوری انتخاب پر اصرار کیا ہے تاکہ ایسی حکومت تشکیل دی جاسکے جو عوام کے ارادوں کی ترجمان ہو۔ انہوں نے اپنے اور اپنے ساتھی علما کے لیے کسی حکومتی کردار سے بھی انکار کر دیا۔ لیکن اس بات پر یکساں طور پر مصر ہیں کہ عراق پر ۳۰۰ سالوں سے سنی اقلیت کی بالادستی کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ شیعہ اقتدار سنبھالیں۔ اگر انہوں نے الصدر اور دوسروں کی تشد د کے ذریعہ کنٹرول کی خواہش کی مخالفت کی تو وہ خود بھی امریکا کے ساتھ اپنی شناخت کے اسی شدت سے انکاری ہیں۔ یہ رویہ امریکیوں کو محتاط رہنے پر مجبور کر سکتا ہے جیسا کہ وہ اس جنگ زدہ ملک میں سرمایہ کاری کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔
لیکن سیستانی کا بلند اخلاقی مرتبہ اور نئے جمہوری نظام کے لیے ان کے بے لچک موقف نے امریکا کو بہت زیادہ پُرامید کر دیا ہے کہ عراق کو انتشار و طوائف الملوکی کی کھڈ میں گرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ نجف میں ان کی مداخلت گذشتہ ہفتے ہونے والے معاہدے کی راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں الصدر اپنے جنگجوئوں کو غیرمسلح کرنے پر راضی ہو گئے اور سیاسی میدان میں داخل ہو گئے۔ یہاں یہ داستان ہے کہ کس طرح سیستانی ملک کی سب سے طاقتور شخصیت بن گئے اور عراق کے لیے وہ کیا سوچتے ہیں۔
مقامِ بلند تک پہنچنے کے ذرائع:
شیعی دنیا میں قیادت کی پہلی شرط تبحر علمی ہے جس کی پیمائش کا معیار اسلامی اصول و قانون کی تعلیم میں اوقاتِ زندگی کا کھپانا ہے۔ سیستانی کے تبحر علمی کی دنیا معترف ہے۔ ان کی تصدیق شدہ سوانح حیات کے مطابق ان کی پیدائش ایک علمی اور خداترس گھرانے میں ہوئی‘ جس کا تعلق شمال مشرقی ایران کے ایک کوردہ مقام سے تھا۔ انہوں نے ۵ سال کی عمر میں قرآن پڑھنا شروع کیا۔ انہوں نے مدرسۂ قُم میں قدیم علوم میں مہارت حاصل کی جہاں وہ ۱۹ سال کے ایک نابغۂ روزگار جوان کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ تین سال بعد وہ حصولِ تعلیم کی خاطر عراق کے شہر نجف اشرف چلے گئے۔ یہ ہزار سالہ قدیم ایک محترم علمی ادارہ ہے جو بڑے بڑے شیعہ علما و فقہا کا مسکن رہا ہے۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ گئے۔ نجف کے مدارس میں جتنے اہلِ عرب ہیں‘ اتنا ہی اہلِ فارس بھی ہیں۔ سیستانی اپنے دبیز لہجۂ قومی کو کبھی فراموش نہ کر سکے اور ایک ایرانی شہری رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے عرب مخالفین کے نشانے پر رہے مثلاً الصدر جو ان کو ان کے نسلی تعلق کی بنا پر انہیں کم وقعت سمجھتے رہے۔ سیستانی نے نجف میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچایا اور جلد ہی آیت اﷲ العظمیٰ ابوالقاسم الخوئی کے شاگردِ خاص ہوگئے۔ غیرمعمولی طور سے صرف ۳۱ سال کی عمر میں مجتہد کے مرتبہ بلند پر پہنچ گئے جس نے انہیں فقہی اور دینی مسائل میں اپنی رائے دینے کا حق دے دیا۔ سیستانی آیت اﷲ خمینی سے فاصلے پر رہے جو کہ ان دنوں نجف اشرف میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور ولایتِ فقیہہ کے جنگجویانہ فلسفے کی تبلیغ کر رہے تھے۔ الخوئی جو سیستانی کے استاد تھے‘ خاموشی اختیار کرنے والے (Quietist) موقف کے حامل تھے جس میں مذہبی رہنما روحانیت اور اخلاق کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن سیاست سے کنارہ کش رہے ہیں۔ سیستانی نے اسی فلسفے کو اختیار کیا تھا۔
۵۰ سالوں تک سیستانی عبادات اور تعلیم و تعلم میں منہمک رہے۔ انہوں نے طلبہ کی بڑی تعداد کو اپنے گرد جمع کیا جو ان کی پُراثر شخصیت‘ مضبوط منطق‘ غیرمعمولی تحقیقی صلاحیت اور برجستہ مزاج کے قدرداں تھے۔ سماجی مسائل میں سیستانی ہمیشہ ایک اسلامی قدامت پرست رہے۔ لیکن اپنے بہت سے دوسرے ساتھی علما کے برعکس دینیات سے ماورا موضوعات کے بھی جویا تھے مثلاً جدید سائنس‘ تاریخ‘ سیاسی فلسفہ‘ سوانح حیات‘ تقابلِ ادیان‘ حالاتِ حاضرہ وغیرہ‘ ساتھ ہی وہ دینی مسائل کی ازسرِنو تعبیر میں وہ غیرمعمولی اظہارِ رائے کی آزادی کا استعمال کرتے ہیں۔ بقول الرداعی کے کہ ’’علامہ سیستانی نے جدید زندگی اور اسلامی اصولوں کو ضم کر دیا ہے۔ ان کے قوانین یا فتاوے وقت میں منجمد نہیں ہیں۔ اعلیٰ دینی مقام کے لیے الخوئی کے ذریعہ انکی تعلیم و تربیت اس امر کا سبب بنی کہ وہ مرجعٔ تقلید کے مقام پر فائز ہوں جو کہ شیعہ علما کے لیے سب سے اونچا مقام ہے۔ انہیں یہ مقام ۱۹۹۲ء میں الخوئی کی موت کے فوراً بعد حاصل ہوا۔ سیستانی نے اس مقام کے لیے دوسرے بزرگ آیت اﷲ حضرات کے مقابلے میں اپنے آپ کو اہلِ تر ثابت کیا۔ اس مقام کے امیدوار مقتدیٰ الصدر کے والد بھی تھے جنہیں ۱۹۹۹ء میں صدام نے قتل کرا دیا۔ شاید اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ سیستانی اس بڑے خزانے کے وارث ہیں جو مذہبی عطیوں اور زائرین کے نذرانوں پر مشتمل ہے اور جسے الخوئی نے جمع کیا تھا۔ ان عطیات میں ان کی اپنی شہرت کی وجہ سے بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے سیستانی اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ اپنے نمائندوں اور حلیفوں پر مشتمل ایک بڑے نیٹ ورک کی مالی کفالت کر سکیں۔ نجف میں اپنے معمولی سے دفتر سے وہ متعدد اسکولوں‘ لائبریریوں‘ ہسپتالوں‘ امدادی و فلاحی اداروں حتیٰ کہ ٹیکنالوجی کے مراکز کی سرپرستی فرماتے ہیں جو کہ عراق‘ اور ایران میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے ذیلی دفاتر مشرقِ وسطیٰ سے مغربی یورپ تک فعال ہیں۔ اگرچہ مرجع مذہبی اختیار میں رومن کیتھولک پوپ سے مشابہ ہوتا ہے لیکن اسے کوئی ملائوں کا کالج منتخب نہیں کرتا ہے۔ مومنین میں کا ہر شخص ایک عالم کا اپنے روحانی پیشوا کے طور پر انتخاب کرتا ہے جس کے فتوئوں کی وہ تقلید کرتا ہے۔ علما اپنی عوامی مقبولیت اور اپنے ساتھی و ہم عصر علما سے ملنے والے احترام کی بنا پر اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بدعنوانی کا دور دورہ ہے‘ سیستانی اپنے سادہ طرزِ زندگی اور راست بازی کے لیے بہت زیادہ نیک نام ہیں۔ انہوں نے برسوں تک لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہتے ہوئے اپنی اہلیہ‘ دو بیٹوں اور کئی بیٹیوں کے ساتھ گمنامی کی زندگی گزاری ہے۔ وہ معمولی سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جو حضرت علیؓ کے روضۂ اقدس سے چند سو گز کے فاصلے پر ہے۔ ان کا کھانا غریبوں جیسا ہے مثلاً روٹی‘ لسی‘ چائے اور سبزی و پنیر۔ معمولی اور مختصر غذائیت کی وجہ سے وہ اکثر خون کی کمی کے شکار رہتے ہیں۔ طویل قامت مگر دبلے پتلے ہونے کے ساتھ وہ اب بہت کمزور اور ضعیف معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بند کمرے میں بیٹھ کر دینی امور کی نگرانی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے سالوں سے جمعہ کی نماز کی امامت نہیں کی ہے۔ وہ ایسے پوسٹرز چسپاں کرنے سے بھی منع فرماتے ہیں‘ جس میں ان کی تصویر ہو۔ انہوں نے امریکی افسران سے ملنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ مغرب کے کسی آدمی سے اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک کہ ان کی فوج عراق پر قابض ہے۔ اپنی تمام تر گمنامی کے باوجود سیستانی عراق کے تازہ حقائق سے پوری طرح آگاہ اور دنیاوی امور کے معاملے دانشمندانہ طور پر باخبر ہیں۔ حسین شہر ستانی جو ایک سابقہ جوہری سائنسداں ہیں اور جلاوطنی کے بعد عراق لوٹے ہیں تاکہ سیستانی کو بعض امور میں مشورہ دیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’سیستانی کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہے۔ وہ اپنے مقلدین کے تحریری سوالات کا جواب دینے میں مصروف رہتے ہیں‘ بذریعہ خط یا بذریعہ انٹرنیٹ۔ بہت زیادہ دن نہیں ہوئے کہ بغداد یونیورسٹی کے ایک طالب علم الامین نے یہ پوچھنے کے لیے خط لکھا کہ کیا آپ کے پیروکاروں کو تنگ گلیوں میں مظاہرے کرنا چاہییں‘ جن کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جائے۔ مرجع نے جواب دیا مظاہرے اس کے بجائے کشادہ سڑکوں پر ہونے چاہییں۔ الامین نے دریافت کیا کہ جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے کیا اس کو وہ صحیح سمجھتے ہیں تو الامین کو دو ٹوک جواب ملا نہیں۔
کیسی جمہوریت:
اگر امریکا عراق پر حملہ نہ کرتا تو آیت اﷲ سیستانی کبھی سامنے نہ آتے۔ صدام کے زوال سے ملک میں انتشار اور اقتدار کا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ شیعی عوام فطری طور سے ہدایت کے لیے آیت اﷲ سیستانی کی طرف دیکھتے ہیں۔ شہر ستانی کا کہنا ہے کہ آیت اﷲ سیستانی مذہبی فرض کی وجہ سے مداخلت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہیں خیال ہوا کہ بحران کے وقت مرجع کو ضرور عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ چنانچہ آیت اﷲ سیستانی جو پوری زندگی سیاست سے دور رہے اب ایسے فتوے جاری کرنے لگے جو غیرمعمولی سیاسی اہمیت کے حامل تھے۔ سیستانی فوراً ہی صبر و تحمل کی آواز بن کر ابھرے اور انہوں نے عراقیوں کو صبر سے کام لینے اور تشدد سے گریز کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے شیعوں سے کہا کہ وہ نہ تو امریکیوں کی مدد کریں اور نہ ہی امریکی حملہ آوروں کا راستہ روکیں۔ لیکن انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ بیرونی قبضے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے عراقی شہریوں سے مشورے کے بعد امریکیوں سے یہ سوال کیا کہ ’’تم کب عراق چھوڑ رہے ہو؟‘‘ انہوں نے بعثیوں کے قتل سے عوام کو روکا۔ عراقی اور امریکی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شیعی مزاحمت کو کم کرنے میں ان کی ہدایت نے بڑا کام کیا۔ عراق کے ایک سیکولر سیاستدان کے بقول کہ ’’یہ واحد وجہ تھی کہ ابتدائی دنوں میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ نہیں ہوا۔ صدام کے زوال کے بعد جب لوٹ مار کے واقعات جاری تھے تو آیت اﷲ سیستانی اسے غیراخلاقی اور غلط قرار دیتے ہوئے اس کی راہ میں حائل ہو گئے کیونکہ راتوں رات لوگوں نے چوریاں کر کے ایئر کنڈیشز‘ کمپیوٹرز اور قیمتی اشیا کا ڈھیر مسجد کے دروازے پر لگا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی آیت اﷲ سیستانی نے امریکیوں کو تاکید کی کہ وہ عراق کے مستقبل کے حوالے سے اپنے ناپاک ارادے اور عزائم سے باز آجائیں۔ جب واشنگٹن نے اقتدار عراقی عوام کو سپرد کرنے سے متعلق طویل المیعاد منصوبہ بنایا تو سیستانی نے اعتراض کیا‘ جس کی وجہ بش انتظامیہ جلد اقتدار حوالے کرنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ بروقت انتخاب کے اپنے مطالبے میں بے لچک رہے اور اپنے اس مطالبے سے بھی دست بردار نہیں ہوئے کہ عراقی اپنا آئین خود تیار کریں گے۔ جب امریکا نے ووٹنگ کا بہت ہی پیچیدہ نظام متعارف کرانے کی کوشش کی تو سیستانی نے اس کا جواب ایک لاکھ افراد کے پُرامن مظاہرے سے دیا۔ اس مظاہرے میں عوام نے ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول کی حمایت میں نعرے لگائے۔ واضح رہے کہ عراق میں انتخاب فروری ۲۰۰۵ء میں ہونا طے ہے۔ گذشتہ موسم بہار میں اپنے صرف ایک حکم سے سیستانی نے عارضی طور پر امریکا کی مرضی کا عبوری آئین بننے سے روک دیا جس میں اقلیتی کُرد کو بہت زیادہ اختیار دیا گیا تھااور اسلامی قانون کو بہت ہی کم اہمیت دی گئی تھی۔ جب آئندہ سال منتخب اسمبلی مستقل آئین کا ڈرافٹ تیار کرے گی تو اس وقت وہ شیعوں کی بالادستی اور قومی یکجہتی پر زور دیں گے۔ یقینا یہ سب سے اہم مسئلہ ہے کہ محب اسلام سیستانی عراق کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ بیرونی قوتوں کو ملک کا نظامِ حکومت املا کرانے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی انہیں مغربی طرز کی حکومت قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ سیستانی کے مشیر القریشی کے بقول سیستانی ایک جمہوری اسلامی ریاست‘ پارلیمانی طرزِ حکومت جس کے قوانین مسلمانوں کے طرزِ عمل سے مطابقت رکھتے ہوں‘ کے قائل ہیں۔
امریکی افسران سیستانی کی بڑھتی ہوئی فعالیت میں اپنی ناکامی دیکھ رہے ہیں۔ امریکی نہیں چاہتے ہیں کہ حکومت میں کسی آیت اﷲ العظمیٰ کی بات حرفِ آخر ہو۔ خمینی کی جو دہشت بیٹھی ہوئی ہے اس نے بش انتظامیہ کے خیالات کو بری طرح گہنا دیا ہے۔ امریکی حکام اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ سیستانی کا طویل المیعاد مفاد امریکا سے میل نہیں کھاتا ہے۔ بعض ان کے ایرانی پس منظر اور ایرانی روابط سے بھی خوف زدہ ہیں کہ وہ ہمسایہ ملک کے ملائوں سے کہیں ہدایات نہ لے رہے ہوں۔ واشنگٹن کے کانگریشنل ریسرچ سروس کے Kenneth Katzman کے مطابق ’’سیستانی اور ان کے حامی تہران سے بہت ہی قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ سیستانی مالی و علمی لحاظ سے آزاد ایک مضبوط اور مستحکم شخصیت کے مالک ہیں جنہیں تہران سے امداد و رہنمائی کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا عراق میں نمائندہ Robert Blackwill کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ سیستانی کی قوت کا توڑ کرنے کا منصوبہ تیار کرے۔ یہ بات ایک اعلیٰ امریکی افسر نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتائی۔ واشنگٹن جو آخری بات چاہتا ہے وہ یہ کہ وہ الصدر جیسے کسی آدمی کو اقتدر میں لائے۔ بغداد میں ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’’جو لوگ ابھی نظروں میں ہیں ان میں سیستانی سب سے زیادہ معتدل آیت اﷲ ہیں اور امریکا یہ چاہتا ہے کہ بنیادی سیاسی اقدامات ان کے ساتھ مل کر انجام دے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا یہ اعتراف کرتا ہے کہ جس جمہوریت کو قائم کرنے کی خاطر اس نے عراق پر حملہ کیا تھا وہ وہ نہیں جو وہاں قائم ہو گی۔ ایک مستحکم اور آزاد عراق کے حصول کے لیے آیت اﷲ سیستانی کی قوت اور ترجیحات کے گرد جائے بغیر چارہ نہیں۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply