
برطانوی افسران اور پالیسی سازوں نے صرف بلوچستان نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کے دیگر صوبوں کے حوالے سے لسانی مسئلہ زندہ رکھنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔ ۱۹۱۹ء میں چیمسفرڈ اور مونٹیگ رپورٹ نے بلوچستان کو صوبہ بنانے کی تجویز پھر مسترد کردی حالانکہ اس رپورٹ کا بنیادی مقصد متحدہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا تھا۔ اس میں تجویز پیش کی گئی کہ رجواڑوں کی ایک مشاورتی کونسل قائم کی جائے جو ہر سال اجلاس منعقد کرے۔ وائس رائے کی پریزیڈنسی کو اس کی مجلس قائمہ قرار دیا گیا۔ اس سے بلوچستان کو بہر حال کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ۱۹۲۱ء میں ہندوستان کی چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں کا ایک چیمبر ضرور قائم ہوا تاہم اس میں بلوچستان کو شامل نہیں کیا گیا۔ ۱۹۲۷ء میں سائمن کمیشن نے قرار دیا کہ ہندوستانی صوبوں کو لسانی، مذہبی، نسلی اور جغرافیائی بنیاد پر تسلیم کیا جائے تاہم بلوچستان کو پھر نظر انداز کردیا گیا۔ اگلے ہی سال سر اسپنسر ہارکورٹ بٹلر کو اس امر کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا کہ ہندوستانی ریاستوں اور برطانوی سلطنت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں متحدہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کے معاملے کا جائزہ بھی لینا تھا۔ انہوں نے بھی بلوچستان پر توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ ۱۹۳۰ء میں جمہوری اصلاحات کے لیے سفارشات کا ایک ڈسپیچ تیار کیا گیا مگر اس میں بھی بلوچستان کو شامل کرنے سے مکمل گریز کیا گیا۔ اس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں کسی بھی نوع کی اصلاحات کے متعارف کرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی انتظامی تبدیلی ضروری ہے کیونکہ اب تک بلوچستان کی جانب سے اس سلسلے میں کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا۔
بھارت کی قانون ساز اسمبلی میں سندھ کی جانب سے سرحاجی عبداللہ ہارون بھی رکن تھے۔ وہ بلوچستان کے کیس کو ہمیشہ بہت عمدگی سے ایوان میں اٹھاتے تھے۔ بلوچستان کے عوام کے لیے ان کی ہمدردی بھرپور اور مذہبی بنیاد پر تھی۔ ۱۹۳۲ء میں قانون ساز اسمبلی کے اجلاسوں میں سر حاجی عبداللہ ہارون نے بلوچستان میں اصلاحات متعارف کرانے کی بھرپور وکالت کی تاہم انہیں انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کے ارکان آل انڈیا مسلم لیگ کے ارکان کی جانب سے اس نوع کے کسی بھی مطالبے کی مخالفت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ حاجی عبداللہ ہارون بلوچستان کے کیس کو صرف قانون ساز اسمبلی میں اٹھانے تک محدود نہیں رہتے تھے بلکہ میڈیا کو بھی اس معاملے میں بہت حد تک متوجہ رکھتے تھے۔ ۶؍ فروری ۱۹۳۳ء کو انہوں نے لاہور کے روزنامہ انقلاب میں ایک ’’بلوچستان میں استحصال کی ابتداء‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون پر قانون ساز اسمبلی میں بھی بحث ہوئی۔ ۱۹۳۴ء میں حاجی عبداللہ ہارون کی جانب سے ضیاء الدین احمد نے قانون ساز اسمبلی میں چند تجاویز پیش کیں جن کا بنیادی مقصد بلوچستان میں اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ ان تجاویز میں لوکل بورڈ سسٹم، تعلیم اور عدلیہ کے حوالے سے اصلاحات کی سفارش کی گئی تھی۔ جی ایس باجپائی نے حاجی عبداللہ ہارون سے اختلاف کیا۔ آئندہ سال حاجی عبداللہ ہارون نے پھر قانون ساز اسمبلی میں خاران، لسبیلہ، مری، بگٹی، مکران، بروہی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کی آئینی حیثیت سے متعلق حکومت سے استفسار کیا۔
۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں بلوچستان کے حوالے سے جن حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی تھی وہ بھی اس صوبے کو نہیں دیئے گئے۔ سابق قوانین کے برعکس اس ایکٹ میں بلوچستان کے خانوں کا نظام برطانوی حکومت کی سلطنت کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ نے سابق قوانین کے برعکس کسی بھی ریاست یا صوبے کے دو مشترکہ حکمرانوں کے تصور کو بھی مسترد کیا اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کی راہ ہموار کی تاہم چھوٹی دیسی ریاستوں کو اس کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا۔ اپنے اندرونی معاملات میں ان ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل رہی۔
بلوچستان میں انتظامی سطح پر جو کچھ ہو رہا تھا اور قانون ساز اسمبلی میں اس کے حقوق کے لیے جو آواز بلند کی جارہی تھی اس کے تناظر میں قائد اعظم بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے خاصے متفکر رہا کرتے تھے۔ انہیں اس امر کا بھی شدت سے احساس تھا کہ بلوچستان سے ہمیشہ زیادتی روا رکھی گئی تھی، اس کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ مارچ ۱۹۲۷ء میں قائد اعظم نے دہلی میں اپنے مکان پر سرکردہ مسلم رہنماؤں کا اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں مولانا محمد علی جوہر، مفتی کفایت اللہ، سر محمد شفیع، سر علی امام، راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر ایم اے انصاری نمایاں تھے۔ یہ مسلم رہنما مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے تھے۔ قائد اعظم کو چونکہ مسلم اکثریت والے صوبوں کی مشکلات کا اندازہ تھا اس لیے انہوں نے اس اجلاس میں بلوچستان، سندھ اور صوبہ سرحد میں سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کا سوال اٹھایا۔ اس اجلاس کے چھ ماہ بعد کلکتہ میں ۳۰ اور ۳۱ دسمبر ۱۹۲۷ء تا یکم جنوری ۱۹۲۸ء آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ پنجاب کے ملک برکت علی نے دیگر صوبوں کی طرز پر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بھی سیاسی اصلاحات کے نفاذ سے متعلق تجاویز پیش کیں۔ اس کے بعد تو مسلم لیگ اور دیگر مسلم تنظیموں کے اجلاسوں میں بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا سلسلہ سا چل پڑا۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے صدر سر آغا خان سوم نے بھی بلوچستان میں سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کے مطالبے پر زور دیا۔ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کا اکیسواں سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں ہوا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ یہ اجلاس علامہ اقبال کی تقریر اور پاکستان کے قیام کے مطالبے کے حوالے سے خاصا مشہور ہے تاہم اسی اجلاس میں بلوچستان کے لیے آئینی اور سیاسی حقوق کا مطالبہ بھی شد و مد سے کیا گیا۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۲ء کے دوران لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں بھی بلوچستان کے معاملات کو یکسر نظر انداز کیا گیا، گوکہ انہی کانفرنسوں میں صوبہ سرحد کو سیاسی حقوق تفویض کردیئے گئے۔
مسلم لیگ نے بلوچستان کو اس کے حقوق دلانے کے لیے مطالبات کا سلسلہ جاری رکھا۔ مسلم لیگ کا ۲۳ واں سالانہ اجلاس ۲۵ اور ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ء کو دہلی میں منعقد ہوا جس میں ایک بار پھر بلوچستان کے آئینی اور سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کی گئی۔ اسی اجلاس میں کوئٹہ کے خان بہادر نواب گل محمد خان کو تین سال کے لیے مسلم لیگ کا نائب صدر بھی بنایا گیا۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
(بحوالہ: پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر Vol. XXIX No. 2,)
Leave a Reply