
اخوان المسلمون کی سیاسی شاخ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے صدارتی امیدوار محمد مرسی ۱۹۵۱ء میں شرقیہ گورنریٹ میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف انجینئرنگ سے آنرز کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گئے۔ ۱۹۸۲ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی (North Ridge) میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا اور ۱۹۸۵ء میں مصر واپس آگئے۔ مصر واپسی کے بعد محمد مرسی نے زغازغ (Zagazig) یونیورسٹی کی فیکلٹی آف انجینئرنگ کے مٹیریلز انجینئرنگ کے شعبے میں سربراہ کی حیثیت سے تدریس شروع کی۔ پروفیسر کی حیثیت سے وہ ۲۰۱۰ء تک وہاں خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ محمد مرسی نے ۱۹۹۲ء میں اخوان المسلمون کے سیاسی شعبے سے وابستگی اختیار کی۔ ۱۹۹۵ء میں پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ انہیں اخوان کے پارلیمانی گروپ کا ترجمان بھی مقرر کیا گیا۔ ۳۰؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو اخوان المسلمون نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی قائم کی تو محمد مرسی کو اس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ زیر نظر انٹرویو میں محمد مرسی نے اپنے سیاسی پروگرام اور رجحانات کے حوالے سے اظہار خیال کیا ہے۔
٭ آپ کے خیال میں پارلیمان اور حکومت کے درمیان موجودہ بحران کی نوعیت کیا ہے؟
محمد مرسی: حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اب تک کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اگر یہ (فوجی) حکومت برقرار رہی تو مزید خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ہم نے حکومت کی تحلیل کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سیٹ اپ کو نگرانی کے لیے زیادہ سے زیادہ دو ماہ کا وقت دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد یہ سیٹ اپ یکسر ناقابل قبول ہوگا۔
٭ کیا آپ صدارتی امیدوار عبدالمنعم عبدالفتوح کے ساتھ مل کر مستقبل میں کام کرنا پسند کریں گے؟
محمد مرسی: اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہر معاملہ اور فیصلہ حالات کے تابع ہوتا ہے۔ یہ تو عوام پر منحصر ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں کیا رائے دیتے ہیں۔ صرف انہی کا فیصلہ مکمل طور پر قابل قبول ہوگا۔
٭ کیا آپ عبدالمنعم کے حق میں دستبردار ہوں گے؟
محمد مرسی: اخوان المسلمون نے کئی صدارتی امیدواروں کی حمایت کا عندیہ دیا مگر انہوں نے بوجوہ مثبت جواب نہیں دیا۔ آخر کار اخوان کو اپنا صدارتی امیدوار لانا پڑا۔ اب اخوان نے ایک فیصلہ کیا ہے تو اس پر قائم بھی رہے گی۔
٭ سلفی مسلک کی نور پارٹی کسی اور صدارتی امیدوار کی حامی ہے۔ اسلامک لا آرگنائزیشن نے آپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
محمد مرسی: ہر گروپ کو اپنی پالیسی کے مطابق کسی بھی امیدوار کی حمایت کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح ہر گروپ کو اپنے مقاصد اور اہداف کے تحت کوئی بھی راہ اپنانے کا حق بھی حاصل ہے، حتمی فیصلہ عوام کریں گے۔ عوام اسلامی اور غیر اسلامی کی بنیاد پر منقسم نہیں ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی ایک گروپ یا پارٹی کے ہاتھ میں ساری طاقت اور اختیارات دینا کوئی اچھا آپشن نہیںہے۔
٭ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب یعنی حسنی مبارک کے اقتدار کا سورج غروب ہونے سے قبل آپ نے ’’اسلام ہی تمام مسائل کا حل ہے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ بعد میں جب آپ نے یہی نعرہ لگایا تو خاصی ہلچل مچی۔
محمد مرسی: بات یہ ہے کہ حسنی مبارک کے دور میں کرپشن تھی، جعلی انتخابات تھے اور آمریت تھی۔ ہم نے لوگوں کو ایک متبادل نظام کی طرف لانے کے لیے اسلام کو تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا تھا۔ لوگوں کو زیادہ حیرت اس لیے نہیں ہوئی تھی کہ اس نعرے پر عمل کے لیے کوئی میکینزم، کوئی قوت موجود نہ تھی۔ انقلاب کے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ اسلام کو واحد حل قرار دینا محض نعرہ نہیں بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات کے لیے قوتِ نافذہ بھی پائی جارہی ہے۔ اس حقیقت نے خاصی ہلچل پیدا کی۔ اب اگر ہم اسلام پر مبنی کوئی نظام لانا چاہیں تو میکینزم اور قوت دونوں موجود ہیں۔
٭ کیا آپ نے اسلام کا نعرہ اس لیے ترک کردیا ہے کہ یہ تاثر مٹایا جاسکے کہ آپ کا تعلق اخوان سے ہے؟
محمد مرسی: میں فخریہ کہتا ہوں کہ میں اخوان کا بیٹا ہوں۔ میری نفسیاٗتی ساخت کی تشکیل اور نظریاتی تربیت میں سب سے اہم کردار اخوان المسلمون کا ہے۔ میں بھلا اخوان سے کس طور الگ ہوسکتا ہوں یا کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہوں۔ میں اخوان کے اصولوں کے تحت بہبودِ عامہ کو تمام امور پر ترجیح دیتا ہوں۔ میں قوم کے سامنے شخصی اوصاف کی بنیاد پر پیش ہو رہا ہوں۔ اخوان السلمون اور فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی مل کر مصر کو جدید اور حقیقی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں نے اسلام کا نعرہ اس لیے ترک نہیں کیا کہ خود کو اخوان المسلمون سے الگ ثابت کروں۔ اور یہ نعرہ ترک کس طرح کیا جاسکتا ہے، یہ تو ایک عظیم دعوت ہے جسے کسی بھی حالات میں بھلایا یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اخوان نے نہضہ (Renaissance) پروجیکٹ شروع کیا۔ نشاۃِ ثانیہ کے حوالے سے شروع کیے جانے والے اس منصوبے پر دو عشروں تک محنت کی گئی ہے۔ میں تمام سیاسی رجحانات سے فاصلہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ملک میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ عوام کی آرا کی روشنی میں آئین تشکیل دیا جارہا ہے۔ ملک کا سیاسی ڈھانچا تولیدی عمل سے گزر رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ تبدیلی ملک میں حقیقی استحکام لائے گی۔
٭ نہضہ پروجیکٹ تو سابق صدارتی امیدوار خیرت الشاطر کا لایا ہوا تھا۔ آپ کے پاس کیا پروگرام ہے؟
محمد مرسی: ہم نے اس منصوبے پر بہت محنت کی ہے۔ یہ اخوان المسلمون کی ذہنی پیداوار ہے۔ خاصی طویل تحقیق اور علمی بحث کے بعد اس کے خد و خال واضح ہوئے ہیں۔ چند ایک معاملات میں جو اِشکالات تھے وہ دور کرلیے گئے۔ اخوان چاہتی ہے کہ تمام شعبوں میں حقیقی قومی ترقی یقینی بنائی جائے۔
٭ آپ کا کیریئر شاندار رہا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ آپ نے متبادل امیدوار بننا کیوں گوارا کرلیا؟
محمد مرسی: اخوان المسلمون ایک منظم ادارے کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ اس کی سوچ ہر اعتبار سے معروضی ہے۔ بیک اپ امیدوار رکھنے کا فیصلہ دانش مندانہ تھا۔ خیرت الشاطر کے حوالے سے رکاوٹیں تھیں اس لیے بیک اپ رکھا گیا۔
(“Back the Brotherhood”… Weekly “Ahram online”. May 12th, 2012)
Leave a Reply