
برطانوی حکومت نے ۱۹۳۳ء میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کا مستقبل کا آئین وفاقی نوعیت کا ہوگا جس کے تحت مرکزی قانون ساز اداروں میں صوبوں کے ساتھ ساتھ دیسی ریاستوں کو بھی نمائندگی دی جائے گی۔ خان آف قلات میر محمد یار اور دیگر حکمرانوں نے خطرے کی بو محسوس کی۔ انہیں اندازہ تھا کہ وفاقی نظام کے آنے کی صورت میں وہ اقتدار اور اختیار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جنوری ۱۹۳۵ء میں خان آف قلات نے برطانوی حکومت کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے پرانے سرداری نظام (خانیٹ) کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ خان آف قلات نے بہت سے چھوٹے سرداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ ۲۷ جنوری ۱۹۳۵ء کو درجنوں سرداروں نے خان آف قلات کو ایک یادداشت دی جس میں ان کی بھرپور حمایت کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
اس پیش رفت کے دوران ہی بلوچستان میں چند ایسے گروپ بھی اٹھ کھڑے ہوئے جو انقلابی نظریات رکھتے تھے۔ انہوں نے صرف انقلابی اصلاحات ہی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اشتراکیت کی جانب جھکاؤ بھی دکھایا۔ ۱۹۳۳ء میں حکمران بننے سے قبل ہی خان آف قلات نے برطانوی حکمرانوں کے حوالے دو رپورٹیں کردی تھیں جن میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ افغانستان کے راستے بلوچستان میں اشتراکی رجحانات داخل ہوسکتے ہیں۔ برطانوی اس بات کو جانتے تھے کہ کمزور حکمران اشتراکی نظریات کی بھرمار کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے خان آف قلات کے ہاتھ مضبوط کیے۔
جولائی ۱۹۳۵ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور کیا۔ خان آف قلات کو خدشہ تھا کہ یہ قانون ان کی حکمرانی پر اثر انداز ہوگی۔ انہوں نے سیاسی سطح پر حمایت اور قانونی مشاورت کے لیے قائد اعظم سے رابطہ کیا۔ قائد اعظم نے اس سے قبل میر جعفر جمالی کا بھارتی حکومت کے خلاف کیس بھی لڑا تھا اور کوئی فیس لینے کے بجائے میر جعفر جمالی سے درخواست کی تھی کہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ قائم کرنے میں مدد دی جائے۔ انہوں نے خان آف قلات سے کہا کہ بلوچستان کو ایک سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے جو نہ صرف شعور بیدار کرے بلکہ عوام کی جانب سے انہیں وہ حمایت بھی مل سکے گی جو وہ اب تک میر جعفر جمالی سے حاصل کرنے کے خواہش مند رہے ہیں۔
انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے پیش نظر خان آف قلات نے ۸۷ ارکان پر مشتمل ایک مقننہ تشکیل دی۔ انہوں نے ایک ایسا آئین بھی مرتب کیا جس کے تحت تمام سیاسی اور انتظامی حقوق خود انہی کو تفویض کردیئے گئے۔ مقننہ کا کردار سراسر مشاورتی نوعیت کا تھا۔ اس سیاسی دکھاوے کا بنیادی مقصد مقامی آبادی، قومی سطح پر ہندوستانی عوام اور سب سے بڑھ کر برطانوی حکمرانوں کو یہ تاثر دینا تھا کہ اب قلات میں سیاسی اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں۔ خان آف قلات نے بارہ رکنی ’’اسٹیٹ کونسل‘‘ تشکیل دی جو صوبائی نظام کا درجہ رکھتی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے معاشرتی اور تعلیمی اصلاحات کے لیے بھی چند ہدایات جاری کیں۔ ان اقدامات سے اخراجات میں اضافہ ہوا تاہم ان کی نوعیت بہت حد تک کاغذی اقدامات کی سی تھی۔ مثلاً خان آف قلات نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے تعلیم کا بجٹ تیرہ ہزار سے چار لاکھ روپے سالانہ تک کردیا تھا تاہم حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قلات کی پوری ریاست میں ایک بھی ہائی اسکول نہ تھا۔ یہ تمام اقدامات بلوچ انقلاب پسندوں کے لیے بہت موزوں تھے اور دوسری طرف برطانوی حکمرانوں کے لیے بھی یہ کیفیت بہت خوش کن تھی کیونکہ وہ بھی تو یہی چاہتے تھے کہ بلوچستان میں کہیں بھی حقیقی اصلاحات نافذ نہ ہوں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائد اعظم کی قیادت میں ۱۵ تا ۱۸ اکتوبر لکھنؤ میں ہوا جس میں بلوچستان کے لیے سیاسی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا۔ ۳؍ اپریل کو آل انڈیا مسلم لیگ کا کونسل اجلاس دہلی میں ہوا جس میں بلوچستان کے لیے نمائندگی بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ نظر انداز کیے جانے والے اس علاقے کو مرکزی دھارے میں لایا جاسکے۔ اس مطالبے سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کو بلوچستان کے بارے میں خاصی فکر لاحق تھی اور اس کی پس ماندگی کا شدت سے احساس تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اگلا کونسل اجلاس ۲۷ تا ۲۸ اگست، ۱۹۳۹ء دہلی میں ہوا جس کی قیادت قائد اعظم نے کی۔ اس اجلاس میں بلوچستان سے پانچ ارکان شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں نواب مہراب خان بگٹی، ارباب کرم خان، سردار غلام محمد خان ترین، خان بہادر عبداللہ جان پانیزئی اور حاجی عبدالغفار خان شامل تھے۔ اسی اجلاس میں بلوچستان مسلم لیگ (بی ایم ایل) کا الحاق آل انڈیا مسلم لیگ سے کردیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد میں برطانوی حکومت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ’’متعدد بار کیے جانے والے مطالبے کے باوجود اُس نے، اپنے عسکری مفادات کے تحت، اب تک بلوچستان کے عوام کو ان حقوق سے محروم رکھا ہے جو باقی ہندوستان کے عوام کو تفویض کیے جاچکے ہیں‘‘۔ اگلے ہی سال یار محمد خان اور حاجی جان محمد خان کو بھی آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا رکن منتخب کرلیا گیا۔ پارٹی کی سطح پر بھی بلوچستان کا کیس لڑا جارہا تھا۔ مقامی سطح کے رہنماؤں کو پارٹی میں اہم عہدوں پر تعینات کیا جارہا تھا تاکہ بلوچستان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔ ۱۶ نومبر ۱۹۴۱ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں قائد اعظم نے بلوچستان مسلم لیگ کے صدر قاضی محمد عیسیٰ کو پارلیمانی کمیٹی کا رکن نامزد کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکمرانوں نے بلوچستان کے سیاست دانوں اور سرداروں سے کہا کہ وہ جنگ میں زیادہ سے زیادہ مالی اور مادی تعاون کریں۔ میر یار احمد خان نے برطانوی حکمرانوں کی توقع سے بڑھ کر جنگ میں کردار ادا کیا۔ برطانوی حکومت کو اندازہ تھا کہ جب تک ان کی نو آبادیات مدد نہیں کریں گی، وہ جنگ جیت نہیں سکے گی اور اسے نشانہ بنانا بھی بہت آسان ہوگا۔ اس معاملے میں لازم تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس غیر معمولی بصیرت کا مظاہرہ کرتیں۔ کانگریس کا خیال تھا کہ جنگ زیادہ دیر نہیں چلے گی اور اس میں برطانیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی سبب ہے کہ برطانوی حکمرانوں سے کانگریس کا رویہ خاصا درشت تھا۔ یہ جماعت کسی بھی حکم کو دلیل کے بغیر ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔ کانگریس نے دوسری جنگ عظیم میں معاونت کے عوض برطانوی حکمرانوں سے ہندوستان کی مکمل آزادی اور خود مختاری کی شرط رکھی۔ دوسری طرف قائد اعظم کو اندازہ تھا کہ اتحادیوں کی پوزیشن مستحکم ہے اور انہیں جنگ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ قائد اعظم نے جنگ میں تعاون کے حوالے سے برطانوی حکمرانوں سے بات چیت کے دوران مسلمانوں کے حقوق کی بات کی۔ ان کا مسلم کارڈ کھیلنا مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کے ساتھ ساتھ ان صوبوں کے لیے بھی خاصا کارگر ثابت ہوا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ ان میں بلوچستان بھی شامل تھا۔
بلوچستان میں تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی اصلاحات نافذ کرنے سے متعلق سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کانگریس اور برطانوی حکومت کے رویوں میں خاصا تضاد پایا جاتا تھا۔ برطانوی راج کی مکمل مخالفت کرنے پر کانگریس کو بلوچستان میں قوم پرست اور انقلاب پسند عناصر میں مقبولیت حاصل تھی مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کانگریس نے کوئی نہ کوئی جواز پیش کرکے بلوچستان میں اصلاحات کی ہمیشہ مخالفت ہی کی۔ مثلاً ۱۹۳۹ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بلوچستان میں سیاسی اصلاحات کا بل پیش کیا جس کی برطانوی حکومت اور کانگریس نے شدید مخالفت کی۔ بلوچستان مسلم لیگ کے پروپیگنڈا سیکریٹری ڈاکٹر غلام نبی نے اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ایک تفصیلی نوٹ لکھا جس میں بلوچستان کا کیس پیش کرنے پر پارٹی اور بالخصوص سید غلام بھیک نیرنگ کو سراہا اور ساتھ ہی انہوں نے اس نکتے پر بھی زور دیا کہ بلوچستان کی آبادی ۸ لاکھ ۶۸ ہزار ہے، نہ کہ ایک لاکھ ۳۶ ہزار جیسا کہ حکام بیان کر رہے ہیں۔
۶ مارچ ۱۹۴۱ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل خان لیاقت علی خان نے بھارت کی قانون ساز اسمبلی میں بلوچستان میں دستوری و سیاسی اصلاحات متعارف کرانے پر زور دیا۔ کانگریس کے رہنماؤں نے بلوچستان کے معاملے میں ہمیشہ برطانوی حکمرانوں کا ساتھ دیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ بلوچستان کو صوبے کی حیثیت دینا مالی اعتبار سے ممکن نہ ہوگا۔ کانگریس کی یہ دوغلی پالیسی رفتہ رفتہ بلوچستان کے قوم پرست عناصر کو برگشتہ کرتی گئی اور وہ مسلم لیگ کے نزدیک ہوتے چلے گئے۔ یہاں یہ بیان کرنا بے محل نہ ہوگا کہ کس طرح مسلم لیگ نے ۱۹۴۱ء میں بلوچستان کے حقوق کے لیے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں آواز اٹھائی۔ بجٹ اور بلوچستان کے حالات کے بارے میں بحث کے دوران غلام بھیک نیرنگ نے ایک قرارداد پیش کی۔ انہوں نے قرارداد میں اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کو تعلیم، معیشت اور دیگر شعبوں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن لعل چند نول رائے نے اس قرارداد پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت صوبے کی حیثیت پانے کا اہل نہیں۔ انہوں نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ سندھ کے لوگ ممبئی سے الگ ہوکر پچھتا رہے ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے پڑوسی بھی پچھتائیں۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا کہ برطانوی حکومت دراصل بلوچستان کو ریزرو کی حیثیت سے رکھنا چاہتی ہے۔ اگر صوبہ سرحد کے لوگوں کو ایک لاکھ روپے دیئے جاسکتے ہیں تو بلوچستان کے لیے فنڈ کیوں مختص نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نے وزیر خارجہ اولف کیرو (Olaf Caroe) سے کہا کہ وہ بلوچستان کے معاملے پر ہمدردانہ غور فرمائیں کیونکہ مسلم لیگ نے بلوچستان سے سیاسی حقوق کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس کے جواب میں اولف کیرو نے رپورٹ کیا: ’’بلوچستان کی آبادی دو لاکھ سے بھی کم ہے۔ اس قدر معمولی آبادی کی بنیاد پر کسی علاقے کو صوبے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ (۔۔۔جاری ہے!)
(بحوالہ: ’’پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر‘‘ Vol. XXIX No. 2,)
Leave a Reply