
اکتوبر ۱۹۹۹ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے پرویز مشرف کی قسمت مائل بہ تغیر رہی ہے۔ انہوں نے اپنا آغاز ہی ایک خود ساختہ مسیحا کے طور پر کیا اور اپنے لبرل رجحانات کے ساتھ پاکستان کو ’’گندے‘‘ سیاستدانوں سے پاک کرنے کا دعویٰ لے کر میدان میں آگئے۔ انہیں جلد ہی اپنے راستے میں حائل ایک دیوار سے ٹکر لگی‘ جب ان کی فوجی وردی کو دولتِ مشترکہ اور بل کلنٹن کے امریکا نے ایک غلط کھیل تصور کیا۔ پھر گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آیا اور اپنے ساتھ نوازشات بھی لایا۔ مثلاً امریکا نے اپنی پابندیاں ہٹا لیں‘ امریکی فوجی امداد بحال ہو گئیں‘ آئی ایم ایف سے قرضے ملنے لگے۔ ۳۷ کروڑ ۹۰ لاکھ ڈالر کے امریکی قرض کی ری شیڈولنگ ہو گئی اور سب سے اہم بات یہ کہ ۲۰۰۳ء میں ۳ ارب ڈالر کا امریکا کی جانب سے امدادی پیکیج کا اعلان ہوا۔ ان نوازشات کے عوض پرویز کو جو کچھ کرنا تھا‘ وہ یہ کہ وہ پرویز مشرف پاکستان کی طالبان پالیسی کے حوالے سے یوٹرن لیں اور اپنے ملک کو جارج ڈبلیو بش کے آپریشن “Enduring Freedom” کے لیے ہراول دستہ بنائیں۔ اپنی جانب سے پرویز مشرف نے اس سمت میں حرکت کرنے کے لیے بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا تاکہ نئے مواقع سے خوب فائدہ اٹھایا جائے۔ آئندہ چھ ماہ کے اندر انہوں نے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے ذریعہ اپنے لیے ایک سیاسی رول کا انتظام کیا‘ جس میں انہیں ۹۷ فیصد ووٹ ملے جو کہ قطعی طور پر ایک نامعقول و ناقابلِ فہم بات تھی۔ پھر ایک سال کے اندر وہ ایک ایسا سیاسی نظام لائے جو اصلاً دو پارٹیوں پر مشتمل ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کو مرکزی مقام حاصل تھا اور دوسری متحدہ مجلسِ عمل جو اپوزیسن رول کے لیے مامور کیے جانے پر رضامند تھی‘ اس شرط پر کہ مین اسٹریم لیڈر شپ کو گوشہ گیر کیا جائے گا۔ اس سیاسی نظام نے پرویز مشرف کو پہلا فائدہ یہ پہنچایا کہ قومی سیاسی قوتوں کو بے اثر کرنے میں وہ کامیاب رہے مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) اور پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ (PMLN) کو‘ بغیر کوئی سیاسی خلا پیدا کیے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس سیاسی نظام نے انہیں لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) کو ملکی آئین میں متعارف کرانے میں ان کی مدد کی۔ اچانک حکومت نے سابق ویراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا جو ۸ سالوں سے قید میں تھے۔ اس اقدام کے ذریعہ حکومتی نظام میں وسیع تر سیاسی تبدیلیاں مطلوب ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرف نے جو سیاسی اوزار بڑی دقت سے تیار کیا تھا‘ وہ زنگ آلود ہونا شروع ہو گیا ہے؟ کراچی کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ’’یہ شروع ہو گیا ہے‘‘۔ نظام قومی مسائل پر وسیع تر اتفاقِ رائے کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے اور یہ ملک کو اب تک پیش آنے والے سب سے زیادہ حوصلہ شکن چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔
گذشتہ دو سالوں سے اقتدار کا کھیل اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر جی ایم ایل (ق) اور سابق پی پی پی (پیٹریاٹز) کے مابین مراعات کی تقسیم پر بے چینی و عدم اطمینان سبب بنا اس امر کا کہ مشرف کے پہلے وزیراعظم انتخاب کو دو سال بھی نہ گزر پائے تھے کہ روانہ کر دیے گئے۔ حکومت جب ایک غیرسیاسی وزیراعظم ایک انتخابی ڈرامے کے ذریعے لائی تو مبصرین کے خیال میں اس نے مشرف کی جمہوریت کی بے وقعتی اور ہلکے پن کو مزید بے نقاب کر دیا۔ جہاں تک ایم ایم اے کا سوال ہے تو مشرف نے بتدریج جماعت اسلامی کے کشمیر میں جہادی ایجنڈا سے دوری اختیار کر لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ روز بروز جماعت اسلامی کے ساتھ تصادم کی جانب بڑھتے گئے جو کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پرانی حلیف رہی ہے۔ سکیورٹی ایجنسی کے فوجی بازو کے ایک افسر کے مطابق ’’جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن) دو صوبائی حکومتوں کے ساتھ خوش ہیں جو انہوں نے اتحاد کے نام پر حاصل کیا ہے۔ جماعتِ اسلامی بھی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں آزادی محسوس کرتی ہے‘‘۔ جماعت اسلامی اسلام آباد کی مقبوضہ کشمیر میں فوجی مہم میں پیش پیش رہی اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس مہم میں اپنے ۵ ہزار رضا کار نچھاور کیے ہیں۔ اب یہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی دھمکی دے رہی ہے تاکہ پرویز مشرف دوسرے آرمی چیف کے لیے جگہ خالی کریں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن) اس سوال پر کہ مشرف کو وردی میں باقی رہنا چاہیے یا نہیں‘ بہت زیادہ شدت پسند نہیں ہے۔ مشرف کی فوجی حکومت اور ایم ایم اے کے درمیان یہ دوری خوشدلی سے نہیں ہوئی ہے۔ پشاور کے ایک انٹیلی جنس افسر نے ’’ہیرالڈ‘‘ کو کچھ دنوں قبل یہ بتایا تھا کہ ’’گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے مشرف نے اپنے آپ کو امریکی جنگ برائے انسداد دہشت گردی سے جوڑ لیا اس خیال سے کہ فوجیوں کی ہلاکت امریکیوں کو قبل از وقت افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔ پھر پاکستان طالبان اور جہادی گروہ میں موجود اپنے دوستوں کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دے گا اور اپنی مرضی کی حکومت کے قیام میں ان کی مدد کرے گا تاکہ اس طرح وہ بھارت کے خلاف اپنی فوجی برتری کی دیرینہ خواہش پوری کر سکے۔ بہرحال امریکی جمے رہے اور اسلام آباد نے طالبان سے قطع تعلق کا آغاز کیا اور اپنی افواج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھیج دیں تاکہ افغانستان سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو محفوظ کر سکے۔ اس پورے عرصے میں شدت پسندی کے خطرے کو سہارا دیتے ہوئے باقی رکھا جیسا کہ ایم ایم اے کی انتخابی فتح اس کا مظہر تھی نیز ملک میں فرقہ ورانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی بات کے غماز تھے۔ اسلام آباد اس خطرے کو بطور دلیل کشمیر میں جاری جہاد پر رعایت لینے کی خاطر استعمال کر رہا تھا‘ جیسا کہ ایک انٹیلی جنس افسر کا کہنا تھا۔ لیکن پاکستان کا عزم اس وقت کمزور پڑ گیا جب بھارت نے دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی میں بھارت پارلیمنٹ پر شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملے کے بعد اپنی بھاری فوجی نفری کشمیر کے کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحدوں پر لگا دی۔ اس کے بعد جوہری پھیلائو میں پاکستان کے کردار کی بے نقابی نے پاکستان کی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا۔ ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۳ء میں اسلام آباد کے اپنے دوروں کے دوران نائب امریکی وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے اسلام آباد کو یہ کہنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا کہ وہ کشمیر میں شدت پسندی کو اپنی پالیسی اوزار (Policy Instrument) کے طور پر استعمال کرنے سے باز رہے۔ ۲۰۰۳ء کے موسمِ خزاں تک پاکستان واضح طور سے اس حالت کو پہنچ گیا تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی اسٹراٹیجک برتری سے محروم ہو چکا تھا۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد سے کنارہ کش ہونے کے بعد افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد اور قندھار میں بھارتی قونصل خانوں کے کھل جانے سے پاکستان اپنے آپ کو گھرا ہوا محسوس کرنے لگا۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک طرف کشمیر اور پاکستان میں اپنے ۳۰ سالہ ایجنڈے کو لپیٹ دیا تو دوسری طرف پرویز مشرف کی تشویش کا دائرہ اس حد تک سکڑ گیا کہ وہ ’’داخلی محاذ پر اپنی سیاسی بقا‘‘ کے تحفظ کے لیے صرف فکر مند رہنے لگے۔ پھر وہ امریکا میں صدارتی انتخاب کے منتظر رہنے لگے‘ اس توقع پر کہ بش کی دوبارہ کامیابی کی صورت میں کوئی نعمتِ غیرمترقبہ ہاتھ لگے جو کہ بہرحال نہیں لگی‘ اس کے برعکس واشنگٹن میں پاکستان کی جانب سے ایران‘ شمالی کوریا اور لیبیا کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مسئلہ کے خلاف مہم ایک بار پھر سے زور پکڑ گئی جس کی وجہ سے اسلام آباد کچھ سراسیمہ رہنے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوبارہ منتخب ہونے والے بش کی جانب سے پرویز مشرف کی سیاسی حمایت میں کسی زوردار بیان کا فقدان نیز ’جوہری جن‘ کا دوبارہ منظرِ عام پر آنا بعض مبصرین کے خیال میں یہ تاثر دیتا ہے کہ امریکا کی نظر میں شاید پرویز مشرف کی افادیت اب مزید باقی نہیں رہی ہے۔ کیا یہ ان کے لیے اب بھی ویسے ہی مفید ہیں جیسا کہ چند سال قبل تھے؟ فرقہ ورانہ دہشت گردوں کی اسٹیج پر واپسی بلاشبہ ممکن ہو سکی ہے مگر اپنی امریکا دشمنی کو تیاگ دینے کے بعد جو انہوں نے گیارہ ستمبر کے بعد اپنے اندر پیدا کر لی تھی۔ جب تک ان کا ایجنڈا پاکستانی مسائل تک مرکوز و محدود رہے گا امریکا کو ان سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس لیے امریکا پرویز مشرف پر انحصار میں کمی کا قائل ہے۔ تشویش کا لمحہ جیسے جیسے قریب ہوتا جارہا ہے‘ مشرف کی جمہوریت جس کا بہت زیادہ ڈھول پیٹا گیا ہے‘ میں واقع سوراخ بڑا ہوتا جارہا ہے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے منحرفین کہ جن کا تعلق زیادہ تر سرحد اور پنجاب سے ہے اور جنہوں نے حکومت کے ساتھ اتحاد کیا ہوا ہے‘ اول دن سے اپنی ساکھ کھوتے جارہے ہیں۔ ان میں کی اکثریت محض اس وجہ سے حکومت کے ساتھ ہو گئی ہے کہ وہ اپنی بدعنوانیوں کے مقدمے میں نیب کی پکڑ سے بچ سکیں۔ بلوچستان ایک متوسط درجے کے قومی رہنما سے کہ چونکہ انہیں حکومت کی سیاسی مجبوریوں کا علم تھا چنانچہ انہوں نے اپنی بدعنوانیوں کے لیے حکومت سے سودے بازی کی جو انسانی اسمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ سیاہ بازاری اور منشیات سے متعلق تھیں۔ دریں اثناء ایم ایم اے بتدریج اپنی افادیت کھو بیٹھی جب بڑھتی ہوئی اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کو عالمی ایجنڈے کا حصہ بنا لیا گیا۔ فرقہ ورانہ تشدد باقی ہے لیکن پاکستان کے لیے دردِ سر ہے‘ مغرب کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایشیا کے جنوبی و مغربی خطوں میں تبدیلیوں کے حوالے سے جو بنیادی مسائل رہے ہیں‘ ان کو حل کرنے میں پرویز مشرف کی بے مائیگی و بے بسی واضح ہو چکی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں دراندازی روکنے سے متعلق پرویز مشرف کی کوششوں کے حوالے سے سابقہ بی جے پی کی جانب سے مثبت مگر محتاط ردِعمل سامنے آیا تھا۔ انہوں نے ۲۰۰۴ء کے اوائل میں اپنے ایک بیان کے ذریعہ پاکستان کے روایتی موقف‘ کہ مسئلہ کشمیر ۱۹۴۸ء کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل کیا جانا چاہیے‘ میں نمایاں رعایت دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ سب سے تازہ بیان یہ ہے کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ۷ مختلف امکانات کا ذکر کیا۔ چنانچہ کراچی کے ایک تجزیہ نگار کے مطابق ’’ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرویز مشرف بہت عجلت کے ساتھ بھارت کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے سلامتی کی فضا بہت بہتر ہو گی۔ مگر نئی دہلی میں کانگریس کی نئی حکومت کسی فوجی ڈکٹیٹر سے معاملہ کرنے میں سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہے‘‘۔ تنازعہ کشمیر پر بھارتی حکومت کی جانب سے مزید تاخیر اور امریکی افسران کی جانب سے جوہری پھیلائو کے مسئلے کو پھر سے اٹھایا جانا‘ ان دونوں باتوں نے مل کر پاکستان کی سلامتی کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے تاخیر سے سہی‘ حکومت پر زور دیا کہ وہ مین اسٹریم سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے طریقوں پر غور کرے۔ یہ وہ صورتحال تھی جس میں زرداری کی سپریم کورٹ سے ضمانت ہوئی۔ ضمانت جس مقدمہ میں ہوئی وہ درجن بھر مقدمات میں سے آخری تھا۔ بے نظیر نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش بتایا ہے۔ زرداری نے خود یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ مختلف سیاسی قوتوں کے مابین اور اپوزیشن و حکومت کے درمیان بھی پُل کا کام کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘۔ کراچی۔ دسمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply