
افغانستان میں امریکا کے لیے جو آپشن بچے ہیں وہ زیادہ پرکشش اور بارآور نہیں۔ ڈھائی ہزار سے زائد امریکی فوجی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں اور اب تک ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھی امریکی معیشت کو پہنچا ہے۔ اگر امریکا اس نقصان کا سلسلہ ختم کرنا چاہتا ہے تو ایک اچھا آپشن یہ ہے کہ افغانستان سے فوری نکل جانا چاہیے۔ مگر خیر، یہ ایسا آسان بھی نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ویتنام کی طرح یہاں بھی یہ تاثر قائم ہوگا کہ امریکا نکل بھاگا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی چھت پر سے اڑنے والے ہیلی کاپٹرز دنیا کو دکھائیں گے کہ امریکا نے ہار مانی ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ نیٹو کے بینر تلے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے ساتھ بھرپور کارروائیاں کی جائیں۔ ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۳ء تک جب میں افغانستان میں لڑنے والی متحدہ افواج کا سربراہ تھا تب ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مگر یہ بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ یورپ اور بحرالکاہل کی طاقتیں بھی افغانستان کے حوالے سے تھکن اور بیزاری سے دوچار ہیں۔ نیٹو میں اس حوالے سے زیادہ عزم نہیں پایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا یہ چاہتی ہے کہ افغانستان کے وار تھیٹر کو بند کردیا جائے۔
ایسے میں ہمارے پاس بس ایک ہی آپشن رہتا ہے … یہ کہ بہت ہی کم تعداد میں (چار ہزار یا اتنے ہی کچھ) فوجی ہم دیں اور اتنے ہی فوجی ہمارے اتحادی دیں اور براہِ راست لڑائی سے گریز کرتے ہوئے افغانستان میں علامتی نوعیت کے قیام کو غیر معینہ مدت تک توسیع دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی علاقائی پالیسی اختیار کی جائے جو پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کرے۔ یہ سب نیا نہیں ہے۔ ۲۰۱۳ء کے آخر میں جب ہم افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے تب ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ امریکی افواج میں ۹۰ فیصد تک کمی کردی گئی تھی اور افغانستان کے لیے امریکی امداد میں بھی متعدبہ کٹوتی کردی گئی تھی۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ اِسے نئی اپروچ قرار دے رہے ہیں! اب سوال یہ ہے کہ یہ اپروچ دوبارہ کام کرے گی یا نہیں۔ ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں اب کرنا کیا چاہیے؟ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر ہم افغانستان میں اپنی موجودگی کو باعزت طریقے سے انتہائی کم کرتے ہوئے محض علامتی حیثیت دے سکتے ہیں؟
آئیے، افغانستان کے حوالے سے امریکی اہداف کا جائزہ لیں۔ یہ اہداف بہت سادہ ہیں۔ امریکی قیادت کسی بھی طور نہیں چاہتی کہ افغانستان دوبارہ طالبان کے ہاتھ میں چلا جائے اور القاعدہ جیسے انتہا پسند گروپوں کو دوبارہ پنپنے کا موقع ملے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بنیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ افغانستان میں ایک طرف تو داعش جڑ پکڑ رہی ہے اور دوسری طرف شمالی افغانستان کے جنگجو سردار بھی تیزی سے مستحکم ہو رہے ہیں۔ ہمیں افغانستان میں ایسی کوئی بھی صورتِ حال پیدا نہیں ہونے دینی جس کے نتیجے میں حکمرانی کا ڈھانچا مکمل تباہ ہوجائے۔ کم ازکم ضروری سمجھا جانے والا حکمراں ڈھانچا افغانستان میں رہنا چاہیے تاکہ اُسے ایک ایسے اڈے کے پنپنے کا موقع نہ ملے جہاں سے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے کیے جائیں۔ مزید یہ کہ ہمیں افغانستان میں ایک ایسی جمہوری حکومت چاہیے جو اپنے معاملات میں کامیاب ہو اور جنوبی ایشیا و ایران سے معاملات بہتر رکھنے کی صلاحیت و سکت رکھتی ہو۔ افغان حکومت اس قدر اہل اور مضبوط تو ہو کہ امریکا کے پارٹنر کی حیثیت سے کام کرسکے۔ اشرف غنی کی حکومت اگرچہ جامع نہیں اور خامیوں سے پاک بھی نہیں مگر پھر بھی اس میں اتنی صلاحیت ضرور موجود ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں لیتھیم اور دیگر عام اور اہم معدنیات کی مالیت کم و بیش ایک ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان مستقبل میں امریکا کا ایک اچھا تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ نئے پالیسی بیان میں کہا ہے، وہ بہت حد تک درست ہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ افغانستان سے صرف امریکا نہیں، عالمی برادری بھی بیزار ہے یعنی وہ تمام ممالک اور ادارے بھی وحشت سی محسوس کر رہے ہیں جو افغانستان میں معاملات کو درست رکھنے کی خاطر اب تک فنڈنگ کرتے آئے ہیں۔ افغانستان میں کرپشن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اور ختم کیا ہونی ہے، ڈھنگ سے کنٹرول بھی نہیں ہو پارہی۔ ایسے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے پسندیدہ بات یہی ہوسکتی ہے کہ افغانستان میں ایک کمزور مگر کسی حد تک معاملات کو کنٹرول کرنے والی مرکزی حکومت رہے، سرحدوں کا کنٹرول بھی معقول حد تک موثر ہو۔ اس وقت افغانستان میں آبادی کے لحاظ سے ۷۰ فیصد کی حد تک مرکزی حکومت کا کنٹرول ہے۔ طالبان کو چند علاقوں تک محدود رکھنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ ملک میں جہاں کہیں بھی خرابیاں ہیں اُنہیں دور کرنے کے لیے افغان فوج آگے بڑھتی ہے، نیٹو کی افواج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے جانی نقصان کا گراف بھی نیچے آچکا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ رواں سال افغانستان میں اتنے امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوئے جتنے سمندروں میں تصادم (حادثات) کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی سے متعلق امور اب افغان فوج نے سنبھال لیے ہیں، جو ہر اعتبار سے ایسی بات ہے جس پر سکون کا سانس لیا جانا چاہیے۔
جو کچھ امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے حال ہی میں کہا ہے، اس پر عمل کرنے کے لیے لازم ہے کہ نیٹو کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔ افغان سرزمین پر جتنے بھی امریکی فوجی ہیں اتنے ہی اتحادی فوجی بھی ہونے چاہئیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جارجیا جیسے ممالک ایسا کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتے ہیں۔ امریکا کے یورپی حلیف اپنے حصے کا کام کرچکے ہیں۔ اب ان سے مزید کچھ کرنے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ نیٹو کو افغانستان میں مزید کچھ کرنے پر آمادہ کرنے کا ٹاسک امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس کو سونپا جانا چاہیے۔
امریکا اگر افغانستان سے باعزت طریقے سے نکلنا چاہتا ہے تو اس معاملے میں تحمل لازم ہے۔ سابق صدر براک اوباما کے دوسرے عہدِ صدارت کے آخری دنوں میں ہر طرف ایک ہی پیغام عام ہو رہا تھا … یہ کہ ہم افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ یہ پریشان کن بات ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جو کچھ کہا اُس سے عوام کی عجلت پسندی کو مزید مہمیز ملی۔ اس وقت تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ امریکی قیادت کو ایسا کوئی بھی پیغام نہیں دینا چاہیے، جو عوام کو غلط راہ پر ڈالے یا اُن کی عجلت پسندی کو مہمیز دے۔ ہمیں اب افغانستان میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ حالات کی مناسبت سے ہوگا نہ کہ ٹائم فریم کے مطابق۔ کوئی بھی ڈیڈ لائن متعین کرنے سے خرابیاں محض بڑھیں گی۔ ہماری اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں غیر ضروری اور غیر منطقی عجلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ امریکیوں نے افغانستان سے نکلنے کے معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کیا اور اس کے نتیجے میں طالبان کو تیزی سے ابھرنے کا موقع ملا۔ اب بھی ہم اگر ایسا ہی کریں گے تو طالبان مزید مضبوط ہوں گے۔ طالبان یہ بات بہت مزے لے لے کر کہتے آئے ہیں کہ امریکیوں کے پاس بہترین گھڑیاں ہیں مگر وقت ہمارے پاس ہے۔ امریکا کی طرف سے طالبان کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ وقت اُن کی نہیں ہماری مٹھی میں ہے۔ ہمیں تحمل سے کام لیتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا ہیں جن سے طالبان کی حوصلہ شکنی ہو۔
امریکا اب تک روس کے معاملے میں قدرے بے عقلی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں روسیوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ یہ بات اُن کے لیے زخموں پر نمک جیسی ہے۔ امریکا نے کئی مواقع پر اس بات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم روس کو اپنی طرف لانے کی کوشش کریں۔ اس وقت روس کا جھکاؤ کسی حد تک چین کی طرف ہے اور وہ اپنی ایشیائی حیثیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس کو دوبارہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ ایشیائی نہیں، یورپی اور مغربی قوت ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں۔ روس اس وقت دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ رپورٹس ملی ہیں کہ وہ اپنے مفادات مضبوط کرنے اور امریکا کو زیادہ سے زیادہ پریشانی سے دوچار کرنے کے لیے طالبان کو ہتھیار فراہم کرکے اور دیگر طریقوں سے بھی مدد کر رہا ہے۔ افغانستان میں امریکا اور روس دونوں کے مفادات بہت حد تک ملتے جلتے ہیں مگر مذاکرات کی میز پر آکر ان معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ روس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں پوست کی کاشت نہ ہو کیونکہ اس کے نتیجے میں پورے خطے میں منشیات کی لعنت پھیلتی ہے۔ امریکا ایسا نہیں چاہتا۔
افغانستان میں معاملات قابو میں رکھنے کے لیے امریکی قیادت کو پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہوگا۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے انڈین کارڈ عمدگی سے کھیلا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت پاکستان کو مستقل دباؤ میں رکھنے کے لیے بھارت کو بخوبی استعمال کرسکتی ہے۔ اس معاملے میں امریکا کو گاجر اور چھڑی والا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ پاکستانی فوج کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی درکار ہے۔ امریکا اسے ہتھیاروں کی تیاری اور دیگر متعلقہ امور میں غیر معمولی حد تک مدد فراہم کرسکتا ہے مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہونی چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے میں مدد دی جائے۔ اگر پاکستانی قیادت یہ ماننے کے لیے تیار ہوتی ہے تو ٹھیک، بصورتِ دیگر امریکا پاکستانی فوج کو جدید ترین ہتھیار اور دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی روک بھی سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امداد میں بھی کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکا کو بھارت کی طرف واضح جھکاؤ دکھانا ہے۔ ایسا کرنا پاکستان اور چین کو مزید برہم کرسکتا ہے مگر خیر، ایسا کیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ امریکی قیادت کو یہ خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغان مسلح افواج کی بہتر تربیت اور جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔ ایسا کیے بغیر افغانستان کے طول و عرض میں حقیقی استحکام یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ افغان فوج کو مزید تربیت درکار ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مکمل انخلاء کے بعد افغان فورسز ہی کو پورے ملک میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنا ہے۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس وسائل بھی ہوں اور تربیت بھی جدید خطوط پر حاصل کی ہوئی ہو۔ طالبان لڑ ضرور رہے ہیں مگر ان کی نفری بہت زیادہ نہیں۔ اسپیشل فورسز کو اگر ڈھنگ سے تربیت دی جائے تو وہ طالبان پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں جو عمدگی سے نہ کیا جاسکے۔ اگر امریکا افغانستان میں اپنے بچے کھچے کردار کو عمدگی سے ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے لازمی طور پر طالبان کی شکست یقینی بنانا ہوگی۔
کبھی کبھی بہترین پلان ’’بی‘‘ دراصل پلان ’’اے‘‘ پر ڈھنگ سے کام کرنے سے متعلق ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار سنجیدگی دکھائی ہے اور کچھ کر دکھانے کی خواہش بھی۔ ایسے میں امریکی جرنیلوں کو بہت متوجہ ہوکر کام کرنا پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Back to the Future in Afghanistan”.(“Foreign Policy”. August 22, 2017)
وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ( مکر ) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خُفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترہے ۔ سورة آل عمران:54