
برطانوی راج کے دوران قومی سطح کے بیشتر مسلم رہنماؤں اور مقامی سیاست دانوں کی جانب سے مستقل مطالبے کے باوجود برطانیہ کے زیر انتظام دیگر علاقوں کے برعکس (موجودہ) بلوچستان کو سیاسی، معاشی، علمی، قانونی اور سماجی اعتبار سے خاطر خواہ ترقی نہیں دی گئی۔ جنوبی ایشیا میں یہ علاقہ چونکہ انگریزوں کے کنٹرول میں سب سے آخر میں آیا تھا اس لیے وہ ہندوستان میں اپنے راج کے خاتمے تک اس خطے میں اصلاحات کی مزاحمت ہی کرتے رہے۔ بلوچستان کے جو علاقے برطانیہ کے کنٹرول میں تھے ان میں بھی سیاست کا وہ انداز رائج نہ تھا جس میں عوام کو اپنی رائے دینے کا حق ملتا۔ اس مقالے میں بلوچستان میں اصلاحات کے حق میں اور خلاف دیئے جانے والے دلائل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کو بھی اس مقالے میں زیر بحث لایا گیا ہے تاہم یہ موضوع خاصا وضاحت طلب ہے جسے تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ بیان کرنا اس مقالے میں ممکن نہیں۔
برطانوی دور کے آخری عشرے کے دوران بلوچستان کی سیاست میں چند غیر معمولی رجحانات دکھائی دیئے جن کی لسانی، قبائلی اور سیاسی جہتیں تھیں۔ بلوچستان کے قوم پرست پختون، جو برطانیہ کے زیر انتظام علاقوں میں آباد تھے، صوبے کی لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتے تھے۔ ان کا استدلال اور مطالبہ یہ تھا کہ پشتو بولنے والے علاقوں کو شمال مغربی صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خواہ) میں ضم کردیا جائے۔ بلوچ، ظاہر ہے، اس منصوبے کے خلاف تھے۔ بلوچ قبائلی سرداروں کا مفاد اس بات میں تھا کہ ان کا قبائلی نظام برقرار رہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسے کسی بھی طور چھیڑا جائے۔ خان آف قلات خاص طور پر چاہتے تھے کہ وہ قلات کے حکمران رہیں اور بلوچستان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتے رہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست آبادی (جو پڑھے لکھے اور متوسط و زیریں متوسط طبقے پر مشتمل تھی) عظیم تر بلوچستان کا خواب دیکھتی تھی جس میں بلوچی بولنے والوں کے وہ علاقے بھی شامل ہوں جو برطانوی دور کے ہندوستان کی حدود میں شامل نہ تھے۔ بلوچ قبائلی سردار عظیم تر بلوچستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے معاملے میں قوم پرستوں سے ہم آہنگ تھے تاہم وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ سیاسی جدوجہد میں ان کا سرداری نظام کہیں گم ہوکر رہ جائے۔
پورے برطانوی دور میں بلوچستان کو ان ’’نعمتوں‘‘ کا حقدار نہیں سمجھا گیا جو ہندوستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں پر برسائی گئیں۔ اس کا ایک مقصد تو مغرب یا شمال مغرب کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں افواج کی نقل و حرکت کو یقینی بنانا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ برطانوی دور میں کوئی بھی مسلم اکثریتی صوبہ مکمل صوبے کی حیثیت کا حامل نہ تھا۔ سندھ ایک طویل مدت تک بمبئی کا حصہ تھا۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تو تھی تاہم ۱۹۰۵ء میں اسے دیا جانے والا متحدہ صوبے کا درجہ سات سال بعد واپس لے لیا گیا۔ شمالی مغربی صوبہ سرحد ۱۹۰۱ء میں قائم کیا گیا تھا تاہم اسے گورنر کے تحت ۱۹۳۲ء میں کیا گیا۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں پنجاب سب سے زیادہ خوش حال تھا تاہم یہ بیشتر وقت لیفٹیننٹ گورنر کے اختیار ہی میں رہا۔ ایسے میں بلوچستان کی صورت حال، ظاہر ہے، بہت بری تھی۔ برطانوی حکمرانوں نے اپنے راج کے بالکل آخر تک بلوچستان کو مکمل صوبہ نہیں بنایا۔ کوئٹہ اس علاقے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس شہر کے نظم و نسق کے انداز سے تعصب کا پتا چلتا ہے۔ یہ شہر گورنر جنرل کے ایجنٹ کے مقرر کیے ہوئے غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھا۔ ہندوستان کے مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کرنے کا یہ برطانوی حکمرانوں کا آزمودہ اور کامیاب ہتھکنڈا تھا۔
المیہ ہے کہ بلوچ رہنماؤں کی جانب سے متعدد بار توجہ دلائے جانے اور مطالبہ کیے جانے پر بھی برطانوی حکمرانوں نے ان کی شکایات اور تحفظات دور کرنے پر توجہ نہ دی۔ جب کبھی معاشی اصلاحات کی بات کی گئی تو برطانوی حکمرانوں نے فنڈ کی کمی کا رونا رویا تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ بلوچ قبائلی کلچر کی مذمت کرنے اور اسے پس ماندہ دور کی علامت قرار دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہے! برطانوی حکمران قبائلی نظام کو پس ماندگی اور پستی کی علامت گردانتے تھے تاہم اسی کو وہ پروان بھی چڑھاتے رہتے تھے۔ مثلاً جرگہ سسٹم اور قبائلی سرداروں کے ذریعے فراہم کیے جانے والے انصاف کو بلوچستان کے عوام سے زیادہ برطانوی حکمرانوں نے شرفِ قبولیت بخشا اور پروان چڑھایا۔ بلوچستان میں متعین برطانوی افسران جرگہ سسٹم کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مختلف قبائل اور ان کے سرداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئٹہ کو مرکز کا درجہ دیا گیا اور کوئٹہ میں بھی مختلف زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایسے گروہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جو برطانوی راج کے وفادار اور اس کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ اس گروہ ہی کی معرفت بلوچستان کا نظم و نسق چلایا جاتا تھا۔
لسانی اور نسلی اعتبار سے بلوچستان پشتونوں اور بلوچوں پر مشتمل تھا مگر برطانوی حکمران اس صوبے کو چلانے کے معاملے میں ان دونوں پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر قومیتوں اور مذہبی گروہوں کے لوگوں پر مدار رکھتے تھے۔ جنوبی ایشیا میں مذہبی حساسیت سے واقف ہونے کے باوجود برطانوی حکمران بلوچستان جیسے صوبے کو چلانے کے لیے، جس کی ۹۸ فیصد آبادی مسلم تھی، غیر مسلموں پر انحصار کرتے تھے۔ اپنے اور اپنے پیارے سرداروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے برطانوی حکمرانوں نے بلوچستان میں کوئی باضابطہ قانونی نظام متعارف کرایا نہ تعلیم کو فروغ دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان برطانوی راج اور سرداروں کے زیر انتظام علاقوں میں بٹ کر ابن خلدون کے مطابق صحرائی ثقافت اور شہری ثقافت کا عملی نمونہ بن کر رہ گیا۔ اول الذکر کو صرف ضرورت پڑنے پر کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے طلب کیا جاتا تھا۔ خانوں اور سرداروں کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں برطانوی حکمرانوں نے گاجر اور چھڑی والا طریقہ اختیار کیا۔ جنگ کے زمانے میں برطانوی حکمران بلوچ سرداروں اور عوام کی توجہ اور مدد پانے کے لیے مہربانیاں فرمایا کرتے تھے اور جب جنگ ختم ہو جاتی تھی وہ پرانی روش پر گامزن ہو جاتے تھے۔
خان آف قلات کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس کے اقتدار کا مدار بلوچ سرداروں کی حمایت سے مشروط ہے اس لیے وہ اقتدار برقرار رکھنے کی خاطر برطانوی حکومت سے ڈیل کرنے کے لیے تیار تھے۔ بلوچوں میں جو پڑھے لکھے تھے انہوں نے برطانوی حکومت سے سرداری نظام کے خاتمے اور سیاسی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اس پڑھے لکھے گروپ کا بلوچستان کے اندر اور باہر بلوچ سردار استحصال کرتے تھے۔ خان آف قلات انہیں اپنی جانب ظاہر کرکے برطانوی حکمرانوں کو انقلابی عناصر کے خلاف لڑائی میں تعاون کا یقین دلاتا تھا اور دوسری طرف برطانوی حکومت انہیں کوئٹہ کے ارد گرد کے علاقوں میں اس لیے برداشت کرتی تھی کہ اس صورت میں اس کے چند ایک مفادات کی تکمیل آسانی سے ہو جاتی تھی۔ بلوچستان کے یہ پڑھے لکھے لوگ جب برطانوی حکومت، سرداروں اور خان آف قلات کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتے تھے تب انہیں، قانون و انصاف کے تقاضے مسترد کرتے ہوئے، قید یا پھر جلا وطن کردیا جاتا تھا۔ بلوچستان کی سیاسی حیثیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں ان پڑھے لکھے بلوچوں کے معاملے کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ریزیڈنٹ اور اے جی جی کے طور پر تقرری کے کچھ ہی عرصے کے بعد سر رابرٹ سینڈمین نے تجویز پیش کی کہ بلوچستان کے تمام علاقوں کی لسانی، قبائلی اور نسلی شناخت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خان آف قلات کی سربراہی میں متحد کردیا جائے۔ پنجاب حکومت کی مخالف کے باعث اس تجویز کو مسترد کردیا گیا۔ لارڈ کرزن کے دور ۱۹۰۳ء میں سر جان برائٹ اور سر ہربرٹ رائزلے نے یہ معاملہ پھر اٹھایا۔ انہوں نے برطانوی راج کے تحت آنے والے تمام ہندوستانی صوبوں کو لسانی بنیاد پر دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانوی حکومت نے ۱۹۰۱ء میں شمال مغربی سرحدی (پشتون) علاقوں کو پنجاب سے الگ کردیا۔ شمال مغربی صوبہ سرحد (صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا) کی تشکیل سے برطانوی راج کے لیے خطرہ کم ہوگیا۔ قبائلی علاقوں کو ایک علیٰحدہ گروپ کی شکل مل گئی اور یہ علاقے عملی طور پر صوبہ سرحد سے بھی الگ ہوگئے۔ بلوچستان میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ برطانوی حکمرانوں کا خیال تھا کہ عسکری اعتبار سے ان کے لیے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے زیادہ اہم تھے۔ وہ بلوچستان کو اس حوالے سے بڑا خطرہ نہیں گردانتے تھے۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ایک مؤرخ کا بیان ہے کہ ’’برطانوی حکمرانوں نے بلوچستان کو صوبے کی حیثیت دینے سے اس لیے گریز کیا کہ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ لسانی بنیاد پر الگ صوبہ بنانا ان کے راج کے لیے خطرناک ثابت ہوگا‘‘۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ خدشہ کس حد تک درست تھا کیونکہ پنجاب اور صوبہ سرحد کے بہت سے علاقوں کو بھی محض زبان کی بنیاد پر ایک لڑی میں پرویا گیا تھا اور ان سے تو برطانوی راج کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانوی حکومت کسی بھی طور بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینا ہی نہیں چاہتی تھی۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ رقبہ زیادہ تھا، بکھری بکھری آبادی تھی اور صوبے کا درجہ دینے کی صورت میں غیر معمولی انتظامی اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(بحوالہ: پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر Vol. XXIX No. 2)
Leave a Reply