ہندوستانی مسلمان اس ملک کی آبادی کا ۸ء۱۳ فیصد ہیں اور وہ ملک کی ہر ریاست میں پائے جاتے ہیں۔ بعض ریاستوں میں ان کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے تو کہیں کم۔ ہندوستان کے تقریباً ۴۲ ایسے اضلاع ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۲۰ فیصد سے زیادہ ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کے مسائل قومی نہیں رہے بلکہ وہ زیادہ تر علاقائی ہو گئے۔ بہار اور اتر پردیش، بنگال اور آسام کے مسلمانوں کا مسئلہ زبان، تعلیم اور روزگار ہے بہ نسبت تامل ناڈو اور کیرالہ کے مسلمانوں کے مقابلے میں۔ ہندوستان میں کوئی بھی اس وقت تک طاقتور نہیں ہو سکتا جب تک اس کے پاس تعلیم اور مالی وسائل نہ ہوں۔ اگر وہ تعلیم و معاشی مسائل پر اپنا غلبہ رکھتا ہو تو اس کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے اور سیاسی طاقت بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ تعلیم اور معاشی وسائل آج کے دور میں طاقتور بننے کے موزوں ہتھیار ہیں اور یہ دلیل بھی صحیح ہے کہ وہ قوم تعلیمی اور معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتی جس کے پاس سیاسی طاقت نہ ہو۔ اس کی مثال ہندوستانی مسلمان ہیں۔ شمالی ہندوستان کے مسلمان جنوبی ہند کے مسلمانوں کے مقابلے میں تعلیمی اور معاشی طور پر زیادہ پسماندہ ہیں۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی جو معاشی ترقی ہوئی ہے وہ Consistent نہیں ہے یعنی اس میں یکسانیت نہیں ہے۔ شمالی ہند کے مسلمانوں اور جنوبی ہند کے مسلمانوں کے درمیان کافی تفاوت ہے۔ جب کہ کیرالہ، تامل ناڈو، آندھراپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر کے مسلمان گزشتہ پانچ سال میں تعلیمی میدانوں میں کافی ترقی کی ہے۔ اس کی بہ نسبت بہار، اترپردیش، اڑیسہ، راجستھان، جموں، کشمیر، ہریانہ کے مسلمانوں کو تعلیمی میدانوں میں جنوبی ہند کے مسلمانوں کی طرح اتنی تعلیمی سہولتیں نہیں ہیں۔
اس فرق کی تشریح بعض اوقات اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اسلام کا جو مزاج ہے وہ شمالی ہند میں مختلف ہے اور جنوبی ہند میں اسلام کے اثرات مختلف ہیں۔ شمالی ہند کے اسلام پر ایران، مغلوں اور ایشیائی کلچر یا تہذیب کے اثرات مقامی جاگیرداری کلچر میں سمو گیا ہے۔ جنوبی ہند کا اسلام عرب تاجروں کے ذریعہ ہندوستان آیا اور صوفیائے کرام نے بھی اسلام کو جنوبی ہند میں پھیلانے کا کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ اسلام کا یہ کلچر مقامی کلچر میں بڑی آسانی سے سمو گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زبان کا ایک ہونا، جنوبی ہند کے مسلمانوں کی مادری زبان اس علاقہ کی اکثریت کی زبان یا سرکاری زبان بھی ہے اور مسلمانوں کی یہ مادری زبان بھی ہے اور ان کا دینی سرمایہ بھی ان زبانوں میں ہے۔ اس لیے جنوبی ہند میں رواداری کا جذبہ Communal Harmony بہت طاقتور انداز میں ہے۔ گزشتہ تیس سال سے جنوب کی ریاستوں میں جو علاقائی پارٹیاں برسرِاقتدار آئی ہیں ان سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے سرکاری پروگرام کے تحت جنوبی ہند کے مسائل کی طرف توجہ دینا شروع کیا۔ چنانچہ کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش، تامل ناڈو کے تعلیمی اداروں میں معاشی طور پر کمزور مسلمانوں کو تحفظات فراہم کیے گئے اور ان علاقائی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی لینا بھی شروع کیا۔ خاص طور پر جنتا دل نے کرناٹک میں، آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی نے، تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کیرالہ میں لٹ فرنٹ نے۔ ان ساری جنوبی ہند کی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ اس کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کیے۔ لیکن شمالی ہندوستان کے سیاسی پارٹیوں کے مسلمانوں کے مسائل کے تعلق سے رویہ بالکل مختلف تھا۔
جنوبی ہند کی مسلم قیادت نے بھی مسلم مسائل کو پیش کرنے میں بڑا ذمہ دارانہ اور تعمیری رول ادا کیا۔ جس سے ایک مثبت سیاسی فضا بنی جس کی مثال کیرالا ریاست ہے۔ آزادی کے وقت کیرالا میں صرف چند پرائمری اسکول اور اپر پرائمری اسکول تھے۔ جو مسلم تنظیموں یا Management کے زیر اہتمام چلتے تھے۔ مالابار میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی کالج تھا۔ اب یہ ہے کہ اس علاقے میں سو سے زیادہ اسکولز اور سو سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جن میں انجینئرنگ کالجز بھی شامل ہیں۔ ۳۶ انجینئرنگ کالجز، ۲۴ نرسنگ کالجز، ساتھ میں بی ای ڈی کالجز اور مینٹل کالجز اور ایک میڈیکل کالج بھی ہے۔
جنوبی ہند کے مسلمانوں کے تعلیمی ادارے
اسی طریقے سے تامل ناڈو میں مسلم آبادی کا تناسب جملہ آبادی کا صرف ۵ فیصد ہے۔ مسلمانوں کے تقریباً ۲۷ انجینئرنگ کالجز چلتے ہیں۔ ۱۲ انجینئرنگ کالجز، ۱۳ پولی ٹیکنک، ۱۲ آئی ٹی آئی اور ۱۲۵ ہائی اسکولز اور ہائیر سیکنڈری اسکول چلتے ہیں۔ ۳۵ انجینئرنگ کالجز ہیں۔ دو میڈیکل کالجز، ۱۲ انجینئرنگ کالجز، ۳ ہوٹل مینجمنٹ اور ۳۰ آرٹس اینڈ سائنس کالجز ہیں۔
اب جو دوسرا میدان رہ گیا ہے وہ مسلم خواتین کی تعلیم۔ شمالی ہند کے مسلم خواتین میں خواندگی کی شرح بہت حیرت ناک اور تشویشناک ہے۔ (National Family and Health Survey) کے مطابق مسلم خاتون کے شرح ’’ناخواندگی‘‘ ۸۵ فیصد ہے۔ سب سے زیادہ مسلم خاتون کی شرح خواندگی ہریانہ، اترپردیش، بہار، راجستھان میں ہے جب کہ کیرالا میں خواتین کی خواندگی ۹۶ فیصد ہے۔ جنوبی ہند کی دیگر ریاستوں میں خواتین کی خواندگی اتنی تشفی بخش نہیں ہے کیرالا میں خواتین مشنری جذبے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اب مسلم خواتین لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک Time Bound Agenda آج کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں فاضلاتی تعلیم کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے وہ افراد جو اپنی غربت اور روزگار میں جوڑ جانے کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکے وہ ان فاضلاتی تعلیم کے مواقع کو استعمال کر سکتے ہیں۔ روایاتی انداز کے دینی مدارس اس سلسلے میں بڑی تعمیری کردار پیش کر رہے ہیں لیکن خواتین کے دینی مدارس صرف بڑے شہروں کی حد تک ہی محدود ہیں۔ خواتین کے لیے مدارس کے Net یا جال کو دیہاتوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔
آج کی موجودہ تعلیم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم بہت اہم ہو گئی ہے۔ خصوصاً جنوب میں آندھرا پردیش، کیرالا، کرناٹک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا تیزی سے پھیلائو ہو رہا ہے۔ اس تعلیم سے مسلم لڑکے مستفید ہو کر ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں ان مسلم اداروں میں جو اساتذہ ہیں ان کا تعلق اکثریت سے ہے۔ اس طرح مسلم اداروں کے ذریعہ ایک رواداری Communal Harmony کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور یہ عمل معاشرہ پر صحت مند اثر ڈال سکتا ہے۔
کل ہند سطح پر مسلمانوں کی ترقی میں یکسانیت کے لیے ایک وفاق یا فیڈریشن کی ضرورت ہے جو شمالی اور جنوبی ہند کے اقلیتی تعلیمی اداروں میں ربط پیدا کر سکے۔ ان اقلیتی تعلیمی اداروں کو ریاستی سطح پر جو مسائل درپیش آتے ہیں۔ انہیں حل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات صحیح انصاف نہیں ملتا۔ انصاف کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ مسلمانوں میں حصول تعلیم کا شعور بیدا ہو گیا۔ لیکن معیاری تعلیم کے شعور کا فقدان ہے۔ معیاری تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے جس طرح سے دینی مدارس میں Coordination ہے۔ مختلف دینی مدارس کے بورڈ قائم کیے گئے ہیں مثلاً دینی تعلیمی کونسل، ان کے سالانہ کنونشن ہوتے رہتے ہیں اسی طریقے سے مسلم چیمبرس آف کامرس کی بات ہو رہی ہے لیکن مسلم مسائل کا سانحہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہر مسئلہ کو سیاسی بنا دیا جاتا ہے۔ وہ مسئلہ Dilute ہو کر کوئی دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مسلم مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی قیادت باہمی اختلافات سے بلند ہو اور اس کا کل ہند تاثر ہو۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ بورڈ خود کئی خانوں میں بٹ گیا ہے اور اس کا اثر و رسوخ بھی مسلمانوں پر کوئی خاص نہیں رہا ہے۔ کل ہند قومی قیادت کو علاقائی اور فرقہ وارانہ گروہ بندیوں کے اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک قومی Vision ذہن میں رکھتے ہوئے بے لوث جذبے کے تحت خدمت انجام دینے کی ضرورت ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(بحوالہ: نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply