
الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ۲۹ویں سالانہ اجلاس (منعقدہ ۳ تا ۶ ؍اپریل، ۱۹۴۲ء) میں ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی صوبے بلوچستان کو ملک کے دیگر صوبوں کی طرح آئین کے تحت باضابطہ صوبائی حیثیت دی جائے۔ قائد اعظم نے اسی اجلاس میں برطانوی حکومت سے بلوچستان کے ایک رہنما نوابزادہ عبدالرحمن بگٹی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوابزادہ عبدالرحمن بگٹی کو حکومت نے گرفتار ضرور کیا ہے مگر اب تک ان کے خلاف کوئی بھی الزام پیش یا ثابت نہیں کیا گیا ہے۔ تحقیقات کے نام پر جو کارروائی ہوئی، وہ بھی ناکافی رہی ہے۔ ایسے میں یہی سمجھا جائے گا کہ عبدالرحمن بگٹی کی بلاجواز گرفتاری ایک طرف تو ناانصافی پر مبنی عمل ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے عوام سے امتیازی سلوک یا انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے۔
بلوچستان کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے سے متعلق کوششیں رنگ لا رہی تھیں اور بلوچستان کے منجھے ہوئے سیاست دان قاضی عیسیٰ نے ۱۹۴۳ء میں کراچی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بلوچستان سے متعلق قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد میں حکومتِ ہند پر زور دیا گیا کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ سے کہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے باعث بلوچستان میں صوبائی اور مرکزی سطح کے جو انتخابات روک دیے گئے تھے، اب ان کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔ قرارداد میں یہ استدلال پیش کیا گیا تھا کہ انتخابات نہ کرائے جانے کے باعث بلوچستان کا قانون ساز ادارہ عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی اور نمائندگی کرنے کی اہلیت سے محروم ہوچکا ہے۔
بلوچستان کو مرکزی سطح پر نمائندگی دلانے اور صوبائی حیثیت تفویض کیے جانے کی جانب اپنی مہم آل انڈیا مسلم لیگ نے جاری رکھی۔ ۱۹۴۴ء میں یہ معاملہ مرکزی مجلس قانون ساز میں ایک بار پھر اٹھایا گیا۔ اس بار مولانا ظفر علی خان کے توسط سے تحریک پیش کی گئی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان، سرحد کے عبدالقیوم خان، ممبئی کے حسین بھائی لال جی، مدراس کے سید مرتضیٰ صاحب بہادر اور آگرہ کے سر محمد یامین خان نے اس تحریک کے حق میں دلائل دیے۔ چند غیرمسلم یا ارکان نے بھی تحریک کی حمایت کی اور بلوچستان کو اس کے حقوق دیے جانے کی وکالت کی۔ ان میں سردار منگل سنگھ (مشرقی پنجاب سے سکھ ممبر)، این ایم جوشی اور سر کاوس جی جہانگیر نمایاں تھے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے نامزد بعض خان بہادر اور نواب ایسے بھی تھے جو ہمیشہ اس قسم کی تحاریک کی راہ میں دیوار بنتے رہے۔ ان میں پنجاب کے سر ظفراللہ خان بھی شامل تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے بلوچستان کو اس کے حقوق دلانے کے لیے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے جہاں بھی ممکن ہوسکا، بلوچستان کو باضابطہ صوبائی حیثیت اور متعلقہ حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی۔ انہوں نے ۱۹۴۳ء اور ۱۹۴۵ء میں بلوچستان کا دورہ کیا تاکہ بلوچ عوام کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلاسکیں۔
ہندوستان میں آئینی بحران ختم کرنے کی غرض سے برطانوی حکومت نے آخری کوشش کے طور پر کیبنٹ مشن کو ہندوستان بھیجا۔ ۱۹۴۶ء میں آنے والے اس مشن کے ارکان نے تمام ہندوستانی صوبوں کے ساتھ قبائلی عمائدین اور دیسی ریاستوں (رجواڑوں) سے بھی مشاورت کا فیصلہ کیا۔ بلوچستان کے پشتون لیڈروں نے نواب محمد خان جوگیزئی کی قیادت میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ بلوچستان کو شاید دیگر صوبوں میں ضم کردیا جائے گا۔ اس حوالے سے نواب محمد خان جوگیزئی نے کیبنٹ مشن کو ایک ٹیلی گرام بھی بھیجا۔ ۲۴؍اپریل ۱۹۴۶ء کو بھیجے جانے والے ایک ٹیلی گرام میں نواب محمد خان جوگیزئی نے قبائلی عمائدین کی طرف سے یہ مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دے کر تمام آئینی حقوق دیے جائیں تاکہ اس کا احساسِ محرومی ختم ہو اور اس کی حدود میں ترقی کی راہ ہموار ہو۔
بلوچستان کو باضابطہ صوبے کا درجہ دینا اور اس کے عوام کی حقیقی بہبود کی راہ ہموار کرنا خان آف قلات کے ارادوں اور منصوبوں کے منافی تھا۔ یقینی طور پر ان کی جانب سے مخالفت کی گئی۔ انہوں نے برطانوی حکمرانوں کو لکھا کہ ۱۸۳۳ء، ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۳ء کے ان معاہدوں کو کالعدم قرار دے دیا جائے جن کے تحت کوئٹہ، نوشکی اور نصیر آباد کو برطانوی راج کے ماتحت کیا گیا تھا۔ خان آف قلات ایک ایسی آزاد قلات ریاست چاہتے تھے جس میں بلوچستان ہی نہیں بلکہ بلوچستان سے ملحق وہ علاقے بھی شامل ہوں جن میں بلوچ آباد تھے۔ ایسے کسی بھی انتظام کے عوض وہ برطانوی حکمرانوں کو تمام ممکنہ سہولتیں دینے کے لیے تیار تھے۔ برطانوی حکمرانوں کو یہ پیشکش خاصی پرکشش محسوس ہوئی ہوگی۔ نومبر ۱۹۴۴ء سے برطانوی حکمران بلوچستان کو جنگِ عظیم کے بعد کے منظر نامے میں انہی خطوط پر ’’ترقی‘‘ دینے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
خان آف قلات نے فروری ۱۹۴۶ء میں دہلی جاکر قائداعظم سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ قلات کا کیس برطانوی پارلیمانی وفد کے سامنے رکھیں۔ قائداعظم کو خان آف قلات کے مذموم ارادوں کا کچھ علم یا اندازہ نہ تھا۔ انہوں نے اپنے گھر پر خان آف قلات کے اعزاز میں ۷فروری۱۹۴۶ء کو شاندار تقریب کا اہتمام کیا جس میں کم و بیش ۵۰۰؍افراد نے شرکت کی۔ خان آف قلات نے بگٹی، مری اور لغاری قبائل کے سرداروں کو بھی اس امر پر راضی کرلیا کہ وہ اپنے علاقوں کو قلات کی ریاست میں شامل کردیں۔ سرداروں نے اس حوالے سے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے باضابطہ درخواست بھی دائر کردی۔ اس حوالے سے دستاویز پر دستخط کرنے والے ایک سردار جمال احمد خان لغاری ڈیرہ غازی خان سے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ انہوں نے بھی اپنے زیرِ اثر علاقوں کو قلات کی ریاست میں شامل کرنے پر آمادگی ظاہر کی جس سے خان کے ارادوں کو غیرمعمولی حد تک تقویت ملی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خان آف قلات نے اپنی ریاست کو وسعت دینے کی مہم ایک ایسے وقت شروع کی جب ہندو اور مسلم ایک دوسرے کا خون بہانے پر تلے ہوئے تھے اور یہ بات یقینی دکھائی دے رہی تھی کہ پاکستان بن کر رہے گا۔ مگر خان آف قلات کو اس بات سے زیادہ اپنی ریاست کی پروا تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر انہیں پختون قبائل کی کچھ فکر لاحق نہ تھی جو پاکستان کے قیام کی حمایت کر رہے تھے۔ ان میں نواب محمد خان جوگیزئی نمایاں تھے جو ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں برطانوی بلوچستان کے پختونوں کی نمائندگی کرتے تھے اور خان آف قلات کی بالا دستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف عبدالصمد اچکزئی تھے جنہوں نے کانگریس کی حمایت کی تھی تاہم جب یہ دیکھا کہ کانگریس بلوچستان کی صوبائی حیثیت اور صوبے کے لوگوں کے حقوق کی حامی نہیں تو اس سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔ وہ بھی خان آف قلات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بلوچستان کے پختونوں کو خان آف قلات کے لالچ اور سیاسی جبر سے بچانے کے لیے وہ بھی آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف دیکھتے تھے۔
فروری ۱۹۴۷ء میں برطانوی وزیر اعظم لارڈ ایٹلی نے ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائس رائے ہوں گے، جو اختیارات کی منتقلی کا کام انجام دیں گے۔ اِس اعلان نے خان آف قلات کو مزید سرگرم کردیا۔ انہوں نے اپنے بھائی عبدالکریم اور چند کھیتران سرداروں کو ساتھ لیا اور نئی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی قائم کرلی۔ ۳ اپریل ۱۹۴۷ء کو خان آف قلات نے کوئٹہ میں اعلان کیا کہ جب برطانوی حکومت کا ہندوستان پر راج ختم ہو جائے گا تب برطانوی حکمرانوں کو لیز پر دیئے ہوئے علاقوں تک پورے علاقے میں قلات کی آزاد مملکت قائم کردی جائے گی۔ اس اعلان سے بلوچستان کے ان پختونوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی جو آل انڈیا مسلم لیگ کے حامی تھے۔ بلوچستان مسلم لیگ کے سربراہ قاضی عیسٰی ۱۴ اپریل ۱۹۴۷ء کو دہلی گئے اور قائد اعظم سے ملے۔ قائد اعظم نے ان سے کہا کہ ڈرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ویسا کچھ نہیں ہوگا جیسا خان آف قلات نے اعلان کیا ہے۔ بلوچستان کے پختون خان آف قلات کے اعلان سے اس قدر برگشتہ تھے کہ انہوں نے خان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے علامتی جنازہ بھی نکالا۔ خان آف قلات کے خلاف احتجاج سے محمد خان جوگیزئی کا اپنا مفاد وابستہ تھا۔ وہ گزٹ آف ژوب کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں درج تھا کہ ان کے بزرگوں کو احمد شاہ ابدالی نے ژوب اور اس سے ملحق علاقے کا حاکم مقرر کیا تھا۔
۲۷ اور ۲۸ اپریل ۱۹۴۷ء کو بلوچستان مسلم لیگ نے پاکستان کانفرنس منعقد کی جس میں جمہوری بلوچستان کا آئین مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس آئین کی تیاری کا بنیادی مقصد ایک نئے عمرانی معاہدے کے خدوخال واضح اور معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقے کے لیے سماجی انصاف کو یقینی بنانا تھا۔ ایک قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد کوئی حکومتی مشینری باقی نہ رہے گی اس لیے بلوچستان کے معاملات کو بحسن و خوبی چلانے کے لیے ایک نمائندہ حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔
۳ جون ۱۹۴۷ء کو برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ ۱۴ اور ۱۵ اگست کی درمیانی شب پاکستان اور بھارت کے نام سے دو ریاستیں معرض وجود میں آئیں گی اور تمام چھوڑی بڑی علاقائی ریاستوں کے لیے لازم ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں۔ بلوچستان کے معاملے میں برطانوی حکمرانوں نے یہ انتظام کیا کہ خان آف قلات کے نامزد ارکان کے سوا شاہی جرگے کے ارکان اور ۱۸۹۶ء میں قائم کی جانے والی کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان مل کر طے کریں گے کہ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانا ہے یا نہیں۔
قبائلی سرداروں اور بالخصوص پختون سرداروں کو صرف اپنے مفادات کی فکر لاحق تھی۔ انہوں نے قائد اعظم سے اس بات کی ضمانت چاہی کہ ان کے الاؤنس ختم نہیں کئے جائیں گے اور سرداری و جرگہ سسٹم کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ سرداروں نے قائد اعظم کو یقین دلایا کہ انہیں خان آف قلات پر ذرا اعتماد نہیں۔ سردار غلام محمد خان ترین، قاضی عیسٰی اور دیگر لیگی قائدین نے اپنا کیس قائد اعظم کے سامنے رکھا۔ انہوں نے ۳ جون ۱۹۴۷ء کے اعلان کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ قائد اعظم نے انہیں یقین دلایا کہ بلوچستان میں قدیم سرداری نظام کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ انہوں نے مشہور لیگی رہنما سردار عبدالرب نشتر کو بلوچستان بھیجا تاکہ شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی کی حمایت کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ شاہی جرگے کے ۸۳ میں سے ۵۰ ارکان پشتون تھے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب بلوچستان سازشوں اور چالبازیوں کی سرزمین بن چکا تھا۔ چمن کا پولیٹیکل ایجنٹ ڈگلس فیل چند ہم خیال برطانوی افسران کے ساتھ مل کر خان آف قلات کی خواہش کے مطابق آزاد بلوچستان کی راہ ہموار کر رہا تھا۔ ڈگلس فیل بعد میں قلات کا وزیر اعظم بھی مقرر کیا گیا۔ جب بلوچستان کا الحاق پاکستان سے کیا گیا تو اسی ڈگلس فیل نے خان آف قلات کو مشورہ دیا کہ بلوچستان کا مفاد عزیز ہے تو پاکستان کے وفادار رہنا۔
۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو شاہی جرگے کے ۵۰ ارکان اور کوئٹہ میونسپلٹی کے دس ارکان کا اجلاس ہوا جس کی صدارت اے جی جی سر جیفری پرایر نے کی۔ اس اجلاس میں بلوچستان کا الحاق پاکستان سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے حامی حلقوں میں اس فیصلے کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ نواب محمد خان جوگیزئی نے سردار عبدالرب نشتر کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی اور اسی دن سردار عبدالرب نشتر نے ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(بحوالہ: ’’پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر‘‘ Vol. XXIX No. 2,)
Leave a Reply